Friday, April 26, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldڈاکٹر مجاہد الاسلام : اپنی تخلیق و تنقید کے آئینے میں

ڈاکٹر مجاہد الاسلام : اپنی تخلیق و تنقید کے آئینے میں

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

شاذلی خان

مجاہد الاسلام ایک مسلسل احتجاج کا نام ہے۔ وہ احتجاج جو کبھی نہ ختم ہو نے والا ہے ۔ایسے لوگ بہت ہی کم پیدا ہوتے ہیں آپ کی تحریر کا مطالعہ کرنے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے مفاہمت اور مصلحت پسندی کبھی نہیں سیکھی اور یہ احتجاج آپ کے اندر کبھی محرومی پیدا نہیں کر سکتا ۔آپ اپنی بات ہمیشہ دلائل کے ساتھ پیش کرتے ہیں ۔آپ نے کبھی بھی اپنی تحریروں ،تقریروںمیں اپنے مزاج کے خلاف معاملات سے سمجھوتا نہیں کیا ۔اپنے مطالعہ اور علم کی روشنی سے آپ نے ادب میں ایک اعلی مقام حاصل کر لیا ہے ۔جو آپ کے ادبی ذوق کا نتیجہ ہے ۔
آپ جیسی شخصیت پر مضمون لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔مجھے اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ اس چھوٹے سے مضمون میں آپ کے تمام ادبی کارناموں کو سمیٹا نہیں جا سکتا اور آپ کی زندگی کے مختلف اور منفرد پہلووں کا احاطہ بھی نہیں کیا جا سکتا ۔
آپ کی شخصیت کے ان انوکھے پہلووں سے الگ ہٹ کر جب ہم آپ کے تخلیقی اور تنقیدی کارناموں پر نظر ڈالتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے لئے پرخار راستے منتخب کئے ۔چونکہ آپ اس عہد کی باخبر شخصیات میں شمار کئے جاتے ہیں ،جو علم و ادب سے بہت گہری واقفیت رکھتا ہے ۔اور یہی سبب ہے کہ آپ کے افسانے اور تنقیدی مضامین میں ان حالات و حادثات کا در آنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔
اس وقت ڈاکٹر مجاہد الاسلام ادب میں اپنا ایک منفرد مقام بنا چکے ہیں ،اس کا اندازہ آپ کے افسانوی مجموعے’’بدن کی خوشبو ‘‘،’’فلائی اوور کے درمیان‘‘،اور تنقیدی مضامین کے مجموعے’’ادب اور ابلاغ ‘‘سے لگایا جا سکتا ہے۔ ان کا ایک مضمون ہے’’ عصمت چغتائی کی تخلیقی زبان‘‘۔ رشید حسن خان نے شعر و ادب میں زبان بیان کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک جگہ لکھا:
’’تنقید جدید میںتصورات و نظریات پر گفتگو کی جاتی ہے یا کبھی ہیئت پر جس کی ایک وجہ تو یہ کہ دور جدید کی شعر و ادب پر مغرب کی بیانیہ شاعری کا کافی اثر ہے جس سے انتقاد میں نفس تصور پر توجہ مرکوز رہتی ہے ۔لیکن بڑا سبب یہ کہ نئے شعراء و ناقدین مختلف مفروضات کے باعث اس ہفت خواں کو سر کرنا کچھ مناسب نہیں سمجھتے ۔جس کا نتیجہ ہے کہ آج نثری وشعری سرمائے کے دفتر کے دفتر اسکول کے طلبہ کی مشقی کاپیاں ہوکر رہ گئے ہیں۔زبان و بیان کی ثانوی حیثیت بھی نہیں بلکہ ان کی طرف توجہ کرنا تیسرے درجے کے قدامت زدہ افراد کا کام سمجھا جاتا ہے ہر وہ شاعر جس کی پیشانی پر ترقی پسندی کا خانہ ساز لیبل لگا ہوا ہے اس کا سرمایہ شعریات ادب العالیہ کا ایک جزو بتایا جاتا ہے اور ثبوت میں اس کے یہاں شعوری و لاشعوری ،حقیقی و اضافی غرض کے موجود وغیر موجود ساری صلاحیتیں پیش کردی جاتی ہیں لیکن یہ قطعاً نہیں دیکھا جاتا کہ جو بات کہی گئی ہے وہ کس طرح ادا ہوئی ،جس کے باعث زبان ا ور بیان میں متعدد مستقل نقائض جڑ پکرتے جا رہے ہیں اور یہ سب کچھ اس ناقدین کی حمایت بے جا کے سہارے ہو رہا ہے جن کے تنقیدی فرمودات ہمیشہ ارسطویا میتھو آرنلڈ کے حوالوں سے گراں بار ہوتے ہیں‘‘۔(تنقید جدید کا ایک پہلو:مقالات رشید حسن خاں(جلد اول ) مرتب ٹی آر رینا ۔پروڈکشن :اپلائڈ بکس،نئی دہلی۔110002 سن اشاعت 2016 ص87)
عصمت کی تخلیقات میں جب زبان و بیان کی بات آتی ہے تو عام طور سے اس طرح کے خیالات ظاہر کئے جاتے ہیں:
’’عصمت چغتائی کی زبان میں کسی چشمے کی سی روانی ملتی ہے جب وہ کسی بات یا کسی کیفیت کے اظہار پر آتی ہیں تو نہایت بے تکلفانہ انداز میں بے محابہ لکھتی چلی جاتی ہیں ۔زبان ان کے لئے لوچدار گیلی مٹی کی حیثیت رکھتی ہے جسے وہ حسب منشا موڑتی توڑتی جاتی ہیں اور اسے جس شکل میں اور جس انداز میں چاہیںڈھال لیتی ہیں ۔ان کا تخلیقی ذہن اس عمل میں ان کے مافی الضمیر کے ساتھ مکمل ہم آہنگی کا ثبوت دیتا ہے عصمت کی زبان کی سب سے پہلی پہچان ان کی بے ساختہ اور نادر تشبیہات ہیں ان تشبیہات کے ذریعہ وہ نہ صرف یہ اپنے دل کی بات بڑی آسانی اور سادگی کے ساتھ کہہ جاتی ہیں بلکہ اس کے ذریعہ وہ شدت تاثرمیں بھی خوشگوار اضافہ کرتی ہیں دراصل ان کی نثر کی دلکشی اور رنگینی میں ان کی دلکش اور نادر تشبیہات کا بڑا حصہ ہے۔‘‘:( ص 166عصمت چغتائی کی ناول نگاری ٹیڑھی لکیر کی روشنی میں:شبنم رضوی۔نیوپبلک پریس ۔دہلی 6سن اشاعت1992)
ڈاکٹر مجاہدالاسلام کو عصمت کے سلسلے میں اس طرح کی باتوں سے اختلاف ہے وہ لکھتے ہیں:
’’حقیقت یہ کہ عصمت نے جس طرح کی لفظیات اپنے افسانے میں استعمال کی ہے اس سے ادیب جہاں ایک طرف ابلاغ کی ناکامی کے المیے سے دو چار ہوتاہے وہیں دوسری طرف وہ و قتی حصار میں بند اور علاقایت کے حدود میں قید ہوجا تا ہے جس کا لازمی نتیجہ ــ’’ مختصر زندگیـ‘‘ہوتا ہے۔عصمت کے بارے میں کرشن چند اور وارث علوی کے حوالے سے جو بات اوپر آئی ہے کم و بیش وہی باتیں آل احمد سرور، مظہر امام وغیرہ کے حوالے سے بھی دہرائی گئی ہیں اور اسے عصمت کی خصوصیات میں شمار کیا جاتا ہے ۔شمالی ہند کا حوالہ اس طرح دیا جاتا ہے گویا اس جغرافیہ کے حدود میں جتنے مواضعات اور آبادیاں ہیںوہ سب دلی کا اردو بازار اور قلعہ معلی ہیں کہ ان کی حیثیت ٹکسال کی ہو ۔شمالی ہند بول کرکیا مراد لیا جاتا ہے اس کا شعور ازحد ضروری ہے۔عصمت کے انتقال کو ابھی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہے کہ ان کی تحریروں کا ایک حصہ معیاری زبان کی لفظیات سے خارج سمجھا جا رہا ہے۔کسی تحریر کی یہ عمر ادیب کے لئے نیک فال نہیں ہے۔بیشک عصمت ہماری زبان و ادب کا ایک بنیادی اور قیمتی حصہ ہیں۔ان کی شمولیت کے بغیر ہماری ادبی روایت ادھوری رہے گی اس لئے ہماری ناقص رائے میں عصمت کی تحریروں سے ایسے الفاظ اور محاوروں کی فہرست سازی کرنی چاہیے تاکہ عصمت کی تفہیم میںنئی نسلوں کے لئے آسانی ہو اور ہماری زبان کے ذخیرہ الفاظ میں اضافہ بھی ہو۔‘‘
اسی طرح ڈاکٹر صاحب کا ایک مضمون ہے ’’جنگ آزادی میں اردو شاعری کا حصہ :حقیقت یا واہمہ‘‘شبلی نے پہلی مرتبہ شاعری کی تعریف کی اور یہ بتایا :
’’خدا نے انسان کو مختلف اعضاء اور مختلف قوتیں دی ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے فرائض الگ الگ ہیں ،ان میں سے دو قوتیں تمام افعال اور ارادت کا سرچشمہ ہیں،ادراک اور احساس ،ادراک کا کام اشیاء کا معلوم کرنا اور استدلال اور استنباط سے کام لینا ہے،اوراحساس کا کام صرف یہ کہ جب کوئی موثر واقعہ پیش آتا ہے تو وہ متاثر ہوجاتا ہے۔غم کی حالت میں صدمہ ہوتا ہے خوشی میں سرور ہوتا ہے،حیرت انگیزبات پر تعجب ہوتا ہے،یہی قوت جسکو احساس ،انفعال یا فلینگ سے تعبیر کر سکتے ہیں ،شاعری کا دوسرا نام ہے یعنی یہی احساس جب الفاظ کا جامہ پہن لیتا ہے تو شعر بن جاتا ہے۔۔۔۔۔(شعرالعجم حصہ چہارم علامہ شبلی نعمانی ۔دارالمصنفین،شبلی اکیڈمی،اعظم گڑھ یوپی۔سن اشاعت 2010 ص 4)
عام طور سے دیکھا گیا کہ جو بھی شخص اس ذیل میں قلم فرسا ہوتا وہ یہ لکھے بغیر نہیں رہتا ہے کہ اصل میں اردو شعر و ادب ہی نے اس ملک کو آزاد کروایا ہے۔ڈاکٹر صاحب کو اس بات سے بھی شدید اختلاف ہےوہ متذکرہ مضمون میں ایک جگہ رقمطراز ہیں :
’’حقیقت یہ کہ شاعری یہ امید وابستہ رکھنا کہ یہ شاہ راہ حیات میں انسان کا قدم بہ قدم ساتھ دے ۔اس کے مقاصد متعین کرے۔فکر و فلسفہ طے کرے ۔منصوبہ بندی کرے انجام کار تک پہنچائے ایک خیال خام ہے ۔نہ شاعری کا منصب ہے نہ مقام ہے اور نہ ہی اس سے اس کی امید کی جاسکتی ہے پوری تاریخ اس بات کی شاہد ہے ۔بے شک کوئی مہم بغیر جذبوں کے سر نہیں ہوتی زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں اعمال و افعال پر ابھارنے اور ہمت و حوصلہ کو بڑھانے کے لئے جہاں اور بہت ساری چیزیں ہوتی ہیں وہیں شاعری بھی ایک وسیلہ اور ذریعہ ہے اس حد تک تو اس کا ہر ایک قائل ہے لیکن ظاہر ہے اس نوع کی تخلیقات اپنا دیرپا اثر نہیں رکھتیں یہی وجہ کہ آندھی کے بعد گرد و غبار بیٹھ جاتا ہے اور یہ تخلیقات ادب کا حصہ نہیں بن پاتیں۔ان کی حیثیت محض وقتی رنگ و روغن کی ہوتی ہے بنیادوں کی استواری میں ان کا کوئی کردار نہیں ہوتا ہے۔‘‘
اسی طرح کا ان کا ایک مضمون ہے’’مسلمانوں کی تعلیمی ترقی اور سید احمد خان کی منصوبہ بندی۔‘‘ سرسیّد احمد خان کے بارے میں عام طور سے کہا جاتا ہے وہ بہت بڑے سیکولر و سیع المشرب انسان تھے ۔ڈاکٹر صاحب کواس بات سے بھی شدید اختلاف ہے۔وہ اپنے اس مضمون ہی میں لکھتے ہیں:
’’ سر سیّد احمد خان حقیقی معنوں میں اپنی پوری لائف میں کسی بھی لمحے نیشنلسٹ یا متحدہ قومیت کے علمبردار نہ رہے ۔ان کی تحریر و تقریر میں متحدہ قومیت سے متعلق جو خیال ملتے ہیں ۔اس کو ان کی مصلحت آمیزی پر محمول کرنا چاہئے ۔میں پہلے لکھ آیا ہوں کہ ان کے نزدیک اس نعرے کا اصل مقصد ہندوستان کے دیگر فرقے کے لوگوں کو غفلت میں رکھ کریہاں کے متحدہ ذرائع وسائل کو اپنے مدرسے “مدرستہ العلوم”کی تعمیر ترقی کے لئے استعمال کرنا تھا اور کچھ بھی نہیں ۔ اس طرح کے اور ڈھیر سارے اقتباسات ہیں جن سے بدیہی طور سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سر سید احمد خان اصل میںتو “نجات دہندہ”ہندوستانی مسلمانوں کے ہی تھے اگر اس طفیل میںہندوستان کی دیگر قوموں کا بھی کا بھی کچھ بھلا ہوگیا ہے تو یہ ان کی مجبوری تھی۔‘‘۔
داکٹر صاحب کی تنقید نگاری کے بعد ہم آتے ہیں ان کی افسانہ نگاری کی طرف ان کی افسانہ نگاری کے بارے میں ایک خاص بات جو کہی جاسکتی ہے وہ یہ اپنی افسانہ نگاری کا موضوع عام طور سے وہ ان واقعات بناتے ہیں جن کو موضوع بنانے کی بہت کم لوگ ہمت جٹا پاتے ہیں۔ان کا ایک مشہور افسانہ ہے’’ اصل قاتل۔‘‘ یہ افسانہ اصل میں صنف نازک کی بکارت(ورجینٹی) کے مسئلے پر ہے۔اس افسانہ کے بارے میں میں اپنی طرف سے بہت کچھ نہ کر یہ اقتباس پیش کر دینا مناسب سمجھتی ہوں :
’’کا لج کی تڑک بھڑک کا انیتا پر بھی گہرا اثر ہوا ،وہ کبھی بھی نچلا بیٹھ کر نہیں دیتی۔۔۔۔۔۔ ہر وقت ، رواں دوان پسینے میں شرابور رہتی ۔کیمپس کے لڑکے اس کے پیچھے یوں منڈلاتے جیسے کہ کاتک کے موسم میں کتے کتیوں کے پیچھے۔۔۔۔اور وہ تھی کہ کسی کے قابو ہی نہ آتی۔
انیتا میری کلاس فیلو نہ سہی میری پڑوسن ضرور تھی اس کا ہر وقت میرے پاس آنا جانا لگا رہتا ،وہ میرے جسم سے یوں کھیلتی جیسے کہ جانوروں کے ساتھ ان کے بچے۔ان سب کے باوجود میرا انیتا کے ساتھ ایسا ویساکچھ بھی کرنا تو دور کی بات رہی میں سوچنا بھی پسندنہیں کرتا تھا ۔۔۔۔۔ !۔۔۔ اگر چہ یہ محاورہ میں نے کہیں ضرور پڑھ رکھاتھا ۔
’’جـس علاقے کا ہرن ہوتا ہے وہیں کے کتوں کے قابو چڑھتا ہے۔۔۔۔۔‘‘میں اس محاورے کی نزاکت سے بھی بخوبی واقف تھا۔ اس کے باوجود بھی میں اپنے ذہن و دماغ کو ایک بار پھرمکدّر نہیں کرنا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔۔انتظار کی تلخ کامی بھلے ہی مجھے منظور ہے۔۔۔۔۔۔۔ مگرمیں انیتا کا اصل قاتل نہیں بننا چاہتا۔‘‘
اسی طرح ان کا ا ایک افسانہ’’ کیپری۔‘‘ ہے۔ یہ افسانہ اصل میں ا یک زوال آمادہ سوسائٹی کا مرثیہ ہے اس افسانے میں اگرچہ کہی تو گئی ہیں بہت سی باتیں مگر ایک اہم بات جو عام قاری کو بھی Provoke کرتی ہی وہ ہے جنسی تعلقات جس کےاس کہانی کے کرداروں کے نزدیک کوئی خاص مواضع و موانع نہیں ہیں۔اسی افسانے سے ایک مختصر سا اقتباس دیکھیے:
’’کھانے کے بعد تقسیم انعامات کا پروگرام تھا ۔ لڑکے اور لڑکیاں پنڈال میں اپنی اپنی جگہ لے رہے تھے ۔ گورپریت میرے ساتھ ہی تھی ۔ پتہ نہیں کیوں موسم کے گرم ہونے کے باوجود مجھے اندر سے ایک طرح کی ٹھنڈ کا احساس ہو رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے میرا پورا جسم ہی اندر سے ٹھٹراجا رہا ہو ۔پروگرام شروع ہونے کے چند منٹوں بعد ہی میں گورپریت کو لے کر پاس کی پہاڑی پر پہنچ گیا ۔ مختصر گفتگو کے بعد خاموشی ہی خاموشی میں ہم دونوں ہی ان تمام حدود کو پھلانگ گئے جس کے لئے مہینوں ہی نہیں بلکہ کبھی کبھی توسالوں درکار ہوتے ہیں اور پھرکبھی کبھی تو یہ چیز ممکن بھی نہیں ہوپا تی ۔لا محالہ انسان پھانسی کا سہارا لینا پڑتاہے، مگر یہاں پر یہ سب کچھ اتنی آسانی سے ہوگیا جیسے کہ پہلے ہی سے طے شدہ ہو ۔‘‘
اسی سے ملتا جلتا اسی افسانے سے ایک اور بھی اقتباس ملاحظہ ہو:
’’بڑی والی لڑکی کو میں نے کچھ ہی دنوں میں بہت حد تک شیشے میں اتار لیا اس کی دنیا عام طورپر باورچی خانہ تک محدود رہتی وہ جب بھی کوئی نئی ڈش بناتی تو اپنے بقیہ افراد خانہ کی نظروں سے بچ بچا کر کچھ نہ کچھ میری طرف بڑھا دیا کرتی ۔ قبل اس کے کہ اس کے ساتھ میرا معاملہ کچھ اور آگے بڑھتا اسی دوران میں میری کلاس کی ہی ایک لڑکی جس کا نام ریتا تھا مجھے اپنا دل دے بیٹھی۔ وہ گورپریت کی طرح پیسے والی تو نہیں تھی مگرمیرے مقابلے میں اس کی مالی حالت کہیں نہ کہیں ضرور بہتر تھی ۔ اس نے اپنی کئی سہیلیوں کو میرے آگے پیچھے لگا رکھا تھا کہ میں اس کے بارے میں اپنے احساسات کا اظہار کروں مگر اس نے میری خاموشی کا ایک الگ ہی مطلب نکال لیا ۔ چونکہ اس کا گھر اسی علاقے میں واقع تھا جہاں میں نے روم کرائے پر لے رکھا تھا ۔ کلاس ختم ہونے کے بعد وہ اکثر و بیشتر میرے ساتھ ہی میرے روم پہ آ جاتی ۔ بوڑھے نے جو روم مجھے کرایہ پر دے رکھا تھا۔ وہ چونکہ فلیٹ کے عین درمیان واقع تھا ۔ اس لئے روم کے آس پاس ہر وقت اس کے گھر کا کوئی نہ کوئی فرد ضرور ہوتا ۔ ایسی حالت میں، میں روم کو پورے طور سے بند بھی نہیں کر سکتا تھا ۔ میں ادھ کھلے روم میں ہی ریتا کے ساتھ سویا پڑا رہتا۔ یہ الگ بات ہے کہ بڑے بڑے شہروں میں سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی دخل در معقولات اچھا نہیں سمجھا جاتا ۔ ریتا کی جسمانی تبدیلیوں سے مجھے یہ اندازہ لگانے میں بالکل دیر نہیں لگی کہ یہ کافی کچھ کھائی کھیلی ہوئی لڑکی ہے ۔‘‘
اس طرح کی ایک اور عمدہ مثال ’’ فرہنگ کلیات سود۔‘‘ہے ،یہ آپ کا تحقیقی نوعیت کا کارنامہ ہے جسے نہایت ہی جاںفشانی کے ساتھ آپ نے انجام دیا ہے۔ اس عمدہ کاوش کے ساتھ اب اردو ادب میں آپ کا نام محتاج تعارف نہیں رہ گیا ۔آپ کا ان ذہین اور باخبر شخصیتوں میں شمار کیا جاتا ہے،جو ہمہ وقت ادبی سرگرمیوں میں مشغول رہتے ہیں۔
حقیقت یہ کہ اردو زبان و ادب کے احاطے میں رہتے ہوئے بھی آپ کے مطالعہ کا کینوس آفاقی ہے ۔آپ کی نظر عالمی ادب پر ہمہ وقت ٹکی رہتی ہے ۔آپ کا ماننا ہے کہ شخصیت کو پرے رکھ کر فن پارے کے بارے میں بحث کی جائے اور جو بھی نتیجہ نکلے اسے بہتر گردانا جائے ۔
الغرض ڈاکٹر مجاہد الاسلام کی حیثیت تنقید میں زیادہ اہم ہے یا تخلیق میں،یہ طے کر پانا کوئی آسان کام نہیں ہے،کیونکہ آپ دونوں ہی میدان کے ایک کامیاب شہسوار ہیں۔آپ کی تخلیق اور تنقید نگاری دونوں کا ہی کوئی جواب نہیں ۔(ختم شد)
ریسرچ اسکالر ،شعبہ اردو ،الہ آباد یونیورسٹی

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular