Monday, May 6, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldبین الاقوامی سازشیں اور اتحاد امت

بین الاقوامی سازشیں اور اتحاد امت

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

عالم نقوی

نہ بین الاقوامی سازشیں کوئی نئی چیز ہیں ،نہ ان پر عمل پیرا طاقتیں۔ جس طرح ماضی میں انسان ،انسانیت اور خالق کائنات کے خلاف ابلیسیت کے مختلف مظاہر مختلف ناموں سے دنیا کے مختلف حصوں میں سرگرم رہے ہیں،اُسی طرح آج بھی ہیں ۔قابیل و نمرود , شدداد و فرعون , ہامان و قارون ویزید وغیرہ اور اُن کےمددگار ،غلام اور ہرکارے ، سب وہی ہیں، بس نام بدلتے رہتے ہیں ۔
قرآن کریم اہل ایمان کے اِن دائمی دشمنوں کو قریب ڈیڑھ ہزار سال قبل ’اَلیَہُود وَالذِینَ اَشرَکُو ا‘ کے زمروں میں تقسیم کر کے اُن کی شناخت ہمارے لیے آسان بنا چکا ہے ۔اِن قومی و بین ا لاقوامی دشمنان دین و انسانیت کامسئلہ یہ ہے کہ وہ غرور عظمت کے شکار تو تھے ہی اب وہ ’جنون عظمت ‘Delusion of Grandeur میں مبتلا ہو چکے ہیں ۔
انسانیت دشمنی ہو یا اسلام دشمنی، ایک ہی ابلیسی کیفیت کے دو نام یا ایک ہی تصویر کے دو رُخ ہیں۔ کیونکہ دنیا میں اُن کے باطل اقتدار کے استحکام کی راہ میں اِس کے سوا اور کوئی رکاوٹ نہیں ۔
ابھی حال ہی میں سبرامنیم سوامی کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا ہے ۔انہوں نے جو کچھ کہا ہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ ابھی تک ذات پات اور بھاشا وغیرہ کے نام پر ملک کے ہندو منقسم اور مسلمان متحد تھے اب سنگھ پریوار اپنے اقتدار کو قائم اور مستحکم رکھنے کے لیے مسلمانوں کے تمام داخلی اختلافات کو ’استعمال ‘کر رہا ہے۔اس طرح وہ شیعوں اور سنی بریلویوں اور خانقاہیوں کے ایک مخصوص حلقے کو بی جے پی کا ہم نوا بنانے اور سنی اَہلِ حدیث اور وہابیوں کو عالمی دہشت گردی کا حامی قرار دے کر الگ کرنے میں،بہ خیال خود ، کامیاب ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے ذات پات کی نسل پرستی اور معاشی نابرابری کے شکار اَکثریتی طبقے کے جُہَلا اسلام کے مریضانہ خوف (اسلامو فوبیا ) اورمسلمانوں سے ابلیسی نفرت میں مبتلا ہو کر ایک بار پھر نام نہاد ’ دہشت گردی ‘ اور خود ساختہ ’دیش بھکتی‘کے نام پر متحد ہو گئے ہیں ۔
سبرامنیم سوامی کا انٹرویو اگر چہ ’تلبیس ِحق و باطل ‘کا نمونہ ہے لیکن مشرکین کی جس اِبلیسی حکمت عملی کاحوالہ انہوں نے دیا ہے،اس میں بھی کوئی نئی بات نہیں ۔ وہ تو اُن کے قدرتی حلیف یہودیوں کی آزمودہ اِسٹریٹجی ہے جس پر عراق و افغانستان ،ایران و لبنان ،یمن و سیریا ، لیبیا ونائجیریا، پاکستان و ہندستان اور بنگلہ دیش و میانمار وغیرہ میں عرصہ دراز سے عمل در آمد جاری ہے۔ یہاں تک کہ خود مسلمان حکمراں ،ملوک اور امراء بھی پچھلے ڈیڑھ ہزار سال سے،کم و بیش ، یہی کرتے آرہے ہیں ۔ہم چودہ سو سال کی تاریخی تفصیلات کا آئینہ دکھا کے کوئی نیا فتنہ نہیں کھڑا کرنا چاہتے۔لیکن ،ہمارا مسئلہ اور اس کا سبب بلکہ پوری دنیا کے تمام مستضعفین کے موجودہ مسائل کا واحد سبب یہ ہے کہ اُمّتِ مسلمہ،اُمّتِ وسط اور خیرِ اُمّت ہونے کا اپنا فرض منصبی ،کما حقہ ،ادا نہیں کر رہی ہے۔اللہ سے ڈرنے کی طرح ڈرتے نہیں ۔اللہ کی رسی (حبل من اللہ ) کو مضبوطی سے تھامے رکھنے کے بجائے فرقوں اور مسلکوں میں بٹ کر منتشر ہو گئے ہیں ۔اسی لیے ہماری ہوا اُکھڑ چکی ہے۔اقبال کھو چکا ہے ۔اور چونکہ ہم قرآنی معیار کے مؤمن نہیں ہیں اس لیے غالب رہنے کے بجائے مغلوب ہو چکے ہیں ۔ہم سے کہا گیا ہے کہ اگر ہم اپنی استطاعت بھر علم و حکمت ،عقل و دانش ،مال و دولت اور اعضائے بدن کی قوتوں کا حصول ہمہ دم جاری رکھیں گے اور پھر اللہ تبارک و تعالیٰ کی عطا کا شکر ادا کرنے کے لیے اِن تمام نعمتوں میں سے فی سبیل اللہ انفاق کرتے رہیں گے یعنی قرابت داروں ،یتیموں ،مسکینوں ، سائلوں اور ضرورت مندوں کو ان کا حق دیتے رہنے میں کبھی کوئی کوتاہی نہیں کریں گے تو نہ صرف اللہ کے دشمنوں پر اور ہمارے جانے مانے دشمنوں کے دلوں پر ہماری ہیبت بیٹھ جائے گی بلکہ وہ تمام دوسرے لوگ بھی ہم سے دور رہنے ہی میں اپنی عافیت جانیں گےجنہیں ہم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے کہ وہ ہمارے دوست نہیں ہمارے جانی دشمن ہیں ۔مگر ہم نے تو کتاب ہدایت قرآن پر عمل کو کون کہے اسے ’مہجور‘بنا رکھاہے ۔
ہمیں بتایا گیا ہے کہ دیکھو مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے اس کا پڑوسی محفوظ رہے اور مؤمن وہ ہے جس کی طرف سے اس کا پڑوسی’ خواہ وہ یہودی اور مشرک ہی کیوں نہ ہو‘ پوری طرح مطمئن رہے ۔ہمیں خوش خبری کی صورت مین یہ ہدایت دی گئی تھی کہ اپنی جان اور اپنے مال دونوں کی حفاظت ہم پر واجب ہے کہ کیونکہ جان اوسر مال دونوں اللہ کے عطا کردہ ہیں اور یہ کہ جو اپنی جان یا اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے گا اللہ اسے شہید راہ خدا کا درجہ عطا فرمائے گا ۔
ایک پہچان اہل ایمان کی اور بتائی گئی ہے کہ وہ ’’اَشِدَّاءُ عَلَی الکُفّار و َ رُ حَماءُ بَینَھُم ‘‘کا مصداق ہوتے ہیں اور ہم کیا ہیں ؟ کیا بالکل ہی اس کے بر خلاف نہیں ؟
تو جب ہم وہ کچھ بھی نہیں کر رہے ہیں جو ہمیں کرنا چاہیے تھا اور کرتے رہنا چاہیے تو پھر ہمیں اُن شکایتوں کا کیا حق ہے جو موجودہ حالات میں ہر دم ہماری زبان پر رہتی ہیں ؟
عراق و سیریا ،یمن و نائجیریا ،کشمیر و میانمار اور بھارت و پاکستان میں با لعموم اور پچھلے چار چھے برسوں کے دوران با لخصوص جو کچھ ہمارے ساتھ ہورہا ہے وہ ہمارے دائمی دشمنوں ،یہود و مشرکین کی سازشیں ہی سہی لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ اس میں خود ہمارے اپنے ہاتھوں کی کمائی کا دخل نہیں ہے ؟
کوئی خارجی سازش اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک کہ داخلی کمزوریوں کا گھُن نہ لگ چکا ہو !
آج کل ہم مودیوں اور ٹرمپوں ،یوگیوں اور یاہوؤں کے جھوٹ اور ظلم کا بکھان کرتے نہیں تھکتے لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ قائد اور حکمراں آسمان سے نہیں اُترا کرتے ،اِسی زمین پر ہمارے ہی درمیان سے اُٹھتے اور اُوپر جاتے ہیں ۔
تو پھر کیا کریں ؟
ہمارے اختیار میں اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ ہم ساری توجہ خود کو ٹھیک کرنے پر صرف کریں ۔ہم صرف اللہ سے ڈریں اس طرح جو’ اِتَّقُو اللہ ‘کا حق ہے ! ’اور جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے نجات کا کوئی نہ کوئی راستہ ضرور نکال دیتا ہے ۔اور اُسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے اُس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا ۔اور جو اللہ پر توکل (بھروسہ) کرے توبس اللہ اُس کے لیے کافی ہے ! ۔۔اور جو اللہ سے ڈرتےہوئے کام کرتا ہے اللہ اس کاموں میں آسانی پیدا کر دیتا ہے ‘‘اور اٹھتے بیٹھتے ہمارا وظیفہ یہ ہو کہ ’’اللہ ہمارے لیے کافی ہے نہ اس سے اچھا کوئی وکیل ہے ،نہ اس سے اچھا کوئی مولا اور نہ اس سے اچھا کوئی مددگار‘‘۔۔ ’’اللہ میرے لیے کافی ہے اس کے علاوہ کوئی لائق بندگی نہیں ہے میں نے تو بس اُسی پر توکل کر لیا ہے کیونکہ بس وہی عرش عظیم کا پروردگار ہے ‘‘!
بس ہم مؤمن بننے اور اپنے اہل و عیال کو مؤمن بنانے اور جہنم کا ایندھن بننے سے بچانے کی کوشش کرتے رہیں کہ بلندی اور غلبہ تو بس مؤمن ہی کے لیے ہے ۔ ہر طرح کے افتراق و انتشار سے بچتے ہوئے اپنی صفوں میں اتحاد قائم کریں اور جنت و جہنم میں بھیجنے کا اختیار صرف اللہ کو ہے ۔لہٰذا مسلمانوں کو کافر بنانے کا شیطانی کام بندیکلخت بند کر دیں ۔
ہم صرف خیرِ اُمت ہونے کا فریضہءِ اَمر و نَہی ادا کرتے رہیں اور بس ۔ سارے اختلافات کا حل اور حق و باطل کا فیصلہ آخرت میں ہونا ہے ۔اس کے پہلے نہیں ۔اللہ کا وعدہ یہی ہے کہ وہ ہمیں آخرت میں دکھائے گا کہ دنیا میں کون صحیح تھا اور کون غلط ْ۔فھل من مدکر ؟

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular