Sunday, May 5, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldعصری تعلیم سے وابستہ افراد کیلئے علم دین کیوں ضروری ہے

عصری تعلیم سے وابستہ افراد کیلئے علم دین کیوں ضروری ہے

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

حافظ محمد طیب الدین

یوں تو علم دین ہر مسلمان کے لئے بلکہ ہر انسان کے لئے ضروری ہے کیوں کہ عقائد و اعمال کی درستگی کا انحصار علم کے اوپر ہے جس پر دنیا وآخرت کی حتمی کامیابی کا دارومدارعلم پر ہے ۔لیکن کئی وجوہات کی بناپر راقم کا خیال یہ ہیکہ عصری تعلیم سے وابستہ افراد کے لئے علم دین کی فکر کرنا زیادہ ضروری ہے ۔اس کی سب سے پہلی وجہ یہ ہیکہ عصری تعلیم اداروں میں جس فلسفہ حیات کی تعلیم و تبلیغ کی جارہی ہے وہ اس کی بنیاد ہی مادیت پرستی (Eaterialism)عقل پرستی (Ratiinalism ) آزاد خیالی (Heterodeox/nonconformism )نفس پرستی (Epicurism)مذہب بیزاری (lrreligiousness )اور اللہ اور اس کے رسولوں کے احکامات سے بغاوت پر ہے جس کا مقابلہ کرنے اور دین پر جمے رہنے کے لئے علم دین کا ہونا ضروری ہے بصورت دیگر مغریبی تہذیب (Westem culture)اور طور معاشرت سے مرعوبیت اور اپنے مذہبی و تہذیب ورثے کے تئیں احساس کمتری کا شکار ہوجانا ، دل و دماغ سے دین کی عظمت سے کافر ہوجانا اور اسلام کے بنیادی عقائد اور بہت سے احکام کے سلسلہ میں شکوک و شبہات اور تہذیب کا شکار ہوجانا ، ماں باپ کی خدمت دور ہوجانا ،بڑوں کا ادب نہ کرنا ، چھوٹوں پر شفقت نہ کرنا ، عصری تعلیم کا لازمی ثمرات میں سے ہے ۔اس کے علاوہ ازیں عصری تعلیم کا حتمی مقصد چوںکہ اقصادی ترقی ،آشائش بخش زندگی کاحصول اور عیش کوشی ہی بن کر رہ گیا ہے ۔ اس لئے عصری تعلیمی ادروںکے فارغین کے اندر مال دولت کی حرض و ہوس کا پیدا ہوجانا اور اس نتیجہ میں حلال و حرام کی تمیز کا کھو دینا عام طور پر مشاہدہ میں ہے ۔جس کی وجہ انسانی قدریں بھی پامال ہورہی ہیں ۔اور عصری علوم کے لئے اگر کانوٹ(convent )اور مشنری (missionary )کے اداروں کاسہارالیا گیا تو معاملہ کفر و الحاد تک بھی پہنچ جائے تو کچھ مستبعد نہیں .ان باتوں کا مطلب قطعی طور پر یہ نہیں ہے کہ عصری علوم کے اندر یہ خرابیاں ذاتی و خلفی طور پر (inherently)موجود ہیں بلکہ ان میں بہت سے ایسے علوم ہیں جو انسانیت کے لئے بہت ہی نفع بخش ہیں ۔لیکن انہیں چونکہ مغریبی افکار اور مغریبی تہذیب کے قالب میں ڈھال کر پیش کیا جاتا ہے اس لئے مذکورہ نتائج سامنے آجاتے ہیں ۔ یہ اسلام ہی ہے جو ایک انسان کو مادیت پرستی اور الحاد سے ہٹاکر خدا پرستی کی طرف لے جاتا ہے ،عقل کو وحی الہی کے تابع کرنا اور نفس کی بندگی چھوڑ کر اللہ کی بندگی کرنا سکھاتا ہے اور اسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کا پابند بناتا ہے ۔لیکن سب تب ہی ممکن ہے جب اسے اسلامی تعلیمات سے نہ صرف یہ کہ روشناس کریا جائے بلکہ اس کی تعلیم و تربیت اسلامی اقدار کے مطابق کی جائے ۔ ہمارے معاشرہ میں تو ایک عجیب چلن ہوگیا ہے کہ بچہ تین سال کا ہوانہیں کہ اسے کسی کانوٹ یا مشنری اسکول میں ڈال دیتے ہیں جہاں وہ اپنے دینی و ثقافتی ورثہ سے بالکل کٹ جاتا ہے اور خالی ذہن پر مغروبیت اور کفریہ افکار بہ آسانی نقش کر دیئے جاتے ہیں جس کا نتیجہ میں رسول اللہ ﷺ کا ایک امتی جس کی صلاحیتوں کا استعمال دین کا دفاع کرنے اور اسلامی اقدار کی احیاء و بقاء کے لئے ہونا چاہئے تھا اپنی صلاحیتوں کا استعمال دینی شرعی اقدار کا تنقید کا نشانہ بنانے کے لئے کرتا ہے ، علماء کو تاریک خیال اور خود کو روشن خیال تصور کرتا ہے اور دشمنان دین کو تالیاں پیٹنے کا موقع فراہم کرتا ہے ،اس طرح دنیابنانے کی فکر میں والدین خود ہی اپنے بچے کی آخرت کو دائو پر لگادیتے ہیں ۔جولوگ دیندار تصور کئے جاتے ہیں وہ بھی اپنے بچوں کے لئے قرآن کی ناظرہ خوانی اورچند دعائو ں کو حفظ کرادینے سے زیادہ کی فکر نہیں کرتے جس سے ان کے عقائد و افکار پر کوئی معنی خیزفرق نہیں پڑتا جب کہ ہونا یہ چاہئے تھا کہ ان کے دل دماغ میں اسلامی عقائد کو راسخ کیا جاتا ،دین کی عظمت ان کے دلوں میں بٹھائی جاتی ،اسلام کی بنیادی تعلیمات سے اسے روشن کیاجاتااور ان کے اندر داعیانہ صفات پیداکی جاتی تاکہ زمانہ کی تیز و تند ہوائوںکا وہ مقابلہ کرسکتے لیکن افسوس کہ ایساہوتا نہیںہے عصری تعلیم سے وابستہ مسلمانوں کے لئے علم دین کی ایک گونہ زیادہ فکر کرنے کی دوسری وجہ یہ ہیکہ ان کا اخطلاط زمانہ طالب علمی سے لیکر علمی زندگی تک مختلف شعبہ حیات میں غیر وں سے زیاد ہوتا ہے مدر سوں کے فارغین کا وابستہ غیروں سے نہیں کے برابر پڑتا ہے وہ غیروں کے سامنے نہیں جاتا ۔علما ء میں عصری تعلیم کی بہت ضروری ہے ۔کیوں کہ دین کے ساتھ عصری تعلیم ضروری ہے ۔علماء مدارس خانقائوں تک ہی محدود رہتے ہیں اس لئے ان کی زندگی میں جو دین ہے وہ غیروں کے سامنے نہیں جاتا۔ وہ برادروطن سے دور ہے عصری تعلیم سے وقف ہو تب ہی برادروطن میں صحیح دین ہیش کر سکتے ہیں ۔ اسلام کے بنیادی چیزیں برادر وطن میں پیش کر سکتے ہے ۔برادر وطن میں اسلام کے اچھے اوصاف اخلاق، واداب ماں باپ کی خدمت ،چھوٹوں پر شفقت ،بڑوں کا ادب ،سلام کے اداب ،بھوکوں کو کھانا کھلانا ،برائیوں سے بچانا ۔ راستہ کے آداب بتانا ۔ حضور ﷺ کی سیرت پیش کرنا ۔تب ہی پیش کر سکتے ہیں علماء عصری تعلیم حاصل کریں ۔علماء مدارس کے علاوہ اسکول بھی قائم کریں ۔عصری تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم کا انتظام کریں ۔عصری علوم کے فارغین حضرات علماء کا احترام کریں ۔ علماء سے دین کا علم حاصل کریں ان کی صحبت اختیار کریں ۔اس کے بر علس عصری اداروں کے فارغین کی پوری زندگی غیروں کے نگاہ میں ہوتی ہے اور اسلام کے بارے میں جو تصور وہ قائم کرتے ہیں وہ عصری تعلیم کے حامل مسلمانوں کی زندگی کو دیکھ کر ہی کرتے ہیں اور چونکہ ان کی زندگی میں دین نہیں ہوتا اس لئے وہ لوگ اسلام سے متاثر تو کیا ہوتے الٹا بدظن ہوجاتے ہیں ،تجربہ اور مشاہدہ میں یہ بھی ہے کہ اگر کسی غیر مسلم نے کبھی کوئی سوال اسلام کے بارے میں اپنے مسلمان ساتھی سے کردیا تو اس بیچارے کے پاس اتناعلم بھی نہیں ہوتا کہ اس کا تشفی بخش جواب دے سکے اس لیے یا تو وہ خاموش رہ جاتا ہے یا الٹی سیدھی باتیں بناکر اسے مزید بدظن کردیتا ہے ۔اس طرح غیروں کے نزدیک اسلام کاغلط تصور قائم کرنے کے ذمہ دار عام طور پر عصری اداروں کے فارغ مسلمان ہوتے ہیں نہ کہ مدرسوں کے فارغ علماء الا یہ ان کے بیانات یا ان کی کارکردگی میڈیا کے ذریعہ غیر مسلموں تک پہنچے۔اس لئے بھی بہت ضرورت اس بات کی ہے کہ عصری تعلیم سے وابستہ مسلم نوجوانوں کے لئے علم دین کی زیاد سے زیادہ فکر کی جائے ۔تیسرا ۔ ہر والدین اپنے بچوں کا داخلہ مسلمانوں کے اسکول میں کرائیں دینی ماحول کے اسکول میں داخلہ دلائیں مشنری اسکول میں ہر گز داخلہ نہ لیں ، مشاہدہ میں یہ بات دیکھنے میں آیا ہیکہ ۔نظام آباد میں عزیز رشتہ دار کا انتقال ہوا ۔ اس مشنری اسکول میں مسلم بچے پڑھنے والے بچے انتقال گھر آئے ۔ جب لوگ مردے کو دفن کرنے کے بعد گھر لوٹ رہے تھے ۔ بچوںکے گلے میں صلیب کا نشان لٹکائے ہو تھے اس صلیب کو چومنے لگے اور سینے پر صلیپ کا نشان بنارہے تھے ۔ جب ان بچوں کے والد اس بچے سے دریافت کیا ۔ بچوں آپ یہ کیا گلے میں لٹکایا ہے ۔ کیوں اس کو چوم رہے ہو ۔کیوں سینے پر صلیب کا نشان بنارہے ہو ۔ بچوںنے بتایا ہر روز اسمبلی سے پہلے یسوع کے پاس جھکر اس گلے میں صلیب کے نشان کو چومتے ہیں اور روزانہ سینے پر صلیب کا نشان بناتے ہیں ۔ جب ان بچوں کے والد سن کر پریشان اور بیہوش ہوگئے ۔ میرے بچوں کے ساتھ کتنی بڑی ناانصافی کی ۔میں نے اپنے بچوں کو نصرانے بنانے میں خود ذمہ دارہوں ۔ میں اچھی تعلیم کی فکر کی ہے مگر یہ نہیں سوچا کہ یہ اسکول کس کا ہے ۔ اسی طرح کا واقعہ بنگلور میں پیش آیا ہے ۔مسلمان خواہ وہ جس شعبہ میں ہو خود کو اس شعبہ میں رسول ﷺ کے دین کا ایک نمائندہ تصور کرے اوراول درجہ میں اپنی زندگی میں اسلام کو نافذ کر کے دوسروں کے لئے علمی نمونہ بنے تاکہ دنیا والے یہ دیکھیں کہ ایک ایماندار، ڈاکٹر ، انجینئر ،پروفیسر ،ایڈوکیٹ ،تاجر،منتظم اور سماجی کارکن ،وغیرہ کیسا ہوتا ہے ؟ ان مختلف شعبہ حیات میں علمی نمونہ عصری علوم کے حاملین ہی بن سکتے ہیں مدرسوں کے فارغین نہیں ، الا ماشاء اللہ اور یہ یہ تب تک ممکن نہیں جب تک لوگ علم دین حاصل نہ کریں اور ان کی تربیت اسلامی ماحول میں اسلامی خطوط پرنہ ہو ۔۔۔ الحمد للہ تنظیم اصلا ح معاشرہ وازلہ منکرات ایک جدید نصاب مرتب کیا ہے جو عملی نصاب ہے ۔کتاب گریہ زاری ذکر رسولﷺ ، کتاب اصلاح معاشرہ وازلہ منکرات ، قرآنی اخلاقی قاعدہ جو عصری اسکولوں کے لئے ہے ،چاٹ اسلامی تہذیب ،چاٹ اخلاق وآداب، چاٹ ماں باپ کی خدمت ، چاٹ سلام کے آداب،چاٹ کھانے کے آداب ،چاٹ سونے کے آداب ،چاٹ نماز کے فضائل ،مفت ہر اتوار عصری ٹیچروں کوجدید عملی نصاب کی دینی تربیت دیجاتی ہے ،عصری اسکولوں کے لئے مفت تقسیم ہے , جدید عملی تربیتی نصاب ، مساجد کے صباحی مساعی اور عربی ٹیوشن و سرکاری اسکول کے دینیا ت کیلئے مفت تقسیم کی جارہی ہے ۔
Call 9247765023

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular