Saturday, May 11, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldسرسید تحریک اور انیسویں صدی کا سیاسی و سماجی پس منظر

سرسید تحریک اور انیسویں صدی کا سیاسی و سماجی پس منظر

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

سید بصیر الحسن وفا نقوی

اس جہانِ رنگ و بو میں بعض ایسی عظیم ہستیاں ہوتی ہیں جو اپنے عظیم کارناموں اور انسانیت کی بے لوث خدمات کے سبب زمان و مکان کی قید سے ماوریٰ ہو جاتی ہیں ۔یعنی ان کو اور ان کے کئے گئے کارہائے نمایاں کو کسی مخصوص علاقے یا کسی خاص وقت تک کے لئے محدود نہیں کیا جا سکتا ،بلکہ وہ اپنی کاوشوں اور محنتوں کے توسل سے صدیوں تک لوگوں کے دلوں میں حکومت کرتی ہیں اور ان کو فیض پہنچاتی رہتی ہیں۔ایسی ہی عظیم ہستیوں میں سرِ فہرست سرسید احمد خاں ہیں ۔جن کی خدمات کا ہر صاحبِ شعوردل سے قائل ہے۔ وہ بظاہر ہمارے درمیان نہیں لیکن نگاہِ بصیرت ہو تو ہم کہہ کتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ ہمہ وقت موجود ہیں کبھی ایک مصلح کی حیثیت سے تو کبھی قوم و ملت کے ایک ہمدرد کی حیثیت سے تو کبھی ایک مصنف کی حیثیت تو کبھی ایک محقق کی حیثیت سے۔انھوں نے اپنی مختصر سی زندگی میں ایسے کارنامے انجام دئے جنھیں رہتی دنیا تک فراموش نہیں کیا جا سکتا۔
ایک ایسے ماحول میں جہاں انسانیت سسک رہی تھی۔ہندوستانی عوام بدترین زندگی گزرانے پر مجبور تھے،جہالت لوگوں کا مقدر بن چکی تھی، فاقہ کشی اور عسرت میں زندگی بسر ہو رہی تھی۔اس موقع پر سرسید جیسی عظیم شخصیت کا دل بیقرار ہو اٹھا اور ۱۸۵۷ء کے خونی انقلاب کے بعد ان کی روح نے چیخ کر کہا کہ سب انسان برابر ہیں ۔اس لئے لازم ہے کہ انسان کو انسان ہونے کا خیال دلایا جائے اور وہ صرف اور صرف بغض و نفرت کی قبا کو چاک چاک کرنے پر ہی ہو سکتا ہے۔جس کے لئے جدید علم و ادب سے واقفیت ہونا نہایت ضروری ہے۔چنانچہ اس ہستیِ عظیم نے اقوامِ عالم خصوصاً ہندوستانی سماج کو اس بات کی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی فضائے بسیط میں سانس لینا ضروری ہے یعنی قدامت پسندی کے خول سے باہر آکر زندگی کے جدید تقاضوں کے تحت عمل انجام دینا ہی عقل مندی کی نشانی ہے۔
سرسید احمد خاں نے جو تحریک چلائی اس کا مقصد یہی تھا کہ ہندوستانی عوام کی طبیعت اس طرف مبزول ہو کہ وہ بربادی کے دہانے سے کس طرح نکل سکتے ہیں ۔انھوں نے مسلمانوںکو اس بات کا احساس دلایا کہ ان کی خستہ حالی کا سبب کیا ہے اور وہ اس کو کس طرح اپنے معاشرے سے دور کر سکتے ہیں۔چنانچہ انھوں نے جہاں ایک طرف ’’اسبابِ بغاوت ہند‘‘ لکھ کر مسلمانوں کا دفاع کیا ۔وہیں مدرسۃ العلوم کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرکے ہمیشہ کے لئے مسلمانوں کی ترقی کی راہ آسان کر دی۔لیکن اس مدرسے کا مقصد صرف مسلمانوں کی فلاح اور بہبودی نہ تھی بلکہ یہ ایسی درس گاہ تھی جس میں بلا تفریقِ مذہب و ملت ہر انسان کے لئے تعلیم و تربیت فراہم تھیں۔
سرسید نے جو تحریک چلائی اس کو باقاعدہ سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ یہ جائزہ لیا جائے کہ ان کے دور میں کیا حالات تھے اور انسانیت کن مسائل سے دوچار تھی۔اس کے لئے ہمیں مغلیہ سلطنت کے زوال سے تاریخ کا مطالعہ کرنا ہوگا۔یعنی اورنگ زیب کی وفات کے بعد ہندوستان کے سیاسی و سماجی حالات کیا تھے ان کو پیشِ نگاہ رکھ کر ہی سرسید تحریک کا اصل مقصد سامنے آسکتا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ جس مغلیہ سلطنت کو بابر،ہمایوں،اکبر،جہانگیراور اورنگ زیب نے اپنی حکمتِ عملی اور سیاسی شعور کی بلندی سے نہایت وقار اور وسعت عطا کی تھی ۔وہ اورنگ زیب کے انتقال کے بعد زوال کا اس طرح شکار ہوئی کہ تمام ہندوستان کو ایک ایسی اضطرابی کیفیت سے دوچار ہونا پڑاجس کا بیان آسان نہیں۔اورنگ زیب کی وفات سے لیکر ۱۸۵۷ء تک مغل سلطنت دہلی پر تقریباً ۱۸ بادشاہ مختلف اوقات میں سلطنتِ مغلیہ پر قابض ہوئے لیکن یہاں خاص خاص بادشاہوں کا ہی ذکر مناسب ہے۔
ایک طرف دلی میں طوائف الملوکی عام تھی تو دوسری جانب خود مختار حکومتوں اور ریاستوں نے سر اُٹھا کر یہ اعلان کر دیا تھاکہ ہم اب مغلیہ سلطنت کے ماتحت نہیں ۔اس سلسلے سے تاریخ کے جھرونکے میں جھانکا جائے تو واضح ہوگا کہ اورنگ زیب کے بعد حکومت کے تین دعوے دار محمدمعظم،محمد اعظم اور محمد کام بخش نظر آتے ہیں۔حالانکہ اورنگ زیب کی وصیت کے تحت ان کے اقتدار کے علاقے متعین تھے لیکن حکومت کے لالچ نے تینوں کو ایک دوسرے کی جان کا دشمن بنا دیا اور خون خرابے کا ماحول عام ہوا۔جس کا سلسلہ کم و بیش دو سال تک قایم رہا۔اس کے بعد قطب الدین شاہ عالم بہادر شاہ مغلیہ سلطنت کے تخت پر بیٹھااور مشکل سے تین سال حکومت کے امور انجام دے کر۲۷ فروری ۱۷۱۲ء کواس دارِفانی سے کوچ کر گیا۔اس کے مرتے ہی حکومت کے دعوے داروں میں ایسا تصادم ہوا کہ اس کی تجہیز و تکفین بھی بر وقت نہ ہو سکی اور اس کی بے گور و کفن نعش لاہور میں پڑی رہی اور تقریباً ایک مہینے کے بعد دہلی دفن کے لئے بھیجی گئی۔اس عالم میں عوام کیسے سکون سے رہ سکتے تھے یعنی ان کی زندگی بھی درہم و برہم ہو کر رہ گئی ۔ہر طرف سماج میں بے سکونی کا سکہ قائم تھا۔لوگ ایک دوسرے کو لوٹنے پر آمادہ تھے ۔سپاہیوں کی تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے انھیں بھی اپنی پریشانیوں اور مفلسی کا گلہ تھا وہ اکیلے نہ تھے بلکہ شاہی ملازم بھی ان کی آواز میں آواز ملا رہے تھے۔ایسے ماحول میں مغلیہ سلطنت ۱۷۱۲ء میںجس شخص کے مقدرمیں آئی وہ جہاںدار شاہ تھا۔جو فطرتاً آزاد طبیعت اور عیش و عشرت کا دلدادہ تھا۔اس کی عیش پرستی کا یہ عالم تھاکہ قلعہ میںلوگ راتیں جاگ کر رقص و سرود کی محافل میں گزارتے اور دن کو محوِ خواب رہتے ۔اس کے اور ایک ادنیٰ درجے کی عورت لال کنور کے زیرِ عشق جو واقعات رونما ہوئے اس سے اس دور کی پستی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔بادشاہ شراب و کباب اور حسن کے نشے کو فوقیت دیتا اور سلطنت کے امور میں اس طرح دلچسپی نہ لیتا جس طرح لینا چاہئے تھی۔
جہاں دار شاہ کے بعد فرخ سیر نے حکومت حاصل کی لیکن در اصل وہ سید برادران کی زیرِ قیادت امورِ سلطنت انجام دیتا تھا۔درباریوں میں آپس میں بغض و حسد کے باعث روز نئی نئی سازشیں جنم لے رہی تھیں۔خود فرخ سیر بھی اس سے دور نہیں تھا اس کو تاج ایسے دور میں ملا تھا جب امرائے سلاطین کا شہنشاہ بدلنے کا مزاج بن گیا تھا اور ہر طرف قتل و غارت گری عام تھی۔حکومت نہایت کمزور ہو چکی تھی۔ایسے ماحول میںچاروں طرف بد امنی پھیل رہی تھی۔اس کے علاوہ شمالی ہند میں سکھوں کی طاقت روز بہ روز بڑھتی جا رہی تھی۔ایک طرف جاٹ تھے جنھوں نے آگرہ اور دہلی کے درمیان اپنے اقتدار کو فروغ دیا تھا۔خصوصاً متھرااور دہلی کی سڑکوں پر ان کی عمل داری تھی۔ادھر مرہٹوں نے بھی سر اٹھا یا تھا سب کا ایک ہی مقصد تھا کہ دہلی حکوت کو کمزور کیا جائے۔اس پر مزید قیامت یہ کہ سلطنتِ مغلیہ کے دعوے دار آپس میں حکومت کے لئے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے۔
غیر ملکیوں میں انگریز،فرانسسی اور ڈچ قومیں بھی ہندوستان میں آچکی تھیں ان کی نگاہ بھی ہندوستان کی حکومت پر تھی۔فرخ سیر کا دورِحکومت بھی نہایت مختصر رہا۔ساداتِ بارہہ کی وجہ سے اسے حکومت ملی تھی ۔لیکن ساداتِ بارہہ خود بھی اقتدار کی تمنا رکھتے تھے۔درباریوں میں ان سے حسد رکھنے والے موجود تھے ۔اسی دوران فرخ سیر بھی سازش کا شکار ہوا اور ساداتِ بارہہ کی سازش کے تحت ۹ ربیع الثانی ۱۱۳۱ھ کو شاہی محل میں اس کی آنکھوں میں سلائیاں پھیر کر اسے نابینا کردیا گیا اور قیدو بند کی مصیبت برداشت کرتے کرتے۹ اپریل ۱۷۱۹ء کو اس کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ساداتِ بارہہ کا اقتدار بھی کچھ عرصے ہی رہا۔
فرخ سیر کے انتقال کے بعددہلی میں پھر اقتدار کا جھگڑا شروع ہوا۔ بظاہر محمد شاہ مغل سلطنت کا جانشین بن گیا تھا۔لیکن ایک طرف سیدوں کی یورش تھی تو دوسری طرف کچھ لوگ رفیع الشان کے بڑے بیٹے محمدا براہیم کوحاکم بنانے کے خواہاں تھے۔وہ اپنی کاوشوں میں کامیاب بھی ہوئے لیکن محمد ابراہیم شاہ چند ماہ ہی حکومت کر سکا۔محمد شاہ نے ایک بڑے لشکر کے ساتھ حملہ کر کے سیدوں کی طاقت کو ختم کرکے رفیع الشان کے گروہ کا قلع قمع کر دیا ۔بظاہر تو محمد شاہ نے اپنے دو بڑے دشمنوں سے نجات حاصل کر لی تھی لیکن اندر ہی اندر روہیلوں اور جاٹوں کی سرکشی اور سازشیں فکر کا باعث تھیں۔حکومت کی بے بسی یہ تھی کہ لائق اور فائق امراء اور صلاح کار کنارہ کشی اختیار کر چکے تھے۔شرفاء اور علم دوست بادشاہ سے اپنا دامن بچائے ہوئے تھے۔نااہل اور ناکارہ سپاہی فوج میں تھے۔بادشاہ کے نزدیک رہنے والے افراد بھی ناعاقبت اندیش اور بد کردار تھے جس کی وجہ سے بادشاہ کا رہا سہا وقار بھی مجروح ہوگیا۔
اس دوران نادر شا ہ نے۶ نومبر ۱۷۳۸ء کو دہلی کا رخ کیااور دہلی کے بچے کچے سکون کو پائمال کرکے نہ صرف دہلی حکومت کو بڑا نقصان پہنچایا بلکہ عوام کوبھی ان حالات سے دوچار ہونا پرا جس سے وہ کبھی واقف نہ ہوئے تھے۔دہلی کی سڑکیں خون سے لال ہو چکی تھیں ۔کوچے لاشوں سے پٹ گئے۔اس نے دہلی میں تقریباً دو مہینے گزارے ۔اس کے بعد دہلی پر احمد شاہ ابدالی کے حملے ہوئے اس نے ۱۷۴۷ء سے ۱۷۶۹ء تک ہندوستان پر نو حملے کئے۔جس کی وجہ سے حکومت کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہو گئی۔اسی دوران مرہٹوںکی قوت اس قدر بڑھ گئی کہ دکن کے بیشتر علاقوں پر ان کا قبضہ ہو گیا۔دوسری طرف پنجاب میں سکھوں کا زور بامِ عروج پر پہنچ گیا۔آگرہ کے قریب جاٹ خود مختار ہوگئے۔گویا کہ ہر لمحہ حکومتِ دہلی زیادہ سے زیادہ زوال کی طرف بڑھ رہی تھی۔
انگریز ،فرانسسی اور ڈچ قومیں بھی ایسے عالم میں اپنی پوری قوت کے ساتھ ہندوستان کی سیاست پر اثر انداز ہونے کی کوشش میں لگی ہوئی تھیں۔پلاسی کی جنگ نے انگریزوں کو حاکم بنا دیا تھا ۱۷۶۴ء میں بکسر کی جنگ اور کچھ عرصے کے بعد ۱۷۹۹ء میں ٹیپو سلطان کی شکست نے انگریزوں کے حوصلے بلند کر دئے تھے اور وہ اپنے اقتدار کومزید بڑھانے کے لئے کوشاں تھے۔۱۸۰۳ء میں لارڈلیک نے دہلی پر حملہ کیا اور شاہ عالم کے اقتدار کو نہایت محدود کردیا۔کسی نے اس پر کہا تھا۔حکومتِ شاہ عالم از دلی تا پالم۔
انیسویں صدی آتے آتے پورے ہندوستان میں عوام زبوں حالی کی شکارہو چکے تھی۔ہندوستان کے زیادہ تر علاقوں پر انگیزوں کا قبضہ ہو چکا تھا۔ان کا سلوک بھی یہاں کی عوام کے ساتھ تسلی بخش نہ تھا بلکہ وہ شب و روز یہاں کی تہذیب و تمدن اور مذاہب کے رسم و رواج کو تبدیل کرنے کے لئے جابرانہ انداز میں عوام کے ساتھ پیش آرہے تھے۔وہ اپنے مذہب کی تبلیغ کو عام کرنا چاہتے تھے جس کے لئے انھوں نے باقاعدہ اپنے مذہبی رہنمائوں کو ہندوستان میں بلایا اور سماج میں ان کے وعظ و تقریر کا اہتمام کیا۔انھوں نے ایسے اسکول قائم کئے جن میں عیسائی مذہب کے عقائد کی تعلیم عام تھی۔انھوں نے چالاکیوںاور عیاریوں سے ہندوستان کے مختلف علاقوں کی خود مختار حکومتوں کو حاصل کیا اور لوگوں سے کئے ہوئے عہد کو فراموش کردیا۔انھوں نے ایسے اصول بنائے جن سے وہ آسانی سے مختلف علاقوں پر قابض ہوسکیں۔انھوں نے ہندوستانیوں کو اچھی اور اعلیٰ نوکریوں سے دور رکھا۔فوج میں ہندوستانیوں کو شامل ضرور کیا لیکن وہاں بھی ہندوستانیوں کے ساتھ ان کا رویہ بہتر نہ رہا۔جس کے نتیجے میں۱۸۵۷ء جیسی بغاوت رونما ہوئی اور ہندوستان بھر میں خون خرابے کا ایک بار پھر دور دورا ہوگیا۔اس انقلاب کا ذمے دار انھوں نے ہندوستانی عوام میں باالخصوص مسلمانوں کو سمجھا اور جب یہ انقلاب ختم ہوگیا اور انگریزوں کو دوبارہ اقتدار حاصل ہوا تو انھوں نے مسلمانوں کے ساتھ جو سلوک کیا اس پر آج تک تاریخ خون روتی ہے۔
سیاسی معاملات کے علاوہ انیسویں صدی میں کچھ سماجی سرگرمیاں بھی ایسی تھیں جنھوں نے سرسید کو ضرور متاثر کیا ہوگا۔مثلاًشاہ ولی اﷲدہلوی(۱۷۰۳۔۱۷۶۴ء)کی اصلاحِ دین کی تحریک۔جس کے تحت مسلمانوں میں سیاسی شعورپیدا کرنے کی کوشش کی گئی،شہنشاہیت کے خلاف آواز اُٹھائی گئی اور عوام کو بیدار کیا گیا۔ان کی تحریک کو ان کے بیٹے اور جانشین شاہ عبدالعزیز (۱۷۴۶ء۔۱۸۲۴ء) نے اور آگے بڑھایا اور ہندوستان پر غیر ملکی اقتدار ہونے کی وجہ سے اسے دارالحرب قرار دیا۔ہمیں اس کے ساتھ ساتھ مولوی شریعت اﷲکی تحریک بھی ملتی ہے جس کی داغ بیل ۱۸۰۴ء میں بنگال میں ڈالی گئی۔اس کا مقصد بھی اصلاحِ مذہب تھا۔اس کے علاوہ ہمیں بنگال میں ایک بڑی تحریک چلانے والے راجہ رام موہن رائے بھی نظر آتے ہیں جنھوں نے اپنی قوم کی اصلاح کابیڑہ اُٹھایاا ور ہندو مذہب میں اصلاح کی کوشش کی انھوںنے ’’برہمو سماج‘‘ کے ذریعے عوام کو بیدار کرنے کی حتی الامکان کوشش کی اور ہندو مذہب میں چلی آرہی صدیوںپرانی ’’ستی پرتھا‘‘ کی مخالفت کی اور انگریزوں کے ذریعے اس کو ختم کرایا۔ادھر شمالی ہند میں سید احمد بریلوی کی سیاسی تحریک نمودار ہوئی جس پر شاہ ولی اﷲکے اثرات عیاں تھے۔یہ ہندوستان سے انگریزوں کو نکالنے کے لئے سب سے زیادہ منظم کوشش تھی۔ انھوں نے بھی ہندوستان کو دارالحرب سے عبارت کیا۔
تحریکات کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں انگریزی اسکول بھی قائم ہوتے رہے۔مثلاً ۱۸۱۶ء میں کلکتہ کے شہریوں نے ایک ’’اینگلو اورینٹل ‘‘ کالج شروع کیاجسے کلکتہ ہندو کالج بھی کہا گیا۔اس کا مقصد ہندوستانی بچوں کو انگریزی زبان و ادب سے واقف کرانا تھا۔اس کی تاسیس میں راجا رام موہن رائے کا اہم کردار تھا۔۱۸۱۸ء میں ایک انگلش اسکول بنارس میںجے نرائن گھوشال کے ذریعے کھولا گیا ۔کلکتہ سنسکرت کالج ۱۸۲۱ء میںایچ ایچ ولسنؔکی سفارش پر قائم ہوا اور اسی سال ہندو کالج پونہ اور آگرہ کالج ۱۸۲۳ء بھی شروع ہوئے۔پھر مدراس اور بمبئی میں اسکول کھلے اور ۱۸۲۵ء میں انگریزی تعلیم کے لئے ’’دلی کالج‘‘ وجود میں آیا۔
اس دوران ہندوستان میں ریل ،تار برقی،بجلی،چھاپہ خانہ اور دیگر جدید ایجادات آنے سے ملک کو فائدہ پہنچا۔صحافت کی باقاعدہ ابتداء۔۱۸۲۲ء میں کلکتہ میں اردو اخبار’’جامِ جہاں نما‘‘ سے ہوئی۔۱۸۴۱ء میں ’’دہلی اخبار‘‘ نکلا اور اخبارات نکلنے کا سلسلہ وسیع تر ہوتا گیا۔۱۸۴۲ء میں دلی میں ’’ورنا کیولر ٹرانس لیشن سوسائٹی‘‘ قائم ہوئی جس کے تحت علمی کتابوں کے تراجم کئے گئے۔۱۸۶۳ء میں نواب عبدالطیف نے اصلاح قوم کے خیال سے’’محمڈن لٹریری سوسائٹی‘‘ کلکتہ میں قائم کی۔۱۸۶۶ء میں دیوبند کا مدرسہ قائم ہوا۔
یہ وہ سیاسی و سماجی حالات تھے جن سے سرسید نہایت متاثر ہوئے۔پھر قدرت نے انھیں ذہنِ رسا اور درد مند دل عطا کیا تھا۔انھوں نے ہندوستانی عوام کے درد کو سمجھا اور محسوس کیا کہ ان کی ترقی انگریزوں سے دوستی اور جدید علوم کے سیکھنے سے ہی ہو سکتی ہے۔اس سلسلے سے ڈاکٹر فوق کریمی مرتب ’’اسبابِ بغاوتِ ہند‘‘مقدمہ میں لکھتے ہیں:
’’ مسلمانوں کے مصائب اور ان کے مسائل اگر تمام تر اقتصادی ہوتے تب بھی ان کا حل آسان ہو سکتا تھا۔لیکن اس زمانے میں انھیں اتنے مسائل درپیش تھے کہ ان کا تعلق زندگی کے ہر شعبہ سے تھا۔مذہبی،تعلیمی،اقتصادی،سماجی اور معاشرتی کچھ ایسی گتھیاں تھیں کہ کسی طرح سلجھائے نہیں سلجھتی تھیںسرسید نے ایک طبیب حاذق کی حیثیت سے یوں تو ہر ایک پر نظر رکھی لیکن ان سب کا علاج انھوں نے جدید علوم کو اپنانے میں تلاش کیا اور اس کے لئے ۱۸۷۵ء میں ایک ایم ۔اے۔او اسکول علی گڑھ میں قایم کردیا۔جو آج ملک کی ایک عظیم یونیورسٹی ہے۔اس ادارے نے قوم و ملک کی جو خدمت انجام دی وہ کسی سے پوشیدہ نہیں اور متحدہ قومیت اور سیکولرازم کا یہ ادارہ ایک مثالی ادارہ ہے‘‘۔ ۱؎
یقیناً سرسید کا یہ مدرسہ ایک مثالی مدرسہ بن کر زمانے کے سامنے آیا۔جس میں بلا تفریقِ مذہب و ملت ہر مذہب اور ہر مسلک کا انسان علم حاصل کرتا ہے۔یہ مدرسہ جو ۱۹۲۰ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے پہچانا گیا ۔اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ دنیا سے جہل کے اندھیرے کو دور کرنے کے لئے آج بھی سرگرمِ عمل ہے۔یہ سرسید کے اس خواب کی تعبیر ہے جس کے لئے نہ صرف سرسید بلکہ ان کے رفقاء نے بھی اپنی زندگیاں وقف کردیںتھیں ۔گویا کہ سرسید تحریک جسے ہم علی گڑھ تحریک بھی کہتے ہیں ،اس کی خدمات انجام دینے والوں میں مولانا الطاف حسین حالیؔ ،شبلیؔنعمانی،محسن الملک،وقار الملک،مولوی سمیع اﷲ،مولوی ذکااﷲ،ڈپٹی نذیر احمد،مولوی چراغ علی اور محمد اسماعیل خان کے علاوہ متعدد ایسے بے لوث خدمت گزار رہے جنھوں نے سرسید کے مشن کو آگے بڑھایا۔یہ الگ بات کہ بعض معاملات میں سرسید سے اختلاف بھی کیا گیا لیکن مجموعی طور پر سرسید جیسے مصلح کی قدر کی گئی۔جس کے نتیجے میں ہم دیکھتے ہیں کہ جب سرسید کا انتقال ہوا تو ملک کے گوشے گوشے میں سرسید کی وفات پر اظہارِ تاسف کیا گیا۔
مختصر یہ کہ سرسید کی شخصیت زمان و مکان کی قید سے باہر ہے ان کے افکار و نظریات ،ان کی تحریریں اور ان کا مدرسہ جو آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے مشہور ہے ہمیشہ ان کی انسان دوستی اور ہندوستانی عوام کی محبت کے ثبوت فراہم کراتا رہے گا اور تاقیامِ قیامت سرسید کا نام تاریخ کے ماتھے کا حسین جھومر بن کر چمکتا رہے گا۔
موبائل:9219782014,علی گڑھ یوپی

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular