Thursday, May 2, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldکرشن سہائے ہتکاری وحشی ؔکانپوری

کرشن سہائے ہتکاری وحشی ؔکانپوری

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

پرویز شکوہ

کرشن سہائے ہتکاری وحشیؔ کانپوری1880ء میں موضع دیوی محلہ سنیچرہ ضلع فتح پور کے ایک تعلیم یافتہ اور مہذب سری واستو کائیستھ خانوادے میں پید اہوئے جو علم و ادب سے بخوبی آشنائی رکھتا تھاان کے والد محترم منشی چندی سہائے فارسی کے جید عالم تھے۔ کرشن سہائے کے تین بھائی پرمیشور سہائے ، ہرسہائے اور بھگوتی سہائے تھے۔ یہ ان تینوں میں سب سے بڑے تھے۔
کرشن سہائے نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ بسلسلۂ وکالت کانپور میں صرف کیا جس کی وجہ سے وہ کانپوری کہلانے لگے۔ وہ ایک کامیاب وکیل تھے۔ کرشن سہائے ایک شریف النفس انسان تھے۔ کسی کی بھی تکلیف ان سے دیکھی نہیں جاتی تھی۔ وہ بے حد حساس تھے اور ضرورت مندوں کی ہر ممکن مدد کرنے کیلئے ہمیشہ تیار رہتے تھے۔
دکھ درد میں وہ لوگوں کی رہنمائی بھی کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ انہیں ’’ہتکاری جی ‘‘ کہنے لگے تھے۔ بعد میں ہتکاری ان کے نام کا جزو بن گیا۔ کرشن سہائے ہتکاری اردو تہذیب کے ایک سچے پرستار تھے۔ انہیں اردو زبان سے بے پناہ محبت تھی۔1945میں انہوں نے کانپور میں آئی۔اے ۔ایس احمد صدیقی صاحب کے اشتراک سے ’’ادب عالیہ ‘‘ قائم کی تھی۔
اپنی عمر کا بیشتر حصہ مسلسل صدمات میں گذارا ان کے بڑے بیٹے کا انتقال 18برس کی جواں عمری میں ہوا۔ پھر اہلیہ اس کے بعد دو بھائیوں اور جواں عمر بھتیجے کی ناگہانی موت کے صدمہ نے انہیں پژمردہ کر دیا تھا اور وہ ان غموں سے ٹوٹ سے گئے تھے۔ان کی حالت دیوانوں کی سی ہو گئی تھی۔
چالیس سال کی عمر میں سکون قلب کے لئے شاعری میں اپنی پناہ گاہ کو تلاش کیا اور اپنا تخلص وحشی ؔرکھا۔
ابتدا ہی سے وحشی ؔحافظ شیرازی کے اشعارسے متاثر تھے۔ اور تصوف کو ہی انہوں نے شاعری کا جزو مانا۔ برق ؔ دہلوی،اصغرگونڈوی، رواںؔ انّاوی اور منشی پریم چند سے ان کے تعلقات خاص طور سے قابل ذکر ہیں۔شاید انہیں تعلقات کی بنا پر وحشیؔ کی بعض غزلوں اور اصغر گونڈوی کی غزلوں میں مماسلت پائی جاتی ہے۔ وحشیؔ کی شاعری میں فلسفیانہ اور صوفیانہ خیالات جگہ جگہ ملتے ہیں اور وہ ایک مفکر کی نظر سے اپنے آس پاس کے ماحول کا جائزہ لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
وحشیؔ شاعری کو فطری صلاحیت بتاتے ہیں ایک جگہ وہ لکھتے ہیں:-
’’مجھے اس سے اتفاق نہیں کہ ہر چوٹ کھایا ہوا دل نغمات شعری کا حامل ہو سکتاہے۔ خشت پر چوٹ لگانے سے ایک مہیب یا ناخوشگوار آواز تو پیدا ہو سکتی ہے مگر نغمہ نہیں پید اہو سکتا برعکس اس کے جب ستا ر کے تاروں پر مضراب کی چوٹ لگتی ہے تو اس سے ترنم پید اہو جاتاہے۔ اس سے معلوم ہو تاہے کہ صرف وہی ہستیاں جوایک درد بھرا دل لے کر دنیا میں آتی ہیں چوٹ کھا کر نغمات جاںآفریں پیدا کر سکتی ہیں۔ شاید اسی چیز کا نام عطیۂ فطرت ہے اور جو ؎
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
پس اگر مجھے شاعر ہونے کا فخر ہو سکتا ہے یہ سب فطرت کا احسان ہے نہ کہ میرے زور فکر کا نتیجہ ۔‘‘
اپنی شاعری سے متعلق ایک جگہ وحشی ؔ لکھتے ہیں :
’’میری شاعری کی ابتدا میرے حادثات زندگی سے اور اس کی نشو نما میرے خون جگر سے ہوئی۔ میں نے اس کی آغوش میں اس وقت پناہ لی جب بادحوادث کے جھونکے میرے چراغ زیست کو گل کر رہے تھے۔ میں چاہتا تھا کہ اپنی زندگی کے روح فرسا واقعات کو دل سے بھلا دوں جس کے لئے مجھے ایک مونس تنہائی کی ضرورت تھی جو میرا غم غلط کر سکے۔ اس خیال سے میں نے شاعری کو انیس خلوت بنایا مگر نتیجہ بر عکس ہوا۔ اس نے بھولے ہوئے واقعات زندگی کو کرُید کُرید کر میرے سامنے پیش کرنا شروع کر دیابالآخر مجھے درد کا مجسمہ بنا دیا اور رفتہ رفتہ پیام درد کو پیام زیست بنا دیا اور اس شعر کے ذریعہ مجھے اپنی ہستی کا احساس ہوا:
اس طرح ہوں کہ جسے خلق کا کچھ پاس نہ ہو
درد ہو جسم میں اور جسم کو احساس نہ ہو
میں نے محسوس کیا کہ درد ہی انسان کی روح اور یہی اس کا اصل ایمان ہے جس کااظہار میں نے یوں کیا:
سوز بے پایاں کے صدقے درد پیہم کے نثار
بھر دیا کیف ترنم نالۂ شبگیر میں
میں نے اپنے کلام پر اسی وجہ سے کسی سے اصلاح بھی نہیں لی کیونکہ :
شرکت غم بھی نہیں چاہتی غیرت میری
غیر کی ہو کے رہے یا شب فرقت میری ‘‘
وحشی ؔ نے غزلیات ، رباعیات اور نظموں کے علاوہ بلند پایہ نوحے بھی سپرد قلم کئے تھے۔ اپنے احباب کے انتقال پر انہوں نے یہ نوحے بطور خراج عقیدت پیش کئے تھے۔
وحشیؔ کا مرثیہ درحال حضرت امام حسینؑ کے چند بند ہدیۂ قارئین ہیں ؎
مرثیہ حضرت امام حسین ؑ
رباعی
تو جسے چاہے اسے دولت ایمانی دے
عیش ِدنیا کی جسے چاہے فراوانی دے
تشنہ لب بندہ تسلیم و رضا حاضر ہیں
چاہے دے جام شہادت انہیں یا پانی دے
مرثیہ
مومنو گلشنِ ایمان میں خزاں آتی ہے
ہر روش باد صبا اشک فشاں آتی ہے
روحِ اسلام بصد آہ و فغاں آتی ہے
بلبلِ باغ جناں مرثیہ خواں آتی ہے
ہے سیہ کاری ِ اعدا سے عیاں حشر کا دن
آر ہی ہے لب دوزخ سے صدائے ھل من
ایڑیاں دشت سیاست میں رگڑنے کے لیے
دین کی راہ میں بن بن کے بگڑنے کے لیے
راستہ ٹھیک جہنم کا پکڑنے کے لیے
اپنے آقا سے غلام آئے ہیں لڑنے کے لیے
جانتے ہیں کہ محمدؐ کے نواسے ، ہیں امام
آلِ احمدؐ کے مگر خون کے پیاسے ہیں غلام
خلق کو اپنی سخاوت سے جو سیراب کرے
کیا ستم ہے اُسے ایک بوند بھی پانی نہ ملے
وہ جو آغوش محمدؐ میں بصد ناز پلے
ان کی امت ہی کے ہاتھوں سے گلا اس کا کٹے
پھر بھی دعویٰ ہو حریفوں کا مسلمانی کا
نام ہی مٹ گیا اب غیرتِ انسانی کا
کس کے ہے قتل کا منشا کوئی پوچھے تو سہی
کلمہ پڑھتے ہیں یہ کس کا کوئی پوچھے تو سہی
کیوں یہ ہنگامہ ہے برپا کوئی پوچھے تو سہی
کیوں نہیں دین کی پروا کوئی پوچھے تو سہی
چاہتے ہیں یہ کوئی دیں کا نگہباں نہ رہے
کفر ہی کفر رہے دہر میں ایماں نہ رہے
مئے گل رنگ ہے پھر جلنے لگیں پیمانے
لات و عزّی کی خبر دینے لگیں بت خانے
نہ رہیں حسنِ حقیقت کے کہیں دیوانے
ہر طرف شمع یزیدی کے رہیں پروانے
اس قدر دست و گریباں ہو مسلمانوں سے
بوئے خوں آنے لگے کوہ و بیابانوں سے
چور ہیں نشۂ نخوت میں عدو ایسے تمام
اب یہ سنتے ہی نہیں کوئی صلح کا پیغام
ایسے سرکش کبھی دیکھے نہیں دنیا میں غلام
اپنے آقا سے جو اس طرح ہوں گستاخ کلام
یہ نہ سوچا کبھی دنیا سے گذرنا ہو گا
سامنا داور محشر کا بھی کرنا ہوگا
سامنے احمدؐ مرسل کے جب آنا ہوگا
اپنا کیا منھ انہیں لے جاکے دکھانا ہوگا
اپنے کردار کو کس طرح چھپانا ہوگا
کیسے دوزخ سے خود اپنے کو بچاناہوگا
پاس ِ ایماں ہے کسے خطرۂ محشر کس کو
مائل جو روستم ہے وہی دیکھو جس کو
الغرض دشمن دیں مائل پیکار ہیں اب
مشورے صلح کے جتنے بھی تھے بیکار ہیں اب
تشنہ لب جام شہادت کے طلب گار ہیں اب
لیجئے ابن علی جنگ کو تیار ہیں اب
رن میں میدان ِ شجاعت کے دلیر آتے ہیں
بزدلے کانپتے پھرتے ہیں کہ شیر آتے ہیں
وہ حسین ابن علی عرش ہے جن کا پایہ
ابرِ رحمت ہے گنہگار کو جن کا سایہ
جن کی آغوش ہے امت کو کناردایہ
جن کاہمسر نہیں کونین کا بھی سرمایہ
تین دن سے وہ امام دوسرا پیاسے ہیں
اور اغیار کے پانی سے بھرے کانسے ہیں
4اگست 1960ء کو کرشن سہائے ہتکاری وحشیؔ کانپوری دار البقا کو سدھار گئے۔ ان کی وفات کے بعد ان کا ایک شعری مجموعہ ’’ سرور عرفان ‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا۔ حالانکہ یہ مجموعہ ان کے سبھی اشعار کا احاطہ نہیں کر تاہے۔ وحشیؔ کا فارسی کلام بھی شاملِ اشاعت نہیں ہے۔
ان کے سارے کلام کو محفوظ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ اردو ادب کا بیش قیمت سرمایہ ہے ۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular