Monday, May 6, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldنگارشاتِ خواجہ احمد عباس کی بازیافت

نگارشاتِ خواجہ احمد عباس کی بازیافت

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

حقانی القاسمی
اردو زبان و ادب میں خواجہ احمد عباس (پ: 7جون 1914، و:1جون 1987) جیسی متنوع شخصیتیں کم ہیں جن کا دائرہ عمل کئی جہتوں اور زاویوں پر پھیلا ہوا ہو اور جو صرف ایک ہی زبان میں محصور نہ ہو، خواجہ احمد عباس کا امتیاز یہ ہے کہ انھوں نے نہ ایک زبان اور نہ ایک میدان کو منتخب کیا بلکہ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں لکھا اور صرف ادبیات کو ہی اپنا محور و مرکز نہیں بنایا بلکہ سماجیات، سیاسیات، اقتصادیات، فنون لطیفہ اور دیگر عالمی عصری مسائل کو بھی اپنا موضوع بنایا۔ ایک طرف جہاں انھوں نے فکشن کے ذریعے عصری، سماجی، سیاسی موضوعات کو پیش کیا وہیں اپنے کالم کے ذریعے سماجی اور سیاسی شعور کی بیداری کا بھی کام لیا۔ ان کی گفتگو بنیادی طور پر عوام سے تھی اس لیے انھوں نے اپنی تحریروں میں عوامی مسائل کو ترجیح دی اور اس کے لیے جتنے بھی ذرائع ہوسکتے تھے سب کا استعمال کیا۔ فلم کے ذریعے بھی انھوں نے وہی کام لیا جو وہ اپنے سیاسی کالموں کے ذریعے لیتے رہے۔ بنیادی طور پر وہ عوام کے فنکار اور عام آدمی کے تخلیق  کار تھے۔ان کے لیے عوامی مسائل اور موضوعات زیادہ اہمیت کے حامل تھے۔ ان کا بنیادی مقصد ایک مثالی سماج اور آئیڈیل سوسائٹی کی تشکیل ہے جہاں سب کو آزادی اور سماجی معاشی انصاف اور مساوات ملے۔ سماج سے ان کی بڑی گہری وابستگی تھی۔ ان کی کہانیوں کے موضوعی سروکاروں میں استعماریت کی مزاحمت، سماجی شعور کی بیداری، اربنائزیشن کے منفی اثرات اور امن و دوستی ہیں۔انھوں نے جاگیردارانہ سماج، استعماریت اور آرتھوڈوکسی کے خلاف آواز بلند کی۔ ان کا کہنا تھا کہ آسمان اور زمین کے درمیان تو فاصلے کم ہوگئے مگر آدمی او رآدمی کے درمیان دوریاں کم نہیں ہورہی ہیں۔ یہ خیال بھی ان کی خوب صورت سوچ کا مظہر ہے کہ اکیس کمروں میں ایک آدمی رہتا ہے اور کہیں کہیں ایک کمرے میں اکیس آدمی۔ اس طرح کا سماجی اور طبقاتی تفاوت ختم ہونا چاہیے۔ ان کے بیشتر کردار اسی طرح کے ترقی پسندانہ افکار کے حامل ہیں۔ ان کی تحریروں کے مرکز میں Common man ہے اس لیے بھوک، غربت، معاشی سماجی استحصال پر ان کی کہانیاں زیادہ ہیں۔ انھوں نے عورتوں کے استحصال، آزادی اور حقوق کو بھی اپنے افسانوں کا موضوع بنایا ہے اور مضبوط نسائی کردار بھی عطا کیے ہیں۔
(ان  کے thematic concerns کے لیے دیکھیے:    The Short Stories of K.A. Abbas, By H.S Chandalia)
خواجہ احمد عباس  نے مختلف اصناف میں جو تحریریں چھوڑی ہیں وہ اتنی زیادہ ہیں کہ ان سب کو سمیٹنا بہت مشکل کام تھا۔ انھوں نے افسانے، ناول، ڈرامے، مضامین، مکالمے، سفرنامے، سوانح اور کالم لکھے۔ اس طرح ان کی تحریروں کا دائرہ بہت وسیع ہے اور خوبی کی بات یہ ہے کہ خواجہ احمد عباس نے بیشتر تحریروں میں جمالیاتی اور فنی معیار کو قائم رکھنے کی کوشش کی ہے۔
خواجہ احمد عباس کی تحریروں کو جمع کرنا اور انھیں موضوعی اور صنفی ابواب بندی کے ساتھ مربوط اور منظم شکل میں پیش کرنا یقینا ایک کارِ دشوار تھا۔ مقامِ شکر ہے کہ پروفیسر ارتضیٰ کریم نے اس کام کا بیڑہ اٹھایا۔خواجہ احمد عباس کے بیشتر تحریری سرمایے کو آٹھ جلدوں میں سمیٹ دیا اور کوشش یہ کی ہے کہ ان کی بکھری ہوئی تحریریں کلیات میں شامل ہوجائیں تاکہ خواجہ احمد عباس کی مجموعی اور کلی قرأت ممکن ہوسکے۔ پروفیسر ارتضیٰ کریم اپنے اس مقصد میں کامیاب ہیں کہ انھیں خواجہ احمد عباس کی بیشتر تحریریں دستیاب ہوگئیں۔
پروفیسر ارتضیٰ کریم کی مرتب کردہ کلیات آٹھ جلدوں پر محیط ہے۔ یہ کلیات قومی اردو کونسل، نئی دہلی نے شائع کی ہے۔
پہلی، دوسری اور تیسری جلد میں خواجہ احمد عباس کے افسانے شامل کیے گئے ہیں۔ جلد اوّل میں ان کے پانچ افسانوی مجموعوں میں شامل افسانوں کا انتخاب کیا گیا ہے جس میں چھبیس سال کی عمر میں لکھا گیا ان کا پہلا افسانہ ’ابابیل‘ بھی شامل ہے جو رسالہ ’جامعہ‘ نئی دہلی جون1936 میں شائع ہوا تھا۔ یہ خواجہ احمد عباس کی سب سے بہترین کہانی ہے جو دنیا کی بہترین کہانیوں کے انتخاب West German Anthology میں بھی شامل ہے جس کے لیے ہندوستان سے خواجہ احمد عباس کے علاوہ صرف رابندر ناتھ ٹیگور اور ملک راج آنند کی کہانیاں ہی منتخب کی گئی تھیں۔
اس کے علاوہ ان کے افسانوی مجموعوں ’ایک لڑکی‘ (1942)، پاؤں میں پھول (1948)، زعفران کے پھول (مارچ  1948)، میں کون ہوں (1949)، کہتے ہیں جسے عشق (1953) سے افسانوں کا انتخاب کیا گیا ہے۔ ان مجموعوں میں شامل جتنے بھی افسانے ہیں  وہ فنی اعتبار سے بہت اہم ہیں۔ ان پانچوں مجموعوں میں جن افسانوں کو شامل کیا گیا ہے وہ مختلف مسائل اور موضوعات پر محیط ہیں۔ ان سے خواجہ احمد عباس کا فنی اور فکری تنوع بھی سامنے آتا ہے۔
دوسری جلد بھی افسانوں پر مشتمل ہے جس میں خواجہ احمد عباس  کے افسانوی مجموعے ’گیہوں اور گلاب‘ (1955)، دیا جلے ساری رات (1959)، نئی دھرتی نئے انسان (1977)، نیلی ساڑی (1982)، سونے چاندی کے بت (1986) سے افسانوں کا انتخاب کیا گیا ہے۔ ان مجموعوں میں بھی جو افسانے ہیں وہ اس اعتبار سے اہمیت کے حامل ہیں کہ خواجہ احمد عباس  نے ان میں تکنیکی تجربے بھی کیے ہیں۔ خاص طور پر ’روپے آنہ پائی‘ یہ ایک نیا تجرباتی افسانہ ہے  جس میں آمدنی اور خرچ کا گوشوارہ پیش کیا گیا ہے۔ Indian Literary Review کو 18دسمبر 1970میں انٹرویو دیتے ہوئے خواجہ احمد عباس نے اس کہانی کے بارے میں بتایا کہ جب ایک انگریزی میگزین کو یہ کہانی بھیجی گئی تو اکاؤنٹ بک کی تفصیل سمجھ کر اسے واپس کردیا مگر جب خواجہ احمد عباس نے اس کی وضاحت کی تو کہانی اہتمام کے ساتھ شائع کی گئی۔اس کہانی کا بہت عمدہ تجزیہ محترمہ طاہرہ نقوی نے کیا ہے۔(تفصیل کے لیے دیکھیے: Rupiya, Anna Pai: A Life Told on the Pages of an Accounts Ledger)
اس طرح کے اور بھی تجربے انھوں نے کیے ہیں۔ خواجہ احمد عباس کا کمال یہ ہے کہ ان کا مشاہدہ اور تجربہ بہت وسیع ہے۔ خاص طور پر سماجی معاملات اور معمولات پر بہت گہری نظر ہے۔ انھوں نے Humanistic Concern کی کہانیاں لکھی ہیں۔ عوامی درد و کرب سے ان کا بہت گہرا رشتہ رہا ہے۔ اس لیے ان کے افسانوں کی اساس ان مسائل اور موضوعات پر ہے جن سے عوام کا شب و روز کا رشتہ رہا ہے۔ وہ عوامی مسائل کو بڑی ہی تخلیقی ہنرمندی اور فنکاری کے ساتھ پیش کرتے ہیں اور سماج کے نشیب و فراز اور مدو جزر کو اپنے افسانوں کا حصہ بناتے ہیں۔ اس طرح ان کے افسانوں کا رشتہ اس افادیت سے جڑ جاتا ہے جس کی توقع ادب سے کی جاتی ہے۔ وہ ایک مقصدی فن کار ہیں اسی لیے اپنے افسانوں میں مقصدیت کو ترجیح دیتے ہیں اور ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کے خیالات کی ترسیل ہر خاص و عام تک ہوجائے۔
تیسری جلد میں خواجہ احمد عباس کی وہ کہانیاں شامل کی گئی ہیں جو ان کے کسی بھی مجموعے میں نہیں ہیں۔ اس جلد کی کہانیاں اس  اعتبار سے اہم ہیں کہ یہ مختلف رسائل اور اخبارات میں تلاش و جستجو کے بعد شامل کی گئی  ہیں۔ اس جلد میں ہفت وار عوامی دور نئی دہلی، شاہراہ، نقوش، شاعر، ساقی، شمع، بیسویں صدی  سے کہانیاں  لی گئی ہیں۔ اس میں تقریباً چالیس افسانے ہیں اور یقینی طور پر ان افسانوں کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ خاص طور پر آؤ تاج محل کو ڈھائیں، پانچ گھڑوں کا تاج محل، تین عورتیں اور ایک ریل، دل ہی تو ہے، پیرس کی ایک شام، انٹلکچول اور بینگن، اہم افسانے ہیں اور یہ وہ افسانے ہیں جن پر شاید کم گفتگو ہوئی ہے۔ جبکہ موضوعی اعتبار سے یہ افسانے بہت قیمتی ہیں۔
ان تین جلدوں میں خواجہ احمد عباس کی تقریباً پوری افسانوی کائنات سمٹ آئی ہے۔ پروفیسر ارتضیٰ کریم نے ان کے افسانوں کے تعلق سے لکھا ہے کہ ’’انھوں نے تقریباً سواسو کہانیاں لکھی ہیں اور ان کے افسانوی مجموعوں کی تعداد دس ہی ہے اور بقیہ افسانوی مجموعے انہی دس مجموعوں کی بنیاد پر اردو کے پبلشرز اپنے اپنے طور پر تیار کرتے رہے اور بازار میں لاتے رہے جنھیں جعلی ایڈیشن بھی کہا جاسکتا ہے۔ ان مجموعوں میں بھی بعض افسانے اشاعت مکرر کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘ انھوں نے یہ بھی تحریر کیا ہے کہ ’’بعض لوگوں نے ان کے مضامین کو افسانہ تصور کرتے ہوئے افسانے کے زمرے میں شریک کرلیا ہے۔ یہی سہو رام لعل اور پروفیسر صغریٰ مہدی سے ہوا ہے۔‘‘
اردو کی طرح انگریزی اور ہندی میں بھی ان کی کہانیاں چھپی ہیں ۔اردو میں ان کی کہانیوں کا ایک انتخاب مشہور افسانہ نگار رام لعل نے ’خواجہ احمد عباس کے منتخب افسانے ‘ (1988)کے عنوان سے شائع کیا ہے جس میں سترہ افسانے ہیں۔ ایک افسانہ ’سردارجی‘ بھی ہے جسے ’میری موت‘ کے عنوان سے شامل کیا گیا ہے۔ کیونکہ اس افسانے پر سکھوں نے احتجاج کیا تھا اور خواجہ احمد عباس پر مقدمہ بھی چلایا گیا  تھا جس کی تفصیل خواجہ احمد عباس نے اپنے ایک انٹرویو میں بھی بیان کی ہے۔ محترمہ صغریٰ مہدی نے بھی ’اگر مجھ سے ملنا ہے‘ (2014) کے عنوان سے ان کے افسانوں کا انتخاب شائع کیا تھا جس میں 18 افسانے شامل ہیں۔
انگریزی میں ان کی جو کتابیں مشہور ہیں ان میںI am not an Island (جس کا پیش لفظ امیتابھ بچن نے لکھا ہے اور سریش کوہلی نے اسے ایڈٹ کیا ہے)، Bread, Beauty Revoution (انگریزی میں عفت فاطمہ  اور سیدہ سیدین حمید نے ایڈٹ کیا ہے):
w Inquilab
w An Evening in paris and other Stories
w Sardar Ji and other Stories,
w An Evening in Lucknow,
w Bombay My Bombay,
w The Walls of Glass,
w That Woman
قابل ذکر ہیں۔
 اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خواجہ احمد عباس  نہ صرف اردو بلکہ ہندی اور انگریزی کے بھی مقبول افسانہ نگار تھے اور ان کو پسند کرنے والوں کا ایک بڑا حلقہ تھا جو کسی ایک لسانی دائرے میں محصور نہیں تھا۔ ان پر اردو میں راج نرائن راز نے ’خواجہ احمد عباس :افکار، گفتار، کردار‘ (1989) کے عنوان سے ایک کتاب مرتب کی تھی جس میں مشاہیر ادب کی تحریریں شامل ہیں اور خواجہ احمد عباس کے شخصی اور فنی زاویوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ ان کے علاوہ عباس رضا نیراور ڈاکٹر غلام حسین کی کتابیں بھی خواجہ احمد عباس کے حوالے سے شائع ہوچکی ہیں۔ وہیں انگریزی میں بھی خواجہ احمد عباس کی تحریروں کو تحقیق و تنقید کا موضوع بنایا گیا ہے۔ ان کے فکر و فن پر انگریزی میں صرف مضامین نہیں لکھے گئے بلکہ کتابیں بھی لکھی گئیں جن میں درج ذیل کتابیں  قابل ذکر ہیں :
 (1) Ahmad Hasib, The Novels of Khawja Ahmad Abbas: A Study in His Art and Vision (Delhi: Seema Publications, 1987)
(2) Chandalia, H.S., Ethos of Khwaja Ahmad Abbas (Jaipur: Bohra Prakashan, 1996)
اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ان کی تحریروں میں لوگوں کو اپیل کرنے کی یا مہمیز کرنے کی پوری قوت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ خواجہ احمد عباس کی کہانیوں کو جتنی مقبولیت اردو میں ملی اتنی ہی مقبولیت ہندی اور انگریزی میں ملی اور کسی بھی تخلیق کار کے لیے یہ بہت بڑا اعزاز ہوتا ہے کہ اس کو پسند کرنے والا طبقہ مختلف لسانی اور تہذیبی معاشرے سے تعلق رکھتا ہو۔ یہ ان کی آفاقی نظر کو بھی واضح کرتا ہے کہ ان کے افسانوں کا تخاطب کسی خاص طبقے یا سماج سے  نہیں تھا بلکہ پوری انسانیت سے تھا اور ایسے ہی انسانی افکار و اقدار کی ترسیل کی وجہ سے خواجہ احمد عباس کو مختلف ذہن اور مزاج رکھنے والے افراد نے قبول کیا ہے۔
خواجہ احمد عباس کے جگر میں سارے جہاں کا درد تھا۔ ان کا بنیادی رشتہ انسانیت سے تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ :
“Every writer, should be a humanist.”
انھوں نے ’غبارِ کارواںمیں لکھا ہے:
انسانیت اور سوشلزم کے ناطے سے میرے رشتہ دار ساری دنیا میں روس میں، امریکہ میں، انگلستان میں اور چین میں پھیلے ہوئے ہیں اور جو کچھ ہوتا ہے وہ مجھ پر (اور ہر شخص پر) اثرا نداز ہوتا ہے۔ کیونکہ جیسا ایک یوروپین شاعر جان ڈان (John Donne) نے کہا ہے۔
’’کوئی انسان جزیرہ نہیں ہے‘‘
’’ہر انسان سمندر میں ایک قطرہ ہے‘‘
ہر انسان زمین کا ایک ذرہ ہے‘‘
’’ہر انسان کی موت میری موت ہے کیونکہ میں اور انسانیت جدا نہیں ہیں‘‘
خواجہ احمد عباس کمیونزم اور مارکسزم سے بہت متاثر تھے۔ ترقی پسند تحریک سے ان کی وابستگی رہی مگر وہ Dogmatic Communist کبھی نہیں رہے۔ وہ non-confirmist تھے۔
¡
’کلیاتِ خواجہ احمد عباس‘ کی چوتھی، پانچویں اور چھٹی جلدیں ناولوں پر محیط ہیں۔ چوتھی جلد میں چار دل چار راہیں، شیشے کی دیواریں، بمبئی رات کی بانہوں میں اور چار یار شامل ہیں۔ پانچویں جلد میں انقلاب، دو بوند پانی جیسے ناولوں کو شامل کیا گیا ہے اور چھٹی جلد میں فاصلہ، تین پہیے، ایک او رپریم کہانی، جوالا مکھی (نامکمل جاسوسی ناول) کی شمولیت ہے۔ خواجہ احمد عباس ایک بڑے ناول نگار تھے ۔ فکشن تنقید میں بھی ان کے ناولوں کے حوالے سے گفتگو کم کم ہی سہی مگر ہوتی رہی ہے۔ خاص طور پر ان کا سوانحی ناول ’انقلاب‘ تذکروں میں اکثر شامل رہا ہے۔ اس ناول کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ خواجہ احمد عباس کاپہلا ناول ہے۔ ڈاکٹر ارتضیٰ کریم کا بھی خیال ہے کہ ’’یہ ناول 1975 میں ضرور شائع ہوا، لیکن یہ ان کی پہلی کوشش ہے۔‘‘ اس ناول کے تعلق سے خود خواجہ احمد عباس  نے جو باتیں لکھی ہیں وہ بڑی اہم ہیں اور عبرت انگیز بھی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اردو ناولوں کے تئیں ہمارے ناقدین اور قارئین کا رویہ کیسا رہا ہے۔ خواجہ احمد عباس  ’من کہ‘ کے تحت لکھتے ہیں کہ ’’سب سے مشہور ناول اردو میں ’انقلاب‘ تھا،  پندرہ برس کے بعد جب اس کا روسی ایڈیشن ’سن آف انڈیا‘ (فرزند ہند) کے نام سے  90000 کی تعداد میں بک گیا، تب بھی جب کوئی پبلشر اتنی ضخیم کتاب چھاپنے کو تیار نہیں تھا، تب میں نے خود گیارہ سو کی تعداد میں اس کو اپنے خرچ سے چھاپا اور بیچنے کی کوشش کی۔ میں نے اس کے اجرا کی رسم اپنے ہی گھر پر کی۔ کوئی پچاس ساٹھ اردو کے ادیب، ایڈیٹر، شاعر، جرنلسٹ وغیرہ اکٹھے کیے۔ ہر ایک کو تحفتاً ایک ایک جلد دی۔ امید تھی کہ کچھ تو ان میں سے کچھ ’اچھا یا برا اس کے بارے میں لکھیں گے، مگر جب وہ لوگ لنچ کھاکر میرے گھر سے رخصت ہوئے تو (اس واقعہ کو سات برس گزر چکے ہیں)آج تک کوئی ریویو بھی کسی نے نہیں لکھا۔ میں کسی کی شکایت نہیں کررہا ہوں۔ ایک واقعہ بیان کررہا ہوں کہ اردو میں زیادہ ناول کیوں نہیں چھپتے۔‘‘
(جاری)
یہ عمومی صورت حال ہے جس کی طرف خواجہ احمد عباس نے اشارہ کیا ہے۔ جب خواجہ احمد عباس جیسے ناول نگار کے ساتھ یہ معاملہ ہے تو چھوٹے موٹے فکشن نگاروں کے ساتھ کیا رویہ رہتا ہوگا یہ سمجھ سے باہر نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ اردو میں اچھے ناولوں کی تعداد کم ہے اور اس سے بھی کم ناول تنقید ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ بقول خواجہ احمد عباس:
1958 میں یہ ناول سوویت یونین کی یوکرنین زبان میں شائع ہوا۔ پہلا ایڈیشن پندرہ ہزار کا چھپا۔ دوسرا ایڈیشن جو پچھلے سال چھپا ہے پچاس ہزار کا ہے۔
1958 ہی میں یہ ناول سوویت یونین ہی کی آذربائی جانین زبان میں شائع ہوا۔ جو مختصر سے علاقے کی زبان ہے۔ (تعداد اشاعت پندرہ ہزار)
1959 میں چیکو سلو واکیہ کی سلو واکین زبان میں شائع ہوا۔ (تعداد اشاعت تین ہزار)
1960 میں سوویت قذاقستان کے ایک ادیب ساتھی ہندوستان تشریف لائے اور ایک کاپی قذاق ترجمے کے ساتھ لیتے آئے جو 1959 میں وہاں شائع ہوا تھا۔ قذاق ایک نئی زبان ہے جو بہت کم لوگ بولتے ہیں۔ (تعداد اشاعت چھ ہزار)
1961 میں ہندی زبان میں میرے دوست اور بہنوئی منیش نرائن سکسینہ نے جو ہندی کے مستند ادیب اور مترجم ہیں، اُس کا ترجمہ کیا اور راجپال اینڈ سنز نے شائع کیا۔ (تعداد اشاعت دو ہزار)
جب سے کوشش کرتا رہا کہ اُردو کا کوئی پبلشر اس ناول کو چھاپنے کو راضی ہو جائے لیکن لوگ اس کی ضخامت دیکھتے ہی’نہیں‘ کہہ دیتے تھے۔ پڑھنے کی تکلیف کسی نے نہ کی۔ جب کوئی تیار نہ ہوا تو اپنے اکسٹھویں سال میں میں نے اس کی خود کتابت کرائی، خود چھپوایا، اپنے خرچ سے خود شائع کیا۔ (تعداد اشاعت: ایک ہزار!!!) دیکھیں کتنے برس میں یہ بکے گا۔ ‘‘
ذرا سوچیے جب روسی زبان میں چھپا تو اس کی 90000 ہزار کاپیاں فروخت ہوگئیں۔ جبکہ اردو کا معاملہ یہ ہے کہ یہاں ناول سو ڈیڑھ سو سے زیادہ نہیں بک پاتے ہیں۔ ’انقلاب‘ ان کا ایک ایسا ناول ہے جس میں انھوں نے   ہندوستان کی قومی تاریخ کو پیش کیا ہے۔ اس میں وہ گاندھیائی فکر اور فلسفے سے بہت زیادہ متاثر نظر آتے ہیں۔ اس ناول کے حوالے سے  C.R. Yaravintelimath  نے The Journal of Humanaties Karnataka University Dharwar 1987 میں  Inquailab a Novel of Revolution کے عنوان سے بہت عمدہ مضمون لکھا ہے۔
اسی جلد میں خواجہ احمد عباس کا ناول ’جوالا مکھی‘ بھی شامل ہے جس کو پروفیسر ارتضیٰ کریم نے ڈاکٹر سید یحییٰ نشیط کے ایوانِ اردو فروری 2015 میں چھپے ایک مضمون کے توسط سے دریافت کیا۔ یہ ناول ’طبی دنیا‘ دہلی میں قسط وار شائع ہورہا تھا۔ ارتضیٰ کریم نے اس ناول کے حوالے سے ڈاکٹر یحییٰ نشیط کی یہ رائے بھی درج کی ہے:
’’اس ناول کی پہلی قسط ستمبر1936 میں شائع ہوئی تھی۔ اسی سال انجمن ترقی پسند مصنّفین کا قیام عمل میں آیا تھااور اس کا پہلا اجلاس منشی پریم چند کی صدارت میں ہوا تھا۔ لکھنؤ میں ہوئے اس اجلاس کے بعد سے گویا اس انجمن کو تحریک ملی،پھر بھیونڈی اور ممبئی میں اس کے جلسے ہوتے گئے اور ادب میں ایک مضبوط تحریک کے طور پر وہ کام کرنے لگی۔ خواجہ احمد عباس ،کرشن چندر ،علی سردار جعفری،عزیز احمد، سجاد حیدر یلدرم ،عصمت چغتائی وغیرہ فعال ادیبوں کے دم سے اس انجمن کی خوب ترقی ہوئی ،مگر ’جوالامکھی ‘ لکھتے وقت خواجہ احمد عباس اکیلے تھے،ان کا کوئی ہم نوا تھا نہ کوئی ہمسر۔ یہی ایک ناول تھا جس میں اشتراکیت کی مدھم سی گونج سنائی دے رہی تھی۔ اس اعتبار سے بھی ’’جوالا مکھی‘‘ کی کلیدی اور بنیادی اہمیت کو اردو ادب میں تسلیم کیے بغیر مفر نہیں۔
ان تمام خصوصیات کے سبب خواجہ احمد عباس کے ناول ’جوالامکھی‘ کو اردو کا پہلا ترقی پسند ناول کہا جاسکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے گمشدہ ابواب کی بازیافت کے لیے کوشش کی جائے اور اسے مکمل صورت میں سامنے لانے کے جتن کیے جائیں ۔‘‘
اس جلد میں بھی جوالامکھی کی صرف ایک قسط شامل کی گئی ہے۔ ضرورت ہے کہ اس ناول کی تمام قسطیں تلاش کی جائیں کیونکہ یہ ناول ان کی اشتراکی فکر اور نظریے کی عکاسی کرتا ہے۔
خواجہ احمد عباس نے بہت سے ناول لکھے مگر ہماری ناول تنقید کا المیہ یہ ہے کہ ان کے بہت سے ناولوں کو تنقیدی ڈسکورس میں شامل نہیں کیا گیا۔ بہت ممکن ہے کہ یہ ناول کمزور ہوں مگر ان کمزوریوں کا بیان بھی ضروری ہے۔ پروفیسر ارتضیٰ کریم نے بھی فکشن ناقدین کے سامنے  یہ سوال رکھا ہے کہ ’’آخر ان میں پلاٹ، کردار نگاری، مکالمہ نگاری، منظرنگاری یا ناول کے فن کے باب میں کتنے آنچ کی کسر رہ گئی ہے۔ اس پر بات تو ہونی ہی چاہیے تھی تاکہ ان کی فنی کمزوریوں کا اندازہ لگایا جاسکتا مگر ہمارے ناقدین نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔‘‘ ڈاکٹر ارتضیٰ کریم کا یہ سوال بہت معنی خیز ہے اور یہ سوال  صرف خواجہ احمد عباس کے ناولوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اردو میں بہت سے ناولوں کے تعلق سے یہی سوال قائم کیا جاسکتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہماری ناول تنقید صرف چند ناولوں تک محدود ہوکر رہ گئی ہے جس کی وجہ سے بہت سے اہم ناول آج بھی تنقید نگاروں کی نگاہ گوہر شناس سے محروم ہیں اور اس کی وجہ سے فکشن تنقید کا دائرہ محدود ہوگیا ہے۔  اس پر ناقدین کو سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ان تینوں جلدوں میں خواجہ احمد عباس کے جو ناول ہیں ان میں سے اکثر پر گفتگو نہیں ہوئی ہے اس لیے ہماری ہمعصر تنقید کا فریضہ ہے کہ ان ناولوں کو تنقید کا موضوع بنائے اور ان کی خوبیوں اور خامیوں کو واضح کرے۔  خواجہ احمد عباس نے موضوعی اوراسلوبی ہر اعتبار سے ناول کے کینوس کو وسیع کیا ہے۔ اس اعتبار سے ان کے ناولوںپر الگ سے تحقیقی مقالہ لکھا جانا چاہیے۔
¡
کلیات کی ساتویں جلد سوانح اور سفرنامے پر مشتمل ہے۔ سوانح کے ذیل میں مسولینی فاشیت اور جنگ حبش، مولانا محمد علی جوہر، خروش چیف کیا چاہتا ہے ہیں تو سفرنامے کے تحت سرخ زمین اور پانچ ستارے، مسافر کی ڈائری شامل کیے گئے ہیں۔ خواجہ احمد عباس نے مسولینی کو ایک غیرمعمولی شخصیت قرار دیا ہے اور یہ لکھا ہے کہ اس وقت جس شخص کا دنیا میں سب سے زیادہ چرچا ہے وہ مسولینی ہے۔ وہ بہتوں کی نظر میں اٹلی کا نجات دہندہ تو کچھ لوگوں کی نظر میں وہ مطلق العنان حکمراں ہے۔ خواجہ احمد عباس نے مسولینی کی زندگی کے تعلق سے بہت اہم انکشافات کیے ہیں۔ انھوں نے لکھا ہے کہ دنیا کے مشہور انسانوں کی طرح مسولینی کی پیدائش بھی ایک غریب گھرانے میں ہوئی۔ باون سال ہوئے اٹھارہ سو تراسی میں اٹلی کے صوبہ روما گنہ کے ایک گاؤں وارنوڈی کوسٹا میں لوہار کے یہاں ایک بچہ پیدا ہوا۔ لوہار کا نام مسولینی تھا۔ بچے کا نام بینی تیور رکھا گیا۔ کئی پشت سے مسولینی خاندان کے لوگ لوہار کا کام کرتے تھے لیکن کچھ عرصے سے بینی تیور کے باپ نے اپنا خاندانی پیشہ چھوڑ کر سرائے گیری شروع کردی تھی۔ اس غریب بھٹیارے  یا اس کی بیوی کو کیا معلوم تھا کہ اس کا لڑکا آئندہ چل کر تمام اٹلی کا حکمراں ہوجائے گا‘‘ خواجہ احمد عباس نے ’فاشیت اور مسولینی‘ کے عروج کے تعلق سے بہت اہم معلومات بھی درج کی ہیں۔ مسولینی جارحانہ قوم پرستی، قومی غرور اور فاشیت پر یقین رکھتا تھا۔ اس لیے اس نے اپنی قوم کو جنگ کی تعلیم دی اور وہ امن کو دنیا کی ترقی میں ایک رکاوٹ خیال کرتا تھا۔ اس کا کہنا تھا کہ فاشیت دنیامیں امن قائم کرنے کو ناممکن سمجھتی ہے اور ناکارآمد۔ اس لیے ہم عدم تشدد کے نظریے کو مسترد کرتے ہیں جو کمزوری اور بزدلی کا ثبوت ہے۔ صرف جنگ ہی انسانی خوبیوں اور قابلیتوں کو ظاہر کرتی ہے۔ خواجہ احمد عباس لکھتے ہیں کہ مسولینی نے بھی نفرت کے جذبے کو ترقی دے کر اسے اپنا آلہ کار بنایا ہے۔ ہر فاشی کا اعتقاد ہے کہ اس کی قوم دنیا کی بہترین قوم ہے اور دوسری تمام قومیں اٹلی کو نقصان پہنچانے کے در پے ہیں اور اس کے ملک کی حفاظت صرف فاشیت ہی کرسکتی ہے۔ یہ مضمون بہت اہم ہے۔ موجودہ عصری سیاسی تناظر میں بھی پڑھا جائے تو اس مضمون کی معنویت ظاہر ہوگی۔
شہید ملت رئیس الاحرار مولانا محمد علی مرحوم‘ کی مختصر سوانح حیات تحریر کی ہے جس میں انھوں نے محمد علی جوہر کے شخصی احوال کے علاوہ صحافتی اور سیاسی زندگی کے حوالے سے لکھا ہے مولانا محمد علی جوہر پر بہت بیش قیمت تحریر ہے جس میں ان کی دلیری اور حق گوئی کو خراج پیش کیا گیا ہے۔ ان کی شاعری وصحافت کے حوالے سے بھی بہت سی اہم باتیں تحریر کی گئی ہیں۔
’خروش چیف کیا چاہتا ہے‘ یہ بھی ایک اہم تحریر ہے جس کا آغاز ’کالینو کے کسان کا لڑکا‘ کے عنوان سے ہوا ہے۔ انھوں نے خروش چیف پر لکھتے ہوئے بڑی اہم بات لکھی ہے کہ خروش چیف کا کنبہ کسانوں میں سب سے غریب تھا۔سردی کے موسم میں خروش چیف کے والد یوکرین کے علاقے میں ڈوبناس کی کانوں میں کام ڈھونڈنے جایا کرتے تھے۔ یہ کام بھی وہ پولیس سے ڈر کر کیا کرتے تھے کیونکہ زار کے زمانے میں کوئی بھی کسان اپنا گاؤں چھوڑ کر نہیں جاسکتا تھا۔
خواجہ احمد عباس کی تحریر سے پتہ چلتا ہے کہ خروش چیف جو عظیم سوویت کا وزیراعظم تھا پندرہ سال کی عمر تک بھیڑ بکریاں اور جاگیرداروں کی گائے چرایا کرتا تھا۔ اس کے بعد ایک ایسے کارخانے میں کام کیا جس کے مالکان جرمن تھے۔ پھر ایک ایسی کان میں کام شروع کیا جو فرانسیسیوں کی ملکیت تھی۔ دواؤں کے پلانٹ میں کام کیا، جو بلجیم کے سرمایہ داروں کی ملکیت تھی۔ خروش چیف کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ وہ اپنے ہم پلہ سیاست دانوں کے مقابلے میں غریب تھا۔ ان کے ہمعصر سیاست داں آئزن ہاور امیر کاشت کار کے بیٹے تھے تو میک میلن کے والد برطانیہ کے بڑے امیر ناشر تھے مگر خروش چیف بہت ہی غریب کسان کنبے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد ایک غریب کسان تھے جو سردی کے موسم میں کوئلے کی کانوں میں محنت مزدوری کیا کرتے تھے۔ لڑکپن میں سوروں اور بھیڑوں کے ریوڑ چرایا کرتے تھے۔ پھٹے پرانے بوسیدہ کپڑے پہنتے تھے اور ننگے پاؤں گھومتے تھے اور یہی شخصیت جب سیاست میں آتی ہے تو بہت ہی بلند مقام پر فائز ہوتی ہے۔ خروش چیف کے تعلق سے خواجہ احمد عباس نے بہت اہم معلومات مہیا کی ہیں جس کے پڑھنے سے سوویت  روس کے سماجی ، سیاسی  اور اقتصادی نظام سے آگہی کے علاوہ سیاست کے کھیل بھی سمجھ میں آتے ہیں۔
اس کلیات میں سرخ زمین اور پانچ ستارے کے عنوان سے ان کا سفرنامہ چین بھی شامل ہے۔ اس سفرنامے میں چین کے سماجی ، سیاسی نظام اور دیگر احوال کے حوالے سے بہت اہم معلومات درج ہیں۔ انھوں نے چین کی خوبیوں کو اتنی خوبصورتی سے بیان کیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ چین جسے لوگ غیرمہذب سمجھتے ہیں اور انگریزی ناولوں اور فلموں میں چین کا ایک منفی کردار پیش کیا جاتا ہے مگر یہ وہی چین ہے جہاں پانچ ہزار برس پہلے تہذیب اور تمدن نے جنم لیا۔ خواجہ احمد عباس لکھتے ہیں کہ آج سے ہزاروں برس پہلے جب یورپ کی آبادی کھال لپیٹے پھرتی تھی، چین، تہذیب، تمدن،آرٹ اور ادب کا مرکز تھا، مغرب والوں کو اپنی سائنس کی ایجادوں پر بڑا فخر ہے مگر در اصل انسانی زندگی کے لیے جتنی چیزیں چین میں ایجاد کی گئی ہیں وہ کسی او رملک میں نہیں ہوئیں۔ ریشم، لکھنے کا کاغذ، سِکّے سکّوں کے بجائے کاغذ کے نوٹ، چائے آتش بازی ان سب چیزوں کا استعمال مغرب نے چین سے سیکھا، بارود چین میں فقط تفریح کے لیے آتش بازی بنانے کے کام آتا تھا، یورپ والوں نے اس سے بندوق اور توپ اور بم جیسے خوفناک ہتھیار بنائے۔ چین کی تہذیب کا مقصد انسان کی سمجھ بوجھ کو ترقی دینا اور اس کی زندگی کی مشکلوں کو آسان کرنا تھا۔ اور مغربی تہذیب کا مقصد؟  دوسروں کو دھوکہ دے کر، ان پر ناجائزاثر ڈال کر، ڈرا کر، دھمکا کر، روپے کے زور سے، ہتھیاروں کے زور سے اپنی دولت اور اثر کو بڑھانا۔ ‘‘
خواجہ احمد عباس نے اس سفرنامے میں چین کی انقلابی شخصیات خاص طور پر ماؤ سے تنگ کا بھی ذکر کیا ہے۔ ’مسافر کی ڈائری‘ کے عنوان سے بھی ایک سفرنامہ ہے جس میں بمبئی سے شنگھائی تک کی داستان ہے۔ اس میں انھوں نے سترہ ملکوں کی سیاسی معاشرتی، اقتصادی  اور تعلیمی حالت کا مطالعہ کیا ہے۔ اس میں اٹلی، کولمبو، سنگاپور، ہانگ کانگ، جاپان، شنگھائی اور دیگر علاقوں کا ذکر ہے۔ جاپان کا بھی ذکر ہے۔ ناگاساکی کا بھی بیان ہے، ٹوکیو کا بھی ذکر ہے اور جاپان کے سرکاری مذہب شنتو کے حوالے سے بھی اہم گفتگو ہے۔ اس مذہب کے حوالے سے خواجہ احمد عباس لکھتے ہیں کہ ہر جاپانی کے لیے خواہ وہ بدھ ہو یا عیسائی، لازمی ہے کہ وہ شنتو میں عقیدہ رکھتا ہو…… شنتو کی بنیاد جاپانی بادشاہوں اور اپنے آبا و اجداد کی روحوں کی پرستش پر ہے اس مذہب کے پیروؤں کا عقیدہ  ہے کہ تمام جاپانی قوم سورج دیوتا سے پیدا ہوئی ہے۔ اسی لیے وہ اپنی قوم کو دنیا کی تمام قوموں سے بالا ترسمجھتے ہیں۔  جاپانیوں کا بادشاہ سورج دیوتا کا جانشین ہے  اسی لیے شنتو کے بموجب اس کو تمام دنیا پر حکومت کرنے کا حق ہے۔ علاوہ بادشاہ کے وہ چاند تاروں، ہوا آسمان وغیرہ کی پرستش کرتے ہیں کونکہ یہ مظاہر قدرت بھی سورج سے پیدا ہوئے ہیں اور آبا واجدا دکی حیثیت رکھتے ہیں۔اسی سفرنامے  میں انھوں نے امریکہ کے گاندھی اپٹن سنکلیر کا بھی ذکر کیا ہے جنھوں نے بقول خواجہ احمد عباس ساٹھ برس کی عمر میں پوری ساٹھ کتابیں لکھی ہیں جن میں سے ہر ایک میں (خواہ وہ ناول ہو، معاشیات پر کتاب ہو یا نظم) اس نے ظلم، جہالت، بے انصافی اور سرمایہ داری کے خلاف جہاد کیا ہے، یہ کتابیں لاکھو ںکی تعداد میں بکتی ہیں اور درجنوں زبانوں میں ان کے ترجمے شائع ہوئے ہیں۔ ہندوستان کی شاید ہی کوئی زبان ہو، جس میں اپٹن سنکلیر کی کتابیں شائع نہ ہوئی ہوں۔ ‘‘
شکاگو کے تعلق سے انھوں نے لکھا ہے کہ شکاگو کے ڈاکو دور دور تک مشہور ہیں۔ ان کے متعلق فلم بھی بنائی جاتی ہے مگر یہ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ شکاگو اعلیٰ تعلیم خصوصاً سائنس کی تعلیم کا زبردست مرکز ہے۔ دنیا بھر میں جتنی ایجادیں ہوتی ہیں اور سائنس کے مختلف شعبوں کو ترقی ملتی ہے ان میں شکاگو کے پروفیسروں اور سائنس دانوں کا کافی حصہ ہوتا ہے۔انھوں نے نیویارک، نیگرو، بوسٹن وغیرہ کا بھی تذکرہ کیا ہے اور بیسویں صدی کے مشہور افسانہ نگار ہیمنگوے کے بارے میں بھی لکھا ہے۔ فرانس، پیرس کا بھی انھوں نے ذکر کیا ہے اور اسی ضمن میں انھوں نے مسٹر بروم فیلڈ کا بطور خاص ذکر کیا ہے جو ایک معروف مصنف اور ناول نویس ہیں۔ ان کے تعلق سے خواجہ احمد عباس لکھتے ہیں :
’’چھ برس پہلے میں ان سے علی گڑھ میں ملا تھا، جہاں وہ ہندوستان کی سیر کے دوران میں ہفتہ بھر کے لیے ٹھہرے تھے، اس کے بعد وہ ہندوستان کئی بار گئے اور کل ملا کر دو برس مختلف شہروں میں قیام کیا، ہر قسم کے ہندوستانیوں سے ملے اور ہر طبقے میں اپنے دوست بنائے۔ یہاں تک کہ بڑودہ میں خاص شہر کے وسط میں ایک مکان لے کر بالکل ہندوستانی طرز پر چھ مہینے تک رہے۔ اس کے بعد انھوں نے ایک ناول”THE RAINS CAME” کے نام سے لکھا جو ہندوستان کی ایک فرضی ریاست کے متعلق ہے۔ اس ناول کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ بروم فیلڈ کو ہندوستان اور ہندوستانیوں سے کتنی ہمدردی ہے اور ان کے سماجی مسئلوں کا انھوں نے کتنی گہری توجہ سے مطالعہ کیا ہے۔
بروم فیلڈ پیرس سے پندرہ میل کے فاصلے پر ایک نہایت خوب صورت گائوں اور سان لی  SEN LHEISمیں رہتے ہیں۔ گو وہ امریکن ہیں مگر سال کا زیادہ عرصہ پیرس میں گزارتے ہیں۔ اس کے علاوہ جب جی چاہتا ہے دنیا کا سفر کر آتے ہیں۔ بروم فیلڈ کے ایک ناول “THE RAINS CAME” ہی کی پچاس ہزار جلدیں فروخت ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ ا س کی فلم بھی بن گئی ہے اور اس کا کافی معاوضہ ملا۔ اس لیے بروم فیلڈ کافی آرام سے زندگی بسر کرتے ہیں مگر میاں بیوی دونوں حد درجہ مہمان نواز اور ملنسار ہیں۔ تمام امریکنوں کی طرح صاف گو اور سادہ مزاج اور بے تکلف ہیں۔
مجھے دونوں نے پہچان لیا بلکہ اپنے البم میں ہم لوگوں کی وہ تصویریں بھی دکھائیں جو انھوں نے علی گڑھ میں لی تھیں۔ گھنٹوں ہندوستان کے متعلق باتیں کرتے رہے۔ ہمارے ملک سے ان دونوں کو بے حد محبت ہے۔ اس قدر کہ اپنے مکان کی دیواروں پر مسز بروم فیلڈ نے ہندوستان کے رنگین نظارے پینٹ کر رکھے ہیں۔ ‘‘
خواجہ احمد عباس نے پیرس، جینوا کے بارے میں بھی لکھا ہے۔ ان کے مطابق جینوا میں کشیدہ کاری کا کام بہت اچھا ہوتا ہے اور یہاں کی بنی ہوئی گھڑیاں دنیا بھر میں بکتی ہیں۔ مگر اس شہر کی شہرت ان وجوہات سے نہیں ہے بلکہ یہ اس لیے ہے کہ یہ انجمن اقوام یعنی League of nations کا صدر مقام ہے۔ پیرس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ:
’’پیرس وہ شہر ہے۔ جہاں:
٭ سڑکوں اور گلیوں کے نام نہ صرف بادشاہوں، وزیروں، جرنیلوں اور سیاست دانو ںکے نام پر رکھے جاتے ہیں بلکہ شاعروں، ادیبوں اور فلسفیوں کے نام پر بھی۔
٭ فحش تصویریں گر جوں کی سیڑھیوں پر بکتی ہیں۔
٭ لوگ بلا تکلف پولیس والے سے قحبہ خانوں کا پتہ دریافت کر سکتے ہیں۔
٭ کھانے کے ساتھ شراب مفت ملتی ہے۔ مگر پانی مشکل سے ملتا ہے اور اکثر اس کی قیمت دینی پڑتی ہے۔
٭ موٹریں اور گاڑیاں سڑک کے بائیں بازو کے بجائے دائیں بازو چلتی ہیں۔
٭ عام لوگ آپس کے میل ملاپ میں اتنا ہی تکلف برتتے ہیں جتنا کہ لکھنؤ والے۔
٭ لندن کی شام کے اخبار گھنٹہ بھر میں ہوائی جہاز سے یہاں پہنچ جاتے ہیں اور ہزاروں کی تعداد میں فروخت ہوتے ہیں۔
٭ ہر تیسرا آدمی جو آپ کو سڑک پر نظر آتا ہے وہ انگریز ہوتا ہے یا امریکن۔
٭ ننگا ناچ دیکھنا یا سڑک پر بیٹھ کر شراب پینا عیب نہیں سمجھا جاتا مگر اتوار کو گرجا نہ جانا گناہ ہے۔
٭ شاہی محلوں کے باغات میں انقلاب پرستوں کے مجسمے نصب ہیں اور کالجوں کے برابر میں قحبہ خانے ہیں۔
٭ لمبے لمبے بالوں والے آرٹسٹ ہر جگہ بیٹھے نظر آتے ہیں اور بہانہ ملتے ہی آپ کے ساتھ کھانا کھانے یا شراب پینے کو تیار ہوجاتے ہیں۔
٭ بعض قہوہ خانوں میں سیکڑوں قیمتی اور نادر تصویریں لگی ہیں جو بھوکے مصوروں نے کھانے اور شراب کے عوض کوڑیوں کے مول بیچ دیں۔ پیرس کو پیرس والے پیرس نہیں کہتے’ پاری‘ کہتے ہیں۔ ‘‘
اٹلی، سوئٹرز لینڈ اور وینس کے بارے  میںبھی معلومات ہیں۔ وینس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ وینس کی بڑی تعریف سنی تھی۔ ’’ جو چیرا تواک قطرۂ خون  نہ نکلا‘‘ پرانے، گندے، اندھیرے مکان، تنگ و تاریک گلیاں اور تمام شہر میں سبزی مائل گندے پانی کی نہروں کا ایک جال پھیلا ہوا ہے۔ شاید اسی کا نام شہری حسن ہو، مجھے تو غربت اور گندگی کا مظاہرہ معلوم ہوا۔ عام لوگوں کی حالت… ان کے پھٹے پرانے میلے کپڑے اور ان کے بوسیدہ مکان… دیکھ کر ہندوستان کا دھوکا ہوتا ہے۔ ‘‘
یہ سفرنامے معلومات سے معمور ہیں۔ مختلف قوموں اور ملکوں کی حقیقی تصویریں سامنے آجاتی ہیں۔ خواجہ احمد عباس نے تمام اہم ملکوں کی سیاحت کے بعد یہی نتیجہ نکالا کہ ہندوستان ایک ایساملک ہے جس کا ماضی بھی شاندار تھا اور مستقبل بھی شاندار ہوگا۔ ان ملکوں کی سیاحت کے بعد اپنے ملک سے اور محبت بڑھ گئی وہ لکھتے ہیں کہ ’’ہندوستان جو میرا وطن ہے ، جس کی خوبیاں میری خوبیاں ہیں اور جس کی برائیاں میری برائیاں ہیں، جو باوجود اپنی غلامی، غربت اور جہالت کے دنیا کے بہت سے ملکوں سے بہتر ہے۔ جہاں علم کی کمی ہے مگر عقل کی کمی نہیں، جہاں لوگ غریب ہونے کے باوجود مہمان نواز ہیں، جہاں عوام میں پتھر کی مورتیوں کی پوجا ہوتی  ہے مگر سونے کے سکوں کی نہیں۔ جہاں ایک لنگوٹی پوش فقیر کی عزت راجاؤ ں اور سرمایہ داروں اور سپہ سالاروں سے زیادہ ہوتی ہے، ہندوستان جہاں دھوپ نکلتی ہے اور سورج نظر آتا ہے اور لندن کی طرح دن میں بھی اندھیرا چھایا نہیں رہتا۔‘‘
سوانح اور سفرنامے لکھنے کا بھی ایک الگ انداز ہے۔ خواجہ احمد عباس کے سفرنامے پڑھتے ہوئے دلچسپی اور لطف کا احساس ہوتا ہے اور ان کی تحریر میں اتنی کشش اور قوت ہے کہ آدمی شروع کرنے کے بعد آخری سطر پر ہی دم لیتا ہے۔ یہی حال ان کی سوانح عمری لکھنے کا ہے۔ حقیقت یہ  ہے کہ خواجہ احمد عباس کی تحریروں میں وہ جادو ہے کہ قاری اس کے جادوئی اثر سے نکل نہیں پاتا۔
¡
آٹھویں جلد ڈرامے اور مضامین پر محیط ہے۔ اس میں زبیدہ، انناس اور ایٹم بم، بارہ بج کر پانچ منٹ، لال گلاب کی واپسی جیسے ڈرامے شامل کیے گئے ہیں۔ خواجہ احمد عباس کا اپٹا سے تعلق رہا ہے۔ اس لیے ان کے ڈرامے اسٹیج بھی کیے گئے ہیں۔ انھوں نے اپنے ڈرامے میں عصری منظرنامے کو پیش کیا ہے۔ خاص  طور پر وہ جس اشتراکی فکر کے حامل تھے اسی نظریے کی تبلیغ و تشہیر انھوں نے ڈراموں کے ذریعے کی ہے۔ انسانی مساوات اور معادلت پر ان کا یقین کامل تھا۔ اسی لیے ان کے بیشتر ڈرامے انسان دوستی اور اتحاد و اتفاق اور یکجہتی کے جذبات پر مبنی ہیں۔ یہ سارے ڈرامے مقصدی اور افادی ڈرامے ہیں جن سے سماج کو روشنی بھی ملتی ہے اور نئی راہ بھی۔
اسی جلد میں کچھ مضامین بھی شامل کیے گئے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر صحافتی نوعیت کی تحریریں ہیں۔ اس میں مختلف  موضوعات اور مسائل کے حوالے سے انھوں نے اپنے بیباکانہ خیالات کا اظہار کیا ہے اور پرکشش عنوان کے ذریعے قاری کے ذہن کو بھی متوجہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان مضامین میں الٰہ دین اور اس کا عجیب و غریب چراغ، ڈاکٹر انصاری اور مونچھیںاور انگلیاں، اقبال، وطنیت اور انقلاب، اور انسان مر گیا، غبار کارواں شامل ہیں۔صحافت میں ان کی پوری عمر گزری تھی۔ وہ بمبئی کرانیکل سے بھی وابستہ رہے۔ بلٹز سے بھی ان کا تعلق رہا اور علی گڑھ میں جب وہ بی اے میں انگریزی کے طالب علم تھے تو اس وقت علی گڑھ اوپینین کے نام سے ایک اخبار بھی نکال رہے تھے۔ اس لحاظ سے ان کی بیشتر تحریروں پر حتیٰ کہ ناولوں پر بھی صحافت کے اثرات ملتے ہیں۔
اس کے علاوہ سونے اور چاندی کے بت کے عنوان سے فلموں کے حوالے سے کچھ تحریریں ہیں جو فلموں کے  شائقین کے لیے بہت اہم ہیں۔ خواجہ احمد عباس فلموں کے اسکرپٹ رائٹر اور ڈائرکٹر بھی رہے ہیں۔ ان کی مشہور فلموں میں بوبی، آوارہ، شری 420، میرا نام جوکر وغیرہ شامل ہیں۔ انھوں نے فلم کو ایک نیا بیانیہ دیا۔ ان  کے فلموں کے حوالے سے Rashmi Doraiswamy نے New Narratives for the New Age: The Cinema of K.A. Abbas کے عنوان سے بہت عمدہ مضمون لکھا ہے۔
فن اور فنکار کے تحت فلمی دنیا کی اہم ترین شخصیتوں میں شانتا رام، پرتھوی راج کپور، راج کپور، دلیپ کمار، مینا کماری، بلراج ساہنی، امیتابھ بچن، ساحر لدھیانوی، راجندر سنگھ بیدی، ستیہ جیت رے وغیرہ پر لکھا ہے۔ فلمی شخصیات پر جو تحریریں ہیں وہ اس اعتبار سے اہم ہیں کہ بیشتر شخصیات سے ان کی ملاقاتیں رہی ہیں اور شب و روز کا رشتہ رہا ہے۔مینا کماری کے حوالے سے انھوں نے بہت ہی جذباتی مضمون لکھا ہے۔ پڑھ کر آنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔فلم اسٹار مینا کماری کے علاوہ ایک اور مینا کماری کو انھوں نے دریافت کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’اس میناکماری کے اندر کئی اور مینا کماریاں چھپی ہوئی تھیں۔ ایک اداکارہ تو مینا کماری تھی جو فلم کی جھوٹی اوپری دنیا میں بھی اپنے رول میں اتنی کھوجاتی تھی کہ پھر اسے دنیا کی کسی بات کی سدھ بدھ نہیں رہتی جو اچھی ایکٹنگ اس لیے نہیں کرتی تھی کہ اسے لاکھوں روپے ملیں گے، نہ اس لیے کہ اس کے فن کی تعریف ہوگی بلکہ اس لیے کہ اس کی اداکاری سے اس کی روح کو خوشی ہوگی، من کو شانتی ملے گی اور اس اداکارہ مینا کماری میں ایک حساس، نازک مزاج شاعرہ موجود تھی جو چھپ کر اپنی تسکین قلب و روح کے لیے شعر کہتی تھی اور جس نے زندگی کے آخری سال میں اپنی غزلوں کو خود گا کر ریکارڈ کرایا۔ اور اس رومانی مزاج کی شاعرہ کے اندر وہ بچّی چھپی ہوئی تھی جسے ماں باپ نے مہ جبیں کا نام دیا تھا اور جس نے کبھی بڑی غریبی کا بچپن بتایا تھا اور جو گڑیا کھیلنا چاہتی تھی اور ہنڈولے میں بیٹھنا چاہتی تھی اور ہنڈکلیا پکانا چاہتی تھی، شادی کر کے گود میں بچوں کو کھلانا چاہتی تھی لیکن جسے گھر کی اقتصادی مشکلات نے بچپن کی خواہشوں امنگوں او رآرزوئوں کو خیر باد کہہ کر سات برس کی عمر میں فلم ایکٹنگ کو اپنا ذریعۂ معاش بنانے پر مجبور کر دیا تھا۔
اور آج جب کہ وہ اس دُنیا میں نہیں ہے تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ساری عمر مینا کماری اسی مہہ جبیں کو تلاش کرتی رہی۔ وہ معصوم بچی جو اس کے من کے اندھیرے میں چھپی بیٹھی رہی اور جس بچی کے من میں نہ جانے کتنے سپنے، کتنی آرزوئیں، کتنی امنگیں چھپی تھیں اور شاید مینا کماری کی روح کی بے چینی، اس کی شاعرانہ بادہ خواری، اس کی غم انگیز تلخ مسکراہٹ، اس کی اداکاری میں جو گہرائی، سنجیدگی اور ٹھہرائو تھا وہ سب اسی تلاش کی دین تھی۔
مگر آج وہ تلاش ختم ہو گئی ہے۔
مینا کماری اور مہ جبیں مر کر ایک ہوگئی ہیں۔
صرف ایک افسانہ باقی رہ گیا ہے اور چند دلکش افسردہ یادیں!‘‘
اسی طرح  انھوں نے امیتابھ بچن کے حوالے سے لکھا ہے :
’’تھوڑے دنوں میں امیت اردو کا ماہر بن گیا اور اپنی مشہور آواز میں اردو کے شعر تو ایسے پڑھتا تھا کہ کوئی بھی داد دیے بغیر نہ رہ سکتا تھا۔ فلم ’’کالیا‘‘ میں اس نے کس خوبی کے ساتھ مکالمے اور اردو شاعروں کے شعر ادا کیے ہیں کہ مجھے خوشی ہوئی یہ دیکھ کر کہ ’سات ہندوستانی‘ میں ہماری محنت رائیگاں نہیں گئی۔ ‘‘
یہاں خاطر نشاں رہے کہ آج کے سپر اسٹار امیتابھ بچن کو فلم میں اداکاری کا سب سے پہلا موقع خواجہ احمد عباس نے اپنی فلم ’سات ہندوستانی‘ میں دیا تھا۔ ان سے قبل امیتابھ بچن کو لمبا، بے ڈول اور کارٹون کہہ کر رد کردیا گیا  تھا۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے Ahmad Abbas: The Man who gave us Amitabh bacchchan, The Hindu June 11, 2016)
اس جلد میں عصمت چغتائی کی چوتھی کا جوڑا، دروازہ کھول دو، کرشن چندر کی کہانی، بلور کا بنا ہوا آدمی، آرٹ اور روپیہ اور فلم، چار سو تیس فلمیں یا چار سو بیس فلمیں وغیرہ جیسی تحریریں بھی شامل ہیں۔ بلور کا بنا ہوا آدمی مولانا آزاد کے حوالے سے ہے جس میں انھوں نے مولانا سے ملاقات کا حال لکھتے ہوئے ان کی نفاست اور وضع داری پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے لکھا ہے کہ اتنا صاف شفاف آدمی میں نے اور نہیں دیکھا ہے۔ جب بھی ملو لگتا تھا کہ ابھی ابھی نہا دھو کر نکلے ہیں۔ یہ صفائی اور نفاست جسم یا شریر کی ہی نہیں دل کی آتما کی بھی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ آدمی گوشت پوست کا نہیں بلور کا بنا ہوا ہے جس میں علم کا نور اور گیان کی روشنی جھلکتی ہے۔‘‘
آٹھ جلدوں پر مشتمل اس کلیات میں خواجہ احمد عباس کی بیشتر تحریریں شامل ہوگئی ہیں مگر بہت سی تحریریں اب بھی ایسی ہیں جنھیں تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ خواجہ احمد عباس اپنے عہد میں تو مقبول تھے اور اس زمانے میں ان کی تحریریں بڑی دلچسپی اور ذوق وشوق سے پڑھی جاتی تھیں۔ ان تحریرو ںکی خوبی یہ ہے  کہ یہ زمانی اور مکانی حصار سے ماورا ہیں اور آج کے عہد میں سیاق و سباق کی ذراسی تبدیلی کے ساتھ یہ تحریریں  اور بھی معنویت کی حامل ہوگئی ہیں کیونکہ یقین کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ آج کے عہد میں خواجہ احمد عباس کی طرح لکھنے والا کوئی نہیں ہے اور نہ ہی ہمارا عہد دوسرا خواجہ احمد عباس پیدا کرسکتا ہے۔ ان کی تحریروں میں دوامیت کے نقوش ہیں اور کہیں ایسا نہیں لگتا کہ وہ تحریریں ایک خاص عہد کے لیے لکھی گئی ہیں، ان تحریروں کی ایک خوبی یہ ہے کہ ان میں آفاقی اقدار ہیں اور انہی آفاقی قدروں کی وجہ سے یہ تحریریں ہمیشہ زندہ رہیں گی۔ یہ صرف تحریریں نہیں ہیں بلکہ وہ روشنی اور اجالے ہیں جو خواجہ احمد عباس کے ذہن سے نکل کر تحریروں میں بکھر گئے ہیں اور یہ صرف ان کے ذہن کی نہیں بلکہ روح کی بھی روشنی ہے۔پروفیسر ارتضیٰ کریم صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے خواجہ احمد عباس جیسی متنوع اور جامع الکمالات شخصیت کی تحریروں کو یکجا کردیا ہے۔ نگارشاتِ خواجہ احمد عباس کی یہ بازیافت یقینا ایک بڑا کام ہے۔اس کی جتنی ستائش کی جائے کم ہے کیونکہ آج کے دور میں وسائل کی فراوانی کے باوجود ان تمام تحریروں تک رسائی آسان نہیں، ارتضیٰ کریم نے خواجہ احمد عباس کی تحریروں تک براہِ راست رسائی کی جو صورت نکالی ہے اس سے یقینا پورا اردو معاشرہ کسب فیض کرسکتا ہے۔
کلیات پر ان کا بیش قیمت مقدمہ ہے جو کلیات کی ضخامت کے اعتبار سے مختصر ضرور ہے مگر جامع ہے۔ خواجہ احمد عباس کے تعلق سے ان کا تحقیقی کام صرف کلیات تک محدود نہیں ہے بلکہ انھوں نے ہفت روزہ ’بلٹز‘ ممبئی میں شائع ہونے والی خواجہ احمد عباس کا مقبول ترین اور طویل مدتی کالم ’آزاد قلم‘ بھی مرتب کیا ہے جو جلد ہی منظر عام پر آئے گا۔ آخری صفحے پر شائع ہونے والے ’آزاد قلم‘ کو مرتب کرنے کی ضرورت اس لیے بھی تھی کہ یہ ایک ایسا  کالم تھا جس کا قارئین بے چینی سے انتظار کرتے تھے۔  آٹھ جلدوں میں کلیاتِ خواجہ احمد عباس کی اشاعت جہاں پروفیسر ارتضیٰ کریم کا ایک قابل قدر کارنامہ ہے وہیں ’آزاد قلم‘ کا انتخاب بھی خواجہ احمد عباس کو ایک سچا اور اچھا خراجِ عقیدت—!
n
Haqqani Al-Qasmi
Cell.: 9891726444
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular