Monday, May 6, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldغصہ حکومت پر اُتارا جائے تاریخ پر نہیں

غصہ حکومت پر اُتارا جائے تاریخ پر نہیں

प्ले स्टोर से डाउनलोड करे
 AVADHNAMA NEWS APPjoin us-9918956492—————–
अवधनामा के साथ आप भी रहे अपडेट हमे लाइक करे फेसबुक पर और फॉलो करे ट्विटर पर साथ ही हमारे वीडियो के लिए यूट्यूब पर हमारा चैनल avadhnama सब्स्क्राइब करना न भूले अपना सुझाव हमे नीचे कमेंट बॉक्स में दे सकते है|

حفیظ نعمانی

ہم نے بچپن میں دیکھا تھا کہ تعلیم یافتہ اور شریفوں کے سماج میں سنیما گفتگو کا موضوع نہیں ہوتا تھا اور یہ تو سب کو یاد ہوگا کہ اگر ایک فلم بن کر آگئی تو سال دو سال وہ جس سنیما گھر میں لگ گئی وہیں لگی رہی اور اپنے ساتھ کے بچوں کو فلم کا نام یاد رہتا تھا اور یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ جن کرداروں نے کام کیا ہے وہ کون ہیں اور ان کی کیا خصوصیت ہے؟ اگر کوئی چیز شرک تھی تو وہ صرف یہ کہ یہ تفریح ہے اور اس کا کام ہنسنا ہنسانا ہے۔ یا رونا رُلانا۔
ٹی وی کا تو تصور بھی نہیں تھا ریڈیو تھا تو وہ بہت بڑے لوگوں کے گھروں میںکہیں کہیں ہوتا تھا لیکن ریڈیو پر بھی فلم کے گانوں سے زیادہ کوئی چیز نہیں آتی تھی۔ مقصد یہ ہے کہ سماج میں سنیما ایک تفریح سے زیادہ نہیں تھا۔ ماہنامہ ادبی رسالوں کے ساتھ ساتھ فلمی رسالے بھی نکلتے تھے ان کو پڑھ کر معلوم ہوتا تھا کہ فلم نگری کی اپنی ایک الگ دنیا ہے اور وہ اپنی دنیا میں مست رہتے ہیں۔
ابتدا میں زیادہ تر فلمیںتاریخی ناولوں پر بنتی تھیں اور ہندوستان میں باہر سے آکر حکومت کرنے والے بادشاہوں کو موضوع بنایا جاتا تھا اور کوشش کی جاتی تھی کہ فلم سے محبت کا سبق ملے اور برائی پر اچھائی کی فتح دکھائی جائے۔ یا ہندو اور مسلمان ایک دوسرے کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دیں۔ اس زمانہ میں سنیما کے گانے ایسے نہیں ہوتے تھے کہ جو بولے وہی سمجھے بلکہ ممتاز شاعروں کی غزلیں ہوتی تھیں یا موقع کی مناسبت سے فرمائش کرکے گیت لکھوائے جاتے تھے جو غزل کے ہی انداز میں گائے جاتے تھے۔ جس زمانہ میں سال میں ایک یا دو فلمیں بنتی تھیں اس زمانہ میں ہر بڑے شاعر سے فلم کے گانے لکھوائے جاتے تھے اور آج جب ہر مہینہ میں ایک یا دو فلمیں بن رہی ہیں شاید ہی کوئی بتا سکے کہ فلم میں جو گانے ہیں وہ کس نے لکھے ہیں؟ ایک دوست نے جو خود پہلے بھی سنیما کے گانے لکھتے تھے ان کا کہنا ہے کہ اب ہمیں ماحول اور منظر نہیں بتایا جاتا کہ اس کے مطابق شعر کہیں بلکہ موسیقی سنائی جاتی ہے کہ اس میں الفاظ ڈال دو۔ اگر پرانے زمانے کی فلم دیکھی جائے تو اس میں یہ بھی بتایا جاتا تھا کہ کہانی کس نے لکھی ہے اور یہ بھی بتایا جاتا تھا کہ گانے کس نے لکھے ہیں۔
یہ بیماری گذشتہ 25 برس سے آئی ہے کہ ایسا موضوع تلاش کیا جائے جو متنازعہ ہو اور ایک طبقہ کھل کر سامنے آئے کہ ہم فلم چلنے نہیں دیں گے۔ ہندوستان پر حملہ کرنے والوں میں ایک نام علاء الدین خلجی کا بھی ہے ان کے زمانہ میں ہندوستان کے راجپوتانہ میںرانی پدماوتی نام کی ایک رانی تھی۔ تاریخ میں کیا ہے اس سے کسی کو کوئی مطلب نہیں لیکن ڈائرکٹر سنجے لیلا بھنسالی نے تاریخ کے اوراق میں سے عشق و محبت کی کہانی نکال لی۔ اخبار پڑھنے والوں کو یاد ہوگا کہ راجستھان میں اس فلم کی تیاری کے دوران کئی بار حملے ہوئے اور سب کچھ جلاکر راکھ کردیا۔ اور یہ تو فلم کی کہانی سامنے آئے بغیر ہی راجپوتوں کی طرف سے کہہ دیا گیا تھا کہ ہم رانی پدماوتی نام کی فلم بننے نہیں دیں گے اور بن گئی تو چلنے نہیں دیں گے۔
فلمی دنیا میں اب 100 کروڑ دو سو کروڑ اور پانچ سو کروڑ ہفتہ کمانے والی فلموں کا مقابلہ ہورہا ہے بھنسالی نام کے فلم ساز نے سب کو مات دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ تو خیریت ہے کہ فلم کے بنانے والے تمام بڑے ہندو ہیں ان میں اگر ایک بھی مسلمان ہوتا تو اب تک نہ جانے اور کیا ہوگیا ہوتا؟ پورے ملک میں جہاں جہاں بھی راجپوت ہیں انہوں نے اسے انا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ حکومت کا حال یہ ہے کہ پورا ملک سلگ رہا ہے لیکن ہر صوبائی حکومت اور اس کے افسر اعلان کررہے ہیں کہ ہم قانون ہاتھ میں نہیں لینے دیں گے۔ جبکہ آسان بات یہ تھی کہ مخالفت جائز ہو یا ناجائز صرف ماحول کی خاطر فلم سازوں کو یہ بتا دیا جاتا کہ ایسی فلم نہ بنے گی اور نہ دکھائی جائے گی۔ اپنے وقت میں حکومت کا سینسر بورڈ ایک ایسا سانچہ تھا کہ اگر وہ اجازت دے دیتا تھا تب فلم دکھائی جاتی تھی اب نہ جانے کیا ہوا کہ سینسر بورڈ کا ذکر بھی نہیں آرہا اور آرہا ہے تو اس کی وہ دھمک نہیں ہے۔
فلم کی کہانی یا تو لکھوائی جاتی ہے یا تاریخ سے لے لی جاتی ہے۔ اور یہ ناممکن ہے کہ تاریخ جو ہے وہ فلم بن جائے ہمارا بچپن تھا جب پکار نام کی فلم بنی تھی اس میں ہیروئن نسیم تھیں جن کے بارے میں پری چہرہ لکھا جاتا تھا۔ اس کے بعد ہمایوں اور بعد میں مغل اعظم بنی ہر تاریخ سے واقف جانتا ہے کہ تاریخ کچھ ہے اور فلم میں کچھ دکھایا گیا ہے۔ تین سال پہلے جو ملک میں انقلاب آیا ہے اس نے ملک کا مزاج بدل دیا ہے۔ آزادی سے لے کر 2014 ء تک جب حزب مخالف کے جلوس نکلتے تھے تو لال جھنڈے سے پورے ماحول کو سرخ کردیتے تھے اب حالت یہ ہے کہ اگر بے روزگار اپنے روزگار کے لئے اور کسان اپنے قرض کے لئے بھی جھنڈا اٹھاتے ہیں تو وہ گلاب کے رنگ کا نہیں گیندے کے رنگ کا ہوتا ہے۔
علاء الدین خلجی یا کوئی بھی مسلمان بادشاہ مسلمانوں کے لئے قابل احترام نہیں ہے وہ آئے اور حکومت کرکے چلے گئے۔ انہوں نے مذہب کے لئے نہیں حکومت اور اپنے نام اور خاندان کے لئے سب کچھ کیا۔ اب یہ بات کہ کس بادشاہ نے انارکلی کو دیوار میں چنوا دیا اور کس بادشاہ نے اپنے بھائیوںکو مروا دیا یہ ان کے اعمال ہیں جن کا حساب ان کو دینا ہوگا۔ مسلمانوں کی طرف سے ہر فلم ساز سے اپیل آنا چاہئے کہ خدا کے لئے ایسا موضوع فلم کے لئے تلاش نہ کیجئے جس میں بادشاہ مسلمان ہو اور رانی ہندو۔ اسی نومبر کے مہینے میں پرسکون ماحول میں ایک کنکری یہ گری کہ عدالت سے باہر مندر اور مسجد کا حل تلاش کرلیا جائے۔ بات صرف مذاکرات اور مصالحت کی ہے لیکن پورے ملک میں پیلے جھنڈے لہرانے لگے جبکہ مسلمان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اب عدالت کا فیصلہ آنے دیا جائے۔ پدماوتی فلم کی مخالفت ہورہی ہے تب بھی ہر طرف بھگوا پرچم لہرا رہے ہیں جبکہ سنجے بھنسالی اور فلم کے دوسرے بنانے والے سب ہندو ہیں۔ خدا کرے مسلمان خود اس فلم کے بائیکاٹ میں شریک ہوجائیں۔ اگر کوئی مسلمان نام کا بادشاہ کسی ہندو رانی کی شہرت سن کر اسے حاصل کرنے کی کوشش کرنے لگا تو جو ہوا وہ تاریخ کے اوراق میں دفن ہوگیا۔ لیکن ایسا ماحول بنانا جیسے خلجی نام کا کوئی حملہ آور فوج کے ساتھ سرحد پر کھڑا ہے اور جوش دکھانا کہ سب کے ٹکڑے کردیئے جائیں گے فلم نہیں تعصب ہے۔ اور حکومت اپنے کروڑوں کی آمدنی کی وجہ سے چپ ہے۔
Mobile No. 9984247500
خخخ

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular