Sunday, May 5, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldحضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی حیات طیبہ پر ایک مختصر...

حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی حیات طیبہ پر ایک مختصر نظر

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

 

علی سجیر رضوی زیدپوری

ہمارے دوسرے ائمہ طاہرین علیہم السلام کی طرح حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی زندگی بھی ہمارے لئے قابل اقتداء اور نمونہ عمل ہے ۔آپکا نام مبارک محمد ، ابو جعفر کنیت تھی۔ اور تقی ،جواد و باب المراد مشہور القابات تھے ، ہر لقب آپکی با عظمت اور والا مقام شخصیت کی ترجمانی کر رہا ہے، جواد۔چونکہ آپ ہمیشہ لوگوں کے ساتھ نیکی اور احسان کرتے تھے اور لوگوں کو اپنی جود وسخا سے فیض پہونچاتے رہے ، آپکو ایک لقب تقی سے بھی یاد کیا جاتا ہے اس لئے کہ آپ نے تقوائے الہی کو اپنا شعار بنایا اور اپنے معبود کی بارگاہ میں توبہ و انابہ کرتے رہے اور خدا سے الفت اور اسکی بندگی میں مصروف رہے ،کسی بھی نفسیاتی خواہش کی طرف رخ نہ کیا ، آپکا ایک اور مشہور لقب باب المراد تھا یہ لقب حاجت اور مراد پوری ہونے کے دروازے کے معنی میں ہے ۔
والد بزرگوار حضرت امام علی رضا علیہ السلام ہیں اور والدہ گرامی جناب سبیکہ سلا م اللہ علیہا ہیں ۔
۱۰ رجب المرجب ۱۹۵ ہجری کو مدینہ منورہ میں ولادت با سعادت ہوئی ،حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کو کمسنی ہی کے زمانے سے مصائب و پریشانیوں کا مقابلہ کرنا پڑا ، ابھی آپ کی کل عمر مبارک ۵ ہی برس کی تھی کہ جب امام علی رضا علیہ السلام مدینہ سے خراسان کی طرف سفر کرنے پر مجبور ہوئے ، امام محمد تقی علیہ السلام سے جدا ہونے کے تیسرے سال امام علی رضا علیہ السلام کی شہادت واقع ہوئی ، دنیا سمجھ رہی تھی کہ امام محمد تقی علیہ السلام کے لئے علمی و عملی بلندیوں تک پہونچنے کا کوئی ذریعہ نہیں رہا اس لئے اب امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی مسند شاید خالی نظر آئے مگر دنیا کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس کمسن بچہ کو مامون کے پہلو میں بیٹھے بڑے بڑے علما سے فقہ ، حدیث ، تفسیر و کلام وغیرہ پر مناظرے کرتے اور سبکو قائل ہوتے ہوئے دیکھا ۔
امام محمد تقی علیہ السلام اخلاق و اوصاف میں انسانیت کی اس بلندی پر تھے جسکی تکمیل رسول وآل رسول علیہم السلام کا طرہ امتیاز تھا۔ہر ایک سے خنداں روئی سے ملنا، ضرورت مندوں کی حاجت روائی کرنا ، مساوات وسادگی کو ہر حالت میں پیش نظر رکھنا ، غریب وغرباء کی پوشیدہ طور پر خبر لینا اور دوستوں کے علاوہ دشمنوں تک سے اچھا سلوک کرنا ، مہمانوں کی خاطرداری میں انہماکی آپ کی سیرت طیبہ کا نمایاں پہلو تھا ۔ بنی امیہ یا بنی عبا س کے بادشاہوں کا آل رسول علیہم السلام کی ذات سے اتنا اختلاف نہ تھا ، جتنا ان کے صفات سے، وہ ہمیشہ اس کے درپے رہتے تھے کہ بلندیٗ اخلاق اور معراج انسانیت کا وہ مرکز جو مدینہ میں قائم ہے اور جو سلطنت کا مادی اقتدار کے مقابلے میں ایک مثالی روحانیت کا مرکز بنا ہو اہے ۔ یہ کسی طرح ٹوٹ جائے ۔اسی کے لئے گھبرا گھبرا کر وہ مختلف تدبیریں انجام دیتے تھے ، امام حسین علیہ السلام سے بیعت طلب کرنا اسی کی ایک شکل تھی اور پھر امام علی رضا علیہ السلام کو ولی عہد ہونے کے باوجود حکومت کے مادی مقاصد کے ساتھ ساتھ نہ چل سکے تو آپکو زہر دیکر ہمیشہ کے لئے خاموش کر دیا گیا، اب مامون کے نقطہء نظر سے یہ موقع انتہائی قیمتی تھا کہ اب امام علی رضا علیہ السلام کا جانشین تقریبا آٹھ سال کا بچہ ہے جو باپ کی زندگی میں ہی باپ سے الگ کروایا جا چکا تھا ،حکومت وقت کی سیاسی سوجھ بوجھ کہہ رہی تھی کہ اس بچہ کو اپنے طریقہ پر لانا نہایت آسان ہے اور اسکے بعد وہ مرکز جو حکومت وقت کے خلاف ساکن اور خاموش مگر انتہائی خطرناک قائم ہے ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا ، مگر دنیا تو حیران ہو گئی جب یہ دیکھاکہ وہ آٹھ برس کا بچہ جسے شہنشاہ اسلام کا داماد بنایا گیا ہے اس میں اپنے خاندانی رکھ رکھاو اور اصول کا اتنا پابند ہے کہ وہ شادی کے بعد شاہی محل میں قیام سے انکار کر دیتا ہے اور اس وقت بھی کہ جب بغداد میں قیام رہتا ہے تو ایک علاحدہ مکان کرایہ پر لے کر اسمیں قیام فرماتے ہیں ۔
اسلامی تعلیمات کی رو سے منصب امامت کا حقدار وہ ہوتا ہے جو اپنے زمانے کا سب سے زیادہ جاننے والا ، احکام الہی اور شریعیت کے سلسلہ میں سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہو اسی طرح سے سیاست اور قیادت میں لائق و فائق لوگوں کے سماجی اور مذہبی ضرورتوں کو پورا کرنے میں ممتاز ہو ، اس سلسلہ میں امام جواد علیہ السلام اپنے اجداد کی طرح اپنے زمانے کی بے مثل اور ممتاز شخصیت تھے حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کمسنی کے عالم میں پوری قوت کے ساتھ میدان علم میں اترے اور اپنی غیر معمولی استعداد کو لوگوں کے سامنے پیش کیا ۔ آپ نے اس وقت علماء اور فقہاء کے لا یحل اور بہت ہی سخت علمی اور شرعی سوالات کا کافی و شافی جواب دیا اور اس طرح سے اپنی صلاحیتوں کو سب پرآشکار کیا ، اس زمانے میں امام جواد علیہ السلام کے علمی مناظروں کے سبب مذہب اہل بیت علیہم السلام کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا اور لوگوں کی مشتاق نگاہوں نے آپ کا استقبال کیا جسکی بنیاد پر کئی علماء و فقہاء نے اپنے گزشتہ عقیدہ و مذہب سے روگردانی اختیار کرتے ہوئے اصل امامت کو قبول فرمایا ،آپکی تقریر بہت دلکش اور پر تاثیر ہوتی تھیں ، ایک مرتبہ زمانہ حج میں مکہ معظمہ میں مسلمانوں کے مجمع میں کھڑے ہوکر آپ نے احکام شرع کی تبلیغ فرمائی تو بڑے بڑے علماء دم بخود رہ گئے اور انھیں اقرار کرنا پڑا کہ ہم نے ایسی جامع تقریر کبھی نہیں سنی تھی
امام محمد تقی علیہ السلام نے اپنی پوری مختصر سی زندگی کو احکام الہی کے بیان علم الہی کو پہونچانے میں گزاری اور خدا کے دشمنوں سے جہاد کرتے رہے اور صرف پچیس سال یعنی عین جوانی کے عالم میں ہی آپ کا وجود مبارک دشمنوں کے لئے نا قابل برداشت ہو گیا اسی سبب ظالم خلیفہ معتصم عباسی ۔ [مامون کا بھائی ] امامون کی بیٹی ام الفضل کا چچا تھا ،مسلسل امام محمد تقی علیہ السلام کی سازش رچ رہا تھا اس کام میں وہ ام الفضل کے ساتھ ہو گیا تھا کہ امام کو زہر دے دے ، ام الفضل نے معتصم کی درخواست پر زہر کو انگور میں بجھا کر امام کو دیا ،اور اس طرح امام علیہ السلام ماہ ذی القعدہ کی ۲۹ کو شہر بغداد میں شہادت کے درجہ پر فائض ہوئے اور بغداد میں کاظمین نامی جگہ پر اپنے جد بزرگوار امام موسی کاظم علیہ السلام کے جوار میں دفن ہوئے ، کاظمین آج بھی آپکے چاہنے والوں کی زیارت گاہ ہے جہاں امام موسی کاظم علیہ السلام اور امام محمد تقی علیہ السلام کے عالی شان روضہ بنے ہوئے ہیں اور مومنین اسکی زیارت سے فیضیاب ہوتے ہیں ۔
مقیم قم المقدس ایران

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular