Sunday, May 12, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldسرسیَّد کے فلسفہ تعلیم کی اہمیت اور ہم

سرسیَّد کے فلسفہ تعلیم کی اہمیت اور ہم

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

  پروفیسر  سیَّدلطیف حسین کاظمی، 
استاد شعبۂ فلسفہ مُسلِم یونیورسٹی،علی گڑھ،
سر سید احمد خان کی دو صد سالہ جشنِ ولادت کی تقریبات کے پیش نظریہ مقالہ بطور خراج عقیدت حاضر ہے جس میں مختصراً کوشش یہ کی گئی ہے کہ بانئی درسگاہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے تصوّرِتعلیم پر روشنی ڈالی جائے اور دورِ حاضر کے تناظر میں یہ احاط کیا جائے کہ دو سو سال کے عرصہ میںہم نے کیا پایا اور کیاکھویا۔
’علی گڑھ تحریک‘ جس کی شروعات باقاعدہ طور پر ۱۸۶۴؁ء سے ہوئی، کو ئی معمولی تحریک نہ تھی ۔اِس تحریک میں تمام ہندوستانی باشندوں کے لئے عموماً اور مسلمانوں کے لئے خصوصاً احیأ اور ذہنی بیداری کا پیغام تھا۔ سر سید کی یہ اصلاحی تحریک وقت کی ضرورت تھی۔ اُن کی دور رس نگاہوں نے زمانے کے رُخ کو پہچان لیا تھا۔ سر سید کی یہ اصلاحی تحریک وقت کی ضرورت تھی جس کے لئے ِتعلیم کی  اشد ضرورت تھی۔اب ان کے تصوّرِتعلیم پرایک نظر:
سر سید کافلسفہ تعلیم جداگانہ تھا۔ وہ تعلیم سے مرادصرف لکھنا ،پڑھنا اور سیکھنا مراد نہیں لیتے تھے بلکہ وہ تعلیم کو انسان کی ہمہ جہت ترقیاتی منصوبوں کا ضامن قرار دیتے تھے۔ وہ تعلیم کو اخلاقی بلندی، مہذب رویہ اورذہنی کشادگی کا ایک بہترین وسیلہ سمجھتے تھے اور ساتھ ساتھ اسے سماجی بہتری کا آلہ کار گردانتے تھے ۔وہ کہتے ہیںـــ’’مجھے اس سے زیادہ خوشی نہیں کہ کسی نے بی۔اے یا ایم۔اے کی ڈگری حاصل کرلی بلکہ میری خوشی تو قوم کو قوم بنانے میں ہیـ‘‘۔ اسی ضمن میں پھر فرماتے ہیں ’’عزیزو! تعلیم! اگر اس کے ساتھ تربیت نہ ہواور جس تعلیم سے قوم قوم نہ بن سکے۔ وہ تعلیم در حقیقت کچھ قدر کے لائق نہیں ہے۔ پس انگریزی پڑھ لینا اور بی۔اے اور ایم۔اے ہو جانا جب تک کہ اس کے ساتھ تربیت اور قومیت کی فیلنگ (Feeling)نہ ہوہم قوم کو قوم اور ایک معزز قوم نہیں بنا سکتے‘‘ ۔سر سید تعلیم کے ساتھ تربیت کو لازمی سمجھتے ہیں۔ اُن کے نزدیک’ ’جوکچھ انسان میں ہے۔ اس کو باہر نکالنا انسان کو ’تعلیم‘دینا ہے اوراس کو کسی کام کے لائق کرنا، اس کا تربیت کرنا ہے‘‘۔اس طرسر سید کے مطابق تعلیم ایک جوہر ہے جس سے انسان کی اندرونی خدا داد صلاحتوں کو تحریک ملتی ہے اور وہ شگفتہ و شاداب ہو کر انسان کی ذاتی ،تہذیبی ،سماجی اور قومی و ملکی ترقی میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔
سر سید کے نزدیک اگر تعلیم کے ذریعہ انسان کے اندرون میںپوشیدہ صلاحتیں نہیں نکھرتی ہیں تو وہ بے کار، برائے نام تعلیم ہے جس کا اندازہ ہم موجودہ دور میں کر سکتے ہیں۔سر سید کے خیال میں اگر کوئی انسان کتنا ہی نیک دل کیوں نہ ہوجب تک وہ عمدہ تعلیم و تربیت سے آراستہ نہیں ہوتا، اس وقت تک اس کی ہرخوبی اور اس کا ہر کمال اس کے اندر ہی پوشیدہ رہتے ہیں اور اسکی شخصیت کی سچھی اور اچھی تصویر ابھر کر سامنے نہیں آپاتی۔اسی طرح عام مسلمانوں کی عموماً اور ہندوستانی مسلمانوں کی خصوصاً وہ ساری خرابیاں مثلاً جہالت، تنگ نظری، تعصب، عیب جوی وغیرہ کو دور کرنے کے لئے اعلیٰ تعلیم کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے سر سید فرماتے ہیں:
’’میں اپنی قوم میں ہزاروں خوبیاں دیکھتا ہوں پرناشائستہ، ان میں جرأت مندی اور بیباکی پاتا ہوں پر خوفناک،ان میں قومی استقلال دیکھتاہوں پربے ڈھنگا،ان میں صبرو قناعت بھی ہے پر بے موقع،پس میراد ل جلتا ہے اور میں خیال کرتا ہوں کہ اگر یہی انکی عمدہ صفتیں عمدہ تعلیم و تربیت سے آراستہ ہو جائیں تو دین و دنیا دونوں کے لئے کیسی کچھ مفید ہوں‘‘ ۔(مقالات سرسید، مرتب:محمدعبد اللہ خویشگی صفحات: ۷۶۔۷۷)
سر سید کا فلسفہ تعلیم تین اہم اصولوں پر مبنی ہے۔ ایک علیگ عالم و مفکر وہ ہوگا جس کے دائیں ہاتھ میں فلسفہ، بائیں ہاتھ میں سائنس اور ٹیکنالوجی اور سر پر کلمہ طیبہ کا تاج۔ تمام کے تمام امور کوسمجھنے کے لئے فلسفہ کا ادراک ہونا از حد ضروری ہے گویا علم المعاملہ مین عقلی دلائل، حالات کا منطقی جائزہ، فہم وفراست کا درست استعمال اور زندگی کے تمام شعبہ جات مین تدبّر، تعقّل، تفکّر سے کام لیا جائے تاکہ انسان میں بردباری، نیکی، خوشی اخلاقی، کشادہ دلی اور انسانی خدمت کے جذبات جگہ پا سکیں۔ سائنسی مزاج اور روز مرہ کی ضرورتوں کو پورا کرنے اور ترقیاتی میدانوں میں آگے بڑھنے کے لئے ٹکنالوجی کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ لہذا سائنسی علوم، انگریزی اور دوسری زبانوں کی بھی مہارت ہونا لاذمی ہے۔ تیرا اہم اصول تو حید اور رسالت کا ہے جس پر مسلمانوںکی اساس ٹکی ہے لہذا فلسفہ، سائنس اور دیگر سارے علوم کو حاصل کرتے ہوئے ان کے استعمال میں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ پورا تعلیمی مشن تو حید اور رسالت کے مطابق ہو، وہ لکھتے ہیں، ’’ اس بات کی خوشی کہ مسلمان مختلف علوم و فنون میں ترقی کریں اسی وقت ہو سکتی ہے جبکہ دنیاوی علوم کے ساتھ مذہبی تعلیم و تربیت میں بھی وہ ترقی کریں‘‘۔
سر سید کے فلسفہ تعلیم کے بر عکس آج اکیسویں صدی کی مسلم دنیا کا جب ہم بغور مطالعہ کرتے ہیں۔ تویہ پاتے ہیں کہ تعلیمی میدان میں ہمارا مقام جو ہونا چاہئے تھا وہ نہیں ہے۔ اگر چہ صورتِ حال مایوس کُن نہیںمگر بہت بہتر بھی نہیں۔ مدرسوں کا حال دیکھئے، علما کی تبلیغات کو سنئے، یونیورسٹیوں کی تعلیم کا جائزہ لیجئے، پڑھے لکھے بے روذگار نوجوانوں پر نظرڈالئے ،ہر طرف سوائے مایوسی کے کچھ بھی حاصل نہیں۔ خاص کران دو صدیوں میں ہمارے کپڑے اور زیور ہی بدلے ہیں فکر و تحقیق نہیں۔ اب تو تعلیم، خواہ دینی ہو یا دنیاوی، کمرشل ہو گئی ہے اور ہم سب کھڑے تماشا ہی بنے دیکھ رہے ہیں ۔اب سماج کا ہر آدمی عام طور پر یہ کہتا ہے کہ سماج اور دین و مذہب کی خرابیوں کا ذمہ دار’’پڑھا لکھا طبقہ‘‘ ہے نہ کہ جاہل و اَن پڑھ۔ سر سید اپنے دور میں بھی یہ کہتے نظر آتے ہیں۔ ’’ہم اپنے ہاںکے عالموں کا حال بالکل ہی دیکھتے ہیں: کہ ان کے روحانی قویٰ بالکل نیست  و نابود ہو جاتے ہیں، اور صرف زبانی بک بک یا تکبر و غرور، اور اپنے کو بے مثل و نظیر، قابلِ ادب سمجھنے کے اور کچھ باقی نہیں رہتا، زندہ ہوتے ہیں مگر دلی اور روحانی قویٰ کی شگفتگی کے اعتبار سے بالکل مردار ہوتے ہیں۔۔ اور ہماری حالت تمام معاملات میں، کیا دین کے کیا دنیا کے، خراب ہوئی چلی جاتی ہے‘‘ (مقالاتِ سر سید، صفحہ: ۸۱)
سر سید احمد خاں مسلمانوں کو دینی اور دنیاوی علوم دونوں دلانے کے حق میں تھے لیکن اس میں وہ خصوصیت کے خلاف بھی نہ تھے ان کا مانناتھا کہ انسان کے لئے دونوں ضروری ہیں اور ان میںفرق کرنا درست نہیں۔ یہ ایک ہی سکّہ کے دو پہلوں ہیں اور دونوں ہی زندگی کے لئے ضروری ہیں ۔یہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے لہذا اسے غیر آباد نہیں چھوڑ سکتے اور آخرت میں یہاں ہی کے اعمال کا حساب کتاب ہوگا۔ لہذا اس کا بھی خیال رکھنا ضروری ہے۔ اسی لئے ایک ’مسلمان ‘ہر جگہ پورے کا پورا ’مُسلمان‘ ہوتا ہے ،چاہے وہ سیاست میں ہو، کاروبار میں ہو، اسکول، کالج ، مدرسہ یا یونیورسٹی میں ہو ،یا دیگر کسی بھی شعبہ زندگی سے تعلق رکھتا ہو۔ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ سیاست الگ ہے اور مذہب الگ، کاروبار الگ ہے اور دین الگ۔ اسی لحاظ سے سر سید نے دینی تعلیم کو بھی مدرستہ العلوم کا ضرور ی حصّہ مان کر شیعہ اور سنّی مسلک کے طلبا کے لئے علیحدہ علیحدہ نصاب مقرر کیا اور اساتذہ بھی ۔وہ قوم وملت میں کسی قسم کا اختلا ف نہیں چاہتے تھے حتیٰ کہ غیر مسلم حضرات سے بھی اُن کا سلوک بھائیوں ہی جیسا تھا۔ اس طرح وہ ہندو ،مسلم، سکھ۔ ، عیسائی وغیرہ کے اتحاد کے حامی تھے اور چاہتے تھے کہ تعلیم کے زیور سے سب آراستہ و پیراستہ ہوں اور قوم اور ملک آگے ترقی کی راہوں پر  گا مزن  ہو سکیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’’مدرستہ العلوم جو قوم کی بھلائی کے لئے قائم کیا گیا اس کا بانی کوئی ہو مگر اب تمام دوست تا دشمن اس بات کے قائل ہیں کہ اس قسم کی تعلیم گاہ کی قوم کے لئے نہایت ضرورت تھی اور نہایت عمدہ اصول پر قائم بھی ہوئی تھی مگر کوئی بھی اس کی امداد اورتکمیل و سرپرستی و ترقی پر مائل نہیں ہے۔ کوئی بات بھی کسی میں قومی ہمدردی کی نہیں پائی جاتی۔۔۔ خصوصاً مسلمانوں کا دل تو خدا نے اس معاملہ میں پتھر سے بھی زیادہ سخت کر دیا ہے۔مسلمانوں کا دل تو قومی بھلائی کے کام میں کسی طرح ہلتا تک نہیں ہر شخص کے دل میں یہ خیال اور زبان پر یہ مقال ہے کہ اس میں ہمارا کیا فائدہ ہے‘‘ (علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ، ۲۷ ستمبر ۱۸۷۸؁ء)
المختصر سر سید کے تعلیمی مشن یا علی گڑھ تحریک کا مُدعا و مقصد یہ تھا کہ مسلمان:
۱۔قدامت پرستی کا خاتمہ کریں ، آزادیٔ فکر اور ذہنی بیداری سے دورِ جدید کے تقاضوں کو سمجھ کر ترقی کی راہوں پر آگے بڑھیں جب تک کہ وہ آزادیٔ فکر سے کام نہیں لیں گے۔ ایک مہذّب زندگی کا تصو ّر پیدانہیں کر سکتے۔
۲۔ ایسے عقائد جن کا مذہب سے کوئی تعلق نہ ہو۔ ناروا واقعات راہ میں حائل ہوں ، ترک کر دیں اور مذہب کی روح کو سمجھیں۔
۳۔ تمام مذہبی اور دیگرتوہُمات سے اجتناب کریں اور عقلِ سلیم کی روشنی میں معاملے کو سمجھ پرکھ کر عملی صورت اختیار کریں ۔
۴۔ بچوں کو تعلیم دلانے کی ہر ممکن کوشش کریں کیونکہ بغیر علم کے زندگی کے کسی بھی شعبے میں ترقی ممکن نہیں جب تک جہالت کو جڑ سے نہیں اُکھاڑا جاتا ۔ ارتقائی راہیں ہموار نہیں ہو سکتیں۔
۵۔ عورتوں کو علم کے زیور سے آراستہ کریں،اُن کے حقوق کا ہر ممکن لحاظ رکھّیں ۔اُنہیں دستکاری اور دیگر چھوٹے موٹے کام سکھائیں۔
۶۔ سب مل کر تعلیمی سہولیات مہیّا کریں تاکہ ہر فرد علم حاصل کر سکے۔
۷۔ مختلف فنون سیکھیں اور کارخانوں کو بڑھاوا دیں تاکہ اقتصادی مسائل آسانی سے حل ہو سکیں اوروہ خود کفیل ہوں اور اُن میں خود اعتمادی آئے۔
۸۔ لوگوں کو قوم و نسل، رنگ، ذات و خطہ کے نام سے بانٹنے والی سیاست سے دُور  رہیں اور قوم میں اوّلین علمی و ذہنی بیداری پیدا کریںتاکہ وہ نفع و نقصان میں فرق محسوس کریں۔
۹۔ مغربی علوم و فنون کو سیکھیں اور جدید طرزِ زندگی اپنائیں مگر اُن کی حصولی اور آموزش میں اِس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ کوئی بھی طریق اسلامی احکام و تعلیمات سے تضاد نہ پیدا کرتا ہو۔ گویا جدید علوم و فنون بھی سیکھے جائیں اور مذہبی و تاریخی تشخص بھی قائم رہے۔
الغرض مسلمانوں کی اصلاح تعمیر و ترقی کے لئے مندرجہ بالا چند نمایاں مقاصد اور متعدد دوسرے امور جن سے سر سید کی علی گڑھ تحریک مملوو مرکب تھی، جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ مسلمانانِ ہند تعلیمی میدان میں بیدار ہوں۔ اُن کی حُسنِ معاشرت اور تہذیب کی ترقی ہو، تو ہُمات اور غلط اوہام مذہبی جو اِس ترقی اور بیداری کے مانع ہیں اور در حقیقت مذہبِ اسلام کے خلاف ہیں، اُن کو رفع و ترک کیا جائے اور اہلِ یورپ و امریکہ کے اس اعتراض سے کہ ’اسلام جدید تہذیب و تمدّن کا دشمن ہے۔‘ قطعی اور واضح دلائل اور حقائق کی روشنی میں اِس اعتراض کو سرے سے روکا جائے، قومی ادبار اورتنزُّل کے باعث اخلاق و عادات کی خرابیوں کو بطرزا حسن مسلمانوں کومتنبہ کرکے ارتقائی منازل کی جانب مائل کیاجائے ۔ فرسودہ بیہودہ اور مضر رسم و رواج سے نفرت دلائی جائے ۔جدید علوم و فنون اور صنعتوں کو حاصل کرنے اور بڑھا وادینے اور اپنی مدد آپ کرنے کا جذبہ نوجوانوں میں پیدا کیا جائے اور ساتھ ہی بزرگانِ اسلاف کی عظمت اور اُن کے علمی اور عملی کارناموں کی یاد بھی مسلمانوں میں زندہ رکھی جائے، عورتوں مردوں میں تعلیمی شعور کو اُبھارا جائے۔ گویا سر سید نے رسالہ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے ذریعہ علمی، ادبی، اخلاقی، معاشرتی، مذہبی، تمدّنی، اصلاحی اور تعمیری مضامین لکھ کر مسلمانوں کو خوابِ غفلت سے بیدار کیا ۔ دعوتِ فکر و عمل دی، اور میں تو یوں کہوں گا کہ صرف مسلمانوں ہی پر نہیں اُنہوں نے انسانیت پر بھی احسانِ عظیم کیا ہے۔
  مندرجہ بالاامور کی عملی صورت کے لئے سرسید نے ۲۴؍مئی ۱۸۷۵؁ء میں محمدّن اینگلو اورینٹل کالج (M.A.O. College)کی بناء ڈالی جو بعد میں ۱۹۲۰ء سے ’’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی‘‘ کے نام سے ہمارے سامنے ہے۔ اِس ادارے کے قیام سے سر سید کا مقصود یہ تھا کہ یہاں کے طلباء ’’مکمّل انسان‘‘ بن کر نکلیں۔ علم و اخلاق کے زیور سے آراستہ و پیراستہ ہوکر دور دراز علاقوں میں نمونۂ علم وعمل بن کر جائیں اور قوم و مِلّت کو بیدار و زندہ کریں اور باعثِ فخر و رشک ہوں ۔ یہ ایک اور تفصیل طلب بحث ہے کہ سر سید کے اِس خواب کی تعبیر کہاں تک پوری ہوئی اور مسلم یونیورسٹی کے کل اور آج میں کیا فرق ہے؟ بہر حال سر سید کے خطبات و مقالات اور یونیورسٹی ادارہ سے تاحیات دنیا ئے انسانی ،علم و ہنر، تہذیب و تمدن سے فیض یاب ہوتی رہے گی اور خصوصاً اسلامی دنیا، معمارِ قوم و مِلّت ، سر سید احمد خاں کے اس جاری و ساری فیض کی احسان مند رہے گی کہ اُنہوں نے ایک طرف سچّے اسلام کا نقشہ پیش کرکے اور جذبۂ آزادی و خود شناسی کا درس دیا اور دوسری طرف علوم کا احیاء اور فکر و نظر کے جادے روشن کرکے عالمِ اسلام کی ذہنی و علمی تعمیر و ترقی کا اثاثہ فراہم کیا۔
  خلاصۂ کلام یہ ہے کہ سرسیَّد کی دور رس نگاہوں نے پہلے ہی بھانپ لیا تھا کہ موجودہ اور آئندہ آنے والے وقت میں مسلمانوں کی کامیابی کا راز صرف تعلیمی بیداری میں پوشیدہ ہے ۔  لہٰذا اُنہوں نے ’علی گڑھ تحریک‘ کے زیرِ اثر مُسلمانوں کو ’احیا‘ اور ذہنی بیداری کا پیغام دیا تاکہ وہ پُرانے فرسودہ خیالات ، توہّم پرستی اور اندھی تقلید سے باہر نکلیں اور جمود، بے حِسی ، نااُمّیدی کو چھوڑیں اور ہاتھ پرہاتھ دھرے تقدیر کو کوسنا بندکریں ۔ آج کا ہندوستان، پاکستان اور بنگلہ دیش جو سرسیَّد کے زمانہ میں ایک ہی خطّہ تھا، سب جگہ حالات کم و بیش ایک ہی جیسے ہیں۔ نہ سیاسی شعور میں کچھ خاص تبدیلی آئی ہے اور نہ ہی مذہبی رواداری کے سُنہرے اصولوں پر خاص دھیان دیا گیا ہے، بلکہ اگر ترقی ہوئی ہے تو بس الزام تراشی ، عیب جوئی اور دفاع کے اخراجات میں اضافہ کی سر سیَّد نے جس آزاد ہندوستان کا خواب دیکھا تھا وہ موجودہ ہندوستان ایسا نہ تھا۔ تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونے کی ضرورت اب بھی باقی ہے گو کہ اِس میدان میں مُسلمان کچھ حد تک آگے بڑھے ہیں اور اب بھی یہ سفر جاری ہے۔ اِسی طرح مذہبی رواداری ، فکری احیاء اور اسلام کی تعبیرِ نو کی ضرورت سرسیَّد کے دور سے بھی زیادہ آج محسوس کی جارہی ہے ۔ عالمِ اسلام اِس ضمن میں اُس دوراہے پر کھڑا ہے کہ منزل کا پتا بتانے والا کوئی نہیںہے ۔ مسلمانوں کو دہشت گرد، بنیاد پرست، فسادی، انسانیت کش اور ظالم تصو ّر کیا جا رہا ہے اور اِسلام جو کہ اَمن، رواداری اور انسان دوستی کا مذہب ماناجاتا ہے۔ دہشت گردی اور مردم آزاری کا مذہب سمجھا جانے لگا ہے ۔ غیر مُسلِم تو در کنار خود مُسلمان آپس میں ، مسلک، رنگ و نسل اور علاقائی بنیادوں پر ایک دوسرے کے دُشمن ہو گئے ہیں۔ نیم ملّاؤں نے دین کی اپنی دکانیں کھول لی ہیں اور نااہلی اور کم ظرفی میں چند پیسوں اور دیگر عارضی فائدوں کے عِوض فتوے دے کر سستے داموں سنہری اصولوں کی نیلامی کر رہے ہیں۔ سرسیَّد تو یہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کا عِلمی اور فِکری رجحان ترقی کرے اور وہ سائنس، تجارت اور ٹیکنالوجی میں آگے بڑھیںاور مذہبی تشخصّ بھی باقی رہے ۔ نیز سماجی، سیاسی، تہذیبی شعور بھی پیدار ہو کہ زمانے کے ساتھ وہ آگے بڑھ سکیں ۔ سچ تو یہ ہے کہ سر سیَّد کے خواب ابھی ادھورے ہیں، اُنہیں پورا کرنا اِسلامی دانشوروں کا کام ہے ۔
      ، سر سیَّد کے خوابوں کی تعبیر یعنی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ، علی گڑھ ، بانی ٔ درسگاہ کے فِکر و عمل کی مختلف جہات مثلاً تعلیمی سماجی ، سیاسی، مذہبی، تہذیبی اور جدیدیت وغیرہ میں اپنا نمایاں کردار ادا کر رہی ہے ۔ مگر اب بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔مسلمانانِ عالم ، ’’علی گڑھ تحریک‘‘ کی روشنی میں اپنا احتساب کریں اور جس نئے عہد کی بنیاد سر سیَّد نے ڈالی تھی اُسے پورا کریں اور جدید دورکی ضرورتوں کے مطابق سماج میں ،ہر شعبہ میں ترقی کرکے، اپنا اور اسلام کے مِشن کا نام اونچا کریں تاکہ عوام النَّاس کو اُن کے کردار اور افکار سے معلوم ہو کہ واقعی اِسلام امن، رواداری اور انسان دوستی کا مذہب ہے اور اُس کے ماننے والے انسان دوست ہیں جو دلوں کو توڑتے نہیں بلکہ جوڑنے کی عبادت میں محو ہیں۔
اب آخر میں یہ فیصلہ میں سر سیّد کے خوابوں کی تعبیر یعنی مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے محترم اساتذہ ، طلباء اور تمام ہمدردان  ’علی گڑھ تحریک‘  پر چھوڑتا ہوں کہ وہ معمارِ قوم سر سیدکے مشن کے مطابق اپنے آپ کا محاسبہ کریں کہ کہاں تک اُنہوں نے’ علی گڑھ تحریک ‘کو کامیاب بنایا اور عملی جامہ پہنایاہے اور میں یہ وثوق سے کہتا ہوں کہ اگر ہم علّامہ اقبا ل ؔکے فلسفۂ ’’خودی‘‘ کی روشنی میں سر سیّدکی عملی زندگی اپنائیںتو یقیناً مسلم یونیورسٹی کا نام و مقام اور بلند کر سکتے ہیں ،  ذہنی بیداری لاکر مسلمانوں میں علوم و فنون ، تہذیب و تمدن اور اپنی مدد آپ کرنے کا جذبہ پیدا کر سکتے ہیں۔ یہ سب کچھ اُسی وقت ممکن ہے جب ہم عقل و فہم سے معاملات و مسائل کو سمجھیں، غلط و صحیح کو ماننے اور منوانے کا حوصلہ رکھیں اور کردار کا نمونہ لے کر میدانِ عمل میں آئیں ۔ ابھی مسلم یونیورسٹی کے اساتذہ طلباء اور سر سیَّد کی’ علی گڑھ تحریک‘ سے وابستہ مخلص حضرات کو بہت کام کرنا ہے، قوم اب بھی سو رہی ہے ، اُسے بیدار کرنا ہے اور علم کی روشنی سے اُسے فیض یاب کرنا ہے۔ یہ ہمارا نصب العین ہونا چاہیے اور اِسی کی تکمیل سرسیدکے مِشن کی تکمیل ہوگی۔بقول حالیؔ:
تمہیںکہتا ہے مردہ کون تم زندوں کے زندہ  ہو
تمہاری خوبیاں زندہ تمہاری نیکیاں باقی
ضضضض
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular