Monday, May 6, 2024
spot_img
HomeUrduنگارعظیم سے ایک ملاقات

نگارعظیم سے ایک ملاقات

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


قلمکارہ: ڈاکٹر جہاں آرا سلیم

آج میں جس شخـصیت کے بارے میں بات کرنے جارہی ہوں وہ کسی بھی تعارف کے محتاج نہیں۔ میری مراد نگار عظیم صاحبہ سے ہے ۔ ان کا اصل نام ملکہ مہر نگار ہے لیکن ادبی دنیا میں وہ ڈاکٹر نگار عظیم کے نام سے جانی جاتی ہیں۔23ستمبر 1951میں وہ میرٹھ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد کا نام ثروت حسین ثروت ہے۔ مشہور شاعر اور ماہر عروض تھے۔ آپ کی والدہ کا نام یاسمین بیگم ہے۔ ادبی مطالعہ کا ذوق انھیں ورثہ میںملا ۔ابتدائی تعلیم میرٹھ کے اسکول میں ہوئی۔اس کے آگے کی تعلیم پردے کی پابندی کے ساتھ والدین کی شفقت کے زیر سایہ ہوئی۔نگار نے ڈرائنگ میں ایم۔اے۔ کیا ۔ انھیں فوٹو گرافی کا بھی بڑا شوق تھا۔ تصویر کشی کرتے کرتے افسانہ نویسی کی طرف طبیعت مائل ہوئی۔ لکھنا انھوں نے بچپن سے شروع کردیا تھا لیکن باقاعدگی سے 1974سے شائع بھی ہونے لگیں۔’شان ہند‘دہلی میں پہلا افسانہ شائع ہوا ۔ 1976میں ان کی شادی عبدالعظیم صدیقی سے ہوگئی جو خود تکنیکی قلم کار صحافی اور ایڈیٹر تھے۔ شوہر روشن ضمیر تھے ، انھوں نے نگار کو اعلیٰ تعلیم جاری رکھنے کا مشورہ دیا اور ان کے قلم کی حوصلہ افزائی کی۔

یہ بھی پڑھیں

دور حاضر میں فیض کی معنویت نظم

نگار عظیم سے میری پہلی ملاقات 1999میں انھیں کے ادب کدے پر ہوئی تھی ۔ وہ ہوا یوں کہ دہلی میں اردو ترقی پسندوں کی ایک کانفرنس تھی ۔ الہ آباد سے پروفیسر علی احمد فاطمی صاحب نے جو اس کانفرنس کے سروسروا میں سے ایک تھے،مجھے بھی اس کانفرنس میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ انھوں نے بتایا کہ الٰہ آباد سے صالحہ زرین ، ڈاکٹر فخرالکریم ، ڈاکٹر اسرار گاندھی، ڈاکٹر رفیع اللہ ، دہرہ دون سے عاصم شاہنواز شبلی، بھوپال سے اقبال مجید، لکھنؤ سے ڈاکٹر محمودالحسن رضوی اور الٰہ آباد سے میرے قابل استاد سید محمد عقیل رضوی بھی تشریف لارہے ہیں۔ بہرائچ سے سعید عارفی صاحب کے بھی آنے کی امید ہے۔ ان تمام لوگوں سے آپ کی واقفیت ہے۔ملکر آپ کو اچھا لگے گا۔ ماسکو سے قمر رئیس صاحب بھی آرہے ہیں ۔ کانفرنس تین دن چلے گی۔رہائش اور طعام کی ذمہ داری تنظیم کی جانب سے ہے۔

لکھنؤ سے باہر اتنی بڑی کانفرنس میں شامل ہونے کا یہ میرا پہلا موقع تھا۔میں اسے کسی بھی صورت کھونا نہیں چاہتی تھی۔ شوہر سلیم الرحمن کی جازت سے میرا دہلی کے لیے ٹکٹ بک ہوگیا اور میں نے اس کی اطلاع فاطمی صاحب کو دے دی۔ ’’پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ،میںیا فخرالکریم آپ کو لینے اسٹیشن آجائیں گے ‘‘ فاطمی صاحب نے جواب دیا۔ جو فکر تھی وہ بھی دور ہوئی۔ 13مارچ 1999میں چارباغ ،لکھنؤ اسٹیشن سے میں 3:30بجے میں شتابدی اکسپریس سے دہلی کے لیے روانہ ہوگئی۔ شام سات بجے نئی دہلی اسٹیشن پر گاڑی رکی ۔ میں کمپارٹمنٹ سے باہر نکلی ،دیکھا فاطمی صاحب خود وہاں پر موجود ہیں۔ اسٹیشن سے باہر نکل کر فاطمی صاحب نے بٹلہ ہاؤس میںجامعہ نگر نئی دہلی کے لیے ٹیکسی کی۔دہلی کی صاف ستھری سڑکیں ، ٹیکسی ہوا سے باتیں کرتی ہوئی بٹلی ہاؤس جا پہنچی۔ ہمیں دہلی 25،ایچ تھری میں جانا تھا ، فاطمی صاحب نے ٹیکسی والے کو پتہ سمجھایا اور ٹیکسی والے نے ہمیں وہاں پہنچا دیا۔ میرا بریف کیس فاطمی صاحب نے میرے نانا کرنے کے باوجو داٹھا لیا۔ ایک دروازے پہنچ کر فاطمی صاحب نے کال بل پر انگلی رکھی تو ایک خاتون گورا گول گول مکھڑا ، گداز جسم،غلافی آنکھیں، لبوں پر مسکراہٹ، سامنے تھیں۔ پہلے فاطمی صاحب ، اس کے بعد میں گھرکے اندر داخل ہوئے۔
’نگار عظیم‘ملو ۔ فاطمی صاحب نے مجھ سے کہاتو میں نے انھیں ادب سے سلام پیش کیا۔

جہاںآراسلیم،لکھنؤ سے، جن کا میں نے صبح ذکر کیا تھا۔فاطمی صاحب نے نگار کو یاد دلایا۔ یہ ہمارا مختصر سا تعارف تھا۔
یہ فلیٹ نہیں ،گراؤنڈ فلور کا گھر تھا جس کی زمین بھی نگار کی اور آسمان بھی ان کا تھا۔ آنگن کے بعد برآمدہ تھا اور اس کے پیچھے ایک کمرہ تھا جہاں نگار مجھے لے کر آئیں۔ آنگن ہی سے ایک زینہ اوپر کی جانب جاتا دکھائی دیا۔ فاطمی صاحب نگار صاحبہ کے حوالے مجھے کر زینہ سے اوپر چلے گئے۔ کمرے میں فرش کا بستر لگا ہوا تھا جس کے ایک کنارے پر ایک گوری چٹی معصوم نازک سے بزرگ خاتون غرارہ قیض اور چنے ہوئے ململ کے دوپٹے میں ملبوس بیٹھی نظر آئیں۔
میری امی ،نگار نے بتایا۔

السلام علیکم
وعلیکم السلام جیتی رہو، امی نے جواب دیا۔ اسی اثنا صالحہ زرین کمرے میں داخل ہوئیں۔گرم جوشی سے ملیں۔ تولیہ سر سے لپٹا ہوا تھا۔ شاید نہا کر آرہی تھیں۔
میں ابھی آئی۔کہہ کر نگار کمرے سے باہر نکل گئیں۔ کچھ ہی منٹوں میں جب واپس آئیں تو ان کے ہاتھ میں چائے اور ناشتے کی ٹرے تھی۔ فاطمی صاحب بھی کپڑے تبدیل کرکے نیچے آچکے تھے۔ امی پردہ نشین خاتون تھیں لیکن فاطمی صاحب سے پردہ نہیں کرتی تھیں۔اس لیے وہ کمرے میںآگئے۔ سب نے ملکر چائے ناشتہ کیا۔ ابھی چائے کی چسکیوں کے ساتھ میں حال سفر بتارہی تھی کہ کئی دوسرے لوگوں کے گھر میں داخل ہونے کی آوازیں آئیں۔ فخرالکریم، رفیع اللہ ،عاصم شاہ نوازشبلی ،امی کے پردے کی وجہ سے یہ لوگ برآمدے میں ہی رک گئے۔ صالحہ نے بتایا کہ یہ لوگ صبح آگئے تھے اور ایک دوسرے جگہ پر ٹھہرے ہوئے ہیں۔اس وقت سب یہیں پر جمع ہوں گے۔ نگار باجی کا حکم ہے کہ ٹھہریں کہیں بھی لیکن چائے ناشتہ اور طعام سب یہیں پر کریں گے۔فاطمی صاحب کمرے سے نکل کرباہر آگئے، میں اور صالحہ زرین بھی نگار صاحبہ کے ساتھ کمرے سے نکل کر باہر آگئے۔سب سے سلام دعا ہوئی۔ سب کو میرے آنے کی اطلاع ہوچکی تھی ۔ اسی اثنا میں ایک شخص آنگن کے دروازے سے داخل ہوکر گھر میں داخل ہوا۔ دراز قد ، خوب رو چہرہ، نیلی جینس اور پوری آستین کی شرٹ میں ملبوس۔

آپ سے ملئے۔ عبدالعظیم صدیقی میرے شوہر۔ نگار نے مجھ سے کہا۔تو میں نے سلام کرنے میں ذرا بخل نہیں کیا۔
عظیم ! یہ جہاں آرا سلیم،لکھنؤ سے فاطمی کی مہمان۔ ہمارا تعارف کرانے کے بعد نگار نے کچن کا رخ کیا اور آنے والوں کے لیے چائے بنا لائیں۔ چائے کی چسکیوں کے ساتھ سب آپس میں محوِگفتگو تھے۔ موضوع دوسرے دن کی کانفرنس تھا۔ نگار نے پھر کچن کا رخ کیا اور وہیں سے گفتگو میں شامل رہیں۔ شاید رات کے کھانے میں مصروف تھیں۔ برآمدے سے کچن صاف نظر آرہا تھا۔ میں اٹھی اور ٹہلتی ہوئی کچن کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ نگار گوشت دھونے میں مصروف تھیں۔’میںکچھ مدد کروں‘ میں نے کہا تو انھوں نے مجھے مڑکردیکھا ۔

ارے نہیں جہاں آرا ، آپ بیٹھئے سب ہوجائے گا۔میں نے دیکھا گیس برنرپر دوہانڈیاں چڑھی ہوئی ہیں۔کچن کی میز پر ایک ڈلیا میں بہت سی کٹی ہوئی پیاز رکھی ہے ۔اندازہ ہوا ممکن ہے دوپیازہ گوشت بنانے کی تیار ی ہے۔ چٹنی سلاد کچھ کاٹنا ہو تو بتائیں۔ میں چوپنگ بہت اچھی کرتی ہوں ۔ میرے اصرار پر وہ مسکرائیں۔ اچھا تو نیمو پیاز کی چٹنی بنالیں اور کھیرا گاجر کاٹ لیں۔ کچن اتنا بڑا نہیں تھا کہ دولوگ وہاں پر ایک ساتھ کام کرسکیں ۔ میں نے سامان اٹھایا اور برآمدے میں آ گئی۔ساڑھے دس بجے تک کھانا تیار ہو گیا۔ کھانا کھلانے کاانتظام فرش کے بستر والے کمرے میں تھا۔ بڑا سا دسترخوان بچھایا گیا۔ امی جان کمرے کے برابر اسٹور روم میں چلی گئیں۔گھر میں نگار کے دوبیٹے راجا اور ٹاٹا موجود تھے۔ یہ ان کے پیار کے نام تھے۔ پہلے پلیٹیں لائے پھر گلاس اور پانی کا جگ۔ اس بعد قابوں میں کھانا نکل کر آیا۔ اس کام میں صالحہ ، رفیع اللہ اور فخرالکریم بھائی نے مدد کی۔ سب نے ہاتھ دھوئے اور فرش پر اپنی اپنی جگہ لی۔قابیں کھلیں ،دوپیازہ گوشت ، ارہر کی دال، بگھرے ہوئے چاول ، نیمبو کی چٹنی گاجر کھیرا ، چپاتیاں اور گاجر کا حلوہ، سب نے سیر ہوکر کھانا نوش فرمایا۔دسترخوان سمٹا تو لیٹنے کا انتظام ہوگیا۔ فاطمی صاحب کے لیٹنے کا انتظام چھت کے ایک کمرے میں تھا۔ دوسرے کمرے میں عظیم صاحب اوران کے دونوںبیٹے تھے۔ امی ،نگار ،صالحہ اور میں نیچے کمرے میں لیٹے۔ رات کے بارہ بج رہے تھے۔ صبح جلد ی اٹھنا تھا۔ کمرے کی بتی گل کردی گئی۔ باہر برآمدے کے بلب کی روشنی دروازے کے پردے سے چھن کر اندر آرہی تھی۔دن بھر کی تکان ،لیٹتے ہی آنکھ لگ گئی۔

فجر کی اذان کی آواز کے ساتھ میری آنکھ کھل گئی ،دیکھا امی جان اٹھی بیٹھی ہیں، ان کے ہاتھ میں تسبیح تھی۔ ایک بار آنکھ کھل جائے تو دیر تک نیند نہیں آتی۔ میں نے آہستہ سے کروٹ بدلی اور چپ چاپ آنکھیں بند کرکے سونے کی کوشش کی لیکن نیند نہیں آئی۔ صبح کی پوپھٹتے ہی نگار اور صالحہ بھی بیدار ہوگئیں۔ایک ایک کرکے سب فریش ہوئے۔نگار چائے بنا کر لے آئیں۔ ہم لوگوں نے چائے پی۔ نگار نے مجھ سے پوچھا کہ میں کیا کرتی ہوں ،میرے گھر پر کون کون لوگ ہیں۔ میرا تعارف مختصر تھا۔………… بتا دیا۔آپ اپنے بارے میں بتائیں ، میں نے کہا۔

ایم۔اے۔فائن آرٹ اور اردو میں کیا۔ ’منٹو کی افسانہ نگاری کا تنقیدی مطالعہ‘لکھ کر پی۔ایچ ۔ڈی۔ کی ڈگری حاصل کی۔لیکن یونیوسٹی میں لکچرر شپ نہیںملی۔ شروع میں شاعری کا شوق چڑھا تھا لیکن جلد ہی افسانہ نگاری کی طرف طبیعت مائل ہوگئی۔ ایک افسانوی مجموعہ’عکس‘ منظر عام پر آچکا ہے،جس کی خاطر خواہ پزیرائی بھی ہوئی، حوصلہ بڑھا دوسرے کی تیاری چل رہی ہے۔ میرا ایک فوٹوگرافی کا اسٹوڈیو بھی ہے۔ عظیم بہت اچھے انسان ہیں اور بہت اچھے ساتھی۔دہلی کے ایک ایڈمنسٹریشن اسکول میں میں ڈرائنگ کی ٹیچر ہوں ۔کئی ادبی تنظیموں سے جڑی ہوئی ہوں۔اس لیے بہت سے ادیبوںسے جان پہچان ہے۔ نگار اپنے متعلق بتا رہی تھیں تبھی فاطمی صاحب کے کھکھارنے کی آواز آئی ، نگار اٹھ کر باہر گئیں۔فاطمی صاحب کمرے میں داخل ہوئے۔ امی جان کو سلام کیا اور فرش کے ایک کونے پر بیٹھ گئے۔ نگار ان کے لیے چائے لے آئیں۔صالحہ زرین سے تو آپ کا تعارف کراچکا ہوں۔یہ جہاں آرا سلیم ہیں۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم۔اے۔ اور پی۔ایچ۔ ڈی۔ کی ڈگری حاصل کی۔ ناقد وارث علوی ، پروفیسر ولی الحق انصاری،پروفیسر نیر مسعود رضوی، شاعر عرفان صدیقی ، افسانہ نگار غضنفر علی، جاوید دانش،غلام گردش رضوی، شاہنواز قریشی ،عابد سہیل وغیر ہ کو اپنے ادب کدے پر نشست میں بلایا۔پروفیسر ملک زادہ منظور احمد صاحب کی سرپرستی میں بہت اچھے ادبی پروگرام کراتی رہتی ہیں۔لکھنؤ کے ایک نامور تاجر جناب سلیم الرحمن کی شریک حیات ہیں جو عظیم صاحب کی ہی طرح کشادہ دل ودماغ کے مالک ہیں۔
ارے واہ،اتنی خوبیوں کے مالک، آپ نے تو اپنے متعلق یہ سب کچھ بتایا ہی نہیں،نگار نے کہا تو میں مسکرادی۔

صبح کے 8بج رہے تھے باقی مہمان بھی آگئے۔ نگار نے سب کے لیے ناشتہ تیار کیا۔ پرت دار پراٹھے، انڈے کے آملیٹ ،سوجی کا حلوہ اور چائے۔دس بجے تک گھر سے نکلنا تھا۔ چونکہ آج افتتاحی تقریب تھی۔ 11بجے جلسہ شروع ہونا تھا۔قمر رئیس صاحب روس سے تشریف لے آئے تھے ،کسی ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ الٰہ آباد سے پروفیسر عقیل رضوی بھی آچکے تھے۔کانفرنس میرا موضوع گفتگو نہیں،اس لیے اس کی بات نہیں کروں گے۔ 3بجے تک کانفرنس اختتام پذیر ہوئی۔ ہم سب جس طرح گئے تھے ،گھر واپس آگئے۔دوپہر کا لنچ کانفرنس ہال میں ہی ہوا تھا۔ گھر آکر کچھ دیر آرام کیا۔ شام 5بجے انور نزہت آگئیں۔اس کے بعد ہرچرن سنگھ چاولہ تشریف لائے۔عاصم شاہنواز ، فخرالکریم ،رفیع اللہ ، سعید عارفی بھی آگئے۔جہاں پر اتنے سارے ادیب اور شاعر جمع ہوں وہاں ادب کی بات نہ کی جائے یہ کیسے ممکن تھا۔سب سے پہلے انور نضحت نے اپنا ایک افسانہ پڑھا۔ انور نزہت کے اس وقت تک تین افسانوی مجموعے منظر عام پر آچکے تھے۔ ’’روشنی،سفید سناٹا اورقربتوں کے فاصلے‘‘اس کے بعد میزبان نگار نے افسانہ سنایا۔یہ پہلے مجموعے ’عکس‘ سے الگ تھا۔ افسانوں پر سیر حاصل گفتگو کے بعد شعر وشاعری شروع ہوگئی۔اس کے بعد کلام کی خوبی اور خامیوں کی بھی نشاندہی کی گئی۔ بعد مغرب جیسے ہی نگار نے کچن کا رخ کیا ،………’آج رات سب کا کھانا میرے غریب خانے پر ہے‘ انور نزہت نے کہا۔دعوت دے کر نضحت چلی گئیں۔محفل پھر بھی جمی رہی ۔ادیبوں اور ادب کے حوالے سے باتیں ہوتی رہیں۔اس اثنا میں نگار نے کئی بار چائے بنائی اور پلائی۔ 9بجے سب انور نضحت کے گھر ڈنر پر گئے۔ انور نزہت ،نگارعظیم کے گھر سے زیادہ دور نہیں رہتی تھیں۔ گھر بہت کشادہ اور خوبصورت بنا ہوا تھا۔نزہت صاحبہ نے اسے سجایا بھی بڑی محنت سے تھا۔ حالانکہ ان کے گھر میں بچے اور شوہر ممالک غیر میں رہتے تھے۔یہاں آکر معلوم ہوا کہ باقی لوگوں کے ٹھہرنے کا انتظام انور نزہت کی رہائش گاہ پر کیا گیا تھا۔انور نزہت نے بہت لذیز کھانا کھلایا ۔گھر واپس آتے رات کے بارہ بج گئے تھے۔نزہت صاحبہ نے نگار کی امی ،بچے اور شوہر کاکھانا پہلے ہی گھر بھجوا دیا تھا۔ اس لیے نگار بے فکر تھیں۔

15مارچ کا شڈول زبردست تھا ۔ دونوں شفٹوں میں پروگرام تھا۔اس کے باوجود نگار نے شام کو سب کے کھانے کا انتظام کیا۔مٹن قورمہ ،دھلی ارد کی سوکھی دال،چپاتی اور چاول ۔

16مارچ کو صرف دن کا پروگرام تھا اور لنچ کا بھی وہاں انتظام تھا۔ شام3بجے تک گھر واپسی ہوگئی۔ شام کی چائے نگار نے ہمیں اپنے گھر کی چھت پر پلائی۔جہاں پر دوکمرے بنے ہوئے تھے ،ایک بانس کی کپاچیوں کی ہٹ تھی جسے انھوں نے پھولوں پتیوں کی بیلوں سے آراستہ کیا تھا۔یہاںان کا ڈرائنگ کرنے کا سامان یعنی رنگ ،برش ،بورڈ ،پیپر وغیرہ رکھے ہوئے تھے۔ ہٹ کے آگے آنگن تھا۔ہٹ کے باہر بھی پھول پودوں کے گملے قرینے سے رکھے تھے۔ ہٹ میں بیٹھ کر چائے پینے کا لطف آگیا۔ اپنا گھر دکھاتے ہوئے نگار نے بتایا کہ ایک بار جب دہلی میں سیلاب آگیا تھا ،پانی میرے گھر کے دروازے تک تھا، جیسے دریا بہہ رہا ہے۔شام ہوتے عقیل صاحب بھی آگئے۔ آج کی شام عقیل رضوی صاحب کے نام تھی۔ انھوں نے کچھ تنقیدی حوالوں سے بات کی۔ کچھ اپنی نظمیں سنائیں۔سعید عارفی اور عاصم شاہنواز نے بھی غزلیں سنائیں۔ نگار عظیم کے افسانوں کے حوالوں سے بھی گفتگو ہوئی۔ نگار کے افسانے عصری آگہی کا آئینہ کہے جاسکتے ہیں۔یہ کسی نہ کسی واقعے سے یا حالات سے متاثر ہو کر لکھے گئے ہیں۔ایسا لوگوںکا خیال تھا۔ مجھے ان کے افسانوں کا اختتامیہ منٹو کے افسانوں کی طرح چونکانے والا لگا۔ ایسا ان کے دو افسانے سننے کے بعد میں نے نتیجہ اخذ کیا۔

زیادہ تر لوگوں کی رات کی ٹرین سے واپسی تھی۔ فاطمی صاحب اپنے استاد پروفیسر عقیل رضوی کو لے کر ان کے ہوٹل چلے گئے۔باقی لوگوں نے بھی 8بجے تک روانگی کی تیاری کے سلسلے سے جائے رہائش کا رخ کیا۔ گھر پر میں اور صالحہ زرین بچے۔ میرا ٹکٹ 17کی صبح کا تھا۔گھر میں سناٹا ہوا۔ نگار نے اپنا پہلا افسانوی مجموعہ مجھے پیش کیا جو آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔اس پر انھوں نے تحریر کیا ہے ’اپنی پیاری بہن جہاں آرا کے لیے،نگار عظیم 16-3-1999‘مجموعے کی کئی افسانے میں نے وہیں پڑھ ڈالے تھے۔ مثلا ’مرد، رڈ لائٹ،عکس، زخم، بھوک ،اللہ میاں،بابا، بدلے کا سہاگ وغیرہ‘ ۔
نگار کے افسانوں کو پڑھ کر محسوس ہوا کہ یہ عام آدمیوں کی کہانیاں ہیں ،تصنع سے پاک۔ انھوں نے اپنے آس پاس کی زندگی کو جیسا دیکھا اس کی بیچینی ،اس کی محرومی کو اپنی کہانیوں میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ نگار نے اپنی کہانیوں میں بیباکی، خود اعتمادی کی تصویریں بھی پیش کی ہیں۔اپنی ایک کہانی ’فرق‘ میں وہ ایک پرکشش نوجوان کی طرف فطری طور پر کھنچتی ہیںلیکن انھیں معلوم ہے کہ وہ ایک شادی شدہ عورت ہیں۔ان کے اندر ایک کشمکش ضرور ہوتی ہے لیکن جلد ہی سنبھل جاتی ہیں۔وہ اس پرکشش نوجوان کو اپنے کمسن بیٹے کی جوانی قرار دے کر اس رشتے کو ایک تقدس بخشتی ہیں۔

’اللہ میاں‘میں نگار نے بچوں کی نفسیات کوبڑی خوبصورتی سے پیش کیا ہے۔چھوٹے چھوٹے مکالمے ،کامران اور سبحان دو چھوٹے بھائیوں کے ذریعے پورا افسانہ تحریر کرڈالا۔ مکالمے ملاحظہ فرمائیں۔
ابا! امی تو کہتی ہیں ،ہرچیز اللہ میاں دیتے ہیںاور ان کی مرضی کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ تو کیا ہم جو کچھ اللہ میاں سے مانگیں گے وہ ہمیںدیں گے؟ یہ سوا ل نو برس کے کامران کا تھا۔
’ہم کب سے اللہ میاں سے پیسے مانگ رہے ہیں،اللہ میاں دیتے ہیں نہیں‘یہ جملہ چھوٹے بیٹے سبحان کاتھا جو مشکل سے چھ برس کاتھا۔

باپ آزاد ماحول کے پروردہ تھے۔ ماں کا ماحول مولیانہ تھا۔بچوں کے سوال پر باپ کو اپنی بیوی فوزیہ کی بیوقوفی پر افسوس ہورہا تھا۔وہ سوچ رہے تھے کہ بچوں کا اعتماد کس طرح واپس لائیں۔انھوں نے کہا آپ پیسے ہم سے یا امی سے کیوں نہیں لے لیتے؟
نہیں لیں گے ،نہیں لیں گے۔ دونوں ایک ساتھ بولے۔
کیوں نہیں لیں گے؟
امی پتنگ اڑانے کو منع کرتی ہیں۔اس لیے وہ نہیں دیں گی۔آپ بھی نہیںدیں گے کہ الا بلا کھاتے ہیں۔
تبھی تو ہم اللہ میں سے بڑی دیر سے مانگ رہے ہیں۔

’روشنی‘ افسانے میں وہ عورت کو مرد کے جبر سے نجات کی راہ دکھاتی نظر آتی ہیں۔ سنیتا بار بار خود کو دکھاتے دکھاتے اب شرمانا بھی بھول چکی تھی۔ آخر میں نریندر کا رشتہ آتا ہے۔ جو کسی کپڑے کی دوکان پر سیلس مین تھا۔انھوں نے سنیتا کو پسند کرلیا۔ لیکن بات یہاں آکر رک گئی کہ انھیں نوکری کرتی لڑکی چاہئے تھی۔ حالانکہ سنیتا پڑھی لکھی گریجویٹ تھی۔ بی۔ایڈ۔ بھی تھی۔ سنیتا کو یہ بات اچھی نہیں لگی۔اس نے اس رشتے سے انکار کردیا۔گھر میں جھگڑے شروع ہوگئے۔اور پھر ایک حادثہ رونما ہوا۔ ایک کار ایکسی ڈنٹ۔اس نے زخمیوں کو بچانے کی کوشش کی اور کامیاب ہوئی۔جس زخمی عورت کو اس نے بچایا وہ ایک ننھے بچے کی ماں تھی۔ بس اس حادثے نے اس کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ جئے گی ان کے لیے جن کو اس کی ضرورت ہے۔ مدرٹریسا کی طرح۔ اندھیرا چھٹ چکا تھا۔ چاروں طرف روشنی پھیل گئی۔

’عکس ‘ ان کی بہت خوبصورت کہانی ہے ۔ایک لڑکی کی نفسیات کی کہانی۔ ایک لڑکی اپنا سب سے بہتر آئیڈیل اپنے باپ میں تلاشتی ہے۔ اسی تھیم پر یہ کہانی بنی گئی ہے۔یہ کہانی تنازع کا سبب بھی بنی۔ کچھ کو پسند آئی اور کچھ نے اعتراض بھی کیا۔ مہربان باپ کا امیج محبوب کی شکل میں منقلب ہوتا ہے تو معصوم لڑکی کی حیرت کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہتا۔وہ کہہ اٹھتی ہے۔’اف میرے خدا میں نے یہ کیا دیکھ لیا‘ لیکن خواب تو خواب ہی ہوتا ہے۔خواب پر کس کا بس چلاہیـ؟
ابا اور میں اتنے قریب؟؟کاش میں نے ابا کو خواب میں دیکھنے کی خواہش نہ کی ہوتی۔
وہ خود سے پوچھتی ہے ۔’کیا میری محبت کی انتہا صرف یہی تھی؟؟؟‘

ان کے کس کس افسانے کا ذکر کروں۔ان کے ہرافسانے پر ان کے اس ماحول کا اثر نظر آتا ہے جس خانوادے سے وہ تعلق رکھتی ہیں۔ان کی زیادہ تر کہانیوں میں مرکزی حیثیت اور اہمیت عورت کو حاصل نظر آتی ہے۔ان کی کہانیوں کا اسلوب سادہ ،صاف اور شفاف ہے۔ مشکل الفاظ اور علامتوں سے پرہیز نظر آتا ہے۔

نگار نے اپنے تخلیقی سفر کی ابتدا ’عکس‘ سے کی۔ لیکن آج تین افسانوی مجموعے منظر عام پر داد وتحسین حاصل کرچکے ہیں۔ ان کے نام ہیں۔’’عکس، گہن، عمارت‘‘
ایک سفر نامہ ۔تاشقند گردآوارگی،
تنقید ’منٹو کا سرمایۂ فن و فکر‘
منٹو کی افسانہ نگاری کا تنقیدی مطالعہ
بہادر شاہ ظفر شخصیت و شاعری(موناگراف)
ہرچرن چاولہ فن اور شخصیت(مرتبہ)
انتخاب کلام ثروت میرٹھی
وہ جو کہہ گئے(مرتبہ مضامین عبدالعظیم صدیقی)
علم البیان
شعری مجموعہ زیر طباعت
عبدالعظیم صدیقی عکس زندگی کے مرتب زیر طباعت

نگار نے اپنے گھر میں نوکروں کی ریل پیل نہیں لگا رکھی ہے۔صبح کے وقت ایک لڑکی آتی ہے ۔گھر کی جھاڑو لگاکر ڈسٹنگ کرتی ،برتن دھوتی ہے اور چلی جاتی ہے۔گھر کے باقی کام نگار خود کرنا پسند کرتی ہیں۔ مثلا کھانا پکانا، چائے ناشتہ تیار کرنا، مشین میں ڈال کر کپڑے دھونا،پڑھنا پڑھانا،کالج جانا اور مہمانوں کی خاطر مدارات۔

نگار آج بھی اردو کی خدمت میں سرگرداں رہتی ہیں ۔ بنات نام کی ایک بین الاقوامی تنظیم بنائی ہے جس کے ذریعہ اردو کی آبیاری کا کام بڑے پیمانے پر کرتی رہتی ہیں۔خاص کر خواتین ادیبوں کو جوڑے رکھنے کا کام بخوبی انجام دیتی رہتی ہیں۔اب تک ان پر متعدد مضامین لکھے جاچکے ہیں۔ان کے ادبی مضامین کے مختلف زبانوں میں ترجمے بھی ہوچکے ہیں اور ان پر ایم۔فل۔ بھی کیا جا چکا ہے۔نگار بہت سرگرم خاتون ہیں ۔اپنے ارد گرد کے ماحول سے بھی باخبر رہتی ہیں۔

8423626663
٭٭٭

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular