Monday, April 29, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldٹرین بنی موت کی جھاڑو

ٹرین بنی موت کی جھاڑو

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

حفیظ نعمانی

ہر سال کی طرح اس سال بھی دسہرہ کا جشن پورے ملک میں انتہائی جوش و خروش سے منایا گیا بلکہ اس سال ہر جگہ برائی پر اچھائی کی فتح کی خوشی اس لئے زیادہ نظر آئی کہ آر ایس ایس کی سرپرستی میں چلنے والی مرکزی حکومت کے علاوہ ان ریاستوں میں سے اکثر میں بی جے پی کی حکومت بن گئی جہاں کانگریس کی ہوا کرتی تھی یا سیکولر یعنی آر ایس ایس مخالف پارٹیوں کی حکومت ہوا کرتی تھی۔ جہاں تک دسہرہ کا مذہبی روپ ہے وہ ملک میں ہر ہندو کے لئے مذہب ہے۔ لیکن بی جے پی کو یہ دکھانا ہے کہ دوسری پارٹیاں مذہبی تقاریب کا اتنا خیال نہیں کرتیں جتنا ہندوستان میں ہونا چاہئے۔
اور مقابلہ کا ہی نتیجہ ہے کہ امرتسر میں تیز رفتار ٹرین کی لپیٹ میں آکر 61 مردوں، عورتوں اور بچوں کی موت ہوگئی اور 50 سے زیادہ زخمی اسپتال میں پڑے ہیں۔ رات سے اب تک کی خبروں کا حاصل یہ نظر آیا کہ اس سال امرتسر میں راون کو جلانے کا جشن اس حلقہ کے نمائندہ سردار نوجیوت سنگھ سدھو جو وزیر بھی ہیں، نے اپنی بیوی کو دلا دیا تھا۔ سدھو سکھ ہیں اور دسہرہ میں رام چندر جی کے ہاتھوں لنکا کے راجہ راون کی شکست سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ لیکن اپنے ہندو ووٹوں کو خوش کرنے کے لئے ہوسکتا ہے انہوں نے یہ ذمہ داری اپنی بیوی کو دلادی ہو؟ حادثہ کی ذمہ داری کسی نہ کسی کے سر ڈالنے والوں میں سے ایک نے یہ الزام سدھو کی بیوی پر لگایا ہے کہ برسوں سے یہاں راون کو جلایا جاتا تھا مگر 6 بجے شام کو آگ لگادی جاتی تھی اور سات بجے سے پہلے پہلے زیادہ تر لوگ جاچکے ہوتے تھے اور سات بجے ٹرین آتی تھی اور گذر جاتی تھی اس بار اناڑی ہاتھوں میں انتظام تھا ساڑھے چھ بجے کے بعد آگ لگی اور بہت اونچی آواز کے درجنوں پٹاخے اس میں لگے تھے وہ جب پھٹے تو آواز اور دھوئیں کے علاوہ کچھ نہیں تھا اور راون کے ڈھانچہ کے گرنے سے آگ کے شعلوں سے ڈرکر لوگ بھاگے اور ریل کی پٹری پر چڑھ گئے۔ اور یہ ان دھماکوں کی آواز ہی تھی کہ ریل کی آواز کسی نے نہیں سنی اور وہ موت کی جھاڑو لگاتی ہوئی چلی گئی۔
کل رات تو 11 بجے تک ہم سنتے رہے سدھو کی بیوی تو ایک ذمہ دار کا فرض ادا کررہی تھیں ان کے منھ سے یہ بھی سنا کہ میں رات بھر اسپتال میں ہی رہوں گی لیکن سدھو صبح نظر آئے اور انہوں نے اسے صرف حادثہ اور قدرت کا فیصلہ قرار دے کر صبر کرنے کا مشورہ دیا۔ بات صرف اتنی ہے مرکز کے رویہ کو دیکھ کر ریاست کی سرکاریں اپنی ناکامیوں کو چھپانے کیلئے اور عوام کا ذہن مہنگائی، بے روزگاری اور بھرشٹاچار معاملات سے ہٹانے کے لئے دھرم کی فکر اور ترقی میں لگارہی ہے۔ ہم 72 برس سے لکھنؤ میں ہیں آزادی کے بعد بیگم حضرت محل پارک قیصر باغ میں شام کو راون جلا دیا جاتا تھا اور رات کو 8 بجے کے بعد عیش باغ کے رام لیلا میدان میں راون کے جلنے میں جو پٹاخے پھٹتے تھے ان کی آواز آتی تھی۔ بازار کی کچھ دکانیں 2 بجے کے بعد بند ہوجاتی تھیں باقی بازار کھلا رہتا تھا اور ایک دن کی سرکاری اور اسکولوں کی چھٹی ہوجاتی تھی اخبار کی چھٹی نہیں ہوتی تھی۔ یہ یوگی آدتیہ ناتھ کا کارنامہ ہے کہ 12 ویں تک چار دن کی چھٹی کرادی گئی جس نے انکار کیا اسے ڈی ایم نے ڈنڈا دکھاکر بند کرادیا۔
15 اگست 1947 ء کے بعد ہندوستان کی حکومت وہ مرکز کی ہو یا صوبوں کی ہندوئوں کے ہی ہاتھ میں رہی ہے اگر نفسیات کے پیمانے سے ناپیں تو انگریزوں کے جانے کے بعد اور اپنی حکومت بننے کے بعد جتنا جوش اور جذبہ دکھاسکتے تھے دکھاتے جیسے آزادی کے بعد ہر ہولی میں برسوں منوں اور ٹنوں رنگ کھیلا جاتا تھا شہر کا کوئی بورڈ کوئی دیوار اور کوئی سڑک ایسی نہیں رہ جاتی تھی جسے مختلف رنگوں میں نہ رنگا گیا ہو۔ پھر اس کے بعد خود ہی کم ہوتے ہوتے اتنا کم ہوگیا کہ اب صرف چوتھے درجہ کے ملازم یا صفائی مزدور جیسے طبقوں کے لوگ رنگ کھیلتے ہیں تعلیم یافتہ ہر آدمی کی زبان سے سننے کو ملتا ہے کہ ہم رنگ نہیں کھیلتے۔
رنگ کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ مہنگا بھی بہت ہوگیا اور صحت کیلئے مضر بھی ہے۔ ان باتوں کا خیال دسہرہ کے دن کیوں نہیں رکھا جاتا برسوں پہلے جیسے کاغذ اور کھپچی سے ملاکر جو راون کا پتلا بنایا جاتا تھا اس میں نام کے لئے آٹھ دس پٹاخے بھی لگادیئے جاتے تھے۔ اب تو اپنے دشمن کو بنانے میں بھی لاکھوں روپئے خرچ ہوتے ہیں آتش بازی کا ایسا انتظام کہ جلتے ہوئے راون یا برائی پر اچھائی کی فتح تو یاد بھی نہیں ہر کوئی آتش بازی دیکھنے آتا ہے۔ وہ آتش بازی جو لاکھوں روپئے اپنی محنت کی کمائی خرچ کرکے خریدی جاتی ہے اور پھر اس میں آگ لگادی جاتی ہے۔ کیا کوئی دکھائے گا کہ ہندو دھرم کی کون سی کتاب میں لکھا ہے کہ اپنی کمائی یا سرکاری رقم کو جمع کرو اور آگ لگادو؟
فتح کی خوشی منانے کا اچھا طریقہ تو یہ ہے کہ دسہرہ کے دن کوئی بھوکا نہ رہے بیمار کو دوا ملے غریب بچوں کو کتابیں کاپیاں اور جوتے موزے دیئے جائیں۔ آپ نے اگر اپنے یا محلہ کے ہندوئوں سے چندہ کرکے ایک لاکھ روپئے میں دشمن اور اس کے ساتھی بنوائے ان میں 25 ہزار کی آتش بازی بھردی ایسے پٹاخے فٹ کرادیئے کہ کان پھٹ جائیں اور ٹرین کی آواز بھی نہ سنائی دے اور 61 شردھالو جن میں نہ جانے کتنے پردیسی ہوں گے جو اپنے صوبہ سے کمانے آئے ہیں ان کا سارا خاندان عمر بھر روتا رہے گا اور جو امرتسر کے ہی تھے ان کے ماں باپ بہن بھائی اور بچے کیا اس آتش بازی کو بھول جائیں گے؟ پھر لاکھوں روپئے میں خوشی کہاں آپ نے تو غم بانٹنے کے لئے لاکھوں خرچ کردیئے۔
Mobile No. 9984247500
خخخ

Previous article
Next article
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular