Friday, May 3, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldفریب دینے کو کوئی نقاب بھی لے لو

فریب دینے کو کوئی نقاب بھی لے لو

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

انیس درّانی

کبھی کبھی تو مجھے اپنے پیارے پیارے وزیراعظم کی حالتِ زار پر بڑا ترس آتا ہے۔ایک ایسی تیاگی رہنماجس نے دیش کے لئے بچپن میں چائے بیچی جھوٹے گلاس دھوئے پر چارک بن کر سادھو کی طرح دربدر بھٹکتا رہا جو دیش کی ترقی کے لئے دیش کے بڑے سرمایہ داروں سے نہایت خوشگوار تعلقات رکھتا ہے اور ان سے دیش کو امیر بنانے کے لئے نئے نئے نسخہ سیکھتا ہے کہ بھلے ہی دیش کے غریب مالدار نہ بن سکیںمگر دولت کمانے کے لئے ان نسخوں کا فائدہ اٹھا کر بڑے سرمایہ دار اور بھی زیادہ قارون بن جائیںلیکن مودی کی بے لوث خدمات کو سراہنا چاہئے کیونکہ یہ بڑے سرمایہ دار بھی تو بھارتی ہیں۔اور بھارتیوں کو فائدہ پہنچنا چاہیے سب کو نہ پہنچے تو کیا کچھ کو تو فائدہ پہنچ ہی رہا ہے۔بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ اب یہ فائدہ آہستہ آہستہ بالکل نچلی سطح پر پہنچنا شروع ہو گیا ہے۔ مودی پر تنقید کرنے والے شرم سے پانی پانی ہو جائیں گے جب انہیں علم ہوگا کہ آج دیش میں گائیں کا موتر دودھ سے بھی زیادہ مہنگا بک رہا ہے۔اس وقت راجستھان میںگیر اور تھر پارکر نسل کی گایوں کا دودھ ہول سیل میں پندرہ سے تیس روپے لٹّر بک رہا ہے۔اور ذرا کم ذات اور کم نسل کی گایوں کے موتر کی قیمت اس سے کم ہے جبکہ کسان ہول سیل میں جو دودھ بیچ رہا ہے اسکے اسکو 22روپے سے پچیس روپے لیّٹر ملتے ہیں۔لیکن ایک نقصان ان غریب ہندو بھائیوں کو ضرور ہوگا جو مختلف فوائد کے حصول کے لئے گئو موتر کو روز پیا کرتے تھے اور کوئی انہیں کچھ نہیں کہتا تھا لیکن اب گئو موتر یعنی قارورہ بقر بھی تجارتی شہ بن گئی ہے اب کون ان غریبوں کو ان گئو موتر کے دیوانوں کو مفت میں پینے دے گا۔کسان جو ویسے بھی رات میں جاگ کرفصل کی چوکسی کرتے ہیں اب گئو ماتا کے موتر کا بھی دھیان رکھیں گے۔جے پور کے ایک کسان بھائی کیلاش گوجر کے مطابق ان کے زیادہ تر گراہک وہ کسان ہوتے ہیںجوفطری طریقے پر کاشتکاری کرتے ہیں(یعنی وہ کیمیکل کی بنی کھاد کا استعمال نہیں کرتے بلکہ گوبر اور گئو موتر کا استعمال کرتے ہیں)کیلاش کے مطابق اس کی آمدنی اب تیس فیصد بڑھ گئی ہے گئو موتر کے ایک اور بیوپاری اوم پرکاش مینا کے مطابق انھوں نے جے پور میں ایک گئو موتر کا شیڈ کھول رکھا ہے جس میں گیر نسل کی گائیں پال رکھی ہے وہ گاہکوں سے تیس سے پچاس روپے لیٹر تک وصول کرتے ہیں۔ان کے مطابق اب آرگانک کسان فصلوں کو کیڑوں مکوڑوں سے بچانے کے لئے انپر گئو موتر کا چھڑکاو کرتے ہیں۔اسکے علاوہ مذہبی رسومات مثلاً یگیہ میں بھی گئو موتر کا استعمال کیا جاتا ہے۔پوجا استھان اور ہون کی جگہ کو بھی پوتر کرنے کے لئے گئو موتر کا استعمال کیا جاتا ہے۔بیشتر آیورویدک دوائوں میں گئو موتر یا تو ان کا جُز ہوتا ہے یہ اس پر برکت اور ماتا کا آشیرواد حاصل کرنے کے لئے ہلکا سا فوارہ ماردیا جاتا ہے۔اودے پور میں واقع مہارانا پرتاپ یونیورسٹی آف ایجریکلچر اینڈ ٹیکنو لوجی میں ہی ہر ماہ تین سو سے پانچ سو لیٹر گئو موتر کا استعمال کھیتی باڑی میں کیا جاتا ہے۔یو نیورسٹی نے راجستھان میں مختلف مقامات پر ــ’’موتر سپلائی کیندر‘‘ بنا رکھے ہیں۔جہاں سے گئو موتر اکھٹا ہوکر مہارانا پرتاپ یونیورسٹی پہنچتا ہے۔یونیورسٹی کے وائس چانسلر کے مطابق گئو موتر میں کسان کی آمدنی بڑھانے کے بڑے امکانات چھپے ہیں۔میں تو ذاتی طور پر بہت خوش ہوں کہ اب کم از کم گئو بھکت بوڑھی گایوں کو قصاب کے ہاتھ نہیں بیچیں گے۔بھلے ہی دودھ دینا بند کر دیںمگر ان کسانوں کو گئو موترسے ہی اتنی آمدنی ہو جائے گی کہ وہ گئو ہتیا میں شریک ہونے کے پاپ سے بچے رہیں گے ۔اس سے دیش میں امن و امان قائم ہونے میں بھی مدد ملے گی۔یہ جو آجکل گئو رکشک بے نتھے سانڈکی طرح جھومتے پھر رہے ہیں(حالانکہ مودی جی کے مطابق میں انمیں 80فیصدرجرائیم پیشہ لوگ ہیں جو دن میں گئو رکشک بن جاتے ہیںاور رات کی تاریکی میں لوٹ مار کرتے ہیں۔جب کسان اپنے مویشیوں کو قصائی کو دینا بند کر دیں گے تو قصاب کے پاس گائیں پہچنی بند ہو جائیں گی!نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔
مودی جی کی جس حالت زارکاتذکرہ میں نے کالم کے آغاز میں کیا تھا اس کے لئے خود مودی جی ہی ذمہ دار ہیں۔ہماراانپرترس کھانا انسا نیت کی بات ہے۔دراصل مودی جی بیک وقت دونوں ہاتھوں سے لڈو کھانا چاہتے ہیں۔بھارت کے عوام کے سامنے وہ خود کو ایک حقیقی گئو بھکت بنا کر پیش کرتے ہیں جو گئو بھکتی کے نام پر ہونے والے تشدد اور قانون شکنی پر مون دھارے رہتے ہیں۔اس طرح پولیس اور انتظامیہ کو یہ خاموش پیغام دے دیتے ہیںکہ خبردار میرے گئو بھکتوں کے خلاف کوئی کاروائی نہ کرنا ورنہ تمہاری خیر نہیں۔چناچہ بے گناہ مویشیوں کے تاجر اور قصاب برادری کے لوگ ہی حملوں کا شکار بنتے ہیں۔وہی ان غنڈوں کی ما رکھاتے ہیںاور اکثر اوقات بے حد زخمی ہوکر مر جاتے ہیںاور پھر نام نہار گئو بھکت ہجومی تشدد انجام دے کر پولیس کے ساتھ مال غنیمت کا بٹوارہ کر لیتے ہیں۔خاص طور سے جب سے کئی صوبوں میں ’’گئو چوکیاں‘‘ بنی ہیں۔اور وہاں مقامی پولیس کوتعینات کیا گیا ہے ہر چوکی کمائی کی ٹکسال بن چکی ہے۔
دوسری طرف حالت یہ ہے کہ جس وقت مودی سرکار نے 2014 میں سرکار سنبھالی تھی تو اس وقت بھارت بیف بر آمد کرنے والے ممالک میں تیسرے نمبر پر تھا اور آج بھارت دنیا میں بیف برآمدکرنے والا سب سے بڑا ملک ہے اسے مودی جی بڑے فخریہ انداز میں ’’پنک ریولوشن‘‘(گلابی انقلاب)کہتے ہیں۔آپکو جان کر حیرانی ہوگی کہ بڑے بڑے کمیلوں میں استعمال ہونے والی مشینری پر اس وقت سب سے کم ٹیکس ہے۔مودی جی کو گئو ماتا سے کتنی شردھا اور عقیدت ہے یہ تو وہ ہی جانتے ہوں گے یا اوپر والا جانتا ہوگا۔
ہجومی تشدد اور سنگساری کے تعلق سے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلوں نے موجودہ حکومت کو خاصہ پریشانی میں ڈالدیا ہے کیونکہ فیصلہ میں ریاستی حکومت اور مرکزی حکومت دونوں کو اس قسم کے واقعات ختم کرنے کے لئے پابند کیاگیا ہے۔مگر یہ موجودہ حکومت کس قدر عیارہے کہ اپنے خلاف سپریم کورٹ کے فیصلے سے لوگوں کی توجہ ہٹانے کے لئے اتر پردیش کے وزیر اعلی یوگی سے بیان دلوایا کہ لوگ گئو کشی بند کر دیں تو ہجومی تشدد بھی رک جائے گا۔ایک اور شکست خوردہ بھاجپائی لیڈر جو صرف اخبارات میں چھپنے کے لئے بیان دیتے ہیں کہا کہ جب جب گئو کشی ہوگی ہجومی تشدد بھی بڑھے گا۔ہجومی تشدد مناسب نہیں ہے۔مگر گئو کشی بھی جائز نہیں ہے۔ان سے بھی آگے بڑھکر سنگھ پریوار کے لیڈر اندریش کمار نے بھی ایسی ہی زہریلی باتیں کہیںکہ اگر لوگ بیف کھانا چھوڑ دیں تو ھجومی تشدد کے واقعات ختم ہو سکتے ہیں۔اپنے بیان سے وہ ماہر سنگھی لیڈرکی طرح فوراً مکر گئے۔ان حالات میں ہمارے وزیر اعظم نریندر بھائی مودی کی دریادلی کا جواب نہیں ابھی موصوف افریقی ملک یوگینڈا کے دورے پر گئے تو وہاں انہوں نے یوگینڈا کے صدر کو دو سواعلی نسل کی گائیں خیر سگالی کے جذبات کا اظہار کرنے کے لئے تحفہ میں دیں۔واقعی بڑی جرأت اور دریادلی کی بات ہے کہ جوجانور ماتا کہلاتا ہو جسکی پوجا کی جاتی ہو ایسے غیر ملکی لوگوں کو تحفہ میں پیش کردیا جائے جو صرف جانوروں کو کھانے کی چیز سمجھتے ہیں۔مجھے اس سارے معاملہ میںشیو سینا کے صدر ادھو ٹھاکرے کا تبصرہ بہت پسند آیا انھوں نے کہا کہ موجودہ حکومت (جنسی درندوں سے) عورتوں اور لڑکیوں کی جانیں بچانے کے بجائے اپنی توجہ گائیں بچانے میں لگا رہی ہے۔ادھو ٹھاکرے نے کہا ہم بھی گئو کشی کے سخت خلاف ہیں۔لیکن آج جب گائیں بچائی جا رہی ہیںتو دنیا میں بھارت کو خواتین کے لئے سب سے زیادہ غیر محفوظ ملک کہا جارہاہے ہمیں اس پر شرمندہ ہونا چاہیے۔گئو ماتا کو بچایا جانا چاہیے مگر ہماری ماتائوں کا تحفظ کون کرے گا؟اس میںکوئی مبالغہ آرائی نہیں ہے روزانہ اخبارات اٹھا کر دیکھ لیجئے بال بچوں والی عورتوں اور کم سن نابالغ لڑکیوں کے ساتھ زنا با الجبر کے ایک نہیں کئی کئی واقعات چھپے ہوتے ہیں۔لیکن اس بے شرم حکومت کو ذرا شرم نہیں آتی!
ہجومی تشدد اور سنگساری کے خلاف سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ آیا ہی تھا کہ گئو بھکت شر پسندوںنے اگلے روز ہی راجستھان کے الور ضلع میںاکبر خان کو اس بری طرح مارا کہ وہ جان بحق ہو گیا۔اسکا ساتھی اسلم کسی طرح جان بچا کر بھاگ نکلاوہ اس سارے واقع کا چشم دید گواہ ہے۔اسلم کے مطابق اکبر خان مویشی لے کر آگے چل رہا تھا اسلم اسکے پیچھے کچھ فاصلہ پر تھااچانک گئو بھکتوں نے اسکی گائیں چھین لی اور اس کو اس بری طرح مارا پیٹا کہ وہ نیم جان ہو گیا۔اسلم چونکی فاصلہ پر تھا وہ بھاگ نکلا اور پولیس کو خبر دی جب پولیس آئی تو اکبر خان بری طرح زخمی تھا۔یہ دوپہر ایک بجے کا واقعہ ہے پولیس تین گھنٹے کے بعد اکبر خان کو لیکر ہیلتھ سینٹر پہنچی جنھوں نے اپنی رپورٹ میںلکھا کہ اکبر خان مرنے کے بعدہیلتھ سینٹر لایا گیا تھا۔اب تماشہ دیکھئے راجستھان کے گئو رکشک کہہ رہے ہیں اسکی موت پولیس کی مار سے پولیس کی تحویل میں ہوئی ہے جبکہ پولیس کہ رہی ہے اور چشم دید گواہ اسلم کا بھی کہنا ہے کہ اکبر ہجومی تشدد کا شکار ہوا ہے پولیس اور گئو رکشک دونوں ایک دوسرے پر قتل کا الزام لگا رہے ہیں۔ راجستھان کے ڈائرکٹر جنرل پولیس کے مطابق پولیس صرف طبی امداد دیر سے پہنچانے کی خطا کار ہے۔اسکے لئے انھوں نے انکوائری بھی بٹھا دی ہے۔ادھر راجستھان حکومت نے سارے معاملہ کی انکوائری کا حکم دے دیا ہے اس سارے تذکرے کا مقصد ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے ڈر تو پیدا ہوا ہے۔اگر انتظامیہ سختی سے قانون کی پابندی کروائے تو بہت حد تک ہجومی تشدداورسنگساری پر قابو پایا جا سکتا ہے ابھی تک شر پسند غنڈے یہ سمجھتے تھے کہ ’’سیاں بھٹے کوتوال اب ڈر کا ہے کا‘‘لیکن اب جب خود پولیس پر بھی ہجومی تشدد کو روکنے اور گئو رکشکوں کی خبر لینے کی ذمہ داری ڈالدی گئی ہے تو گئو رکشکوں کے کس بل جلدی ہی نکل جائیں گے!
ہم سے مجبور کا غصّہ بھی عجب بادل ہے
اپنے ہی دل سے اٹھے اپنے ہی دل پر برسے
ضضض

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular