प्ले स्टोर से डाउनलोड करे
AVADHNAMA NEWS APPjoin us-9918956492—————– —
अवधनामा के साथ आप भी रहे अपडेट हमे लाइक करे फेसबुक पर और फॉलो करे ट्विटर पर साथ ही हमारे वीडियो के लिए यूट्यूब पर हमारा चैनल avadhnama सब्स्क्राइब करना न भूले अपना सुझाव हमे नीचे कमेंट बॉक्स में दे सकते है|
سید انور ظہیر رہبر، جرمنی برلن
شاعر، ادیب، افسانہ نویس، کا لم و سائنسی مضامین نگار جب قوم، قبیلے یا انسان ایک جگہ سے دوسری جگہ یا کسی ایک علاقے سے دوسرے علاقے ، ایک مقام سے دوسرے مقام یا ایک ملک سے دوسرے ملک ہجرت کرتے ہیں، چاہے اسکی کچھ بھی وجوہات ہوں، وہ حت المقدوراپنی ضرورت کا سامان ضرورایک جگہ سے دوسری جگہ اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور یہ چیزیں عام نظروں میں عیاں بھی رہتی ہیں۔ لیکن ان سازو سامان میں وہ اور بھی کئی خوبصورت نہ نظر آنے والی اشیاء ایک مقام سے دوسرے مقام یا ایک ملک سے دوسرے ملک ہجرت کرکے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور وہ ہوتی ہیں انکا اپنا رہن سہن، اپنی تہذیب وتمدن اور خاص طور پر انکی اپنی زبان اور انکا اپنا ادب ، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہاں اپنے قدم مضبوطی سے جماکرایک نئی بستی آباد کرنے لگتا ہے۔
ڈاکڑ اشفاق احمد ندوی، شعبہ عربی، لکھنؤیونیورسٹی اپنی کتاب” جدید عربی ادب کے ارتقاء کے ضمن میں مہجری ادباء کی خدمات میں کیا خوب لکھتے ہیں کہ ” مہجری ادب ایک ایسا ادب ہے جس کی ایک ایک سطر سے خوشبوئے وطن پھوٹتی ہے، وفا پرستی کے نغمے گونجتے ہیں، فدائیت اور جانثاری کا جذبہ بیدار ہوتا ہے، جس کا ہر فنکار اپنے میدان تخیل کا شہ سوار، جس کی ہر تحریر دل پذیر،جس کا ہر اسلوب قاری کے لیے پسندیدہ اور مقبول ہے۔”
پہلی ہجرت آدم نے جنت سے زمین کی طرف کی اور یوں یہ سلسلہ ازل سے ابد تک کے لیے شروع ہوگیا۔ تاریخ ہجرت کے واقعات سے بھری پڑی ہے جن میں سے کئی ہجرت ابتک ہمارے دل و دماغ میں کہیں نہ کہیں اچھے برے تاثرات کے ساتھ موجود ہیں۔ تقسیم ہند و پاک کے وقت اور پھر تقسیم بنگلا دیش کے وقت بھی ہجرت نے جہاں عام انسانوں پر اپنا اثر چھوڑا وہیں حساس دل و دماغ کے مالک مصنف، ادیب شعراء پر بھی اپنا بھرپور وار کیا اورایک لمبے عرصے تک ان کو اسی موضوع پر لکھنے لکھانے میں مصروف رکھا۔
ہجرت سے جس طرح عالمی سیاست اور ملکوں کی جغرافیائی حدود میں تبدیلی رونما ہو ئی ہیں ادب میں بھی نمایاں تغیرات وقوع پذیر ہوئے اور اردو ادب میں نئے موضوعات، جدید علامت، مٹی کی خوشبو، وطن کی یاد، نئی بستی کے مسائل، وہاں کے حالات، معاشرے کے رموز اور یہاں تک کہ وہاں کے موسم نے بھی اپنی جگہ بنالی۔
جہاں ایک طرف ہجرت کی سب بڑی وجہ ذہنی اور سیاسی سوچ کے درمیان اختلافات ہیں وہیں دوسری طرف اقتصادی بحران، لسانیات اور قومیت کے بکھیڑے، یاسیت اور قنوطیت کے مضبوط شکنجے بھی موجود ہیں۔ یہ سارے اسباب و غم شاعر ، ادیب اور مصنف کو جھنجوڑ جھنجوڑ کرایک سے ایک ادب کے شہ پارے لکھواتے ہیں، جس کی مثال اردو ادب کی جدید بستیوں کے سرمایہ ادب و شاعری میں محفوظ ہیں۔
انسانی نفسیات اس بات کی گواہ ہے کہ جس طرح جسم کے زخم کو آلات جراحی بھرتے ہیں اسی طرح ذہن اور روح کے گھاؤ بھرنے کے لیے روحانی طرز علاج کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی وہ عنصر ہیں جو ادب کے لیے ایک یادگار اور کبھی نہ بھلائے جانے والی تحریروں کو جنم دیتے ہیں۔ ہند و پاک کے اثرات کے بعد منٹو، کے افسانے اسی مہجری ادب کے بھرپور نمونے ہیں۔ مثال کے طور پر منٹو کا ایک افسانہ ’’کھول دو ‘‘ میں47 کے بعد کے حالات کا ذکر ہے۔ کہ ہجرت کے بعد لوگوں کے ساتھ کیا ہوا۔ منٹو ساری زندگی انسان کو تلاش کرتا رہا اور مشرقی اور مغربی انسان کی غلاظتیں تلاش کرتا رہا۔ کہ انسان کا باطن ظاہر کی طرح صاف شفاف ہے یا نہیں۔ ہمارے اندر کی غلاظت کو وہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس غلاظت کو دیکھنے کا ایک اچھا موقع آزادی کے بعد ان کو ملا۔
اسی حوالے سے دوسرا نام احمد ندیم قاسمی کا ہے۔ انکے افسانے ’’نیا فرہاد ‘‘ میں دکھایا گیا ہے کہ لاہور میں سکھ مسلمانوں کو مار رہے ہیں او ر مسلمان ہندو اور سکھوں کو مضافاتی دیہات میں قتل کر رہے ہیں۔
اسکے علاوہ قرۃ العین (آگ کا دریا)، عصمت چغتائی ( ٹیڑھی لکیر)، راجندر سنگھ بیدی (لاج ونتی)، عبداللہ حسین ( اداس نسلیں) اور کئی بڑے نام ادب کی دنیا میں اسی نسبت سے جانے جاتے ہیں۔
فسادات کے بعد سب سے بڑا رجحان ترقی پسند سوچ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس رجحان کا تعلق بہت حد تک فسادات سے بھی ہے اور اسے فسادا ت کی اگلی کڑی قرار دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ فسادات کے بعد جو معاشرہ تشکیل پایا اْس کی عکاسی ترقی پسند سوچ رکھنے والے افسانہ نگاروں نے کی۔
ہجرت کی ایک بڑی وجہ جو میرے نزدیک بہت اہم رہی وہ زباں بندی بھی ہے اور میں آپ سب کی توجہ اس طرف بھی دلانا چاہتا ہوں جو برسوں سے شروع ہوکر آج بھی جاری ہے اور مہجری ادب کی تخلیق متواتر کرا رہی ہے اور اردو ادب کی نئی نئی بستیاں بسا رہی ہے۔ اردو کے عظیم شاعر فیض احمد فیضؔ کو ایوب خان کے مارشل لا نے ہجرت کرنے پر مجبور کیا تو انکا قلم شعلہ بن گیا اور جلا وطنی میں اس سے ایسی ایسی نظم و غزل چنگاری بن کر نکلی جو مہجری ادب کے طور کھبی بھی نہیں بھلائی جاسکتی ۔
اسکے علاوہ ضیاء الحق کے دور حکومت میں بھی ادیبوں اور شاعروں کو جلا وطنی کے دن گزارنے پر مجبور کیا گیا۔ مشہور و معروف شاعر احمد فراز نے بھی لندن میں رہکر مہجری شعری سخن تخلیق کیا۔
یہ سلسلہ ادب اردو زبان کی تاریخ کے ساتھ چلتا ہوا آج تک بیرون ہند و پاک گامزن ہے اب بھی کئی مشہور ناموں کے علاوہ بھی بہت سے ادیب و شاعر اپنے وطن چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں اردو ادب کی نئی بستیاں بسارہے ہیں۔
امریکہ ، کنیڈا ، ساؤتھ افریقہ خلیج ممالک اور یورپ کے خطوں میں جہاں جہاں اردو کے شیدا ہجرت کرکے پہنچے ہیں وہاں وہاں اردو کی نئی نئی بستیاں جنم لے رہی ہیں۔ یورپ میں اْردو بولنے ، سمجھنے اور لکھنے پڑھنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ انگلستان میں ہے۔ یورپ میں اردو بولنے ،سمجھنے اور پڑھنے لکھنے والوں کی دوسری بڑی تعداد جرمنی میں مقیم ہے۔ اس زبان سے جڑی کمیونٹی کا ایک بڑا حصہ شہر برلن، دریائے مائین کے کنارے آباد تجارتی شہر فرینکفرٹ اور اس کے گرد و نواح میں مقیم ہے۔ اس کے علاوہ علامہ اقبال کے شہرکی ہائڈل برگ یونیورسٹی ، ائر فورٹ اور ہمبرگ یونیورسٹی میں اردو کی نا صرف تعلیم کا انتظام موجود ہے بلکہ تحقیق اور تالیف کے بھی شعبے موجود ہیں۔جس کی وجہ سے اردو سیکھنے اور عملی طور پرزبان کے استعمال ہونے کی بابت یہ شہر جرمنی میں اْردو کے لسانی مراکز مانے جاتے ہیں۔
مہجری ادب کے پھیلاؤ کے لیے جو چیز سب سے اہم ہے وہ نئی نسل میں اردو کی تعلیم کی طرف توجہ دلانا اور انھیں اردو زبان کی تعلیم دینا ہے۔ اس سلسلے میں برلن یونیورسٹی سمیت مختلف اسکولوں میں اردو کی تعلیم دی جارہی ہے۔ یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ ان جگہوں میں نہ صرف جرمن اردو سیکھ رہی ہیں بلکہ ہجرت کرکے آنے والے خاندان کی نئی نسل بھی۔ کیونکہ زبان سیکھے بغیر اس کے ادب کو جاننا اور آگے بڑھانا ناممکن ہے۔
اس ضمن میں میں خود بھی ایک چھوٹے سے لسانی ادارے کا مالک ہوں جہاں تالیف و ترجمہ کے ساتھ ساتھ اردو اور جرمن زبان سیکھانے کا بھی انتظام ہے۔ یہ اردو سیکھنے والے ہندوستان اور پاکستان کے تہذیب و تمدن اور معاشرے کو جاننے کا شوق رکھتے ہیں۔ جرمن وزارت خارجہ میں بھی میں اردو کی تعلیم ان جرمنوں کو دے رہا ہوں جو پاکستان یا ہندوستان میں کئی سالوں کے لیے ملازمت کے غرض سے جاتے ہیں۔ گو اردو کی نئی بستی میں صرف اردو بولنے والوں کے بچے ہی نہیں ہیں بلکہ وہ بھی ہیں جنکی مادری زبان جرمن، فرانسیسی یا اطالوی ہے۔
اسکے ساتھ ساتھ جرمنی میں جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ شہر برلن، فرینکفرٹ، ہائڈل برگ، ہمبرگ اور بون میں اردو کے پالن ہار اردو مصنف شاعر اور شاعرات کی کافی بڑی تعداد مہجری ادب کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ جن میں برلن سمیت دیگر شہروں میں کئی بڑے نام موجود ہیں جنھیں ہندوستان اور پاکستان میں بھی خوب جانا جاتا ہے اور یہ لوگ اپنے ادب کا نام روشن کررہے ہیں۔ جن میں عارف نقوی، علی حیدر وفا، طاہرہ رباب، عشرت معین سیما، سرور غزالی، حنیف تمنا، اور کئی نئے آنے والے افراد نے ا ردو ادب و شاعری میں اپنی پہچان کروائی ہے اور اپنی تخلیقات کو کتابی شکل میں محفوظ کیا ہے۔
روس کی یونیورسٹی کی ڈاکڑ لیڈ میلا نے ایک اردو کانفرنس میں کہا تھا کہ
مجھے اردو سے محبت ہے اور میں اس کے عشق میں ہر اس شہر اور مقام کی سیر کو نکل کھڑی ہوتی ہیں جہاں اردو کی نئی بستیاں جنم لے رہی ہیں.
ڈاکڑ لیڈ میلا کی اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اردو اور اردو کے مہجری ادب کا یہ سفر جاری وساری ہے اور شاید آئندہ بھی یونہی جاری و ساری رہے گا۔
ڈاکڑ اشفاق احمد ندوی، شعبہ عربی، لکھنؤیونیورسٹی اپنی کتاب” جدید عربی ادب کے ارتقاء کے ضمن میں مہجری ادباء کی خدمات میں کیا خوب لکھتے ہیں کہ ” مہجری ادب ایک ایسا ادب ہے جس کی ایک ایک سطر سے خوشبوئے وطن پھوٹتی ہے، وفا پرستی کے نغمے گونجتے ہیں، فدائیت اور جانثاری کا جذبہ بیدار ہوتا ہے، جس کا ہر فنکار اپنے میدان تخیل کا شہ سوار، جس کی ہر تحریر دل پذیر،جس کا ہر اسلوب قاری کے لیے پسندیدہ اور مقبول ہے۔”
پہلی ہجرت آدم نے جنت سے زمین کی طرف کی اور یوں یہ سلسلہ ازل سے ابد تک کے لیے شروع ہوگیا۔ تاریخ ہجرت کے واقعات سے بھری پڑی ہے جن میں سے کئی ہجرت ابتک ہمارے دل و دماغ میں کہیں نہ کہیں اچھے برے تاثرات کے ساتھ موجود ہیں۔ تقسیم ہند و پاک کے وقت اور پھر تقسیم بنگلا دیش کے وقت بھی ہجرت نے جہاں عام انسانوں پر اپنا اثر چھوڑا وہیں حساس دل و دماغ کے مالک مصنف، ادیب شعراء پر بھی اپنا بھرپور وار کیا اورایک لمبے عرصے تک ان کو اسی موضوع پر لکھنے لکھانے میں مصروف رکھا۔
ہجرت سے جس طرح عالمی سیاست اور ملکوں کی جغرافیائی حدود میں تبدیلی رونما ہو ئی ہیں ادب میں بھی نمایاں تغیرات وقوع پذیر ہوئے اور اردو ادب میں نئے موضوعات، جدید علامت، مٹی کی خوشبو، وطن کی یاد، نئی بستی کے مسائل، وہاں کے حالات، معاشرے کے رموز اور یہاں تک کہ وہاں کے موسم نے بھی اپنی جگہ بنالی۔
جہاں ایک طرف ہجرت کی سب بڑی وجہ ذہنی اور سیاسی سوچ کے درمیان اختلافات ہیں وہیں دوسری طرف اقتصادی بحران، لسانیات اور قومیت کے بکھیڑے، یاسیت اور قنوطیت کے مضبوط شکنجے بھی موجود ہیں۔ یہ سارے اسباب و غم شاعر ، ادیب اور مصنف کو جھنجوڑ جھنجوڑ کرایک سے ایک ادب کے شہ پارے لکھواتے ہیں، جس کی مثال اردو ادب کی جدید بستیوں کے سرمایہ ادب و شاعری میں محفوظ ہیں۔
انسانی نفسیات اس بات کی گواہ ہے کہ جس طرح جسم کے زخم کو آلات جراحی بھرتے ہیں اسی طرح ذہن اور روح کے گھاؤ بھرنے کے لیے روحانی طرز علاج کی ضرورت ہوتی ہے اور یہی وہ عنصر ہیں جو ادب کے لیے ایک یادگار اور کبھی نہ بھلائے جانے والی تحریروں کو جنم دیتے ہیں۔ ہند و پاک کے اثرات کے بعد منٹو، کے افسانے اسی مہجری ادب کے بھرپور نمونے ہیں۔ مثال کے طور پر منٹو کا ایک افسانہ ’’کھول دو ‘‘ میں47 کے بعد کے حالات کا ذکر ہے۔ کہ ہجرت کے بعد لوگوں کے ساتھ کیا ہوا۔ منٹو ساری زندگی انسان کو تلاش کرتا رہا اور مشرقی اور مغربی انسان کی غلاظتیں تلاش کرتا رہا۔ کہ انسان کا باطن ظاہر کی طرح صاف شفاف ہے یا نہیں۔ ہمارے اندر کی غلاظت کو وہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس غلاظت کو دیکھنے کا ایک اچھا موقع آزادی کے بعد ان کو ملا۔
اسی حوالے سے دوسرا نام احمد ندیم قاسمی کا ہے۔ انکے افسانے ’’نیا فرہاد ‘‘ میں دکھایا گیا ہے کہ لاہور میں سکھ مسلمانوں کو مار رہے ہیں او ر مسلمان ہندو اور سکھوں کو مضافاتی دیہات میں قتل کر رہے ہیں۔
اسکے علاوہ قرۃ العین (آگ کا دریا)، عصمت چغتائی ( ٹیڑھی لکیر)، راجندر سنگھ بیدی (لاج ونتی)، عبداللہ حسین ( اداس نسلیں) اور کئی بڑے نام ادب کی دنیا میں اسی نسبت سے جانے جاتے ہیں۔
فسادات کے بعد سب سے بڑا رجحان ترقی پسند سوچ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس رجحان کا تعلق بہت حد تک فسادات سے بھی ہے اور اسے فسادا ت کی اگلی کڑی قرار دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ فسادات کے بعد جو معاشرہ تشکیل پایا اْس کی عکاسی ترقی پسند سوچ رکھنے والے افسانہ نگاروں نے کی۔
ہجرت کی ایک بڑی وجہ جو میرے نزدیک بہت اہم رہی وہ زباں بندی بھی ہے اور میں آپ سب کی توجہ اس طرف بھی دلانا چاہتا ہوں جو برسوں سے شروع ہوکر آج بھی جاری ہے اور مہجری ادب کی تخلیق متواتر کرا رہی ہے اور اردو ادب کی نئی نئی بستیاں بسا رہی ہے۔ اردو کے عظیم شاعر فیض احمد فیضؔ کو ایوب خان کے مارشل لا نے ہجرت کرنے پر مجبور کیا تو انکا قلم شعلہ بن گیا اور جلا وطنی میں اس سے ایسی ایسی نظم و غزل چنگاری بن کر نکلی جو مہجری ادب کے طور کھبی بھی نہیں بھلائی جاسکتی ۔
اسکے علاوہ ضیاء الحق کے دور حکومت میں بھی ادیبوں اور شاعروں کو جلا وطنی کے دن گزارنے پر مجبور کیا گیا۔ مشہور و معروف شاعر احمد فراز نے بھی لندن میں رہکر مہجری شعری سخن تخلیق کیا۔
یہ سلسلہ ادب اردو زبان کی تاریخ کے ساتھ چلتا ہوا آج تک بیرون ہند و پاک گامزن ہے اب بھی کئی مشہور ناموں کے علاوہ بھی بہت سے ادیب و شاعر اپنے وطن چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں اردو ادب کی نئی بستیاں بسارہے ہیں۔
امریکہ ، کنیڈا ، ساؤتھ افریقہ خلیج ممالک اور یورپ کے خطوں میں جہاں جہاں اردو کے شیدا ہجرت کرکے پہنچے ہیں وہاں وہاں اردو کی نئی نئی بستیاں جنم لے رہی ہیں۔ یورپ میں اْردو بولنے ، سمجھنے اور لکھنے پڑھنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ انگلستان میں ہے۔ یورپ میں اردو بولنے ،سمجھنے اور پڑھنے لکھنے والوں کی دوسری بڑی تعداد جرمنی میں مقیم ہے۔ اس زبان سے جڑی کمیونٹی کا ایک بڑا حصہ شہر برلن، دریائے مائین کے کنارے آباد تجارتی شہر فرینکفرٹ اور اس کے گرد و نواح میں مقیم ہے۔ اس کے علاوہ علامہ اقبال کے شہرکی ہائڈل برگ یونیورسٹی ، ائر فورٹ اور ہمبرگ یونیورسٹی میں اردو کی نا صرف تعلیم کا انتظام موجود ہے بلکہ تحقیق اور تالیف کے بھی شعبے موجود ہیں۔جس کی وجہ سے اردو سیکھنے اور عملی طور پرزبان کے استعمال ہونے کی بابت یہ شہر جرمنی میں اْردو کے لسانی مراکز مانے جاتے ہیں۔
مہجری ادب کے پھیلاؤ کے لیے جو چیز سب سے اہم ہے وہ نئی نسل میں اردو کی تعلیم کی طرف توجہ دلانا اور انھیں اردو زبان کی تعلیم دینا ہے۔ اس سلسلے میں برلن یونیورسٹی سمیت مختلف اسکولوں میں اردو کی تعلیم دی جارہی ہے۔ یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ ان جگہوں میں نہ صرف جرمن اردو سیکھ رہی ہیں بلکہ ہجرت کرکے آنے والے خاندان کی نئی نسل بھی۔ کیونکہ زبان سیکھے بغیر اس کے ادب کو جاننا اور آگے بڑھانا ناممکن ہے۔
اس ضمن میں میں خود بھی ایک چھوٹے سے لسانی ادارے کا مالک ہوں جہاں تالیف و ترجمہ کے ساتھ ساتھ اردو اور جرمن زبان سیکھانے کا بھی انتظام ہے۔ یہ اردو سیکھنے والے ہندوستان اور پاکستان کے تہذیب و تمدن اور معاشرے کو جاننے کا شوق رکھتے ہیں۔ جرمن وزارت خارجہ میں بھی میں اردو کی تعلیم ان جرمنوں کو دے رہا ہوں جو پاکستان یا ہندوستان میں کئی سالوں کے لیے ملازمت کے غرض سے جاتے ہیں۔ گو اردو کی نئی بستی میں صرف اردو بولنے والوں کے بچے ہی نہیں ہیں بلکہ وہ بھی ہیں جنکی مادری زبان جرمن، فرانسیسی یا اطالوی ہے۔
اسکے ساتھ ساتھ جرمنی میں جیسا کہ میں نے پہلے بتایا کہ شہر برلن، فرینکفرٹ، ہائڈل برگ، ہمبرگ اور بون میں اردو کے پالن ہار اردو مصنف شاعر اور شاعرات کی کافی بڑی تعداد مہجری ادب کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ جن میں برلن سمیت دیگر شہروں میں کئی بڑے نام موجود ہیں جنھیں ہندوستان اور پاکستان میں بھی خوب جانا جاتا ہے اور یہ لوگ اپنے ادب کا نام روشن کررہے ہیں۔ جن میں عارف نقوی، علی حیدر وفا، طاہرہ رباب، عشرت معین سیما، سرور غزالی، حنیف تمنا، اور کئی نئے آنے والے افراد نے ا ردو ادب و شاعری میں اپنی پہچان کروائی ہے اور اپنی تخلیقات کو کتابی شکل میں محفوظ کیا ہے۔
روس کی یونیورسٹی کی ڈاکڑ لیڈ میلا نے ایک اردو کانفرنس میں کہا تھا کہ
مجھے اردو سے محبت ہے اور میں اس کے عشق میں ہر اس شہر اور مقام کی سیر کو نکل کھڑی ہوتی ہیں جہاں اردو کی نئی بستیاں جنم لے رہی ہیں.
ڈاکڑ لیڈ میلا کی اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اردو اور اردو کے مہجری ادب کا یہ سفر جاری وساری ہے اور شاید آئندہ بھی یونہی جاری و ساری رہے گا۔
Also read