ڈاکٹر معراج ساحل کی نعتیہ شاعری کا تنقیدی محاکمہ

0
420

ڈاکٹر معراج ساحل کی نعتیہ شاعری کا تنقیدی محاکمہ
ڈاکٹر محمد ہارون رشید
ڈاکٹر معراج ساحل کا نام نامی موجودہ دبستان لکھنؤ میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ادبی تنظیم’’بزم شمس‘‘ ان کی شناخت کا بنیادی حوالہ رہا ہے۔جس کی خدمت میںوہ نصف صدی سے زائد عرصہ تک سر گرم رہے۔بزم شمس نے ڈاکٹر معراج ساحل کی نگرانی میں تخلیقی سطح پرکچھ انقلابی اور اختراعی کارنامے بھی انجام دئے ۔عام طور سے بزموں کی نشستوں میںغزلوںپر ہی طبع آزمائی کی جاتی ہے لیکن ڈاکٹر ساحل نےبزم شمس کے زیر اہتمام سال میں اک حمدیہ طرحی مشاعرہ،ایک نعتیہ طرحی مشاعرہ ،ایک برسات کے موضوع پر طرحی مشاعرہ اور ایک غیر طرحی مشاعرے کا سلسلہ قائم کیا تاکہ مبتدی اور سینئر شعرا دونوں کی مشق سخن مختلف موضوعات پر ہو سکے۔
اس سے کوئی غرض نہیں کہ ڈاکٹر معراج ساحل کی پیدائش کب اور کہاں ہوئی اور ان کی تعلیمی لیاقت کیا ہے مزید یہ کہ انھوںنے کس کس کی شاگردی اختیار کی وغیرہ وغیرہ۔تنقیدی مطالعہ کے لئے ان امور کی لازمی حیثیت بھی نہیں ہے۔ڈاکٹر معراج ساحل کی بہاریہ شاعری پر ان کے شعری مجموعہ “افکار ساحل “کے حوالے سےلکھنے والوں نے بہت کچھ لکھا ہے اور ان کی بہاریہ شاعری کے اوصاف ومحاسن بیان کئے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ ان کی بہاریہ شاعری پر تنقیدی نگاہ نہیں ڈالی گئی بلکہ بقول مرحوم انور ندیم صرف تحسین کے رس گلے پیش کئے گئے لیکن ان کی نعتیہ شاعری کی طرف اتنی بھی توجہ نہیں کی گئی ۔میرے خیال میں وہ شاعر بد نصیب ہیں جن کے دامن میں نعت کے پھول نہیں کھلے ۔ صرف مسلم ہی نہیں بلکہ غیر مسلم شعرا کی ایک بڑی تعداد ہے جنھوںنے نعت کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بنایا ۔ ڈاکٹر معراج ساحل نے محض برکت و رحمت کی طلبی کے نام پریا نعتیہ مشاعروں کی ضرورت کی بنا پر نعتیں نہیں کہیں بلکہ انھوں نے نعت و منقبت کو اپنی زندگی میںایک مشن کے طور پر اپنایااور اپنی عمر کا خاصا حصہ نعتیہ شاعری میں صرف کیا۔ان کے قلم سے صفحۂ قرطاس پر منتقل ہونے والی نعت اور منقبت لکھنؤ اور دوسرے اضلاع میں انجمنوں کے مقابلوں میں پڑھی جاتی ہیں ۔(حالانکہ نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک بہاریہ اور نعتیہ شاعری کے میدان میں سر گرم کردار ادا کرنے کے بعد بھی وہ غزل کا ایک مجموعہ”افکار ساحل ” دے گئے اور نعتیہ شاعری میں بھی ایک مجموعہ “شمع رسالت دے گئے۔حالانکہ امید تھی کہ ان کے پاس بہت کچھ ذخیرۂ شعری بر آمد ہوگا لیکن ایسا کیوں نہیں ہوا۔یہ سوال اپنے آپ میں اہم ضرور اہم ہے۔یہی سوال ان کے استاد عبرت صدیقی کے بارے میں بھی کیا جاتا رہا ہے کہ اس قدر زود گو شاعر کا صرف ایک مختصر سا شعری مجموعہ ہی منظر عام پر آ سکا ۔آخر ان کی شاعری کا بیشتر حصہ کہاں گیا) بہر حال آئے ڈاکٹر معراج ساحل کی نعتیہ شاعری کا جائزہ لیا جائے اور ان کے اشعار کی روشنی میں یہ دیکھنے کی منطقی اور معروضی کوشش کی جائے کہ وہ نعتیہ شاعری میں کہاں تک کامیاب ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم ڈاکٹر معراج ساحل کی نعتیہ شاعری کا جائزہ لیں یہ سمجھ لینا ضروری ہے کہ نعت کو ایک مشکل صنف سخن کیوں کہا گیا اور اسے بعض دانشوران نے تلوار کی دھار پر چلنے سے کیوں تعبیر کیا ہے۔
نعت عربی لفظ ہے اور احادیث شریفہ میں بھی اس لفط کا وجود ملتا ہے۔اگرچہ عربی زبان میں تعریف و توصیف کے لئے دوسرے الفاظ بھی موجود ہیں لیکن مرور زمانہ کے زیر اثر ’’حمد ‘‘ اللہ کی تعریف کے لئے اور’’نعت‘‘حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کے لئے مخصوص ہو گیا۔ اس لئے نعت سے حضور ﷺ کی صورت اورسیرت کا منظوم بیان ہی مراد لیا جاتا ہے۔اگر چہ نعت کے لئے کوئی مخصوص ہیئت نہیں ہے۔اصناف شعر کے کسی بھی پیکر میں نعتیہ مضمون کی جلوہ آرائی ممکن ہے۔عربی میں نعت کا وجود خود آنحضرت ﷺ کی ایما و منشا پر ہی عمل میں آیا۔حضوررﷺ کانعتیہ کلام کے عوض اصحاب کرام کو نوازنے کا ثبوت بھی تاریخ میں موجود ہے۔حضرت حسان ؓ کو مسجد نبوی کے منبر پر بٹھاکر ان سے نعت سننے کے تاریخی شواہد بھی موجود ہیں۔عربی کے بعد فارسی اور ترکی زبان میں نعتیہ شاعری داخل ہوئی اور فارسی کے زیر اثر اردو میں بھی نعتیہ شاعری باقاعدہ ایک صنف کے طور پر تسلیم کی گئی۔ارو میں نعتیہ شاعری کے نقوش سب سے پہلے کہاں ملتے ہیں ۔اس سلسلہ میں ڈاکٹر نسیم اقتدار علی ’’سہ ماہی کاوش‘‘کے محسن انسانیت نمبر میں رقم طراز ہیں:۔
’’اس (نعت کے)سلسلے میںپہلا نام خواجہ بندہ گیسو دراز کا آیا ہے۔ہمیں ابتدائی نعت کا
جو نمونہ اردو میں ملتا ہے وہ انھیں سے منسوب ہے۔ان کاانتقال ۱۴۲۲ ء میں ہوا تھا۔گویا
اردو میں نعت گوئی کا سلسلہ پندرھویں صدی عیسوی کی ابتدا سے شروع ہو گیا تھا‘‘
خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کے بعد قلی قطب شاہ،عبداللہ قطب شاہ،ولی دکنی،سراج اورنگ آبادی،میر تقی میر،میر حسن دہلوی،میرزا محمد رفیع سودا ،اسد للہ خاںغالب،حکیم مومن خاں مومن،مصطفے خاںشیفتہ ،نواب مرزا خاںداغ دہلوی، میرحسن ،شیخ امام بخش ناسخ،میر انیس،مرزا دبیر،انشاللہ خاںانشا،مصحفی،جرات، (طوالت کے خوف سے ان کے اشعار سے گرزیا کیا جارہا ہے)ایک طویل سلسلہ ہے جنھوں نے نعتیںکہیں اگرچہ نعتیہ شاعری میں ان شعرا کا کوئی خاص مرتبہ و مقام نہیں ہے۔لیکن نواب مرزاخاںداغؔدہلوی کے ہمعصروںمیں محسن کاکوروی اور امیر مینائی کے نام نعتیہ شاعری میںبقائے دوام کی حیثیت اختیار کر گئے۔ڈاکٹر معراج ساحل کا سلسلہ بھی امیر مینائی سے ملتا ہے۔وہ ایسے کہ معراج ساحل کے استاد عبرت صدیقی ابوالفضل شمس ؔکے شاگرد تھے اور ابوالفضل شمس صاحب( جن کے نام سے منسوب ایوارڈ آج فاروق جاذب صاحب کو دیا جانا ہے) برکت صاحب کے شاگرد تھے اور برکت صاحب امیر مینائی کے شاگرد تھے۔
ظاہر ہے کہ نعت کے لئے جب شعری پیکر طے پا گیا تو نعت کے شعری تقاضے بھی وہی ہو ں گے جو اچھی شاعری کے لئے ہوتے ہیں لیکن صرف محاسن شعری سے بات نہیں بنتی بلکہ اس سے بھی سخت مرحلہ شرعی تقاضوں کا ہے۔جس کے لئے عقائد اور تاریخ اسلام کے علم کی بھی ضرورت ہے۔اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ شاعری کے لئے علم کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ شاعر تلمیذ الرحمنٰ ہوتا ہے۔اور’’ آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں‘‘لیکن نعت میں یہ کہاوت صادق نہیںآتی۔ڈاکٹر عزیز احسن لکھتے ہیں۔
’’ نعت گو شاعر کو خیال کی طہارت،فکر کی نزہت،و نظافت،تخیل کی رفعت اور بیان کی عفت
کا پاس رکھنا ضروری ہے۔خیال کی اصابت کے لئے اسے قرآن و احادیث اور آثار صحابہ
کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذخیرے سے بھی استفادہ کرنا ہو گا اور تاریخ اسلام
کے مطالعے کی بھی ضرورت ہوگی۔بیان کی عفت کے لئے لفظون کی پرکھ کی استعداد
پیدا کرنا ہوگی۔نعت میں اپنے احساسات کے اظہار میں تو صرف احساس کی پاکیزگی اور
اظہار کی شائستگی ہی درکار ہو گی لیکن نبی ﷺ یا آپ کی تعلیمات کے حوالے سے جو بات
کہی جائے گی اس کے لئے سند بھی درکار ہوگی۔(جس کا خیال اکثر شعرا نہیںرکھتے۔اور اگر ٹوک دیجئے تو مرنے مارنے پہ تل جائیں یہ غلطیاں بڑے بڑے صاحب دیوان شعرا کے یہاں بھی پائی جاتی ہیں)
اس لئے ایک کامیاب نعت وہی ہے جس میں شرعی اور شعری تقاضوں کی ہم آہنگی موجود ہو۔عقیدت اور محبت کے جوش میں رسولﷺ کا مرتبہ محبوب کے دائروں سے نکل کر معبود تک نہ پہونچ جائے۔تاریخی واقعات نظم کرنے میں من گڑھت اور جھوٹی روایتیں نہ آنے پائیں۔عوام سے واہ واہی کے بجائے رضائے خدا وندی مقصود ہو۔ہمارے رسول ﷺ اللہ کے آخری نبی ہیں،ان ہی پر نبوت تمام ہے اور دین کی تکمیل بھی ہو چکی ہے۔اور ان کے ہی صدقے میں انسان کو اشرف المخلوقات یعنی تمام مخلوق میں افضلیت کا درجہ حاصل ہے۔ ڈاکٹر معراج ساحل نبی کریم سے اپنی محبت اور خلوص وعقیدت کے پھول اشعار کی صورت میں پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں اور درست کہتے ہیں کہ
جس قدر قربت نبی ہوگی
معتبر اتنی زندگی ہو گی
جب بیاں سیرت نبی ہو گی
بارش نور لازمی ہوگی
جتنے اعمال ہوں گے پاکیزہ
قبر میں اتنی روشنی ہوگی
ان اشعار میں شاعر نے سرکار دو عالم ﷺ سے صرف محبت اور عقیدت ہی نہیں پیش کی بلکہ پہلے شعر میں صداقت،دوسرے شعر میں فضیلت اور تیسرے شعر میں حقیقت بیان کرتے ہوئے ایک پیغام بھی دیا ہے وہ پیغام جسے لے کے سرکار دنیا میں تشریف لائے ۔سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ اشعار سہل ممتنع میں کہے گئے ہیں۔یعنی نثر اور نظم کے خط امتیاز کوبڑی خوبصورتی سے برقرار نہیں رکھنے میں کامیاب ہیں ۔اسی طرح کے یہ اشعار بھی ملاحظہ ہوں
بیدار جو تھے ان کو نیا حوصلہ دیا
جو سو رہے تھے ان کونبی نے جگا دیا
بو کر نگینے نور کے بنجر زمین میں
یثرب کو مصطفے نے مدینہ بنا دیا
حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ جہاں ذکر رسول ہوتا ہے وہاں فرشتے بھی آکر اس ذکر میں شامل ہو جاتے ہیں۔اس باتا کو شعری پیکر میں یوں ڈھالا ہے کہ
فرشتے عرش سے ّآتے ہیں سننے بزم آقا میں
یہی ہوتا ہے ساحلؔ نعتیہ اشعار کا جلوہ
یہ بلیغ شعر بھی ڈاکٹر معراج ساحل کے قلم سے نکلاجودو مصرعوں میں اصحاب کرام کی پوری تاریخ رقم کر گیا۔جس کے پہلے مصرعے میںدعوی کیاگیا اوردوسرے مصرعے میں تاریخی حوالوں کے ساتھ دلیل پیش کر دی گئی یہ دعوی اور دلیل کی شاعری اردو میں غالب کا طرۂ امتیاز ہے۔
وہ جس کے دل میں نبی کا چراغ جلتا ہے
ہوا کی زد پہ اسی کا چراغ جلتا ہے
رعایت لفظی کے ساتھ فنی کمالات کے مظہر یہ شعر بھی ملاحظہ ہوں(رعایت لفظی کے کمالات آپ کو جاذب صاحب کی شاعری میں کثرت سے ملیں گے)
کفر کی ظلمت چھٹی روشن ہوا حق کا چراغ
نور پھیلا ہر طرف نورالہدیٰ کا فیض ہے
ہم جھلس کر رہ گئے ہوتے غموں کی دھوپ میں
وہ تو کہیے سایۂ شمس الضحیٰ کا فیض ہے
بارش انوار کیوں ہوتی ہے یہ سوچا کبھی
کوہ فاراں سے جو اٹھی اس گھٹا کا فیض ہے
بھر گئی ہے جس کے دم سے اس زمیں کی سونی گود
ہے کرم اللہ کا اور آمنہ کا فیض ہے
پہلے شعر میںکفر ،حق،ظلمت ،روشنی،نور،نورالہدی اور دوسرے شعر میں جھلسنا،دھوپ،سایہ، شمس الہدیٰ ،تیسرے شعر میں بارش،گھٹا اور کوہ ،چوتھے شعر میں زمیں کی سونی گودبھرنا کی رعاتیں کیا فنی حسن پیدا کرتی ہیں اسے اہل فن ہی سمجھ سکتے ہیں۔

DR MERAJ SAHIL

نبی کریم سے اس قدر محبت اور عقیدت کے باوجود مدینہ کی حاضری بھی انھیںکو نصیب ہوتی ہے جن پر اللہ کا خصوصی کرم ہو جائے ۔ہر مسلمان روضہ رسول ﷺپر پر حاضری کی تمنا اپنے دل میں رکھتا ہے اور اللہ تعالی سے دعا کرتا ہے کہ اسے ایک بار درِ رسول کی حاضری نصیب ہو جائے ،ڈاکٹر معراج ساحل بھی یہ تمنا اور خواہش اپنے دل میں رکھتے تھے لیکن انھیں ایک موقع آنے کے باوجود بھی دیارِ رسول کے دیدار کا شرف حاصل نہیں ہو سکا ہے ۔ہر مرتبہ ایک قافلہ ان کی آنکھوں کے سامنے چلا جاتا رہا۔وہ اپنی حسرت اور کیفیت کا بیان اپنی نعتیہ شاعری میں بھی کرتے رہے۔اور اس عقیدے کااظہار بھی کرتے کہ مدینے جانے والوں کو حسرت سے دیکھنے والی نظر بھی اتنی پاک ہوتی ہے کہ چاند سورج بھی اس کوبہ نگاہ رشک دیکھتے ہیں۔ ملاحظہ ہوں:۔
گنبد خضری جدھر تھا ہم ادھر دیکھا کئے
رشک و حسرت سے ہمیں شمس و قمر دیکھا کئے
جانے والے مسکرا کے سوئے کعبہ چل دئے
ہم غریب اپنے ہی گھر کے بام و در دیکھا کئے
نعتیہ شاعری میں شروع سے ہی حضور سے محبت عقیدت،مدینہ حاضری کی حسرت،نبی سے دوری کا غم،آُپ کا حلیہ مبارک ،آپ کے گیسوو رخسار، آپ کے لب لعلیں،آپ کا کھانا آپ کی چٹائی مبارک وغیرہ کا بیان مختلف انداز میں موجود رہا ہے۔لیکن لکھنؤ اسکول نے مدح صحابہ کی تحریک کے تحت نعتیہ شاعری میں یہ رجحان بھی پیدا کیا کہ نعت کا مطلع حمد کا رکھا جانے لگا اور نعت میں منقبت اصحاب کرام بالخصوص خلفائے راشدین کے اوصاف بھی لازمی طور پربیان کئے جانے لگے ۔یہ رجحانات ڈاکٹر معراج ساحل کی نعتیہ شاعری میں بھی موجود ہیں۔ان کی نعتیہ شاعری کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے صرف عقیدت و محبت اور جذبات پاکیزہ کا بیان ہی نہیں کیا بلکہ ایسے اشعار بھی نظم کئے جن میں نبی کی سیرت کا پیغام اوران پر ذوق عمل کی دعوت بھی دی گئی۔لیکن یہ پیغام اور دعوت براہ راست خطاب کی صورت میں نہیں ہے جو شاعری کا عیب تصور کیا جاتا ہے بلکہ اسے فن کے ضابطوں کی پابندی کرتے ہوئے کامیابی سے برتا ہے۔یہی ڈاکٹر معراج ساحل کی نعتیہ شاعری کا امتیاز ہے۔
نعتیہ شاعری کی طرف اردو تنقید نے با ضابطہ طور پرکوئی خاص توجہ نہیں کی تھی لیکن یہ خوش کن امر ہے کہ اب تنقید نعت کی طرف متوجہ ہورہی ہے اور نعتیہ شاعری کو محض عقیدت کی نگاہ سے نہیں بلکہ ایک صنف ادب کی حیثیت سے دیکھا جا رہا ہے۔ توجہ کی کمی کے باعث اس طر ح کے اشعار بھی ہوئے ہیں۔
جو امی لقب کی ستائش ہوئی ہے
تو ناکامی اہل دانش ہوئی ہے
اہل دانش کی ناکامی غیر محتاط ہے کیونکہ اہل دانش کا تعلق کسی مذہب یا کفر و باطل سے نہیں ہے۔یہ محض قافیہ پیمائی کا نتیجہ ہے۔امی اور اہل دانش میں ایک رعایت ضرور موجود ہے جو شعر کی صرف ظاہری ہیئت کی خوبصورتی میں اضافہ ہے۔
گنہگار بھی خلد میں جا رہے ہیں
وہ دیکھو نبی کی سفارش ہوئی ہے
نبی کی سفارش کے بعد پھر کوئی گنہگار نہیں ہوگا۔ گناہ معاف ہو جائیں گے اور بندہ پاک صاف ہو جائے گا تبھی خلد میں جائے گا۔خلد میں جانے والے کو اب گنہگار نہیں کہا جائے گا۔
عرش پر بھی نور تھا پہلے برائے مصطفیٰ
جب ضروری ہو گیا دنیا میں آئے مصطفیٰ
برائے مصطفے نور ہونے سے بات واضح نہیں ہوتی کہ شاعر کیا کہنا چاہتا ہے۔کیونکہ نورِمصطفیٰ اور نوربرائے مصطفیٰ میں فرق ہے۔دوسرے مصرعے کی ساخت کچھ ایسی ہو گئی ہے جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ عرش پر مصطفیٰ موجود تھے لیکن جب ضروری ہو گیا تو دنیا میں تشریف لے آئے۔یہ معنوی بعد بھی ہے۔
مونس و مشفق کملی والے آپ یتیموں کے رکھوالے
ماں اور باپ سے بڑھ کر شفقت صلی اللہ علیہ وسلم
’’ صلی اللہ علیہ وسلم ‘‘کی ردیف بہت مشکل ہے اسے بہت سے شعرا نے اختیار کیا ہے لیکن شائد ہی کہیں نباہ ٹھیک طرح سے ہو پایا ہو۔مذکورہ شعر میں بھی یہی کمی ہے کہ ردیف پورے شعر کا احاطہ نہیں کرتی۔اگر ردیف کو پہلے مصرعے سے جوڑ کے دیکھا جائے تو ردیف اپنا کام کرتی نظر آتی ہے۔
پریشانی وہاں کوئی کہاں معلوم ہوتی ہے
مدینے کی زمیں دارالاماں معلوم ہوتی ہے
یہاں’’معلوم ہوتی ہے‘‘ ردیف ساکت ہے کیونکہ’’ معلوم‘‘ میں تیقن کے بجائے تشکیک ہے۔اور مدینے کی زمین یقینی طور پردارالاماں ہے اس میںکسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔مجموعی حیثیت سے اگر دیکھا جائے تو ڈاکٹر معراج ساحل کی نعتیہ شاعری میںوہ شکوہ لفظی نہیں ہے جس سے معانی مغلوب ہو جائیں، وہ تہہ داری بھی نہیں ہے جس کے زیر اثرمفہوم میں پے چیدگی پیدا ہو جائے ،زبان کا وہ جادو بھی نہیں ہے جو عام قاری کے لئے درونِ معنی اترنے میںمانع ہو۔اور بیان میں وہ طلسمی کیفیت بھی نہیں ہے کہ مفہوم عنقا ہو جائے لیکن ڈاکٹرمعراج ساحل کا اپنا ایک لہجہ ضرورہےجو ان کی شناخت ہے اور لہجے کی شناخت قائم کر لینادنیائے شاعری میں آسان نہیں ہے۔اس کے لئے ایک عمر درکار ہوتی ہے جو انھوں نے صرف کی ۔اس لئے یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ لکھنؤ کی نعتیہ شاعری کی تاریخ جب بھی مرتب کی جائے گی تو ڈاکٹر معراج ساحل کی نعتیہ شاعری کا ذکر کئے بغیر وہ تاریخ معتبر نہ ہوگی۔

ڈاکٹر محمد ہارون رشید۔موبائل؛9956779708

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here