Monday, May 6, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldشیطانی چال یا حسن تدبیر !

شیطانی چال یا حسن تدبیر !

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

عظمت علی

آخرش !اس نے آپ کو بلا بھیجا ۔آپ نے متعدد بار اس کے خطوط کا نفی میں جواب دیا۔پھر بھی اس کا اصراربڑھتا ہی گیا ۔مجبورااس کے پیام کا مثبت جواب دینا پڑا۔جس روز آپ مدینہ منورہ کو الوداع کہہ رہےتھے ،اپنے اہل وعیال کو جمع کیا اور فرمایا:میرے اوپر گریہ کرو ۔کیونکہ میں دوبارہ اپنے خاندان میں واپس نہیں آنے والا۔(بحارالانوار ،علامہ مجلسی ،تہران ،المکتبہ الاسلامیہ جلد 49صفحہ 117طبع 1385ھ )
آپ رسول خداصلی اللہ علیہ وآلہ و سلم سے رخصت ہونے کے لیےمسجدا لنبی میں داخل ہوئے ۔آپ نے کئی دفعہ آنحضر ت کو الودا ع کہااورپھر قبر پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ و سلم کے پاس چلے گئے اور بآواز بلند گریہ فرمایا۔
مخول سیستانی کہتے ہیں :میں اسی عالم میں حضر ت کی زیارت سے شرفیاب ہوا ،سلام عرض کیااور “سفر بخیر”کہا ۔
آپ نے فرمایا:مجھے غور سے دیکھو۔میں اپنے جد سے دور ہورہاہوں،عالم غربت میں جان دوں گااور ہارون کے قریب دفن کیا جاؤں گا۔(مذکورہ حوالہ)
امام چند اولادعلی علیہ السلام کےہمراہ سفر کے لئے آمادہ ہوئے ۔بالآخر !چار ماہ کی مشقت برداشت کرکے 201 ھ میں مرو پہونچے ۔وہاں کے لوگوں نے آپ کاوالہانہ استقبال کیااور اس قدر جم غفیر ہوگیا تھا کہ آپ کی زیارت کے لئے تانتا بندھ گیا تھا۔
امام داخل دربارہوئے ۔مامون نے سب سےپہلے حکومت کی پیشکش کی اورکہاکہ میراارادہ ہے کہ میں خودکو منصب سے معزول کرکے آپ کے ہاتھوں بیعت کرلوں۔
امام نے فرمایا:اگر خلافت تمہاراحق ہے تو جائز نہیں کہ جولباس خداوند عالم نے تمہیں پہنایاہے اسے اتارکر کسی اور کےسپرد کردواور اگر تمہارا حق نہیں تو جو چیز تمہاری نہیں وہ تم مجھے کیوں کر دےرہے ہو!؟
۔۔۔یہاں تک کہ اس نے مایوسانہ لہجے میں کہا:تب ولایت عہدی ہی قبول فرمالیں ۔
آپ نے اس کے جواب میں انکار فرمایا:تب اس نے سخت لہجہ میں کہا :عمر ابن خطاب جس وقت دنیا سے جارہے تھے ،انہوں نے چھ افرادکے درمیان شوریٰ قرار دی تھی۔جس میں سے ایک امیرالمومنین علی بھی تھے۔انہوں نے اس طرح کہا کہ جو کوئی بھی مخالفت کرے گااس کی گردن اڑادی جائے گی ۔لہذا،آپ بھی میری رائے قبول کریں ۔اس لیے کہ میرے پاس اس کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیں !(اعلام الوریٰ باعلام الھدیٰ ،طبسی ،صفحہ 333طبع :دارالکتب الاسلامیہ تہران )
آپ نے فرمایا:اللہ نے خودکواپنے ہی ہاتھوں ہلاک ہونے سے منع فرمایاہے۔تواب جو تیرے جی میں آئے اسے انجام دے ،میں قبول کروں گا۔لیکن اس شرط کےساتھ کہ نہ کسی کو عہدہ دوں گااورنہ ہی عہدہ سے معزول کروں گا۔بلکہ اس کام میں صرف مشیر رہوں گا۔مامون نے ان شرائط کو قبول کیااور امام کو اپناولی عہد بنادیا۔(بحارالانوار ،علامہ مجلسی ،جلد 49صفحہ 128ازحکایات آفتاب صفحہ 127طبع ،سوم 2015حرم امام رضا،مشہد )
آپ کا ولی عہدی قبول کرناتھاکہ سوالات کاانبارسا لگ گیا۔کیونکہ 183ء یا 184ءمیں مامون کے باپ ہارون رشید کے ہاتھوں آپ کےوالد گرامی امام موسیٰ کاظم علیہ السلاماور شیعوں کاقتل عام اور 201ء میں آپ کا ولی عہد بن جانا۔۔۔!!!
گویا ابھی شمشیر جفاسے بے گناہ شیعوں کا خون ٹپک رہاتھا کہ حضرت نے مامون کی تجویز کو قبول کرلیا ۔یہ تمام چیزیں باعث بنیں کہ لوگ حیرت زدہ ہوجائیں ۔سادہ لوح عوام کے اعتراضات نے پوری فضاکومکدرکر رکھا تھا ۔ان سبھوں کا ایک ہی سوال تھاکہ امام نے مامون کی دعوت کوقبول کیوں کیا۔۔۔؟!
حضرت نے فرمایا:اسی دلیل کے باعث جو میرے جد حضرت علی علیہ السلامکے شوریٰ میں داخل ہونے کا سبب بنی۔(مناقب آل ابی طالب ،ابن شہر آشوب ،موسسہ انتشارات علامہ جلد 4 صفحہ 364قم ۔عیون اخبار الرضا ،شیخ صدوق ،دارالکتب الاسلامیہ جلد2صفحہ 141اور بحارالانوار جلد 49 صفحہ 140از حکایات آفتاب صفحہ 106۔۔۔)
ایک دفعہ امام نے انہیں اعتراض کرنے والوں میں سے ایک معترض کے جواب میں فرمایا:پیغمبر افضل ہیں یا وصی ؟
جواب دیا :پیغمبر۔
پھر پوچھا :مسلمان برتر ہے یا مشرک ؟
کہا:مسلمان ۔
حضرت نے فرمایا :عزیز مصر مشر ک تھا اور یوسف پیغمبر ۔جبکہ مامون مسلمان اور میں وصی ہوں ۔یوسف نے خود عزیز مصر سے چاہا تھا کہ ان کو ولایت کا عہدہ دے ۔لیکن میں تو اس کام پر مجبورکیاگیاہوں ۔(حکایات آفتاب صفحہ 106اور بحارالانوار جلد 49صفحہ 136)
اب سوال یہ ہےکہ مامون نے امام کو خراسان طلب کیوں کیا اور حکومت کی پیشکش کیوں کرڈالی ؟آخر کون سی چال چلنا چاہتاتھا۔تاریخ نےاس سوال کا جواب یوں دیاہے کہ :
(1)مامون عام لوگوں کی نگاہوں میں اور خصوصا بنی عباس کے نزدیک باغی شمار کیاجا تاتھا ۔اس لیے کہ اس نے اپنے باپ کی وصیت کو ٹھکراکر اپنے سوتیلے بھائی “محمد امین “کو قتل کرڈالاتھا جو کہ قانونی حیثیت سے خلیفہ و قت تھا۔
(2)عجم سے عرب کے تعصب ہونے کے سبب لوگ اس کے خاندان کو کسی قابل نہ سمجھتے چونکہ اس کی ماں غیر عرب تھی ۔
(3)مامون کی حکومت کے زیادہ تر طرفدا ر عجم تھے اور بنی عباس تو اس کو خاطر میں بھی نہیں لاتے تھے ۔
(4)ایرانی علوی جو کہ خصوصا صوبہ خراسان میں زیادہ اثرو رسوخ رکھتے تھے وہ بنی عباس اورخاص طور پر ہارون رشید سے سخت نفرت کرتے تھے ۔اس لیے کہ اس کے ہاتھ شیعان علی کے لہو سے لت پت تھےاور و ہ مختلف علاقوں میں مخالفت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔صورت حال بد سے بدتر ہوئی جارہی تھی ۔لہذا! اس نےان حالات پر قابو پانے کی خاطر آپ کو منصب ولایت عہدی سونپ دیا۔جس سے اس کو بہت سے ذاتی اور حکومتی مفادات حاصل ہوئے ۔منجملہ:۔
(1)علویوں کے انقلاب و قیام کو کچل دینا ۔
(2)حکومت کو قانونی رنگ دینا۔
(3)ایرانیوں کی توجہ مبذول کرنا جو کہ علویوں کے حامی تھے ۔
(4)امام پر نظر رکھنا تاکہ حکومت کے خلاف کوئی اقدام نہ کرسکیں ۔
(5)آپ کو مذکورہ عہدہ سپردکرکے عرب وعجم کے اختلاف ختم کرنا اور عربوں کو اپنی حکومت کی طرف مائل کرنا ۔
(6)آپ کو حکومتی معاملات میں الجھا کر آپ کی عظیم شخصیت کو ختم کرنا اور دنیا طلب چہر ہ دکھا کر آپ کی معنوی حیثیت کے بے معنی قرار دینا مگر
نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا
بہر کیف!وہ یہ چاہتاتھا کہ کسی بھی صورت آپ کو دنیا کا طلب گارہ ثابت کیا جائے گا۔لیکن حکومتی امور میں شریک کار نہ ہوکر امام علی رضا علیہ السلام نے علوی حسن تدبیر سے عباسی شیطانی چال کو نقش بر آب کردیا ۔اس کی احمقانہ خواہش تھی کہ امام کے علمی وقار کو لوگوں کے سامنے کم کردیا جائے جس کے لیے مناظرہ وغیرہ کا سہارابھی لیا ۔لیکن “خود آپ اپنی جال میں صیاد آگیا”اور مختلف مذاہب کے علما ء کو خود ان کی کتابوں سے دندان شکن جواب دے کر امام نے لوگوں کاد ل جیت لیا اور ہر سمت آپ کے علم و فضل کا سکہ رائج ہوگیااور مامون کی ساری سازشیں خود اس کے سر گئیں۔
[email protected]

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular