Tuesday, May 7, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldجہاں جس کی حکومت ہے وہ اپنا سکہ چلا رہا ہے

جہاں جس کی حکومت ہے وہ اپنا سکہ چلا رہا ہے

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

حفیظ نعمانی

 

اندرا گاندھی پرتشٹھان میں 6 دسمبر کو اترپردیش کھادی مہوتسو 2018 ء کا وزیراعلیٰ یوگی نے افتتاح کیا اور اس کے بعد گائے پر منحصر معیشت کے فائدوں پر روشنی ڈالی انہوں نے کہا گائے کے فروغ اور تحفظ کے لئے فنڈ کی نہیں عزم کی کمی ہے۔ اسی پروگرام میں بہار کے گری راج سنگھ جو مودی سرکار میں نائب وزیر ہیں اور جن کا محبوب موضوع گائے کا موت (ewr) اور گوبر ہے وہ بھی موجود تھے۔ وہ برسوں سے گائے کے موت(ewr) کو فروخت کرنے کی ڈیریاں بنانے کی بات کرتے رہے ہیں اور اب جبکہ ان کی سرکار کے جانے کا وقت آگیا اس وقت تک گائے کے سیکڑوں لیٹر موت(ewr) سے دس روپئے بھی نہیں کما سکے ہیں۔ اور اگر 2019 ء کے بعد وزیر نہ بن سکے تو شاید وہ اسے اپنا روزگار بنالیں۔
اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی نے اپنی تقریر میں کہا کہ گائے کے تحفظ اور فروغ کے لئے فنڈ کی کمی کا بہانہ بنایا جارہا ہے جبکہ انہوں نے ریاست کے 16 نگرنگموں کو دس دس کروڑ روپئے دیئے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے گائے کے فضلہ سے کھیتی کو ہونے والے فائدوں کی تفصیل بتائی۔ وزیراعلیٰ یوگی ہوں یا گری راج سنگھ وہ گائے کی عظمت کے بھی قائل ہیں اور ان سے فائدہ اٹھانے کا طریقہ بھی سب کو بتا رہے ہیں۔ ان کا خیال یہ ہے کہ ہر ہندو اس کے انتظار میں بیٹھا ہے کہ فائدے معلوم ہوں اور وہ عمل کرنا شروع کردے۔ گری راج سنگھ کی زبان پر 100 کروڑ ہندو چڑھا ہوا ہے وہ ہر بات میں 100 کروڑ ہندوئوں کو کھڑا کرنے کی دھمکی دیتے ہیں جبکہ انہوں نے دیکھ لیا کہ 25 نومبر کو ایک لاکھ ہندو بھی رام مندر کے لئے اجودھیا میں نہیں پہونچے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پورے ملک میں پانچ کروڑ ہندو بھی ایسے نہیں ہیں جن کو گائے اور رام مندر کے لئے جب آواز دو تو وہ سب کام چھوڑکر دوڑ پڑیں۔
جس بہار میں گری راج سنگھ رہتے ہیں اسی بہار میں ہر بقرعید کو نہ جانے کتنے ہندو ان گایوں کو جو اب دودھ کے قابل نہیں رہیں کاٹنے کے لئے مسلمانوں کو دے دیتے ہیں اور مناسب قیمت لے لیتے ہیں۔ جرسی گائے کا بچھڑا جو کسان یا ہندوئوں کے کسی بھی کام کا نہیں وہ سب بہار میں قربان ہوجاتے ہیں اور ہندو دو سال صرف بقرعید کے لئے پالتے ہیں۔ یہ بات سب ہندو نہیں جانتے کہ نہ جانے کتنے ایسے مسلمان ہیں جو شہروں میں رہتے ہیں اور جن پر قربانی فرض ہے لیکن وہ اگر ایک گھر میں چھ ایسے بالغ ہیں۔ تو وہ چھ بکرے کرکے کیا کریں گے؟ شہر میں چند جاننے والے اور آس پڑوس کے چند گھروں میں گوشت دینے اور مانگنے والوں کو دینے کے بعد باقی گوشت کا وہ کیا کریں۔ اس لئے وہ ایک بکرا کرلیتے ہیں اور بہار، اڑیسہ اور بنگال کے ان انتہائی غریب مسلمانوں کو جن کو ایک بوٹی بھی گوشت کی نہیں ان کے علاقوں میں ہندوئوں سے خرید کر وہیں قربان کردیتے ہیں اور گوشت اور کھال ان غریبوں میں ہی تقسیم کردیا جاتا ہے۔ مسلمان کے لئے یہ ضروری نہیں کہ جو جانور کاٹے وہ اپنے گھر یا اپنے گائوں یا شہر یا صوبہ میں کاٹے۔
وزیراعلیٰ یوگی نے جو بھی بیان دیا ہے وہ یہ سوچ کر دیا ہے کہ ہر ہندو ان کی طرح ہی فکرمند ہے اور ہر ہندو کو اس کے تحفظ اور فروغ کی فکر ہے اگر ایسا ہے تو پھر وہ ہندو کون ہیں جو جے پور کے ایک بہت بڑے گئوشالے کے ذمہ دار ہیں اور جسے کروڑوں روپئے سرکار سے ملتے ہیں مگر اس گئوشالے میں ٹی وی نے تین بار دکھایا کہ کتنی ہی گائیں اپنے گوبر اور کیچڑ میں پھنسی پڑی ہیں نہ وہ کھڑی ہوسکتی ہیں نہ اس دلدل سے نکل سکتی ہیں نہ پانی پی سکتی ہیں اور نہ بھوسہ کھاسکتی ہیں صرف موت کا انتظار کررہی ہیں۔ اور ہم نے یہ بھی دیکھا جب شہرت ہوئی کہ ٹی وی والے کیمرے لے کر آگئے ہیں تو وہ وزیر بھاگا ہوا آیا جس کا محکمہ تھا اور وہ ایک سفید گائے کو ہرا چارہ کھلانے لگا اور آواز دی اس کا فوٹو کیوں نہیں لیتے کہ گود میں لے کر اپنی پیاری کو چارہ کھلاتے ہیں۔ اور یہ جب ہے جب بی جے پی کی حکومت ہے۔
وزیراعلیٰ نے 16 نگرنگم کو آوارہ گایوں کی حفاظت کے لئے جو دس دس کروڑ روپئے دیئے ہیں کیا ان میں سے کوئی نگم ایسا ہے جہاں سے یہ شکایت نہ آرہی ہو کہ وہاں کے کسان گالیاں دے رہے ہیں اور رات رات بھر اپنے کھیتوں کی حفاظت جاگ کر کررہے ہیں ایک رپورٹر سے نگرانی کرنے والوں نے کہا کہ پریشانی یہ ہے کہ اگر ہم دور بھگانے کیلئے کسی جانور کو زور سے ماردیں تو ہمارے خلاف ایک مقدمہ بن جائے یہ وزیراعلیٰ کی قسمت ہے کہ وہ ایک ضلع کو گایوں کی حفاظت کے لئے ایک شہر کو دس کروڑ روپئے دے رہے ہیں اور یہ سوچ کر ہندو کو دے رہے ہیں کہ وہ ضرورت پڑی تو ماں کی حفاظت کے لئے اپنے پاس سے بھی کچھ لگا دے گا اور وہ اس میں دس روپئے بھی خرچ کرنا بے وقوفی سمجھتا ہے اس لئے کہ ماں کو آوارہ کہا جارہا ہے۔ اور جو ماں یا بہن آوارہ ہو اس کے لئے کون گھر بناتا ہے۔ آج بھی اگر پابندی اٹھالی جائے اور وزیراعلیٰ یہ اعلان کردیں کہ اگر گائے کا مالک بھی ہندو ہو خریدنے والا بھی ہندو ہو اور اپنے سامنے کٹوانے والا بھی ہندو ہو تو اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی تب دیکھیں وہ تماشہ کہ ہر گلی اور ہر گائوں میں ایک ہی منظر نظر آئے گا۔ جس جانور کو باپ دادا پردادا اور ان سے پہلے سے جانور مانا جارہاہے اسے پانچ سال کی حکومت سے اگر آپ چاہیں کہ ماں کے برابر سمجھنے لگیں تو یہ آپ کا اندازہ ہے۔ رہا گائے کے نام پر فساد تو وہ صرف بی جے پی کے بے روزگار غنڈوں کا روزگار ہے جو حکومتوں نے پولیس کے ذریعہ ان کو دیا ہے۔ اگر 2019 ء میں بی جے پی کے علاوہ دوسری پارٹیوں کی حکومت بن گئی یا بی جے پی کو دوسری پارٹیوں کا سہارا لے کر حکومت بنانا پڑی تو سب دیکھیں گے کہ سارے غنڈے زعفرانی انگوچھا اُتارکر شریف لڑکوں والے کپڑے پہن لیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ اگر 11 دسمبر کو وہ ہوگیا جس کی شہرت ہے تو 12 سے ہی رنگ بدلنا شروع ہوسکتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ عارضی ہے۔
یوپی کے وزیراعلیٰ یوگی اور بہار کے گری راج سنگھ گئوماتا کی سوگندھ کھاکر بتائیں کہ کیا جنوب مشرق کی پانچوں ریاستوں اور گوا اور کیرالہ میں کیا کھلے عام گائے نہیں کٹ رہی، اور کیا ہندوستان گائے بچھڑے اور بھینس کا گوشت دنیا کے گوشت کھانے والے ملکوں کو سب سے زیادہ گوشت بھیجنے والا ملک نہیں ہے؟ اور کیا یہ وزیراعظم نریندر مودی اور دوسرے ہندو وزیروں کے علاوہ کوئی کررہا ہے؟ پھر یہ دوغلہ پن نہیں تو کیا ہے کہ حکومت اگر خود کٹواکر بیچے تو وہ ماں نہیں ہے اور یوپی، بہار، جھارکھنڈ اور راجستھان میں مسلمان چھولیں تو اُن کی سزا موت ہے۔
9984247500

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular