Sunday, April 28, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldمادر ہند کا مایہ ناز سپوت: مولانا محمد علی جوہر

مادر ہند کا مایہ ناز سپوت: مولانا محمد علی جوہر

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

جلال الدین اسلم

10 دسمبر ’یومِ جوہر‘ ہے۔ اُس جوہر نایاب کا جنم دن، جس کے جنم دن پر انسانی فکر و عمل کے اُفق پر طلوع ہونے والے آفتاب و ماہتاب اپنی عقیدت و محبت کے نذرانے پیش کرتے ہیں۔ اس جوہر تابدار کا جنم دن، جس کی چمک سے دنیائے بے ثبات اپنے ثبوتِ استحقاق کے لیے روشنی حاصل کرتی ہے اور اس جوہر بے بہا کا جنم دن، جس کا کوئی بدل نہیں۔
قوم و ملت کے کیسۂ زر کا بیش قیمت موتی محمد علی جوہر جب پورے آب و تاب میں تھا، اس وقت ملک کی قسمت غاصب قوم فرنگیوں کے ہاتھوں میں تھی۔ اس کے علاوہ عالم اسلام کے حالات بھی تیزی سے بدل رہے تھے۔ دن بہ دن ملت اسلامیہ کی حالت بگڑتی ہی جارہی تھی۔ محمد علی کی دور رَس نگاہیں دیکھ رہی تھیں، ان کا دل تڑپ رہا تھا۔ ایسے پُرآشوب دَور میں انہوں نے بالآخر ملک کی آزادی اور ملت کی سرفرازی کو اپنی زندگی کا ماحصل قرار دیا اور اس کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیا۔
مادرہند کے مایہ ناز سپوت مولانا محمد علی جوہر کو اس دارفانی سے کوچ کیے تقریباً صدی پوری ہورہی ہے مگر ہم میں کتنے ہیں جو ملت کے اس جانباز سپاہی کے کارناموں سے واقف ہیں؟ ان کی زندگی جہد مسلسل اور عمل پیہم تھی، ان کی قولی و عملی پوری زندگی آب رواں کے مانند تھی، وہ زندگی بھر بے خوف و خطر ساحلِ مراد پر پہنچنے کے لیے حالات کے تلاطم اور تباہ کن آندھیوں سے نبرد آزما رہے لیکن افسوس کہ ان کی تمام تر قربانیوں کا صلہ ان کی زندگی میں حاصل نہ ہوسکا۔ البتہ چند برسوں بعد ہی ان کی قربانیاں رنگ لائیں اور غاصب فرنگیوں کے چنگل سے ملک و قوم کو نجات مل گئی۔
جہاد آزادی اوّل کے سرخیل مولانا محمد علی جوہر کی پوری زندگی بظاہر شکست و ریخت سے دوچار نظر آتی ہے اور ہر سیاسی مہم و محاذ پر پسپائی محسوس ہوتی ہے لیکن ان کی اسی پسپائی میں ان کی کامیابیوں اور کامرانیوں کا راز مضمر تھا۔ اس لیے وہ جب بھی یاد آتے ہیں تو ہر ایک کی زبان سے بے ساختہ نکل پڑتا ہے کہ:
ایسا کہاں سے لائوں کہ تجھ سا کہیں جسے
مولانا کے بارے میں ان کے ایک پرستار رشید احمد صدیقی رقم طراز ہیں: ’’وہ بولتے تو معلوم ہوتا کہ ابوالہول کی آواز اہرام مصر سے ٹکرا رہی ہے۔ لکھتے تو معلوم ہوتا کہ توپ کے کارخانے میں توپیں ڈھلنے والی ہیں یا پھر شاہجہاں کے ذہن میں تاج کا نقشہ مرتب ہو رہا ہے۔‘‘ وہ یہ بھی لکھتے ہیں: ’’وہ ایک ایسے حُسین تھے جس کو یزید کی تلاش تھی۔‘‘ ہاں وہ حسین بن کر ہی سیاست میں شریک رہے، لیکن ہر حال میں مرد غازی کا کردار ادا کیا۔ مرد غازی کا کارنامہ بقول صدیقی اس کے مقبوضات کی وسعت اور مال غنیمت کے حصول سے نہیں کیا جاسکتا ہے بلکہ وہ ٹوٹی ہوئی تلوار، بکھری ہوئی زرہ، بہتے ہوئے لہو، دہکتی ہوئی روح، دمکتے ہوئے چہرے کے ساتھ جس طرح جنگ کرتا ہے اس کی بے سروسامانی میں اس کے اسلحہ کی جو جھنکار سنائی دیتی ہے، اس کا اصلی کارنامہ ہے۔ مولانا محمد علی جوہر ایسے ہی کارناموں کے ہیرو تھے۔ وہ اپنے دین کی حفاظت، اپنے رسول کی اُمت کی حمایت اور اپنے وطن عزیز کی محکوم و مظلوم مخلوق کی خاطر لڑتے رہے۔ انہوں نے خدا پرستی، ملت پرستی اور وطن پرستی تینوں کو جس طرح ملانے کی کوشش کی ہے وہ ان کی زندگی کی حسین داستان ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا محمد علی جوہر بہت زیادہ جذباتی انسان تھے۔ ان کی اس جذباتیت کو ’دیوانگی‘ سے تعبیر کیا جائے تو غلط نہیں ہوگا لیکن اگر وہ دیوانہ تھے تو ہندوستان کی آزادی کے، مسلمان ملکوں کی آزادی کے اور خدا اور اس کے رسول کے دیوانے تھے۔ وہ اپنی دیوانگی پر خود بھی فخر کرتے تھے اور اسی کو دانائی بھی کہتے تھے۔ فرماتے ہیں:
عقل کو کیا ہم نے نذر جنوں
عمر بھر میں یہی دانائی کی
تحریک آزادی ہند کی کتاب کے ورق الٹنے سے تصور میں جنگ آزادی کا جو منظر پیش آتا ہے اس میں ایسے دیوانۂ آزادی کی تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے جو وقت کی زنجیروں سے جکڑا ہوا ہے مگر اس کے ایک ہاتھ میں پرچمِ آزادی ہے اور دوسرے میں قرآن مجید۔ اور وہ اعلان کرتا ہے کہ ’’میں ایک مسلمان ہوں اور مسلمانوں کی اخوت میرے ایمان کا جزو ہے لیکن آزادی بھی میرے ایمان کا اسی طرح جزو ہے جس طرح اخوت۔‘‘
مولانا کی زندگی کا بغور مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں ہمہ وقت کئی محاذوق کا سامنا تھا۔ ان کے دورِ جہاد میں جہاں تحریک موالات کا زور تھا تو اس سے کہیں زیادہ خلافت تحریک نے بھی ہلچل مچا رکھی تھی۔ ان تحریکوں کا زور توڑنے کے لیے انگریزوں نے شدھی تحریک چلا رکھی تھی۔ اس طرح مولانا بہ یک وقت مخالف اور موافق دونوں ہی حالات سے نبرد آزما رہے اور اپنی تقریروں اور تحریروں سے وقت کی طاغوتی طاقتوں کا منہ توڑ جواب دیتے رہے۔ ان کے ’کامریڈ‘ اور ’ہمدرد‘ نے تو انگریزوں کی ناک میں دم کر رکھا تھا۔ کامریڈ اور ہمدرد دونوں ہی اپنی زندگی کے بیشتر اوقات حکومت وقت کی دشمنی کی نذر رہے، لیکن اپنی چھاپ تاریخ کے صفحات میں ایسی چھوڑی ہے جسے کوئی بھی مؤرخ نظر انداز نہیں کرسکتا۔ مولانا کی خلافت تحریک سے ملک کا بچہ بچہ متاثر تھا۔ ان کی والدہ محترمہ کا یہ قول کون ایسا ہے کہ جس کی زبان پر نہیں تھا کہ:
بولیں اماں محمد علی کی
جان بیٹا خلافت پر دے دو
ساتھ تیرے ہیں شوکت علی بھی
جان بیٹا خلافت پر دے دو
بوڑھی اماں کا کچھ غم نہ کرنا
کلمہ پڑھ پڑھ کر خلافت پر مرنا
ہوتے مرے اگر سات بیٹے
کرتی سب کو خلافت پر صدقے
تصور کیجیے جس بیٹے کی ماں کے ایسے جذبات ہوں تو اس کے بارے میں مسلمانوں اور عام ہندوستانیوں کے کیا اور کیسے جذبات رہے ہوں گے۔ ایسی ہی مائوں اور بیٹوں کی آج بھی ملت اسلامیہ کو ضرورت ہے، جو ملت کی ڈگمگاتی کشتی کو پار لگانے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیت، اپنی تمام قوت اور اپنا تمام جوہر مولانا محمد علی جوہر کی طرح قربان کردے۔ آج بھی عالم اسلام کے حالات دگرگوں ہیں، ملک کے آزاد ہونے کے باوجود آج بھی غیروں کے زیر اثر ہے، ایسے حالات میں کیا یوم جوہر ہمارے دلوں پر کوئی دستک دے رہا ہے؟ اورکیا ہم میں کوئی گرمی بھی پیدا ہو رہی ہے۔ اگر ایسا کچھ ہے تو سمجھئے کہ حقیقت میں ہم نے اپنے مایہ ناز سپوت کا دن منایا ورنہ پھر دیگر رسوم کی طرح یہ بھی ایک رسم ادا ہوگی۔
ایم سلیم مرحوم نے مولانا محمد علی جوہر اکیڈمی قائم کر مولانا کے نام و کام کو زندہ کردیا تاکہ اس طرح ہم سب اپنے اسلاف کی قربانیوں اور ان کے کارناموں کو آج کی نئی نسل تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیتے رہیں۔ جناب ایم سلیم مرحوم بھی مولانا کی طرح دُھن کے پکے تھے۔ اگر ایسے نہ ہوتے تو سالہا سال سے ایسی خشک اور اوبڑ کھابڑ راہ چن کر اپنے تلوے لہولہان کیسے کرسکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات کو قبول فرمائے۔ مولانا جوہر اکیڈمی ہر سال مولانا جوہر کے یوم پیدائش پر ملک کے نامور اور علوم و فنون کے ماہرین کو جو ایوارڈ نوازتی ہے، یہ اکیڈمی کے بانی کی انتھک محنتوں اور کاوشوں کا ہی نتیجہ ہے جو آج مولانا جوہر کے افکار و خیالات، ان کے کارناموں اور قربانیوں کو ملک کے تمام شہریوں تک پہنچانے میں پیش پیش ہے۔ یہی نہیں بلکہ جس طرح مولانا ملک کے تمام شہریوں میں مقبول تھے اور آپسی اتحاد و اتفاق کو قائم رکھنے کے لیے حد درجہ جدوجہد کرتے رہے، اسی طرح جوہر اکیڈمی بھی بلاتفریق مذہب و ملت ممتاز و قابل قدر لوگوں میں تقسیم ایوارڈ کا سلسلہ برسوں سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ اللہ تعالیٰ اکیڈمی کے ذمہ داروں کے حوصلوں کو قیام و دوام بخشے تاکہ لوگوں میں قوم و ملک کے تئیں سچے خیالات و اقدامات کرنے کا جذبہ پیدا ہوسکے۔ اس ضمن میں قابل ذکر بات یہ بھی ہے اور جو قارئین کے لیے باعث دلچسپی بھی ہوگی کہ ’لعلؔ و جوہرؔ‘ ان دونوں ہی کی سرزمین پیدائش رامپور (یوپی) ہے جسے تاریخ ہند میں خصوصی مقام حاصل ہے۔
مولانا محمد علی جوہر اپنے کام و کاز میں کس قدر جنون و انہماک رکھتے تھے، محترم ظہیر علی صدیقی اپنی کتاب ’مولانا محمد علی اور جنگ آزادی‘ میں رقم طراز ہیں کہ ’’جب بی اماں حالت نزع میں تھیں اس وقت مولانا ’کامریڈ‘ کے پروف پڑھ رہے تھے۔ بہن کے بلانے پر گھر میں گئے اور رات کے دوبجے بی اماں کے پلنگ کی پٹی کے پاس بیٹھے رہے، ان کا انتقال ہوگیا۔ مولانا رات ہی میں دفتر کے کمرہ میں آکر پھر کامریڈ کے کام میں مصروف ہوگئے۔ مولانا کو اطلاع دی گئی کہ بی اماں کو غسل دیا جاچکا ہے، کفن پہنا دیا گیا، جنازہ اٹھالیا گیا ہے۔ مولانا کامریڈ کے دفتر سے اٹھے اور جنازہ میں شرکت کی۔ میری معلومات کے مطابق کسی ایڈیٹر کی قربانی مولانا کے معاصرین میں اس درجہ کی نہیں ملتی۔‘‘ اس طرح کی اور مثالیں ہیں جو پیش کی جاسکتی ہیں مگر اخباری کالموں میں اتنی گنجائش کہاں؟ مولانا جوہر کی تو پوری زندگی ہی قربانیوں سے لبریز ہے۔ کہاں تک کوئی احاطہ کرے۔ نہ معلوم کتنی کتابیں اور مقالے لکھے گئے اور لکھے جاتے رہیں گے۔
بہرحال آج کا دن ہم سب کو بہت کچھ سوچنے، سمجھنے اور غور کرنے کے لیے مہمیز دے رہا ہے۔ یہ انتہائی فکر انگیز بات ہے او رہر خاص و عام کے لیے باعث توجہ ہے کہ جب مولانا محمد علی گھر کے آلام و مصائب سے گھرے ہوئے تھے اورملکی و غیر ملکی حالات سے مولانا حد درجہ کبیدہ خاطر اور بددل تھے، تقریباً ملکی سیاست سے بھی کنارہ کشی اختیار کرچکے تھے، ایسے میں جب کانگریس کی طلب کردہ آل پارٹیز کنونشن، کلکتہ (دسمبر 1928) میں نہرو رپورٹ پیش ہوئی جس میں ہندوستان کے لیے درجۂ نوآبادیات کی سفارش کی گئی۔ مولانا نے اس بنا پر اسے مسترد کردیا تھا کہ اس میں مکمل آزادی کا مطالبہ نہیں کیا گیا تھا۔ (صباح الدین عمر)
مولانا محمد علی جوہر کی زندگی کا سب سے اہم اور آخری کارنامہ ان کی وہ معروف تقریر ہے جو انہوں نے حکومت برطانیہ کی طلب کی ہوئی رائونڈ ٹیبل کانفرنس لندن میں 19 نومبر 1930 کو کی تھی۔ ان کی اس تقریر کو ’کارنامہ‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ مولانا کی زندگی، ان کے خیالات و نظریات، ان کی شخصیت و جذباتیت وغیرہ کے تقریباً تمام پہلو بغور مطالعہ سے ایک حد تک واضح ہوجاتے ہیں۔ پھر بھی یہاں ہمارا مقصد ان کی تقریر کے ہر پہلو کا جائزہ لینا نہیں، صرف اس تقریر کے دو اقتباس پیش کرکے ان کے دلی جذبات کا اظہار کرنا ہے جس میں انہوں نے اپنے مذہب، اپنی ہندوستانیت اور ہندوستان کی آزادی کے بارے میں کیا ہے۔ اقتباسات ملاحظہ فرمائیں:
’’میں آپ سے درجۂ نوآبادیات مانگنے نہیں آیا ہوں، درجہ نوآبادیات پر مجھے اعتبار نہیں ہے، میں سوائے مکمل آزادی کے کسی اور چیز کے لیے تیار نہیں ہوں۔‘‘
’’حقیقت یہ ہے کہ آج وہ تنہا مقصد جس کے لیے میں آیا ہوں، یہ ہے کہ میں اپنے ملک کو اسی صورت میں واپس جائوں گا جب ایسی آزادی جس پر آزادی کا اطلاق ہوسکے میرے ہاتھ میں ہو، میں ایک غلام ملک میں واپس نہیں جائوں گا۔ میں ایک غیر ملک میں بشرطیکہ وہ ایک آزاد ملک ہو مرنے کو ترجیح دوں گا اور اگر آپ ہم کو ہندوستان میں آزادی نہیں دیں گے تو آپ کو مجھے یہاں ایک قبر کی جگہ دینی پڑے گی۔‘‘
اللہ،اللہ محمد علی نے ایک آزاد ملک میں مرنے کو ترجیح دی تھی، اللہ نے ان کی یہ آرزو پوری کردی اور ہندوستان واپس آنے سے قبل ہی 4 جنوری 1931 کو لندن میں ان کا انتقال ہوگیا۔ اس طرح ان کا یہ کہنا بھی پورا ہوگیا کہ میں اپنے ملک میں اسی صورت میں جائوں گا جب اسے مکمل آزادی مل گئی ہو۔ ان کے جسد خاکی کی واپسی ضرور ہوئی مگر غلام ہندوستان میں نہیں، بلکہ انبیاء کی سرزمین بیت المقدس میں، خاک اقدس کی آغوش میں محمد علی جوہر کی بے چین اور تڑپتی روح ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ضرور پُرسکون ہوگئی۔ لیکن ان کے کردار و عمل ہندوستانی تاریخ کے صفحات میں اسی طرح روشن رہیں گے جس طرح آسمان میں چاند ستارے تاقیامت چمکتے رہیں گے۔
بہرحال مولانا محمد علی جوہر کے جذبۂ فدائیت اور ادائے فنائیت پر تمام ہندوستانیوں خاص طور سے مسلمانوں کو رشک آنا چاہیے، بالخصوص وہ مسلم قائدین جو قیادت کے نام پر مذہب و ملت کی تجارت کر رہے ہیں۔ کاش کہ ہمارے قائدین اپنے اسلاف کی قربانیوں سے سبق حاصل کرتے، خود بھی باعزت رہتے اور ملت کو بھی رسوائیوں کی دلدل سے نکالنے کا ذریعہ بن جاتے۔
10 دسمبر یعنی ’یوم جوہر‘ کے موقع پر ایسے فیصلے اور عملی اقدامات کرنے چاہئیں جن سے مولانا جوہر کی روح کو سکون حاصل ہوسکے اور صحیح معنوں میں ہماری طرف سے یہی سچی خراج عقیدت بھی ہوگی۔ مولانا جوہر کا یہ شعر کتنی معنویت رکھتا ہے ہمیں دل کی گہرائیوں سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
ہے رشک ایک خلق کو جوہر کی موت پر
یہ اس کی دین ہے جسے پرور دِگار دے
٭٭٭
موبائل نمبر: 09868360472

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular