Sunday, May 5, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldتوبہ کرو خدا سے ڈرو تم نشے میں ہو

توبہ کرو خدا سے ڈرو تم نشے میں ہو

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

 

 

انیس درّانی

آج بھارت کے ہندو مسلمان سکھ عیسائی سب ایک ہی دعا مانگ رہے ہیں کہ اے ایشور اے اللہ اے واہگرو اوگاڈ ہماری عورتوں اور بچیوں کی حفاظت کرنا کیونکہ جب وہ علی الصبح اخبار کھول کر دیکھتا ہے تو اسے حیوانیت جنونی شہوت انتہائی بدکرداری اور بے رحمی وسفاکی ایسی حیرت ناک داستانیں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ وہ سرپکڑکر بیٹھ جاتا ہے۔ لرزنے لگتا ہے اور ان سفاک درندوں کے وجود سے خائف اور پریشان ہوکر اس آسمانی طاقت کی طرف رجوع کرنے کے لئے مجبور ہوجاتا ہے جو سب کی محافظ ہے سب کو پناہ دینے والی ہے۔ افسوسناک بات یہ ے کہ ان سب سفید پوش فاتر العقل مجرموں کا تعلق بھارتیہ جنتاپارٹی سے نکلتا ہے کوئی بھاجپا کا سرکردہ کارکن ہونے کا دعویدار ہوتا ہے تو کوئی عہدیدار۔ اس سے بھی زیادہ شرمناک بات یہ ہے کہ بھاجپا کے ایم ایل اے بھی زنابالجبر جیسے سنگین جرائم کے مرتکب ہورہے ہیں۔ مگر عظیم بھارت کے عظیم الشان چھاتی والے وزیراعظم بالکل خاموش ہیں۔ کیونکہ آرایس ایس جیسی نام نہاد پاک اور پوتر تنظیم کی پیداوار بھارتیہ جنتاپارٹی کی ان حرکتوں کا وہ کس منہ سے دفاع کرسکتے ہیں۔ کٹھوعہ جموں میں آٹھ سالہ آصفہ کے ساتھ جو کچھ ہوا تھا اس نے سنگھ اور بھاجپا کی پارسائی کی پوری قلعی کھول دی تھی۔ معصوم آصفہ کی عصمت دری اور کئی روز تک اس آٹھ سالہ بچی پر بھگوان کے گھر مندر کی چہار دیواری میں جو مظالم ڈھائے گئے۔ بھاجپا کو ان سب کا جواب دینا ہوگا۔ اس وقت جموں وکشمیر میں بھاجپا اور پی ڈی پی کی مخلوط حکومت تھی۔ اس کے چند روز کے بعد بہار میں ایک سترہ سالہ نوعمر لڑکی جس نے بھاجپا کے مقامی ایم ایل اے کی پیش رفت کو ٹھکرا دیا تھا جس کی پاداش میں اس لڑکی کے باپ کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا اور اس کے بعد بھی ایم ایل اے نے اس کم عمر لڑکی کے ساتھ زبردستی کی اور اس کا دامن عصمت چاک کردیا۔ جب میڈیا میں اس پر زبردست واویلا ہوا اور یہ ایک قومی سطح کی خبر بن گئی تو مجبور ہوکر وزیراعلیٰ نتیش کمار کو ایم ایل اے کو گرفتارکروانا پڑا۔ سب سے شرمناک بات یہ ہے کہ جنتادل یو اور بھاجپا کی مخلوط حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے بات کرتے ہوئے انہوں نے معاملہ کو رفع دفع کرتے ہوئے ایک پریس کانفرنس میں کہاکہ ایک مقامی معاملہ کو اس طرح قومی مسئلہ بنانابڑا نامناسب ہے۔ ابھی میڈیا نتیش کمار کے اس بیان کی مضحکہ خیزی اور سیاسی مجبوری کا تجزیہ ہی کررہا تھا کہ مظفرپور شیلٹر ہوم کا معاملہ سامنے آگیا جس میں رہائش پذیر پندرہ سے 18 سال کی عمر کی لاوارث اور یتیم لڑکیوں کو رکھاجاتا تھایہ بھاجپاسرکار کے سوشل ویلفیئرو زارت سے منظور شدہ اور سرکاری پیسے سے چل رہا تھا۔ اس محکمہ کی وزیر ایک خاتون منجو ورما تھیں (انہوں نے 8اگست کو اپنے عہدہ سے استعفیٰ دے دیا ہے) ان کے شوہرنامدار چندریشور ورما پر الزام ہے کہ وہ اس شیلٹر ہوم میں (اخباری اطلاعات کے مطابق 34نوخیز لڑکیوں کی عصمت دری کی گئی تھی) اکثر رونق افروز ہوتے تھے۔ اس وقت جیل میں بند شیلٹر ہوم کے انچارج افسر ٹھاکر روی کمار روشن کی اہلیہ شیباکماری نے منترانی صاحبہ کے شوہر کا بھانڈہ پھوڑدیا۔ انہوں نے اخباروالوں کو بتایاکہ چندیشور اکثر آتاتھا اور اوپر کی منزل پر چلاجاتا تھا جہاں پر نابالغ لڑکیاں رکھی جاتی تھیں جبکہ اپنے ساتھ آئے وزارت کے افسران کو نیچے گراؤنڈ فلور پر چھوڑجاتا تھا۔ وہ لگاتار میرے شوہرسے ٹیلی فون پر رابطہ رکھتاتھا۔ سترہ بار تو میرے سامنے ان کا فون آیا تھا۔
مجھے لگتا ہے کہ شیباکماری کو کوئی غلط فہمی ہوگئی ہے۔ بھلا بھاجپا کی منترانی منجوجی کے پتی ایسا گھناؤنا کام کیوں کریں گے۔ ہوسکتا ہے وہ وہاں ان بچیوں کو دھرم کرم کی شکھشا دینے جاتے ہوں۔ جوان ہوتی لڑکیوں کے اخلاق کو صحیح سانچے میں ڈھالنے کی ذمہ داری ان کی پتنی نے ان کو سونپی ہو۔ بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں۔ ان کے وہاں جانے کی۔ مگر اب اس کو کیاکہیے کہ ابھی مظفرپور شیلٹرہوم کا سلسلہ سرخیوں سے غائب بھی نہیں ہوا تھا کہ اترپردیش میں دیوریا سے ایک اور شیلٹرہوم کا معاملہ اخبارات کی زینت بن گیا۔ جس میں بھی بھاجپا کے ہمدرد ہم نوا شامل ہیں۔
دیوریا میںایک NGO ہے جو نہ صرف بے سہاراعورتوں اور لڑکیوں کے لئے شیلٹرہوم چلاتی ہے بلکہ بچوں کے حقوق اور تحفظ کے لئے بھی سینہ سپر رہتی ہے۔ اس کی بنیاد سے اس کی ڈائریکٹر پچاس سالہ گرجاترپاٹھی ہیں۔ اس کے پتی موہن ترپاٹھی اور انہوں نے 25سال قبل اس غیر سرکاری تنظیم کی بنیاد رکھی تھی۔ گرجاترپاٹھی کی عمر اس وقت لگ بھگ پچیس سال تھی۔ انہوں نے بڑی محنت کی، اپنا تن من دھن سب کو اس تنظیم کو کھڑا کرنے میں لگادیا۔ ان کے اثردار اور طاقتور سیاسی لوگوں سے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ اس لئے گزشتہ پچیس سال سے یہ تنظیم مہیلا تحفظ اور مہیلا حقوق کے لئے بہت محنت کررہی ہے اور کئی مختلف شہروں میں ان کے تحفظ خواتین واطفال سینٹر قائم ہیں اور ایک معمولی سے مل مزدور کی پتنی آج کروڑوں روپے کی جائیداد کی مالک ہے۔ ان کا ایک ہندی اخبار بھی نکلتا ہے۔ جس کا اپنا پریس ہے۔ مگر ہر راون کی لنکا کو ایک دن ڈھہناہی ہوتا ہے۔ دیوریا کے اس شیلٹر ہوم کے ساتھ یہی ہوا ایک گیارہ بارہ سال کی بے سہارا لڑکی جو وہاں کے حالات سے تنگ آچکی تھی ایک دن موقع ملتے ہی وہ لڑکی خواتین پولیس کے پاس پہنچ گئی اور وہاں کا بھانڈہ پھوڑدیا۔ یہ خبر میڈیا کو لیک ہوگئی اور پھر پرت درپرت معاملہ کھلتا چلاگیا اور پتہ چلا کہ ’’تحفظ‘‘ کی آڑ میں گرجاترپاٹھی اور ان کے پتی موہن ترپاٹھی اور ان کی لڑکی کنچن لتاترپاٹھی اور ان کے فرزند سب ہی اس شرمناک عصمت فروشی کے دھندے سے جڑے ہوئے تھے۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ اسے عصمت فروشی کہوں یا کچھ اور کیونکہ اس میں ملوث بے سہارا لڑکیاں محض ربڑ کی گڑیاں تھیں جنہیں نہ کوئی پیسہ ملتاتھا اور نہ کوئی تحفہ بلکہ زیادہ صحیح ہوگا اگر انہیں ’’جنسی غلام‘‘ کہاجائے۔ اس بارہ سالہ معصوم لڑکی نے اخباری نمائندوں کو بتایاکہ گرجاترپاٹھی بڑی لڑکیوں کو شام چار بجے کار میں اپنے ساتھ لے کر جاتی تھیں اور اگلے دن صبح لوٹتی تھیں واپسی پر لڑکیاں ہم سے گلے مل مل کر روتی تھیں۔
یوگی جی کی حکومت نے بہت کوشش کی کہ یہ اتنی اہم خبر اخبارات کی شہ سرخی نہ بن سکے مگر لگتا ہے کہ بھاجپا کے پاپوں کا گھڑا بھرچکا ہے۔ آج یہ سارے معاملات اخبارات کی سرخیوں پر چھائے ہوئے ہیں۔ بہار، اترپردیش، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر، راجستھان بھاجپا کے زیر حکومت کونسی ریاست ہے جس میں جنسی ریکٹ یا عصمت دری کی وارداتیں نہ ہورہی ہوں۔ عدالت عظمی ان واقعات سے کیسے بے خبررہ سکتی تھی۔ سپریم کورٹ نے بہت سخت ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ ایسا شدید ردعمل کہ وزارت خواتین کی وزیر مینکاگاندھی کو فوراً استعفیٰ دے دینا چاہئے۔ سپریم کورٹ نے مظفرپور شیلٹر ہوم اور دیوریا شیلٹرہوم کے شرمناک معاملات پر دونوں ریاستی سرکاروں کو زبردست ڈانٹ پھٹکارکی۔ فاضل جج صاحبان نے کہاکہ’’ملک بھر میں یہ کیا ہورہا ہے۔ لیفٹ رائٹ اور سینٹر سب جگہ آبروریزی ہورہی ہے۔ اتنی بڑی واردات ہوتی ہے اور حکومت اتنی دیر میں جاگتی ہے۔ اس طرح کے شیلٹر ہوموں کو پنپنے کا موقع ہی کیوں دیاجاتاہے۔جسٹس لوکور نے کہاکہ NGO’s کے چلائے جانے والے شیلٹرہوم کی مانیٹرنگ روزانہ ہونی چاہئے۔ تمام شیلٹر ہوموں میں کیمرے لگنے چاہئیں۔ لاپروائی اور ٹال مٹول کرنے والے افسران کے خلاف فوری کارروائی ہونی چاہئے۔
سپریم کورٹ نے مظفرپور شیلٹرہوم ریپ کیس میں صحیح جانچ پڑتال کے لئے ایک ’’قانونی مددگار‘‘ کو نامزد کیا ہے جو پوری تفتیش پر نظررکھے گا۔ لیکن ظاہر ہے کہ ایک کیس کی حد تک ’’قانونی مددگار‘‘ کچھ کارروائی یا نگرانی کرسکتا ہے۔ اس سے آگے اس کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔ مرکزی حکومت نے موجودہ ان دونوں واقعات اور ملک میں سرکاری فہرست کے مطابق موجود نوہزار شیلٹرہوم کی جانچ پڑتال کا حکم دیا ہے۔ یہ شیلٹرہوم بنیادی طورپر یتیم اور لاوارث بچوں کے لئے ہیں۔ ہمیں شبہ ہے کہ ان شیلٹرہوم سے سوفی صد صحیح معلومات مل سکے گی۔ کیونکہ ملک کی افسرشاہی اتنی خرانٹ ہے کہ وہ سپریم کورٹ سے بچنے کی بھی راہ نکال لیتی ہے۔ سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق تحفظ واطفال کے اداروں کالازمی سالانہ حساب کتاب پیش ہونا چاہئے مگر آج بھی ملک کی 9ریاستیں اس حکم کی خلاف ورزی کررہی ہیں۔ یہ ریاستیں ہیں اترپردیش، بہار، چھتیس گڑھ، دہلی، ہماچل پردیش، منی پور، میگھالیہ کیرالا اور بنگال ہیں۔ اصل وجہ یہ ہے کہ سب ریاستیں مرکزی آڈٹ سے بچنا چاہتی ہیں اور اپنا آڈٹ (حساب کتاب) اپنے آپ کرنا چاہتی ہیں۔ اسی سے ان NGO’sکی نیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کتنی ایمانداری کے ساتھ سرکاری فنڈز کا استعمال کرتی ہیں۔ بہرحال سپریم کورٹ اس صورت حال میں انقلابی تبدیلی لاسکتی ہے جس کے لئے اس نے تحفظ عصمت خواتین اور تحفظ اطفال کے تئیں بہت سخت رخ اپنا رکھا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس رخ کو دیکھتے ہوئے بھاجپا کی مرکزی حکومت بھی سنجیدگی سے اس مسئلہ پر غور کررہی ہے کہ 12سال سے کم عمر بچیوں کے ساتھ زنا کرنے والوں کو موت کی سزا کا قانون بنائے۔ لیکن لگتا ہے کہ بھاجپا کا یہ رخ بھی دکھاوٹی ہے۔ کیونکہ وزیراعظم اپنی جماعت کے کارکنوں، عہدیداروں اور ممبران اسمبلی کے نام رو شن کرنے والے کارناموں پر اتنے خاموش بیٹھے ہیںجیسے کوئی خاص بات ہی نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کے مطابق بھارت جنت نشان میں ہر چھ گھنٹے میں ایک زنا بالجبر کی واردات ہورہی ہے ۔ اس لئے بہن مایاوتی جی کو کہنا پڑا کہ’’ بھاجپا کی اقتداروالی ریاستوں میں جنگل راج چل رہا ہے۔ بھاجپا کے عہدیدار اور کارکنان خود کو قانون سے اوپر سمجھتے ہیں۔ اسی لئے عورتیں اور لڑکیاں سب غیر محفوظ ہیں۔‘‘ کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے بھی اس شرمناک صورت حال پر گہرا طنز کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ’’خواتین بھاجپا ایم ایل ایز کے پاس جانے سے گریز کریں۔‘‘ ان دونوں اہم قومی لیڈروں کی بات میں سچائی ہے۔ بھاجپا طاقت اور اقتدار کے نشہ میں چور ہے۔ اس کی برے بھلے کی تمیز ہی ختم ہوچکی ہے۔
معصوم جگنوؤں کو مسلنے کا شوق ہے
توبہ کرو خدا سے ڈرو تم نشے میں ہو

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular