Saturday, April 27, 2024
spot_img
HomeArticleیہ دور وہ ہے قلم کارگر نہیں ہوگا

یہ دور وہ ہے قلم کارگر نہیں ہوگا

[email protected] 

موسی رضا۔9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

محمد حشمت اللہ ( صحافی)

اتر پردیش کی راج دھانی لکھنؤ کے قرب میں واقع ضلع بارہ بنکی کی پورے صوبہ میں ہمیشہ اپنی ایک الگ شناخت رہی ہے یہ واحد ضلع ہے جس نے ہر شعبہ حیات میں ایسی شخصیتوں کو جنم دیا ہے جنہوں نے اپنے فن و کمال سے نہ صرف صوبہ بلکہ پورے ملک کا نام روشن یا ہے۔ سی ضلع کے قصبہ دریا باد سے تعلق رکھنے والے فرزند عظیم مولانا عبدالماجد دریابادی ؒ نے علم، صحافت ،ادب،فلسفہ اور تفسیر قرآن لکھ کر دنیائے علم و ادب کو منور کر دیا۔یہ سلسلہ اور آگے بڑھا تو شاعری کی دنیا میں آبروئے غزل خمارؔ بارہ بنکوی نے اپنی شاعری سے ایسی د ھو م مچائی کہ بارہ بنکی اول نمبر پر آگیا۔ اس کے بعد استاداشعراء عزیزؔ بارہ بنکوی نے اپنے کلام بلاغت نظام سے شعر و سخن کو ایک نئی روشنی عطاء کی جس سے آ ج طالبان علم فیضیاب ہو رہے ہیں۔
اسی ضلع کے مردم خیز قصبہ کرسی میں اپنے وقت کے طبیب حاذق حکیم محمد نسیم عثمانی کے گھر میں ۸ نومبر ۱۹۳۱ء کو محمد عبدالعلیم عثمانی کی ولادت ہوئی۔ علیم کے معنی ہی جانکار اور علم والا ہوتے ہیں لفظ علیم کا اثر جادو بنکر اس طرح چھایا کہ علمی اور ادبی دنیا میں محمد عبدالعلیم عثمانی ڈاکٹر علیمؔ عثمانی بن کر چھا گئے۔ ہر قدم نے فتح و کامرانی نے انکی قدم بوسی کی۔ وراثت میں ملے فن طب میں نیک نامی کمانے کے ساتھ ہی انہوں نے جب شعر و سخن کی دنیا میں قدم رکھا تو غزل بھی انکی جانثار بن گئی۔ انکا کلام بلاغت سے بھرپور اور رغزل کا آینہ دار ہوا کرتا تھا۔ یہی وجہ تھی کی وہ دیکھتے ہی دیکھتے طبیب حاذق کامیاب ہومیوپیتھ معالج اور معروف و مقبول اور کہنہ مشق شاعر شاعر بن کر دنیائے ادب پر چھا گئے۔انکی شخصیت باغ و بہار طبیعت مرنجان مرنج آ واز سامع نواز اور انداز دل نواز تھا۔انکی طبیعت میں بلا کی موزونیت تھی انہی خصوصیات کی بنا پر وہ جس محفل میں پہونچ جاتے رونق محفل بن جاتے تھے۔انکی شاعری میں غم دوراں اور غم جاناں کا حسین امتزاج تھا۔ وہ غزل جو میر و غالب سے ہوتے ہوئے جگر اور خمار تک پہونچی انہوں نے اسکو امانت کی طرح آخری سانس تک سنبھالے رکھا۔ چند اشعار پیش خدمت ہیں:۔
گذرنا میرا جس رستے سے دنیا کو گراں گذرا
اسی رستے سے آخر ایک دن سارا جھاں گذرا
یہ حق پرستیاں مری مرہونِ کفر ہیں
یہ دن تو فیضِ صحبتِ باطل سے آئے ہیں
جلادے شوق سے میرا نشیمن باغباں لیکن
رہے محدود ہر شعلہ فقت میرے نشیمن تک
ہے مجھ کو ترکِ تعلق سے اتفاق مگر
دلوں کے بیچ میں دیوار ہو تو در بھی رہے
اے علیم ؔ اپنی یہ ہے دعا پھول بن کر ہنسے وہ صدا
میرا کیا میں تو اڑ جاوئنگا ایک دن خوشبووں کی طرح

Dr-Aleem-Usmani.jpg

مرحوم ڈاکٹر علیمؔ عثمانی نے اردو غزل کی آبیاری کی اور اسکی روایات کو برقرار رکھا ۔ لیکن یہ دور وہ تھا جب قدروں کی پامالی میں تیزی در آئی تھی خلوص کی جگہ خود غرضی لیتی جا رہی تھی تعلقات مفادات سے وابستہ ہونے لگے تھے۔ بہ حیثیت ایک حساس شاعر ان ساری تبدیلیوں کا ادراک ان کو تھا جس کا اظہار مختلف اشعار میں ہوا ہے۔
احباب کے کرم کو جو رکھنا ہے برقرار
احباب سے نہ ذکرِ ضرورت کیا کریں
بغیر تیغ اٹھائے گزر نہیں ہوگا
یہ دور وہ ہے قلم کارگر نہیں ہوگا
مرحوم ڈاکٹر علیمؔ عثمانی نے جس طرح اردو غزل کی آبیاری کی اسی طرح انکی نعتیہ شاعری بھی عقیدت و محبت کی خوشبو اور ایمان کے نور سے بھر پور ہے۔ نعت کہنا سننا پڑھنا سب عبادت کا درجہ رکھتے ہیں حقیقت یہ ہے کہ صرف شاہ کونینؐ سے عقیدت و محبت کے جذبہ کا نام ہی نعت ہے اس لئے نعت گوئی کے لئے صرف شاعر ہونا ہی کافی نہیں بلکہ اسکا مرکزی تلازمہ حب رسولؐ ہے نعت گوئی کا شرف انہی لوگوں کو ودیعت ہوتا ہے کہ جنہیں محبوب خدا سے والہانہ محبت ہوتی ہے مرحوم ڈاکٹر علیم عثمانی کا دل عشق رسول ؐ سے معمور تھا۔ اور انکی نعتیں شاعرانہ فنکاری کا نمونہ بھی ہیں۔ مرحوم نعت گوئی کے فن کی نزاکت، باریکیوں اور پابندیوں سے بخوبی واقف تھے انھیں اس حقیقت کا بخوبی علم تھا کہ نعت گوئی کا مطلب پل صراط پر چلنا ہے۔ انکی نعتیہ شاعری اس بات کی غماز ہیکہ وہ رب ا لعا لمین اور رحمت ا لعالمینؐ کے فرق کو خوب سمجھتے تھے سب سے ذیادہ اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے حبیب کبریا ؐکی حمد و ثنا اور اپنی عقیدت و محبت کا شعری اظہار بڑی خلاقانہ اور ہنر مندانہ چابک دستی سے کیا ہے۔ انکے کلام میں آیات قرآنی اور ا حادیث مبارکہ کے مفاہیم کو مقدم رکھا گیا ہے۔ انکی شاعری عظمت رسولؐ اور عشق رسول ؐ کی مظہر نظر آتی ہے۔ کسی شاعر کا ایک شعر اگر بارگاہ معبود میں شرف قبولیت حاصل کر لے تو اسکے صدقہ اور برکت سے سفر آخرت کی منزلیں آسان ہو جائیں گی اور یہ اسکا سرمایہ حیات ہوگا۔
انکی غزلوں کا ایک مجموعہ دیوار کے نام سے ۱۹۹۵ میں شائع ہوکر پذیرائی حاصل کر چکا ہے۔ اور نعتیہ کلام پر مشتمل ایک مجموعہ متاع مغفر ت حال ہی میں شائع ہوا ہے اور دستیاب نظموں غزلوں اور قطعات پر مشتمل تین مجموعے ،نقش اول بام و در اور حرفِ آخر اشاعت کے مراحل میںہیں۔ مختصر طور پر اتنا کہا جا سکتا ہے کہ مرحوم ڈاکٹر علیمؔ عثمانی نے اپنے کلام سے اردو شعر و ادب کو اس درجہ مالامال کیا ہے آ نے والی نسلیں اور طالبان علم ان سے ہمیشہ ہی روشنی حاصل کرتے رہیں گے ان کا یہ شعر ان پر صادق آتا ہے کہ:۔
جب بزمِ تغزل میں علیمؔ آپ نہ ہوں گے
جو حق ہے غزل کا وہ اد ا کون کریگا
رسولپور، بارہ بنکی
َضضض

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular