دور حاضر میں فیض کی معنویت نظم

0
604

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


مضمون نگار: رویدا ضمیر

فیض اور فیض کے کلام پر خیال آرائی کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ تھوڑی سی روشنی اس نقطئہ نظر پر ڈال لی جائے کہ فیض دور حاضر میں Relevantہیں کہ نہیں؟

زمانہ حال میں فیض کی اہمیت اور انکے کلام کی معنویت پر بحثیں جاری ہیں۔موجودہ صدی فیض کی صدی کے طور پر منائی گئی ہے،ہر جگہ اور ہر شہر میں فیض پر سمینار ہو رہے ہیں۔رسائل فیض نمبر نکالنے میں مصروف ہیں یہ تمام منعقدہ تقریبات و اشاعت پذیر نگارشات اس بات کی بیّن دلیل ہیں کہ فیض دور حاضر میںRelevant ہیں۔کیونکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کو ئی بھی شاعر یا اس کا کلام عوام کو تبھی متاثر کرتا ہے جب وہ زمانہ ماضی سے منسلک ہو کرزمانہ حال و مستقبل کی بھی غمّازی کرے۔اچھے شاعر کی خاصیت یہ ہے کہاس کی شاعری ماضی کا پروپگنڈہ بن کر نہ رہ جائے۔

فیض ایسے شاعر ہیںجنہوں نے ایک مخصوص دور کے لئے شاعری کی ہے۔ترقی پسند تحریک سے وابستہ تھے۔اس تنظیم سے متاثر ہو نے کی وجہ،فیض کی آواز کہیں کہیں پر نعرہ بازی سے بھی مشابہ ہے۔شاعر یا ادیب کا کسی بھی تنظیم یا تحریک سے متحدہو نا غلط بات نہیں ہے۔ خرابی تب پیدا ہو تی ہے جب بعض لوگ تنظیموں کے ٹھیکیدار بن جاتے ہیں۔فیض کا کمال یہ ہے کہ وہ ترقی پسند تحریک کے حامی تو بنے لیکن والی بننے کی کوشش نہیں کی۔

فیض اس نظریے سے واقف تھے کہ تحریک میں سب سے اہم’’فلسفہ‘‘ ہوتا ہے اور دوسرا اس کی عملی سطح ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ فیض کی مکمل شاعری میںدھیما پن اور مٹھاس ہے۔ان کا لب و لہجہ مدھم ہے لیکن پر سکون احتجاج لئے ہوئے ہے اور یہی ان کی شاعری کی خصوصیت ہے،جو انھیں منفرد شعراء کی صف میں کھڑا کر دیتی ہے۔فیض دردمند دل اور ذہن جدید کے مالک تھے۔اشفاق حسین خاں،جو ماہر فیضیات ہیں،فیض پر تقریباً ۵۰ کتابیں لکھی ہیںاور ابھی جلد ہی انھیں ’’شیشوں کے مسیحا‘‘ کے نام سے۹۰۰ صفحات میں یکجا کر کے شائع کرایا ہے۔ان کے قول کے مطابق:

’’ترقی پسندی کے لئے انسان کو جدید ذہن کا ہونا چاہئے،جو فیض کے یہاں موجود ہے۔‘‘
(توسیعی خطبہ،حیدرآباد،سینٹرل یونیورسٹی ،فروری۲۰۱۲ء،حیدر آباد)

فیض بڑے شاعر ہیں کہ نہیں؟ یہ بحث کافی طویل اور وقت طلب ہے لہٰذا اس مباحثہ سے چشم پوشی کرتے ہوئے صرف اتنا عرض کرنا چاہوں گی کہ میرؔ،غالبؔ،اور اقبالؔ کی طرح فیض بھی محبوب شاعر ہیںجن کا کلام لوگ پڑھ کر حوصلہ فراہم کرتے ہیں۔فیض کے بڑے یا چھوٹے پن کو ثابت کرنے کے لئے بہت سے نقاد موجود ہیں اور وقت خود بہت بڑا نقاد ہے جو گذرے ہوئے لوگوں کے نقوش دلوں پر چسپاں کر جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ا ردو شا عری کہ شاہراہ عظیم کے جدید سنگ میل پر فیض کی پرکھ جاری ہے۔

فیض زندگی کی پر پیچ وادیوں میں مختلف ادوار سے گزرے۔حکومت کی ان پر عنایتیں ہو ئیں،اعزازات و انعامات سے بھی نوازا گیا،جن میں بین الاقوامی لینن انعام،ایشیائی لوٹس ادبی انعام،اور نوبل پرائز،جو بعد از مرگ نامزد کیا گیا،شامل ہیں۔تو دوسری طرف حکومت کے غصہ و عتاب کا بھی شکار ہوئے۔حکومت پاکستان نے انھیں ملک بدر کردیا۔راولپنڈی سازش کیس کے تحت قیدو بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں،تب انہوں نے مختلف ملکوں میں سکونت اختیار کی۔امریکہ،کناڈا،لندن وغیرہ میں زندگی کے ایام گزارنے کے بعدفیض کا ذہن جو پہلے ہی حسّاس تھا،عالمی سطح پر سوچنے لگا۔فیض کے ذہن کو تحریک تو بچپن ہی سے اپنے والد سے ملی تھی،عمر رفتہ کے ساتھ ساتھ اس میں تقویت پیدا ہو گئی۔

ان کے والد ’’سلطان محمد خاں‘‘ والئی افغانستان کے دربار میں Chief Secretery کے عہدے پر فائز تھے جنہوں نے اپنی زندگی میںبہت سے Challenges قبول کئے۔ایک اسکاٹ خاتون نے جو کئی سالوں تک افغانستان مین رہی ہیں ،فیض کے والد پر ایک کتاب لکھی ہے۔مصنفہ کے بیان کے مطابق:

’’وہ بڑے پختہ عزم و ارادے کے مالک تھے اور انتہائی انتشار کے ماحول میںنظم و نسق قائم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔‘‘
(بقول وی،جی ،گیرنن،ترجمہ،سمر انصاری،از نسخہ ہائے وفا،ص۳۳۱)

یہی وجہ ہے کہ فیض اپنی زندگی میں پے در پے مشکلات سے گزرنے کے بعدزندگی سے کھبی ہار نہیں مانے،بلکہ ڈٹ کر ان کا مقابلہ کر تے رہے۔اور اپنی شاعری میں ان محرکات سے روح پھونک دی۔اہم شخصیات کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ اپنے باطن کی آگ سے لفظوں میںکچھ ایسی معنویت و جاذبیت ڈال دیتے ہیںجس سے ان کا کلام حیات جاوید اختیار کر لیتا ہے۔فیض کا کہنا ہے کہ:
’’حیات انسانی کی اجتماعی جد وجہد کا ادراک اور جد و جہد میں حسب توفیق شرکت،زندگی کا تقاضا ہی نہیں،فن کا بھی تقاضا ہے۔‘‘
(از نسخہ ہائے وفا،ص۸۱،پاکستان اڈیشن ،لاہور)

فیض نے اسی اجتماعی جدو جہد کو اپنے فن میں بھر پور برتا ہے جس کی ایک مثال ان کی نظم’’و یبقیٰ وجہ ربک ‘‘ ہے۔فیض نے یہ نظم اپنے امریکہ کے دوران اقامت،جنوری ۱۹۷۹ء میں رقم کی تھی۔جو ان کے مجموعہ کلام ’’مرے دل مرے مسافر‘‘ میں شامل ہے۔ان کا یہ مجموعہ۱۹۸۱ء میں زیور طبع سے آراستہ ہوا تھا۔اس مجموعے کے انتساب میںفیض نے’’یاسر عرفات‘‘مع الاحترامات‘‘ نقش کیا ہے۔یاسر عرفات کا نام محتاج تعارف نہیں ہے۔وہ ملک شام کے بڑے سیاسی لیڈر تھے۔مجموعے کے نام اور انتساب دونوں سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ یہ پورا مجموعہ سیاسی منظرنامے پر منحصر ہوگا۔یہ مجموعہ ان حالات کی نقاب کشائی کرتا ہے جو اس دور میں وقوع پذیر ہو رہے تھے۔فیض نے سیاسی و سماجی حالات پر خامہ فرسائی کی ہے۔اپنے مجموعے’’دست صبا‘‘ کے ابتدائیہ میں لکھتے ہیں:
’’شاعر کا کام مشاہدہ ہی نہیں مجاہدہ بھی اس پر فرض ہے۔‘‘
(ازنسخہ ہائے وفا،ص۸۱،پاکستان اڈیشن،لاہور)

گویا خود فیض کے قول کے مطابق وہ اپنی شاعری سے مجاہدہ کا کام لے رہے تھے۔فیض کا شمار اسی لئے اچھے شاعروں میں ہوتا ہے کہ انہوں نے جو شاعری کی ہے وہ زمانہ ماضی کے علاوہ زمانہ مستقبل میں بھی اپنی معنویت برقرار رکھنے میں کامیاب ہے۔
مذکورہ نظم’’ ویبقیٰ وجہ ربک‘‘(ترجمہ۔اور صرف اللہ کی ذات باقی رہے گی)کا عنوان جو قرآن شریف کی سورئہ رحمٰن کی آیت’’و یبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام‘‘سے ماخوذ ہے سے محسوس ہوتا ہے کہ فیض اس نظم میں روز جزاء کا نقشہ کھینچ رہے ہیں جب حضرت اسرافیل پہلی مرتبہ صور پھونکیں گے اور تمام ہی مخلوق نیست و نابود ہو جائے گی صرف اور صرف اللہ کا نام باقی رہے گا۔اگرچہ فیض کمیو نسٹ ذہن کے مالک تھے لیکن روز جزاء سزا پر گویا انھیں یقین تھا۔لہٰذا نظم کے پس منطر پر نگاہ ڈالنے سے عیاں ہوتا ہے کہ فیض نے اس نظم میں پاکستان کی اس حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے جس کی باگ ڈور پاکستان سے باہر دوسرے مغربی ممالک کے ہاتھوں میں تھی۔

فیض ان محرکات پر روشنی ڈال رہے ہیں جو اس وقت درپیش تھے،وہ نا مساعد حالات جن کو فیض نے اس نظم میں پیش کیا ہے وہی حالات آج بھی بر سر پیکار ہیں۔یہی وجہ ہے کہ فیض کی اس نظم کی اہمیت دور گذشتہ کی طرح ،آج بھی محسوس کی جا رہی ہے جس کی مختصر مثال یہ ہے کہ پا کستان کی مشہور مغنّیہ’’اقبال بانو‘‘ نے اس نظم کو اپنی مسحور کن آواز میں گنگنایا ہے۔چند مصرعے ملاحظہ ہوں:

ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پائوں تلے
جب دھرتی دھڑ ،دھڑ،دھڑکے گی!

فیض ان برسر اقتدار حاکموں پر طنز کرتے ہوئے لکھتے ہیں’’ہم دیکھیں گے۔۔۔۔لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘یعنی جب ہر طرف افرا تفری کا عالم تھا۔بر سر اقتدار حکومت میں بد عنوانیاں زوروں پر تھی۔خواص عوام پر،ظالم ہر مجبور پر،حاکم ہر محکوم پرناجائز حاوی ہو رہے تھے ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے اور جب کبھی رعایا اشتعال انگیز ہوتی تو ا نھیں جھوٹی تسلی دی جاتی تھی کہ بہت جلد انہیں راحت مل جائے گی،اور وہ امن و سکون کی زندگی گزار سکیں گے۔فیض نے اس نظم و نسق پر چھینٹہ کشی کی ہے کہ ہم اس وقت کے منتظر ہیں جب یہ ظلم و ستم کے کوہ گراںٹوٹ کر روئی کی طرح ریزہ ریزہ ہو کر بکھر جائیں گے،جس طرح روئی دھننے کے بعدبے مایاں ہو جاتی ہے اور اڑنے لگتی ہے،تو ان نام نہادحا کموں کا بھی ہم یہی انجام چاہتے ہیںتا کہ ملک میں ہر طرف امن و آشتی قائم ہو جائے اور اہل صفا تخت شاہی پر بٹھا ئے جائیں۔

دوسرے مصرعوں میں فیض نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ہم اس زمانے کے شدت سے متمنی ہیںجب خلق خدا،ارض خدا پر حکومت کرے گی۔گویا فیض نے ان لوگوں کو جن کے ہاتھوں میں ایوان حکومت کی ڈور تھی،انسانیت کے زمرے سے خارج کیا ہے۔ان کی شر انگیزی و بر بریت،عوام الناس کے سروں پر بے میان تلوار کی طرح ہمہ وقت معلق رہتی تھی۔رعایا پر ظلم کے کوہ مسلط رہتے۔ایسے شر پسند کارناموں کے حامل،انسان نہیں حیوان ہو تے ہیں۔نظم کے آخر میں فیض کہہ رہے ہیں!

وہ خلق خدا جو صالح معاشرہ قائم ہونے کے بعد اقتدار پذیر ہو گی۔وہ کوئی بھی ہو سکتی ہے۔میں بھی ہو سکتا ہوں،تم بھی ہو سکتے ہو ،ہاں وہ لوگ ہرگز نہیں ہو سکتے ہیں جو اس وقت حاکم ہیں۔اور معاشرے میں فساد کا موجب بن رہے ہیں۔

فیض کی یہ نظم دھیمے لہجے میںبھر پور احتجاج ہے،لیکن فیض نے بیم و رجا سے بھی اپنا رشتہ استوار رکھا ہے کہ وہ وقت ضرور آئے گا جب یہ اہل حکم،جابر حکمراں منھ کے بل اوندھے گر پڑیں گے۔فیض اپنی اس نطم میںباقی تمام شاعری سے مختلف انداز میں گفتگو کر رہے ہیں۔اس میں احتجاج تو ہے لیکن وہ احتجاج کہیں کہیں پرشدت اختیار کرلیتا ہے۔پھر بھی فیض کی یہ نظم اس لئے اہم ہے کہ اس کا اطلاق دور حاضر پر ہو رہا ہے۔آج کا دور بھی انھیں سیاسی و سماجی کشمکش میں مبتلا ہے جس سے متاثر ہو کر فیض نے یہ نظم لکھی تھی۔دور ماضی بھی پر آشوب تھا اور زمانہ حال بھی افراتفری کا شکار ہے۔فیض نے جن واقعات کا معائنہ و مشاہدہ کیا ہے اسے اپنی نظموں میں برتا ہے۔فیض کی شاعری زمانہ ماضی و حال کی روداد ہے۔اچھا شاعر اپنی تحریروں کوعمر خضر عطا کردیتا ہے جو کبھی فنا نہیں ہوتی ہیں۔یا یوں کہیں کی گذرتے ہوئے لمحے کے ساتھ ان کی معنویت مسلم ہوجا تی ہے۔ اور مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ فیض کی نظموں میں یہ خوبی بدرجئہ اتم موجاد ہے۔اس نظم کو جب ہم موجودہ حالات میں مروجہ بد عنوانیوں کے تناظر میں دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ گویا یہ نظم آج ہی لکھی گئی ہے۔آج کے معاشرتی نظام کی آئینہ بن جاتی ہے جہاں حد نگاہ تک سیاسی ابتری اور فرقہ وارانہ تصادم شدت سے بکھرے ہوئے ہیں جنہیں ختم کرنے کے لئے صرف زبانی موشگافیاں کی جاتی ہیں لیکن سعی نہیں۔ہر روز اور ہر گزرتے ہوئے لمحے میںکوئی نہ کوئی ہولناک واقعہ رونما ہوتا رہتا ہے جو انتہائی دل سوز اور جگر خراش ہوتا ہے،صرف پاکستان ہی کا کیا ذکر،بلکہ ہندوستان ،افغانستان،ایران و اعراق ہر ملک کی حکومتی باگ ڈورامریکہ کے ہاتھ میں ہے۔امریکی امرا اپنے معاملات میں تو کسی کو دخل انداز نہیں کرتے ہیں۔لیکن ہر ملک کے معاملات میں خود کو ٹھیکیدار سمجھتے ہیں،حتیٰ کہ امریکی وزیر خارجہ خود کو ہر ملک وزیر داخلہ سمجھتی ہیں سب کے معاملات میں دخل اندازی کرنا ان کا طرئہ امتیاز ہے۔فیض نے جن محرکات سے متاثر ہو کریہ نظم لکھی تھی وہ جیوں کی تیوں موجود ہیں۔

فیض کی شاعری کو آج’’Reconstruct ‘‘(نئے سرے سے متن کو توڑ کر اس کے معنی و مفاہیم طے کرنا)کرنے کی ضرورت ہے۔فیض کی شاعری ہر ایک سے الگ الگ مفاہیم و مطالب کی سائل ہے۔ہر بڑی چیز کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر ایک سے منفرد گفتگو کرے۔متن ہم سے کیا کہتا ہے اس کے کیا معنی ہیں اسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔رولا بارتھ نے جب مصنف کی موت کا اعلان کیا The Death of Auther تو اردو والوں نے اس کے غلط معنی اخذ کئے کہ وہ مصنف کو کوئی اہمیت نہیں دے رہا ہے جب کہ اس کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ مصنف کا کسی متن میں کوئی کردار نہیں ہو تا ہے۔وہ کون تھا؟اس نے کن مسا ئل سے دو چار ہو کر یہ متن لکھا؟بلکہ اہم متن ہے،متن ہم سے کیا کہہ رہا ہے ،آج کے دور میں اس متن کی کیا اہمیت ہے یہ قابل غور ہے۔لہٰذا رولا بارتھ کے قول کی روشنی میں،میں نے فیض کی اس نظم کو ’’Reconstruct‘‘ کیا ہے اور دور حاضر میں اس نظم کی معنویت کواجا گر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ تمام اہل نظر میری رائے سے متفق ہوں۔لیکن ساختیات کی بنا پرجب فیض کے کلام کا از سر نو جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کی ان کا کلام آج بھی Relevant ،ہے۔فیض کو گذرے ہوئے دو دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن ان کے اکثر اشعار آج بھی پسند کئے جاتے ہیں جن میں ان کی فکر اور ذہنی اپج کار فرما ہے جو دور حاضر کی بھی عکاس ہے۔

ریسرچ اسکالر
شعبہ اردو ،جامعہ ملیہ اسلامیہ،
[email protected]

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here