Wednesday, May 1, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldناشکرے

ناشکرے

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

ایچ،ایم،یٰسین

خدا نے جب یہ دنیا بنائی تو جانداروں، خصوصاً انسان کے لیے اس نے وہ ساری چیزیں پیدا کر دیں جن کی اسکو ضرورت ہو سکتی تھی اور جن کے بغیر اسکا کام قطعیٔ ہی نہیں چل سکتا تھا ۔یہ چیزیں تو اس نے اتنی وافر مقدار یعنی کثیر ،بہت کثیر زیادہ پیدا کی اور وہ بھی فری بالکل فری۔ پانی اور ہوا۔ یہ دونوں شے انسان کی زندگی کے لیے کتنی اہم ہیں آپ جان سکتے ہیں۔ ہوا نہ ہو تو انسا ن چندلمحے بھی زندہ نہ رہے اور یہ اس نے انسان کے کتنے نزدیک اسکی سانسوں میں ہی رکھ دی۔ ہوا سانس سے اندر جا رہی ہے اور باہر نکل رہی تو انسان زندہ وگرنہ مردہ۔ بے کار۔ لیکن یہ کبھی اس مالک کا شکر گزار ہی نہیں ہوتا۔ ہر وقت شکایتوں کا پٹارہ کھولے رکھتا ہے۔ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ انسان اس پیدا کرنے والا کا بھر پور شکریہ ادا کرہی نہیں سکتا۔ سانس کو ہی لے لیجئے اگر وہ ساری سانسوں کا عمر بھر شکریہ ادا کرتے رہے اور کچھ اور نہ کرے تب بھی اس نے آدھا ہی شکریہ ادا کیا ۔ کیونکہ ایک سانس میں وہ ایک بار ہی شکر ادا کرسکے گا جبکہ اللہ نے ہر سانس میں فائدے دو رکھے ہیں لیکن شکریہ صرف ایک بار ہوگا۔ تو ہوا نہ آدھا۔ آپ کہیں گے ۔ دو فائدے کیا ہیں تو سن لیجئے اندر جانے سے زندگی کے آثار بنے یعنی سانس لے رہا ہے تو زندہ ہے۔ اور سانس اندر ہی رہے باہر نہ نکلے تو دم گھٹ کر مردہ ہو گیا تو زندگی دو بار اور شکریہ ایک بار۔
ہاں تو ہم انسان کے لیے اس مالک کی عنایتوں کا ذکر کر رہے تھے۔ اس نے ہمیں ماں، باپ، بہن، بھائی جیسی نعمت عطا کی، زمین و آسمان پیدا کئے اس میں سورج چاند ستارے سجائے۔ آسمان سے پانی برسایا، فصلیں اگائیں ، رزق عطا کیا ، رات دن بنائے، آرام اور کام کا نظم قائم کیا۔
پانی اور ہوا کا تو ذکر ہو ہی چکا اورآپ کو معلوم ہی ہے کہ ہوا تو سارے ماحول، زمین، آسمان سب جگہ موجود، نہ ختم ہونے والے ذخیرہ کی طرح اور پانی بھی دنیا میں تین چوتھائی کے قریب اور خشکی صرف ایک چوتھائی اور قریب قریب یہی تنا سب اس نے انسان کے جسم میں رکھا ہے۔اس لیے ہمیں اسکا شکر ہروقت اداکرنا چاہئے۔ اسے یاد رکھنا چاہئے۔
ہم آپ کو انسان کی ناشکری کے دو چھوٹے چھوٹے قصے سناتے ہیں۔ ہاں ایک بات اور، قصے تو قصے ہوتے ہیں ہم کو ان کے جھوٹ سچ پر غور نہیں کرنا چاہئے۔ ہمکو یہ دیکھنا اور سوچنا چاہئے کہ ان قصوں سے ہم کو سبق کیا ملتا ہے۔
پرانے زمانے میں ایک بزرگ تھے جو اللہ میاں سے خواب میں پہاڑ پر جا کر باتیں کیا کرتے تھے۔ وہ اپنی بستی میں اللہ میاں کے دوست مشہور تھے۔ ان کی بستی بہت غریب سی تھی۔ جھونپڑیاں، گندی گلیاں، کیچڑ پانی سے برا حال رہتا۔ ہر آدمی سوچتا ہماری بستی بھی دیگر اچھی۔ بستیوں کی طرح صاف ستھری خوبصورت کیوں نہیں ہے ۔لیکن اسکے لیے خود کبھی صفائی نہ رکھتا، جہاں چاہا کوڑا پھینک دیا۔ پانی بہا دیا اور بس ۔پھر ایک دن سب نے سوچا خود کچھ نہ کر کے ان اللہ میاں کے دوست بزرگ سے کہنا چاہئے کہ وہ ہماری بستی کو صاف ستھرا بنانے دے اور اس کے لیے انہوں نے اپنے اللہ میاں کے دوست سے کہہ دیااور انہوں نے اللہ میاں کے سامنے بستی والوں کی درخواست پیش کر دی ۔ بات دوست کی تھی۔ اللہ میاں نے اپنے بزرگ دوست کی آنکھ بھی نہ کھلی تھی کہ بستی بالکل موڈرن کر دی۔ پکے مکان ، گلیوںمیں کھڑنجے کا فرش، صاف بہتی نالیاں،بزرگ جب واپس آئے تو اپنے گھر کاراستہ ہی بھول گئے۔ بڑی مشکل سے تلاش کر کے اپنے گھر پہنچے۔ اسی طرح چھپر کا بغیر بدلہ مکان۔ باقی سب چما چم۔ بزرگ تھے شکایت کیا کرتے۔ خوش تھے کہ اللہ نے ان کی بات رکھ لی۔ دن گزرتے گئے۔ لیکن اس سب پر کسی بھی ایک انسان نے بزرگ کا بھی شکر ادا نہ کیا۔ اللہ کا تو کیا کرتے۔ ناشکرے کہیں کے!!
پھر ایک دن تیز ہوا چلی اور بزرگ صاحب کا چھپر گر گیا۔ پریشانی میں کسی کو بستی میں ہی چھپر باندھنے والے کے گھر بھیجا کہ آکر ذرا ہمارا چھپر بنا دیں۔ اس آدمی نے واپس آکر بزرگ صاحب کو بتلایا۔ کہ انہوں نے کہا ہے اب ہم چھپر نہیں باندھتے کسی اور سے بندھوا لیجئے۔ بزرگ صاحب نے سوچا انسان کس قدر جلد اپنی اوقات بھولتا ہے ناشکرا اورخودغرض ۔ بہر حال دنیا اسی طرح چلتی رہی ہے۔بزرگ صاحب کو افسوس ہوا کہ آخر یہ انسان ایسے کیوں ہوتے ہیں۔ مگر پھر اس کو بھی اللہ کی مرضی سوچ کر خاموش ہو گئے۔
بستی میں البتہ ایک آدمی ایسا تھا جو ان بزرگ صاحب کا بہت معتقد تھا لیکن ان کے سامنے آکر اپنی کسی خواہش کے اظہار کی ہمت نہ کرتا تھا۔ اپنی غریبی اور برے حال پر بہت پریشان تھا۔ ایک دن ہمت کر کے وہ ان بزرگ صاحب کے پاس پہنچا اور بولا :۔
’’یا پیر و مرشد آپ تو اللہ میاں کے دوست ہیں ۔ ذرا ان سے میری سفارش کر دیجئے کہ ہمارے حال بھی کچھ درست کر دیں۔ غریبی اور بھوک سے نجات دلوا دیجئے۔‘‘ انہوں نے ہاں کر دی اور ایک دن خواب میں اللہ میاں سے اسکی سفارش کر دی۔ اللہ نے جواب دیا۔
’’اس سے یہ معلوم کرنا کہ اسکو کس جیسا بنا دوں۔ کچھ ملا کچھ نہ ملا تو وہ شاکی ہوگا۔ اس لئے اس سے پوچھ کر آنا کہ کون ہے جو سب طرح سے مطمئن ہے اور دولت، کاروبار، مکان کسی چیز کی تمنا باقی نہیں۔ کوئی ماڈل بتا دے میں اس ماڈل جیسا اسکو بھی بنا دوں گا۔‘‘
بزرگ صاحب نے خواب میں ہوئی بات اپنے مرید کو بتلا دی کہ اللہ میاں نے یہ کہلوایا ہے۔ اب اس آدمی نے تلاش کرنا شروع کیا کہ کس جیسا بتائوں کس کو ماڈل سمجھوں؟ کسی کے پاس دولت تھی۔ مکان نہیں، مکان تھا تو اولاد نہیں، کسی کی صحت نہیں کسی کی اولاد نالائق، کسی کو بیوی کی شکایت غرض کہ پرفیکٹ ماڈل ڈھونڈتا رہا کئی ماہ گزر گئے۔ آخر ایک دن کسی شہر میں اس نے دیکھا کہ ایک بہت خوبصورت صحت مند سیٹھ اپنی دکان پر بیٹھا ہے ۔ نوکر چاکر کام کر رہے ہیں اولادیں بھی کئی ہیں، بیوی بھی حسین خوبصورت۔ غرض کہ کوٹھی، بنگلا، نوکر چاکر ، دولت، اولاد، کوئی بھی تمنا باقی نہیں۔ سب کچھ ہے۔ اس شخص نے سوچا کہ اپنے پیر مرشد سے کہوں گا بس یہ جو سیٹھ دلشاد ہے ۔مراد نگر میں اس جیسا بنا دے۔ یہی میرا موڈل ہے۔
واپس ہونے لگا تو انسانی دل میںوسوسے تو ہوتے ہی ہیں ،سوچا پہلے اس سے معلوم ہی کر لوں کہ کوئی تکلیف تو نہیں ہے ،چنانچہ وہ سیٹھ کے پاس پہنچا اور بولا ’’ سیٹھ صاحب یہ بتالائیے کہ اللہ نے آپ کو مال، دولت ، اولاد، صحت ، کوٹھی ، بنگلا ہر طرح سے نوازا ہے آپ کو کوئی تکلیف تو نہیں۔ کوئی تمنا تو باقی نہیں۔ ‘‘ سیٹھ نے جواب دیا۔ ’’ ہاں بھائی خدا کا شکر ہے اس نے سب طرح سے نوازا ہے‘‘ پھر سیٹھ نے اس آدمی سے پوچھا’’ پرآخر تم یہ سوال کیوں کر رہے ہو؟‘‘ اس نے سارا ماجرہ کہہ سنایا اور آخر میں بولا’’ میں تم کو اپنا ماڈل بنا کر خدا کے سامنے اپنے بزرگ سے سفارش کروائوں گاکہ مجھے تم جیسا بنا دیں۔
سیٹھ نے فوراً گھبرا کر کہا ’’خدارا ایسا نہ کرنا۔ ہرگز نہیں، تمہیں کیا معلوم مجھ جیسا دکھی کوئی نہیں ہے میں تو اپنا دکھ بھی کسی پر ظاہر نہیں کر سکتا۔ مجھے ماڈل نہ بنانا۔ ورنہ میری طرح ہمیشہ دل دل میں کڑھتے رہو گے۔‘‘
’’کیوں‘‘؟ اس نے پوچھا۔ ’’جواب ملا’’ یہ جو تم دیکھ رہے ہو یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن یہ اولاد ایک بھی میری نہیں ہے۔ مجھے اللہ نے اس قابل ہی نہیں بنایا۔ میں رات دن اس کے لیے دل دل میں کڑھتا رہتا ہوں ، تم یہ کڑھن کیسے برداشت کرو گے۔ ؟؟؟
اس آدمی نے سوچا انسان واقعی ٔ کتنا نا شکرا ہے اتنی ساری نعمتیں حاصل ہیں پھر بھی شاکی ۔خدا کی مرضی کو شامل حال نہیں رکھتا انسان کی ساری خواہشیں کبھی پوری نہیں ہوتیں۔ لیکن میں اب اپنے اسی حال میں ہی راضی ہوں۔ پیر مرشد کی کوئی سفارش نہیں چاہئے!!!
موبائیل نمبر:9839569575

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular