Sunday, April 28, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldدوصد سالہ جشنِ سرسید:خواب اوراحتساب

دوصد سالہ جشنِ سرسید:خواب اوراحتساب

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

پروفیسر صغیر افراهیم
سرسید احمدخاں کو ملک وملت کارہبر اورمصلح قوم کے خطاب سے نوازاگیا ہے۔ انھوں نے خوابِ غفلت میںمبتلا قوم کو بیدار کیا، اوربرادرانِ ملک وملت کو وقت کی اہمیت، افادیت اور اُس کے تقاضوں کو سمجھنے کی طرف راغب کیا۔ سماجی، تہذیبی اور ثقافتی بیداری کے ساتھ سائنسی اور استدلالی نظریات کو فروغ دیااور اِسے انعام وعطاہی سمجھیے کہ رب العالمین نے اُنھیں رفیقِ کار بھی اُسی پایے کے فراہم کیے۔ اکبر اعظم کے دربار میں محض نو رتن تھے مگرسرسید کے بارہ رتن تھے جنھیں قوم رفقائے سرسید کے نام سے یاد کرتی ہے۔اِن باکمال رتنوں کے اسمائے گرامی:۱-محمدحسین آزاد (۱۸۳۰ء-۱۹۱۰ء)، ۲- ڈپٹی نذیر احمد (۱۸۳۱ء-۱۹۱۲ء)، ۳-مولوی ذکاء اللہ (۱۸۳۲ء-۱۹۱۰ء)، ۴-راجہ جے کشن داس (۱۸۳۲ء-۱۹۰۵ء)، ۵-مولوی سمیع اللہ (۱۸۳۴ء- ۱۹۰۸ء)، ۶-خواجہ الطاف حسین حالیؔ (۱۸۳۷ء-۱۹۱۴ء)، ۷-نواب محسن الملک (۱۸۳۷ء-۱۹۰۷ء)،۸-نواب وقار الملک (۱۸۴۱ء-۱۹۱۷ء)، ۹-مولوی چراغ علی(۱۸۴۴ء- ۱۸۹۵ء)، ۱۰-سیدمحمود (۱۸۵۰ء-۱۹۰۳ء)، ۱۱-نواب اسماعیل خاں شروانی (۱۸۵۳ء- ۱۹۲۲ء)، ۱۲-علامہ شبلی نعمانی (۱۸۵۷ء-۱۹۱۴ء)ہیں۔ یہ بارہ رتن رفقائے سرسید کے نام سے معروف ہیں، اور ہر رتن ایک جگمگاتے ہیرے کی طرح ہشت پہلو شخصیت کامالک ہے۔
سرسید اور رفقائے سرسید کے عزم واستقلال، صبروتحمل، وسیع النظری اورقوتِ ارادی کے جذبۂ عمل کو علی گڑھ تحریک سے موسوم کیاجاتا ہے۔ ہمارے اِن سبھی بزرگوں نے ذاتی مفادات اور فروعی اختلافات سے چشم پوشی اختیار کرتے ہوئے قوم کو سنبھلنے، سنورنے اور باعزت زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کیے ہیں۔
صارفیت کے اِس دور میں، اپنی معلومات میں اضافہ کے لیے ہی نہیں بلکہ اپنے احتساب کے لیے بھی یہ جاننا ضروری ہے کہ سرسید نے اپنی زندگی میں کیاکارنامے انجام دئیے ؟ اُن کی وفات کے بعدرفیقوں نے اُن کے خوابوں کی تعبیر کے لیے کیاجتن کیے ؟ ہم آج کہاں اور کس مقام پر ہیں؟ نئی نسل کے مستقبل کو مزیدروشن بنانے کے لیے ہمیں کیا لائحہ عمل اختیارکرنا ہوگا!! دُنیا بھر میں موجود سرسید کے بہی خواہ اِسی نکتہ پر غوروفکر کے لیے ۱۷؍اکتوبر کویکجا ہوتے ہیں، یکسوئی اوردل جمعی سے غور وفکر کرتے ہیں۔ ماہنامہ ’’تہذیب الاخلاق‘‘ اُسی روایت کاپاسدار ہے۔ اس میں شامل ملک اور بیرون ملک کے نامور ادیبوں کے مضامین اوراداریوں کے مطالعے سے سرسید کی شخصیت، افکار ونظریات اور عملی خدمات کوسمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔ نئی نسل کو یہ بتانا مناسب محسوس ہوتا ہے کہ جب میں اِس خاص شمارے (اکتوبر ۲۰۱۸ء) کی تیاری کے منصوبے بنارہا تھا تو میرے دوست، ممتاز محقق ڈاکٹرشمس بدایونی نے مشورہ دیا کہ آپ سرسید نمبرمیں سیدوالاگُہر کے دوصد سالہ یوم پیدائش کے سلسلے میں جوبھی تقریبات منعقد ہوئی ہیں اور جو تحریری سرمایہ منظرِ عام پر آیا ہے، اُن سے اپنے قاری کو ضرور متعارف کرائیں۔ مشورہ معقول مگر دائرۂ کار بہت وسیع تھا۔ ۱۶ـ۲۰ء سے ۲۰۱۸ء تک عالمی سطح پر جوبھی ادبی، علمی اور ثقافتی سرگرمیاں ہوئیں اُنھیں احاطۂ تحریر میں لانامشکل مرحلہ تھا مگر ناگُزیر حالات سے نبرد آزما ہونا،دشواریوں اور اختلافات کے باوجود جتن کرتے رہنا سرسید تحریک کا بنیادی پیغام ہے۔ لہٰذا اپنے ادب دوست رفیقوں، پروفیسر طارق سعید، جناب احمد مجتبیٰ قریشی، ڈاکٹر فرقان سنبھلی اور جناب اسعد فیصل فاروقی کے تعاون سے ممکن حد تک جو بھی گرفت میں آسکا اُسے یکسوئی سے ترتیب دیاگیاہے۔ اِس دستیاب مواد کے نتائج قابلِ توجہ ہیں۔ کوشش جاری ہے کہ مذکورہ تعلق سے اگر مکمل مواد فراہم ہوجائے تو ادارۂ تہذیب الاخلاق اُسے الگ سے شائع کردے۔ فی الحال جو معلومات میسّر ہوسکی ہیں اُن کے اعداد وشمار کے مطابق چالیس سے زائد اردو، ہندی، انگریزی میں کتابیں شائع ہوئیں، ان میں اہم کتابیں حسب ذیل ہیں:
۱-سوانح سرسید-ایک بازدید۔شافع قدوائی۲۰۱۷ء
۲-سرسید اور اُن کے معاصرین ۔راحت ابرار۲۰۱۷ء
۳-سرسیداحمد خاں-ایک عبقری شخصیت اوربے مثال عملی انسان ،اشتیاق احمدمشتاق، ۲۰۱۷ء
۴-سرسید اور اردوزبان وادب،قمر الہدیٰ فریدی۲۰۱۷ء
۵-سرسید شناسی- مبالغے اورمغالطے۔مجاہد حسین۲۰۱۷ء
۶-شذرات سرسید ۔اصغر عباس۲۰۱۷ء
۷-سرسید کانظریہ تعلیم ۔افتخار عالم خاں ۔۲۰۱۷ء
۸-سرسید اور علی گڑھ تحریک، دوصدی جشن پیدائش ببلیوگرافی، شائستہ خان۲۰۱۷ء
۹-سرسید جدید ذہن کے معمار۔محمدسعود عالم قاسمی۲۰۱۷ء
۱۰-قوم کاروشن مستقبل اور سرسید ۔توقیر عالم فلاحی۔۲۰۱۷ء
۱۱-سرسید کا تصور ثقافت ۔ابوسفیان اصلاحی۲۰۱۷ء
۱۲-سرسید کی قرآنی فکر۔احسان اللہ فہد۔۲۰۱۷ء
۱۳-غازی پور سرسید احمد خاں کے پس منظر میں۔ عبیدالرحمن صدیقی۲۰۱۷ء
۱۴-سرسید ہاؤس کے ماہ وسال ۔افتخار عالم خاں۲۰۱۸ء
۱۵-سرسید اور ہم ۔علی احمدفاطمی۲۰۱۸ء
۱۶-سرسید اور علی گڑھ تحریک پر دو اہم ترین مآخذ۔شائستہ خان۔۲۰۱۸ء
۱۷-سرسیداحمد خاں اورہندوستان کی پہلی جنگ آزادی، عمر رضا۲۰۱۸ء
۱۸-مدرسۃ العلوم کاقیام اور اس کے اولین نقوش۔ظفر الاسلام اصلاحی۲۰۱۸ء
۱۹-جہاتِ سرسید ۔شمس بدایونی۲۰۱۸ء
۲۰-ماہنامہ تہذیب الاخلاق کے اداریے، ۔محمدشاہد۲۰۱۸ء
انگریزی میں شائع ہونے والی کتابیں:
21.Sir Syed Ahmad Khan Muslim Renaissance Man of India by A.R. Kidwai, 2017
22.Jahan-e-Syed, Asim Ali Siddiqui & Rahat Abrar, 2017
23.Sir Syed Founder of Ilm-e-Kalam Jadeed, by Ali Mohammad Naqvi, 2017
ہندی میںچھپنے والی اہم کتاب:
سرسید احمد خان اور بھارتی نوجاگرن۔راحت ابرار۲۰۱۷ء
اِس دوران اخبار کے ضمیموں کے علاوہ رسائل وجرائد کے کم وبیش بیس۲۰ خاص نمبرمنظر عام پر آئے ،جن کی ترتیب یہ ہے:
۱-روحِ ادب مغربی بنگال اردو اکیڈمی اکتوبر تا دسمبر ۲۰۱۷ء
۲-فکروآگہی بھوپال/دہلی ستمبر ۲۰۱۷ء، جلدنمبر۲۶تا ۲۹
۳-کانفرنس گزٹ علی گڑھ اکتوبر  ۲۰۱۷ء
۴-بزمِ ادب علی گڑھ اکتوبر  ۲۰۱۷ء
۵-فکرونظر علی گڑھ مارچ  ۲۰۱۷ء
۶-تہذیب الاخلاق علی گڑھ مارچ  ۲۰۱۷ء
۷-تہذیب الاخلاق،علی گڑھ ،اکتوبر  ۲۰۱۷ء
۸-فکرِ نو  علی گڑھ ,اکتوبر  ۲۰۱۷ء
۹- ماہِ نو لاہور اکتوبر  ۲۰۱۷ء
۱۰-قومی زبانکراچی ,اکتوبر  ۲۰۱۷ء
۱۱-صحیفہ لاہور,اکتوبر  ۲۰۱۷ء
۱۲-ایوانِ اردو ,دہلی ,مارچ  ۲۰۱۸ء
۱۳-نوائے ادب ،ممبئی مارچ  ۲۰۱۸ء
۱۴- تہذیب الاخلاق ,علی گڑھ ,اکتوبر ۲۰۱۸ء
جشنِ سیدی کے دوران مباحثے اور مشاعرے ہوئے، اسٹیج ڈراموں اورٹی۔وی پروگراموں کے ساتھ درجنوں سمینار منعقد ہوئے۔ان میں اہم سمینار یہ قرار دئیے جاسکتے ہیں:
(الف) علی گڑھ میں منعقدہونے والے سرسید سمینار
۱-اے۔ایم۔یو۔ اورساہتیہ اکیڈمی دہلی کے اشتراک سے دو روزہ قومی سمینار (۱۵-۱۶؍اپریل ۲۰۱۷ء)
۲-سروجنی نائیڈو ہال میں یک روزہ مذاکرہ، ۲۹؍اگست ۲۰۱۷ء
۳-شعبۂ شیعہ تھیالوجی میں ایران کلچرل ہاؤس، دہلی کے تعاون سے بین الاقوامی سمینار (۶-۷؍ستمبر ۲۰۱۷ء)
۴-سینٹر آف ایڈوانسڈ اسٹڈی، شعبۂ اردو میں’’سرسید اور اُن کا عہد‘‘ کے عنوان پر سہ روزہ سمینار (۵-۷؍اکتوبر ۲۰۱۷ء)
۵-شعبۂ انگریزی اور سرسید اکیڈمی کا مشترکہ دو روزہ قومی سمینار (۲۵-۲۶؍اکتوبر ۲۰۱۷ء)
۶-سرسید اکیڈمی اورشعبۂ تاریخ کامشترکہ دو روزہ سمینار (۲۱-۲۲؍نومبر ۲۰۱۷ء)
۷-اردو اکیڈمی کا قومی کونسل برائے فروغِ اردو زبان ، دہلی کے اشتراک سے سہ روزہ سمینار (۸-۱۰؍جنوری ۲۰۱۸ء)
۸-سرسید اکیڈمی کادو روزہ سمینار(۷-۸؍مئی ۲۰۱۸ء)
(ب) علی گڑھ سے باہر منعقد ہونے والے اہم سمینار:
۱-ٹرکش امریکن کمیونٹی سینٹر، امریکہ میں یک روزہ سمینار، (۲۱؍ستمبر ۱۷ـ۲۰ء )
۲-نیویارک، امریکہ میںسرسید تقریب، (۴؍نومبر ۱۷ـ۲۰ء )
۳-مغربی بنگال اردو اکاڈمی کلکتہ میں دو روزہ بین الاقوامی سمینار، (۱۶-۱۷؍دسمبر ۱۷ـ۲۰ء )
۴-جامعہ ملیہ اسلامیہ میں قومی کونسل کے تعاون سے سہ روزہ سمینار،( ۲-۴؍فروری ۱۸ـ۲۰ء )
۵-دکن مسلم انسٹی ٹیوٹ میں این۔سی۔پی۔یو۔ایل۔ کے تعاون سے د و روزہ سمینار، (۱۸-۱۹؍ فروری ۱۸ـ۲۰ء)
۶-دہلی اردو اکیڈمی میں سہ روزہ سمینار،( ۲۳-۲۵؍فروری ۱۸ـ۲۰ء )
۷-الٰہ آباد یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں یک روزہ قومی سمینار (۲۷؍فروری ۱۸ـ۲۰ء )
۸-اترپردیش اردو اکادمی لکھنؤ میں یک روزہ قومی سمینار (۱۷؍مارچ ۱۸ـ۲۰ء )
۹-ڈاکٹر خورشید جہاں کالج، لکھنؤ میں یک روزہ سمینار (۱۷؍مارچ ۱۸ـ۲۰ء )
۱۰-پنجاب اردو اکیڈمی،مالیر کوٹلہ میں دو روزہ قومی سمینار (۹-۱۰؍مئی ۲۰۱۸ء)
۱۱-کرناٹک اردو اکاڈمی، میسور میں یک روزہ قومی سمینار (۲۷؍مئی ۷)۱ـ۲۰ء
قومی اور عالمی سطح پر منائے جانے والے یہ جشن محض تزک واحتشام کااظہارنہیں بلکہ ان کے توسط سے آہنی عزم وارادے کے مالک سرسید احمد خاں کوتاریخی، علمی اور تہذیبی بنیادوں پر سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ بیرون ملک پر نظر ڈالیں تو امریکہ ہو یا انگلینڈ، ماریشش ہو یا جرمنی یا پھر عرب ممالک میں دُبئی، قطر، مسقط، کویت اور ریاض کے ادبی وثقافتی مراکز، تقریباً ہر جگہ سید والاگُہر کو خراجِ تحسین پیش کیاگیا ہے۔ اندرونِ ملک ہر صوبہ کے بڑے بڑے شہروں میں خلوصِ دل سے سرسید اور اُن کے کارناموں پر مدلل اور موثر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مزیدمسرت کامقام یہ ہے کہ جناب اشتیاق احمدمشتاق جوعرصہ سے قطر میں مقیم ہیں، انھوں نے ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے خصوصی شماروں (۲۰۱۶ء-۲۰۱۷ء) میںشامل نئی نسل کے قلم کاروںکا انتخاب ’’سرسید احمدخاں : ایک عبقری شخصیت اور بے مثال عملی انسان‘‘ کے عنوان سے شائع کرایا ہے۔ اسی طرح فروری ۲۰۱۸ء میں’’تہذیب الاخلاق‘‘ کے اداریوں پر ڈاکٹر محمد شاہد کی کتاب منظر عام پر آئی ہے جو علی گڑھ تحریک کو سمجھنے کا ایک وسیلہ ہے۔
یہاں اِس کی بھی وضاحت کرتا چلوں کہ شبلیؔ اورسرسید سے متعلق ایک عرصہ تک غلط فہمیاں گشت کرتی رہی ہیں اور تحریری طور پر دونوں اکابر کو ایک دوسرے کامد مقابل بناکر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ دارالمصنّفین شبلی اکیڈمی ، اعظم گڑھ اورعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ کوبھی اسی روشنی میں ایک دوسرے کامدمقابل سمجھا جاتا رہاہے۔ اس تصور کو شبلی اکیڈمی کے موجودہ ڈائریکٹر پروفیسر اشتیاق احمد ظلی نے اپنے ادارے میں سرسید پر نیشنل سمینار (۳۱؍اکتوبر-پہلی نومبر ۲۰۱۷ء) منعقد کرکے اور’’ شذراتِ سرسید‘‘ کی ضخیم جلد اول (جس کا علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ سے پروفیسر اصغر عباس نے انتخاب کیا)شائع کرکے گشت کرتی غلط فہمیوں کوسرے سے خارج کردیاہے۔ اُن کا یہ عمل تحریک علی گڑھ کی کامیابی کے لیے ایک نیک شگون ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ہر سال عالمی اور قومی سطح کے اسکالرز اور اہم شخصیات کو سرسید ایکسی لینس ایوارڈ سے نوازتی ہے۔ پچھلے سال بانیِ درس گاہ کے دوصد سالہ یوم پیدائش کے موقع پر امریکہ کے معروف دانشور پروفیسر ڈیوڈلیلی ویلڈ کو عالمی اور معروف قانون داں جسٹس محمدسہیل اعجاز صدیقی کوقومی سطح پر سرسید کی یاد میں قائم ’’سرسید ایکسی لینس ایوارڈ ۲۰۱۷ء‘‘ سے سرفراز کیاگیا۔ سال رواں کے لیے کرسچین ڈبلیو ٹرال اور سنجیو صراف کا انتخاب کیا گیاہے ۔یہ ایوارڈ ۱۷؍اکتوبر ۲۰۱۸ء کو یوم سرسید کے موقع پر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں پیش کیا جائے گا۔
کرسچین ڈبلیو ٹرال فرینک فرٹ، جرمنی میں واقع ایک عالمی ادارے میں اعزازی پروفیسر کی حیثیت سے فائز ہیں اور بین المذاہب مطالعات بالخصوص اسلام اور عیسائی مذاہب کے تعلقات اوردینیات سمیت فلسفہ کے قابلِ احترام اسکالر ہیں۔ خصوصی طور پر بانیِ درس گاہ سرسید احمد خاں پر اُن کی تصنیف “Syed Ahmad Khan: A Reinterpretation of Muslim Theology” شائع ہوکر قومی وعالمی سطح پر مقبولیت حاصل کرچکی ہے۔
سنجیوصراف اردو زبان وادب کے فروغ کے لیے انٹرنیٹ کی دنیا میں سرگرم عمل، ’’ریختہ فاؤنڈیشن‘‘ کے بانی اور عالمی سطح پر اردو کے فروغ نیز اپنے کاروبار میں سماجی خدمات کے فرائض کو اپنامقصد بنانے والے معروف صنعت کار ہیں۔ فروغ اردو کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں مولانا آزاد اردویونیورسٹی حیدرآباد ڈی لٹ کی اعزازی ڈگری سے اُنھیں سرفراز کرچکی ہے۔
امسال ہماری یہ کوشش رہی ہے کہ سرسید جشن صدی کے موقع پر ملک اور بیرون ملک میں جو ادبی اور ثقافتی ہلچل رہی ہے۔ اُس کے پیش نظر، اکتوبر ۲۰۱۸ء کے نمبر کو علیحدہ خطوط پر مرتب کیا جائے نیز سرسید صدی کے دوران جو تحریری سرمایہ سامنے آیا اس کا احاطہ کرنے کی بھی حتی المقدور کوشش کی جائے۔اس کے علاوہ عکسی نوادر کے طور پر بعض فوٹو اور دستاویز بھی پیش کیے جائیں جو یقینا مطالعۂ سرسید کی فضا کو خوشگوار بنانے میں مددگار ثابت ہوں گے۔انشاء اللہ سرسید اور رفقائے سرسید کو سمجھنے سمجھانے میں تہذیب الاخلاق کا یہ خصوصی شمارہ ایک علاحدہ اور منفرد شناخت قائم کرے گا۔
سید والاگُہر اور اُن کے رفقاء کی پیروی کے بہت سے وسیلے ہیں اورسبھی وسیلے موثر اور معتبر ہیں، علی گڑھ تحریک کے لیے کچھ کرنے کی لگن کے باوجود عملِ پیہم کو اختیار کرنے میں تساہلی کیوں؟ تذبذب اور کشمکش کی کیفیت ترقی کی دوڑ میں مانع ہورہی ہے۔ جب کہ نیک تمناؤں اور بزرگوں کی دُعاؤں کے ساتھ وسائل کی کمی یا جذبے کافقدان نہیں ہے۔ رہی بات رفیقوں کی تو مجروحؔ سلطان پوری کا یہ شعر تقویت دیتا ہے:
میں اکیلا ہی چلاتھا جانبِ منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اورکارواں بنتا گیا
سرسید نے بے خوف وخطر مصمم ارادہ کرلیا تھا۔ کامیابی نے قدم چومے۔ ہم بھی اگر ٹھان لین تو راہیں آسان ہوتی چلی جائیں گی۔ ایسی صورتِ حال میں بہی خواہانِ سرسید پر لازم قرار پاتا ہے کہ معتدل اور مفاہمتی اندازِ فکر کے ساتھ یکسوئی اوردلجمعی سے علمی اور عملی جدوجہد کو تقویت دینے میں منہمک ہوجائیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اِس کاوشِ لامتناہی کے صلہ میں جلد ہی نونہالانِ سرسید کامیابی سے ہمکنار ہوںگے اور یہ کامیابی سرسید اور رفقائے سرسید کو خراجِ تحسین پیش کرنے کا سب سے بہتر وسیلہ ہے
   پروفیسرصغیر افراہیم
 سابق صدر شعبۂ اردو۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular