Friday, May 3, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldزیب غوری کی غزل

زیب غوری کی غزل

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

 

ڈاکٹر ظفر نقی

’’جـــوطـــرز نـکالـــــوں گا
مثــــالی ہـــی رہـــے گی‘‘

زیب غوری کا نام ساتویں دہائی کے ابتدائی سالوں میں جدید شاعری کے منظر نامے پر نمایاں ہوا۔ 1962-63 میں جدیدیت کے ہنگامے میں بھی زیب غوری کا نام جدید شاعری کے منظر نامے سے غائب رہا۔ اس عہد کے اہم تنقیدنگاروں آل احمد سرور، خلیل الرحمن اعظمی اور شمس الرحمن فاروقی کی تحریروں میں بھی زیب غوری کا کوئی ذکر نہیں ملتا ہے۔ شمس الرحمن فاروقی کے ’’نئے نام‘‘ اور ’’فنون‘‘ (غزل نمبر لاہور) میں بھی کہیں نظر نہیں آتے ہیں تاہم شمس الرحمن فاروقی نے بعد میں زیب غوری کی شاعری کی اہمیت اور فکری بصیرت اور ان کے شعری جہات و ابعاد پر ایک جامع اور بھرپور مضمون ’’شاخ اظہار کا نیا پھول: زیب غوری‘‘ لکھ کر تنقیدی بے اعتنائی کی تلافی کردی اور زیب شناسی کی نئی راہیں کھول دیں۔
بعض نقادوں نے زیب غوری کے شعری اسلوب پر غالب کے اثرات کی نشاندہی کی ہے اور یہ سچ ہے کہ ان کی پوری شاعری بالخصوص ان کے پہلے مجموعے ’’زرد زرخیز‘‘ کی شاعری پر غالب کے واضح اور نمایاں اثرات موجود ہیں۔ کہیں کہیں پورے مصرعے غالب کی یاد دلاتے ہیں تو کہیں لفظیات کی سطح پر اثر پذیری دیکھنے کو ملتی ہے۔زیب کی یہ اثر پذیری نہ صرف اسلوب کی سطح پر ہے بلکہ وہ فکری اعتبار سے بھی زیادہ قریب ہیں کیونکہ غالب کی طرح زیب غوری کائنات کو ایک عاشق یاعام انسان کی نگاہ سے دیکھنے کے بجائے ایک مفکر اور دانشور کی نگاہ سے دیکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اسی لیے غالب کی طرح زیب غوری بھی اپنی شاعری میں تخلیق کائنات کے بارے میں سوال اٹھاتے ہیں، وجود اور عدم کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، انسان، اس کے وجود اور تخلیق کائنات کے ابہام کو جاننے کے لیے بے چین رہتے ہیں، شاید اسی لیے زیب کے یہاں کتاب ماضی کے اوراق پارینہ کو کھولنے کی بار بار کوشش ملتی ہے۔ در اصل زیب کی پوری شاعری انسانی زندگی کے نشیب و فراز کی شاعری ہے اور زندگی صرف عصری مسائل و موضوعات کو محیط نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کا رشتہ ماضی سے بھی ہوتا ہے اسی لیے زیب کی شاعری میں موجودہ عہد کی زندگی کے آشوب کے ساتھ ساتھ ماضی کے عرفان اور اس کے شعور کا بھی اظہار ہوتا ہے۔
چمک رہی ہیں خلا میں ہزار دنیائیں
نہ جانے کون سے ذرے میں ہے وطن میرا
میں کون ہوں جو ہاتھ رنگوں اپنے خون سے
میرا وجود میرے لیے ننگ کیوں ہوا
ہوا چلی تھی ہر اک سمت اس کو پانے کی
نہ کچھ بھی ہاتھ لگا گرد جستجو کے سوا
اندھی ہوا کہاں سے اڑا لائی کیا خبر
کیاجانے زندگی ہے ورق کس کتاب کا
زیب غوری نے اپنی شاعری میں انفرادی حسیت کے ساتھ موجودہ عہد کی زندگی کے آشوب کی بھی ترجمانی کی ہے۔ وہ صرف اپنی ذات کے مسائل کی طرف مائل نہیں ہوتے ہیں بلکہ زندگی کے منظر نامے پر بکھرے ہوئے مسائل و موضوعات کے ہر رنگ کو بھی بیان کرتے ہیں۔ ان کو یہ احساس ہے کہ یہ عہد صارفیت کا عہد ہے، یہاں ہر شے بکاؤ ہے اور اس عہد میں انسانی، تہذیبی اور ثقافتی اقدار دھیرے دھیرے ختم ہورہے ہیں اور ہمارا پورا معاشرہ اخلاقی بحران کا شکار ہوچکا ہے اور اس معاشرے کی بھیڑ میں فرد کی فردیت گم ہوچکی ہے اور یہ فرد زندگی کے منظر میں کہیں نظر نہیں آتا ہے۔ زیب غوری کو اپنے عہد کے دوسرے شاعروں کی طرح اس کا احساس بھی ہے:
جارہے تھے سر جھکائے سب کہیں
میں بھی ان میں تھا عجب اسرار تھا
زمیں سفر میں ہے ہوں ایک ہم سفر میں بھی
گزر رہا ہوں اندھیرے سے بے خبر میں بھی
گھسیٹتے ہوئے خود کو پھروگے زیبؔ کہاں
چلو کہ خاک کو دے آئیں یہ بدن اس کا
ایسا لگا ہے جیسے خموشی ہے شام کی
میں ہی کھڑا ہوا ہوں سمندر کے پار بھی
بھیڑ کے ساتھ بغیر سمت کا تعین کیے ہوئے سر جھکائے چلے جانا، اندھیروں سے بے خبر ہوکر زمین کے ساتھ سفر کرنا، دنیاوی مسائل و پریشانی سے گھبرا کر اپنے بدن کو مٹی کے حوالے کردینے کی تمنا کرنا اور سمندر کی پرشور موجوں کے درمیان خود کو اکیلا محسوس کرنا، زیبؔ کے یہاں یہ صرف اوپر سے اوڑھے ہوئے معلوم نہیں ہوتے ہیں بلکہ شاعر اپنے عہد کے ان موضوعات و مسائل سے خود دوچار ہے۔ زیبؔ کی شاعری میں نجی ذات اور معاشرتی ذات ایک دوسرے سے مضبوطی کے ساتھ جڑے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ زیبؔ فرد کو کائنات کی ایک اٹوٹ اکائی کے طور پر دیکھتے ہیں اسی لیے ان کے یہاں صرف فرد کی گہرائیوں اور تاریکیوں تک پہنچنے ہی پر زور نہیں ہے بلکہ ان سے مقابلہ کرنے کی خواہش اور صلاحیت پر بھی ہے اور یہی مقابلے کی خواہش اور صلاحیت ان کی شاعری میں حرکت و حرارت پیدا کرتی ہے۔ وہ زندگی کی حقیقتوں کی طرف سے آنکھیں بند نہیں کرتے ہیں بلکہ ان کا مقابلہ کرنا زندگی کے لیے ضروری جانتے ہیں۔ وہ زندگی کی خوشی و مسرت حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو خطرے میں ڈالنے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ زیب غوری کی شاعری زندگی کی گہما گہمی اور رنگینیوں سے بھری ہوئی ہے اور زندگی اپنے مکمل رنگوں کے ساتھ ان کی شاعری میں نظر آتی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں قطعاً کوئی تامل نہیں ہے کہ زیبؔ کی شاعری صرف نالہ و فریاد کی شاعری نہیں ہے بلکہ ان کے یہاں ٹوٹنے بکھرنے کے ساتھ ساتھ اعتماد و یقین کی شمعیں بھی روشن ہیں:
کب تلک یہ شعلۂ بے رنگ منظر دیکھئے
کیوں نہ حرف سبز ہی لکھ کر زمیں پر دیکھئے
شعلۂ موج طلب خون جگر سے نکلا
نارسائی میں بھی کیا کام ہنر سے نکلا
ہوا میں عکس ہے ٹوٹے ہوئے ستاروں کا
کوئی نشان تو باقی رہا سہاروں کا
کچھ میں بھی بادبان شکستہ سنبھال لوں
جب تک ہوا بھی ٹوٹے ہوئے پر نکال لے
جگمگاتا ہوا خنجر مرے سینے میں اتار
روشنی لے کے کبھی خانۂ ویران میں آ
اپنی جاں پر کھیل کے اپنا تماشا دیکھئے
پوچھئے کس سے پس نیرنگ چلمن کون ہے
اڑتے ہوئے پتوں کی چمک ہے گرد آلودہ ہواؤں میں
کس نے دئیے جلا رکھے ہیں ان تاریک فضاؤں میں
شعلۂ بے رنگ منظر سے اکتاکر زمین پر حرف سبز ہی لکھ کر سرسبزی و شادابی کا تصور کرنا، نارسائی میں اپنے خون جگر سے شعلۂ موج طلب پید اکرنا، ہوا میں ٹوٹے ہوئے ستاروں کے عکس کو اپنے لیے سہارا سمجھ لینا، اپنے حوصلے کے بادبان کی آزمائش کے لیے ہوا کو بھی اپنے ٹوٹے ہوئے بال و پرنکالنے کی مہلت دینا، خانۂ ویران میں روشنی پیدا کرنے کے لیے اپنے ہی سینے میں خنجر اتارنے کی تمنا کرنا اور اپنی جان پر کھیل کر اپنا تماشا دیکھنا، زیب غوری کے زندگی سے متعلق مثبت رویے کو ظاہر کرتا ہے۔ اب آخری شعر کو دیکھئے:
اڑتے ہوئے پتوں کی چمک ہے گرد آلودہ ہواؤں میں
کس نے دئیے جلا رکھے ہیں ان تاریک فضاؤں میں
اس شعر میں اڑتے ہوئے پتے ماضی کے اقدار کی نمائندگی کرتے ہیں اور چونکہ یہ اقدار اپنی چمک دمک برقرار رکھے ہوئے ہیں، گویا ماضی کے اقدار ابھی نابود نہیں ہوئے ہیں بلکہ معاصر عہد کی آلودہ زندگی میں اس کی چمک دمک اور زیادہ ہوگئی ہے اور یہی پتے کی چمک اور اس کی روشنی تاریک فضاؤں میں دئیے کی صورت دکھائی دیتے ہیں، گویا یہ اقدار معاصر عہد کی تنگ و تاریک زندگی میں دئیے کی مانند روشن ہیں اور ہمارے لیے جینے کا حوصلہ فراہم کرتی ہیں۔
زیب غوری نہ صرف اپنے اندر کی سیاہ رات کو محسوس کرتے ہیں بلکہ اس سیاہ و تاریک رات میں اترکر اس سے نبرد آزما ہونے کی جرأت بھی عطا کرتے ہیں، اسی لیے ان کی شاعری فقط ذات کی نوحہ گری نہیں ہے بلکہ معاصر عہد کے مسائل وموضوعات کی نمائندگی بھی ہے اور ایسا اس لیے ہے کہ زیب غوری کے یہاں زندگی تمام رنگوں کے ساتھ جلوہ گر ہے۔
زیب غوری کی شاعری میں مصورانہ رمزیت اور رنگ کاری کا عنصر ایک حاوی رجحان کی صورت میں نظر آتا ہے اور ان کی شاعری کی تفہیم کے لیے مصوری کی بنیادی باریکیوں اور رنگوں کی زبان سے کسی حد تک واقفیت ضروری ہے۔ چونکہ زیب کی شاعری کا عام رجحان مگر اہم رجحان مصوری اور شاعری کو ہم آمیز کرنے کا رہا ہے اسی لیے ان کے بیش تر اشعار تصویری پیکروں کے کچھ ایسے متبادل معلوم ہوتے ہیں، جو ذہنی اور فکری ترسیل سے کہیں زیادہ حسی سطح پر شاعر کے تجربے میں شریک ہونے کی دعوت دیتے ہیں اور کبھی کبھی تو زیب ان پیکروں کی تشکیل صرف منظروں کے لیے ہی کرتے ہیں اور تعمیر معنی کا کوئی مقصد نہیں ہوتا ہے۔ اس اہم نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پروفیسر انیس اشفاق نے لکھا ہے کہ:
’’پیکر سازی ان کی (زیب غوری) شاعری کا غالب عنصر ہے بلکہ پیکر کو ان کے یہاں بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ وہ اپنے پیکر کی تخلیق میں تمام اشاراتی الفاظ کا استعمال کرتے ہیں لیکن ہر پیکر ان کے یہاں علامتی پیکر نہیں ہوتا۔ کبھی کبھی وہ تشکیل معنی کے بجائے تعمیر منظر کے لیے پیکر استعمال کرتے ہیں۔ ایسے پیکروں میں صرف منظروں کی عکاسی ہوتی ہے۔ انھیں ہم سادہ پیکر نگاری سے تعبیر کرسکتے ہیں جو معنی اور مفہوم سے مستثنیٰ ہوتی ہیں۔‘‘
زیب غوری کی شاعری محبت اور عشق کی ان کیفیتوں سے آشنا ہے، جن سے دنیا کا کوئی بھی گوشہ خالی نہیں ہے لیکن زیب غوری کا تصور عشق کلاسیکی شاعروں اور جدید شاعروں سے بالکل الگ ہے۔ ان کے تصور عشق میں کوئی تیزی و تندی نہیں ہے، جذباتی شدت نہیں ہے۔ ان کی غزل میں روایتی عاشق کی گہری جذباتی وفاداری نہیں ملتی ہے۔ وہ جذبات کے والہانہ اظہار کے بجائے ضبط و توازن سے کام لیتے ہیں۔ ان کے تصور عشق میں بھی ان کی شخصیت کی طرح ضبط و توازن ملتا ہے۔ ان کے شعری محرکات خواہ کتنے ہی شدید کیوں نہ رہے ہوں تاہم پیرایۂ اظہار میں ایک طرح کا توازن ملتا ہے، مثلاً:
پھر دمکتے جسم کا یاقوت لو دینے لگا
پھر سراپا میں لہو کی موج رقصندہ ہوئی
ایک اک کرکے کھلے غنچے لباس تنگ کے
رفتہ رفتہ رفتہ رفتہ رات تابندہ ہوئی
تیرا نام نہیں ہو جس پر کوئی ورق ایسا نہ ملا
نقش ترا لوح صحرا پر، عکس ترا دریاؤں میں
اب آخری شعر میں زیب نے اپنے جذبات و احساسات کی تندی و تیزی کو کم کرکے پیش کیا ہے، جس سے شعر میں حسن پیدا ہوگیا ہے۔ شاعر اپنے محبوب کے نام کو ہر جگہ موجود پاتا ہے یعنی عاشق اپنے محبوب کے نام کو صحرا اور دریا یعنی خشکی اور تری دونوں جگہوں پر لکھا ہوا دیکھتا ہے۔ لوح کے ساتھ نقش اور دریا کے ساتھ عکس کی مناسبتوں سے زیب نے پورا پیکر تشکیل دیا ہے۔ پہلے مصرعہ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا ورق نہیں ملا، جس پر تیرا نام لکھا ہوا نہ دیکھا ہو لیکن دوسرے مصرعہ میں اس دعوے کے لیے کوئی دلیل نہیں دی گئی بلکہ صرف دومثالوں کے ذریعے پہلے مصرعے کے دعویٰ کو سچ ثابت کیا گیا ہے کہ لوح صحرا پر تیرا نقش ہے جبکہ صحرا میں قدموں کے نشانات تا دیر باقی نہیں رہتے ہیں، ہوائیں ریت پر قدموں کے نشانات کو مٹادیتی ہیں اور دریا کے آئینے میں کوئی عکس ٹھہرتاہی نہیں ہے لیکن زیب نے اپنے محبوب کے نام اور اس کے حسن کو اپنے لوح دل پر اس طرح نقش کرلیا ہے کہ صحرائی ریت یعنی ناسازگاریٔ حالات اور دریاؤں کی روانی یعنی وقت اور زمانے کی رفتار بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی ہے۔
بیان کیا جاچکا ہے کہ شعری محرکات خواہ کتنے ہی شدید رہے ہوں، پیرایۂ اظہار میں ہمیشہ ایک خاص طرح کی نرمی، نغمگی اور پرتکلف نفاست نظر آتی ہے۔ زیب غوری کو بھی اپنے موضوعات سے اچھوتے ہیں، ندرت اور اپنے اسلوب کی انفرادیت کا بھرپور احساس تھا اس لیے تو انہوں نے کہا تھا:
موضوع سخن ہمت عالی ہی رہے گی
جو طرز نکالوں گا مثالی ہی رہے گی
ZAFAR NAQI
H.No. 164/4, Jamalpur, Aligarh-202002
09639205647
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular