Sunday, May 5, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldناری زمین کی صدائے بازگشت

ناری زمین کی صدائے بازگشت

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

خورشید حیات

داستان رنگ کہانی روح ، اپنی انفرادی شناخت اور بقا کی خاطر خود کو ماحول کے مطابق بدلتی رہتی ہے۔ تبدیلی کا یہ عمل نا گزیر ہے ۔ اس میں ارادے کا دخل شاید کہ نہیں کے برابر ہوتا ہے ۔ البتہ محراب تہذیب سے جڑے چہروں کے شعور میں یہ بات ضرور رقص کرتی رہتی ہے کہ جدید عہد کی برق رفتار زندگی، ٹھہراؤ سے ہاتھ ملا کر آگے نہیں بڑھتی۔ زندگی کے آنگن سے باہر نکل کر آج کی عورت ، اپنی ضروریات، خواہشات اور نئے نئے خوابوں کے ٹمٹماتے چراغ لیے آگے بڑھی چلی جا رہی ہے شاید کہ اسے آج بھی اپنے حصے کی روشنی کی تلاش ہے۔ وہ جو پھولوں پتیوں کی سی خوشبو لیے پالنوں میں جھولتی تھی ۔ وہ جو تِیلی حروف سے کہانی رنگ سوئیٹر بنا کرتی تھی۔ رقصاں ہے آج ’ورق ورق کہانی کائنات ‘میں ، ایک نئے سْر اور تال کے ساتھ۔
کہانی بننے کا ہنر ْحصنات سے بہتر کس ہتھیلی انگلیوں کے قریب ؟
بولو نا مَحرم اسرار / محرم راز
محتجب باتوں کو تم ہی تو جانو ہو

’ ورق ورق کہانی کائنات‘ ڈاکٹر عشرت ناہید کے تخلیقی ، تنقیدی اور تحقیقی رویوں کی نقیب بن گئی ہے ۔ زندگی کے چھو منتر ہو چکے ’لباس‘کی تلاش میں جب عباسی بیگم ڈیوڑھی سے باہر نکلیں تو کہانی کہانی کھیلنے والی افسانہ نگار حجاب امتیاز علی اپنی پالتو بلیوں کے ساتھ صاحب طرز / منفرد افسانہ نگار بن گئیں ۔ اس کائنات کا ورق ورق مطالعہ کرنے والی خدیجہ مستور ہوں یا ہاجرہ مسرور ، عصمت چغتائی ہوں یا زاہدہ حنا ، جنت کی تلاش میں نکلی جیلانی بانو ہوں یا گم گشتہ ورق کی صبیحہ انور ، چراغ آفریدم کی نسیم سید ہوں یا نگار عظیم کا لمس، اپنے اپنے دور کی نمائندگی کرنے میں کامیاب رہی ہیں ، اور بہت خاموشی سے کتھا کہانی کی نئی دنیا خلق کرنے کا سبب بنی ہیں ۔ 1898 عیسوی میں نسوانی اظہار کے لئے جو منچ تیار ہوا تھا اس نے کئی خواتین قلم کاروں کو ’حاجب ‘ سے باہر نکالا۔ یہ سلسلہ نئی صدی میں بھی ’بنات‘ کے پلیٹ فارم سے جاری ہے ۔ خواتین قلمکاروں کی ایک لمبی فہرست ہے جن پر اردو تنقید نے ایمانداری سے توجہ نہیں دی۔ مجھے خوشی ہے کہ ڈاکٹر عشرت ناہید کی سی خاتون کہانی کی آباد ہوتی نئی نئی بستیوں / قبیلوں پر ایک نئے ڈائلاگ کا آغاز کر چکی ہیں۔ بہت تیزی سے نئے نئے تخلیقی جہاں آباد ہو رہے ہیں۔ دکھائی دینے والے اس جہاں میں ، ڈاکٹر عشرت ناہید ناقابل تسخیر وجدان کے ساتھ کہانی کی کہانی ’فرش ‘ پر بیٹھ کر سنا رہی ہیں ۔ شاید کہ عشرت کو پتا ہے کہ فرش پر بیٹھنے والے چہرے ہی عرش والے کے قریب ہوتے ہیں اور عرش سے ہی تو حروف بوندیاں برستی ہیں ۔ جس میں ہم ہوتے بھی ہیں اور نہیں بھی ہوتے ۔ مجھے ایسا کیوں محسوس ہوا کہ’ورع فطرت ‘ عشرت کو وجد کی طرف لے جاتی ہے :
کچھ ہی کیوں نہ ہو جو ہو سو ہو / ہر چہ باداباد
مروجہ تنقیدی فریم سے آزاد ہوتی ہوئی ان کی یہ کتاب ایک نئے ویزن کو سمیٹے مشرقی عورت کے جہاد نفس کی داستان سناتی ہے ۔
آدم = آد + ائم = زمین
مختلف کیفیتوں والی ، نرم و سخت ، شیریں و تلخ ، شہد شہد۔ نمک نمک ، نمکین اور شیریں زمین کی ایک مٹھی ماٹی ، داستان رنگ کہانی کائنات کی وجہ بنی ۔ ابتدا سے اب تک کے سلسلے یہ بتاتے ہیں کہ ’ زمیں مٹی عورت ‘کہانی کا زاد بوم !
کہانی زمین کا محور اس جہاں کی پہلی عورت ۔
عورت جو زمین کی صفات لئے گھوم رہی ہے ۔
آدم کی حوا سے لے کر آج کی حوا تک داستان رنگ کہانی کی ایک ندی بہہ رہی ہے ۔ ماں کی سی خصوصیات / اعمال و اطوار کو ململی ساڑی میں سمیٹے ہوئے ۔

ہر عہد میں موضوعاتی سطح پر ، خواتین قلم کاروں کی کہانیاں ، اسلوب کی دھانی رنگ چنریا لہراتے ہوئے کچھ اس طرح اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہیں کہ جیسے آسمان و زمین سے التیامی عمل جاری ہو ۔ ہر وہ کہانی ماورائے طبیعاتی دور میں سفر کرتی ہے جو آسمانوں زمینوں کی سنہری تہذیب ماٹی سے جڑی ہوئی ہو ۔ کہانی جب زمین سے جڑی رہتی ہے تو اس کے حروف پاؤں بن جاتے ہیں ٹھیک اسی طرح جب مچھلیوں کو زمین پر زندگی گزارنی پڑیں تو مچھلیاں بن گئیں مگرمچھ !
خواتین قلم کاروں کی کہانیاں ، مگرمچھ کے آنسو بہانے والے ’ اکھاڑے کے جوان ‘ کی آنکھوں پر لگی عینک کو اتار پھینکتی ہیں ۔
اکھّو مکھّو میاں کو اللہ رکھیو کہ حروف تہجی کی جنگ ابھی اکھڑی اکھڑی باتیں کرنے والے سماج سے جاری ہے ۔
آرزوؤں کے ٹوٹتے بکھرتے شیش محل ، ٹھہرے ہوئے کٹورا تالاب میں حسرتوں کے کنول ، غلام عباس کی گڑیوں سے کھیلنے والی لہو لہو زینب ، عدم تحفظ ، خوف ، بے چارگی ، بے بسی کا شکار معاشرہ اور دوسری طرف کہانی قبیلہ کے وہ چہرے جو جنس کو بطور موضوع پیش کرنے کی روش کو عام کر رہے ہیں ۔ ان چہروں کو دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ان کی نگاہیں عورتوں کے بدن سے الگ کچھ کیوں نہیں دیکھ پاتیں ۔ ادب قبیلہ کے آئینہ چہروں کی جنگ اس سماج سے بھی ہے جو آزادء اظہار کے نام پر جبر ، ظلم ، بربریت ، استحصال کو چھوڑ جنسی واقعات کو کہانی کی تھالی میں جس طرح پروس رہے ہیں وہ فن کے تقاضوں کی صریحاً نفی ہے ۔
زمین عورت
عورت زمین
اپنے عہد کی گواہ
انجل بھر بھر حروف کو ایک نئے معنی کے ساتھ بانٹنے والی عورت کو کیا وہ مقام ادب زمین پر مل پایا جس کی وہ مستحق ہے ؟
تخلیق کی بلند ترین معراج کا شاہکار ایک شکل سے دوسسری شکل تک پہنچتے پہنچتے کیا سے کیا ہو گیا۔ ؟؟
اور اک ’وہ ‘ جس نے جس طرح سے چاہا انسانوں کو پیدا کیا ۔ چار دشائیں چار مثالیں۔ کیا خلاقیت کے نشان اعظم سے ہی ہر عہد میں سفر کرنے والی کہانی کی ابتدا ہوئی ہے ؟
کہانی زمین سات رنگین کمان کی گواہ بنی تھی جب بارش چالیس دن اور چالیس رات لگاتار ہوتی رہی تھی۔ تمام راز اور بھیدوں کو اپنے سینے میں دفن کرنے والی زمین / عورت ، لاکھوں تہذیبوں / نظریوں اور نفرت کی چنگاری سے انسانی رشتوں کی مضبوط ڈور کو سلگتے ہوئے جل کر راکھ ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہے ۔ مگر وہ خاموش تماشائی نہیں ، بڑے دالان سے باہر نکل کر اس کے حروف بول ر ہے ہیں ۔ دیکھئے تو ذرا ٹھہر کر ، کہانی سوچ پیکر ، مسرور جہاں ، فہمیدہ ریاض ، نیلم احمد بشیر ، ذکیہ مشہدی ، تبسم فاطمہ ، شائستہ فاخری ، ثروت خان ، ترنم ریاض ، غزال ضیغم ، افشاں ملک ، نسترن احسن فتیحی ، عشرت معین سیما ، شاہین کاظمی ، صادقہ نواب ، طاہرہ اقبال ، عائشہ صدیقی ، صبیحہ انور ، ، سبین علی ، عشرت ناہید ، رشید جہاں انور ، سلمیٰ جیلانی ، نصرت اعوان ، سمینہ سید ، سیمیں کرن ، فرحین چودھری اور اور غزالہ قمر اعجاز ، ترنم جہاں شبنم , سلمیٰ صنم , شہناز رحمٰن اتنے سارے نام ہیں کہ تھرکتی ہوئی انگلیاں تھک گئیں ۔
سنتے ہیں مائیں دعائیں سجدے میں مانگتی ہیں اور ان دعاؤں میں پورا سماج ہوتا ہے ۔
سنتے ہیں ماؤں کی’ دعا ہتھیلی ‘ آسمان بن جاتی ہے ۔
سنتے ہیں عورت کی ہر رات آندھی سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہوتی ہے
سنتے ہیں سب سے بڑی تمثال گر عورت ہی ہے ۔ اے زم زمی !
سنتے ہیں تہذیب کا آنچل ہر ماں / بیٹی کے سر سے اب سرکتا نہیں ہے
سنتے ہیں قدیم لباس میں آج بھی ستارے چمکتے ہیں
سنتے ہیں ہم سب ، ناری کہانی زمین کی صدا کو مگر ……؟؟
جگنو صفت کہانیوں پر عشرت ناہید کی گفتگو ابھی جاری ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ کہانی سنانے والی مائیں مچھلیاں نہیں سیپیاں ہوتی ہیں – حرف حرف خوابوں کے روپ میں سجی سنوری اس کتاب کی خاطر خواہ پذیرائی ہو گی اس بات کا مجھے یقین ہے ۔
خورشید حیات
9752475934
بلاسپور، مدھیہ پردیش

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular