Monday, May 6, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldامام علی الرضا ؑ کی ولی عہدی کے اصل محرکات

امام علی الرضا ؑ کی ولی عہدی کے اصل محرکات

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

تقدیس نقوی

آٹھویں امام حضرت امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام کی ولادت باسعادت 11ذیقعدہ سنہ 153 ھجری میں مدینہ منورہ میں ہوئی . آپکی والدہ گرامی حضرت ام البنین عرف نجمہ تھیں اور اپکی اولاد میں صرف حضرت امام محمد تقی علیہ السلام تھے. امام رضا علیہ السلام کے سلسلہ نسب سے سادات کرام اپکے مشھور لقب رضا کی نسبت سے رضوی کہلاتے ہیں. کیونکہ امام محمد تقی علیہ السلام آپکی اکلوتی اولاد تھے اس لئے انکے لقب کی نسبت سے انکی نسل سے تقوی کہلانے والے سادات بھی دراصل رضوی سید ہی ہیں. ایران اورھندوستان میںمقیم رضوی یا تقوی سادات کی اکثریت امام محمد تقی علیہ السلام کے دوسرے بیٹے حضرت موسی المبرقع رحمتہ اللہ علیہ کے سلسلہ نسب سے ہیں کہ جو انتہائ خوبرو ہونے کے باعث اپنا چہرہ ہمیشہ ایک نقاب سے پوشیدہ رکھتے تھے جس کے باعث انکا لقب مبرقع ہوا یعنی نقاب والا.شھر امروہہ یوپی میں اہل دانشمندان تقوی سادات کرام ان ہی حضرت موسی المبرقع رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد ہیں.
ائمہ معصومین میں امام علی ابن موسی الرضا ہی تنہا ایسے امام ہیں کہ جنھیں اپنی زندگی کے آخری سال اپنے خاندان سے جدا ہوکر وطن سے بہت دورعالم غربت میں تن تنہا ایران مشہد خراسان میں گزارنے پڑے اور وہیں اپکا مدفن بنا. اسی نسبت سے آپکو غریب الغرباء کہا جاتا ہے.
امام کی اس اذیت ناک ہجرت کا سبب اس وقت کے عباسی حکمراں مامون رشید کا آپکو پہلے مکر و فریب سے اور بعد میں انکار کی صورت میں جبرا” اس وقت کے دارلسلطنت مرو میں بلایا جانا تھا. جہاں اپکو اس وقت کی کچھ سیاسی مصلحتوں کی بناء پر بظاہر ولی عہدی کا منصب دیکر آپکو اپنے خاندان اور محبوں سے دور دارالسلطنت میں بادشاہ کی خود اپنی نگرانی میں رکھا گیا تھا تاکہ ان پرایک طرف مسلسل نظر بھی رکھی جاسکے اور دوسری جانب دنیا کو یہ باور بھی کرایا جائے کہ بادشاہ نے انکو انکا جائز حق واپس دیدیا ہے.
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امام علی الرضا ع کو عباسی خلیفہ مامون نے اپنا ولیعہد مقرر کیا تھا مگر یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امام نے اس دنیاوی عہدے کی نہ تو کبھی خواہش کی تھی اور نہ ہی وہ اس کے دئے جانے پر راضی تھے. اسی لئے بحالت مجبوری اس عہدے کو قبول کرتے ہوئے آپ نے یہ شرط رکھی تھی کہ وہ حکومتی معاملات میں کوئی دخل نہیں دینگے اور اس کے لئے انھیں مجبور نہ کیا جائے. یہ بات بھی تاریخ سے ثابت ہے کہ علاوہ ایسے معماملات اور مسائل کے کہ جہاں دین اسلام کے تحفظ اور بقاء کا سوال تھا وہاں امام نے ہمیشہ بروقت اپنے مشوروں اور نصیحتوں سے خلیفہ اور حکومت کی مدد فرمائ مگرامام نے کبھی بھی حکومتی معاملات میں دخل نہیں دیا.
عباسی خلیفہ مامون رشید کے دور خلافت میں امام علی ابن موسی االرضا سے متعلق کم از کم چار تاریخی حقائق ایسے ہیں کہ جو بظاہرتو متضاد اورایک دوسرے سے جدا نظر آتے ہیں مگر اگر ان کا بغور تجزیہ کیا جائے تو ایک سوچی سمجھی سازش کی مربوط کڑیاں ثابت ہوتے ہیں.
ایک عام مسلمان کہ جو تھوڑی بہت بھی سیاسی اور تاریخی سوجھ بوجھ رکھتا ہےاسکے لئے ان واقعات کا آپسی ربط اتنا حیران کن ہے جن کی کڑیوں کو اگر جوڑا جائے تو یہ حیرت انگیز نتیجہ نکلتا ہے کے یہ خلیفہ وقت کیایک ہی سیاسی چال اور حکمت عملی کا حصہ تھے جس کا مقصد امام کو اپنا آلہ کار بناکراپنے سیاسی اقتدار کو استحکام دینا تھا. وہ چار اہم واقعات یہ تھے:
1:خلیفہ مامون کا امام کو انکے والد محترم کی شھادت کے فورا” بعد ہی بغیر کسی عذرکے مدینہ سے خراسان ایران طلب کرنا اور انھیں وہاں بغیر اہل و عیال کے تن تنہا رہنے پر مجبور کرنا.
2:باوجود بنی عباس کی سخت مخالفت کے مامون کا اپنی بیٹی ام حبیب سے امام کے ساتھ نکاح کرنا.
3:خلیفہ مامون کا عید کے دن پہلےامام کو عید کی نماز پڑھانے کی درخواست کرنا اور پھر کچھ دیر بعدنماز سے پہلے ہی راستے سے واپس بلالینا.
4: زہر دغا سے مامون کا امام کو شھید کردینا.
اس بات کو سمجھنے کے لئے کہ آخر وہ کیا اصل محرکات اور وجوہات ہوسکتے ہیں کہ جن کے سبب مامون رشید نے امام کو پہلے تو اپنا ولیعہد بنایا اور ان سے اپنی بیٹی ام حبیب کی شادی کی ہر مشکل اور پیچیدہ معاملے میں ان سے مدد طلب کی اور پھر اچانک ایک دن محل میں اہنے پاس بلاکر زہر دیکر شھید بھی کردیا اس وقت کی عباسی حکومت کی سیاست اور اس دوران رو پذیر ہونے والے اہم واقعاتکے پس منظر کا ایک مختصر جائزہ ضروری ہے. امام علی ابن موسی الرضا علیہ السلام تقریبا” تیس برس تک اپنے والد گرامی حضرت امام موسی ابن جعفر علیہ السلام کے ساتھ مدینہ میں مقیم رہے. اپنے بغداد کی قید وبند اور شھادت سے قبل امام موسی الکاظم علیہ السلام نے امام علی الرضا علیہ السلام کے متعلق اپنی وصیت اور انکے لئے امامت کی نص کا ایسا تحریری انتظام کردیا تھا کہ اس کی اہمیت اور حقیقت کا اندازہ سب لوگوں کو اس وقت ہوا کہ جب امام موسی الکاظم علیہ السلام کی شھادت اپنے خاندان سے دور بغداد کے قید خانے میں عالم تنہائ میں ہوئ کہ جب انکے قریب کوئ اپنا نہ تھا جس سے وہ کوئ وصیت کرسکتے. امام موسی الکاظم ع نے مدینہ میں پہلے اولاد علی اور فاطمہ کےکچھ معزز افراد کو بلاکر امام رضا علیہ السلام کی امامت کا اعلان کیا اور پھر ایک تحریری وصیت کی جس پر مدینہ کے معتبر اور موقر حضرات کی گواہی کے طور پر مہر بھی لگوادی .سنہ183ھجری میں امام موسی الکاظم علیہ السلام کی شھادت بغداد میں ہوئی اور وہ ہارون رشید کی بادشاہت کا دور تھا. اہل مدینہ اور دوسرے علاقوں سے اب یہ بات مخفی نہ تھی کہ امام موسی کاظم علیہ السلام کے بعد امام اور انکے وارث امام علی رضا علیہ السلام ہیں. اس لئے سب سے پہلے ہارون نے اپنے حکام کے زریعے مدینہ میں امام رضا علیہ السلام کے گھر کو نذر آتش کروایا اور انکا اسباب بھی لٹوایآ. اسی عمل سے بنی عباس کا بنو فاطمہ کے تئیں عناد کا پتہ چلتا ہے. جس کی پہلی اور آخری وجہ حصول اقتدار و سلطنت تھی.
ہارون رشید نے اپنی موت سے قبل ہی اپنے دونوں بیٹوں امین اور مامون میں سلطنت تقسیم کردی تھی کیونکہ دونوں میں آپسی آختلاف اور دشمنی بہت واضح ہوچکی تھی جس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ امین کی ماں عباسی خاندان سے تعلق رکھتی تھی جب کہ مامون ایک عجمی کنیز کے بطن سے تھا. اس لئے ہارون نے امین کو عراق اور باقی عرب علاقوں کی ذمہ داری سونپی اور مامون کو عجم اور فارس کا اختیا ر دیا. اس تقسیم کے نتیجے میں ہارون رشید اپنے بیٹوں کے سامنے خود بے بس اور بے اختیار سا ہوچکا تھا. آمین کو کیونکہ عربوں خصوصا” عباسیوں کی حمایت حآصل تھی اور وہ دارلخلافہ بغداد پر قابض تھا یہ بات مامون کے لئے قابل قبول نہ تھی اور ان دوںوں کی آپسی چپقلش کے باعث اس دوران حکومت کو امام رضا علیہ السلام کی طرف خاص توجہ دینے کا وقت نہ مل سکا. سنہ193 ھجری میں ہارون کا انتقال ہوگیا اور دونوں بھائیوں میں پوری حکومت پر اختیار کے لئے رسہ کشی شروع ہوگئ اور بالآخر چار پانچ سال کے بعد سنہ 198ھجری میں مامون نے امین کو قتل کردیا اور پوری مملکت کا مالک بن بیٹھا.
لیکن مامون کے لئے پوری حکومت پر مکمل اختیار باقی رکھنا کچھ آسان ثابت نہ ہوا. ایک جانب عراق اور عرب علاقوں میں امین کے قتل کے رد عمل میں اور مامون کےعجمی حکام کی بالہ دستی قبول کرنے کےانکار کے سبب مامون پریشان تھا تو دوسری جانب دوسرے علاقوں جیسے کوفہ بصرہ جنوبی عراق اور یمن میں علویوں نے حکومت کے خلاف علم بغاوت بلند کیا ہوا تھا. عربوں کی مخالفت کے تدارک کے لئے تو اس نے یہ کیا کہ پہلے خود ہی بغداد منتقل ہوگیا اور وہاں کے معاملات خود دیکھے. علویوں کی شورش سے نپٹنے کے لئے اس نے یہ حکمت عملی اپنائی کہ کیونکہ اس وقت امام رضا ع کی شخصیت ایسی تھی کہ جو تمام علویوں کو قابل قبول ہوگی تو اگر یہ اعلان کردیا جائے کہ بادشاہ انھیں اپنا ولیعہد بنانا چاہتا ہے اور امام کو خراسان بلواکر یہ پیش کش بھی کی جائے تو اس سے دونوں کام ہوجائینگے. اولآ” علویوں کو راضی کرنا آسان ہوگا اور دوسرے امام ہر وقت اس کے سامنے موجود ہونگے. تیسرے یہ کہ مامون یہ خوب جانتا تھا کہ امام علی رضا ع کی رگوں میں علی ابن ابی طالب ع کا خون دوڑ رہا ہے اور یہ اپنے آباد و اجداد کی طرح کبھی بھی دنیاوی حکومت حاصل کرنے کی غرض سے اس میں مداخلت کرنا پسند نہ کرینگےاور یوں انھیں بظاہر ولیعہد بنانے میں اسے کوئ خطرہ محسوس نہ ہوا . اس لئے بغداد سے ایران واپس آکر سب سے پہلے اس نے امام کو مدینہ سے بلوانے کا انتظام کیا اور اس طرح امام رضا ع کو مدینہ میں اپنے اہل وعیال اور روضہ رسول کو چھوڑکر خراسان کا سفر کرنا پڑا.
امام رضا علیہ السلام جب خراسان کے راستے میں نیشا پور کے مقام پر پہنچے تو اپکا استقبال لاکھوں عقیدت مندوں نے کیا. اپ اپنی سواری پر ایک عماریکے اندر تشریف رکھتے تھے جس پر پردے پڑے ہوئے تھے. جب اپکی سواری ایک مقام پر رکی تو لوگوں نے نعرہ تکبیر بلند کرتے ہوئے امام سے درخواست کی کہ وہ اپنے جد کی کوئ حدیث بیان فرمائیں تاکہ وہ بالواسطہ کوئ حدیث فرزند رسول کی زبانی سن سکیں. امام نے عماری کا پردہ ہٹا کر لوگو ں سے مخاطب ہوتے ہوئے حدیث رسول بیان فرمائی کہ” (ترجمہ) مجھ سے میرے بابا نے ان سے انکے بابا امام جعفر ع نے ان سے ان کے بابا امام محمد باقر ع نے ان سے انکے بابا امام زین العابدین ع نے ان سے انکے بابا امیرالمومنین علی ابن ابی طالب ع نے ان سے رسول خدا صل اللہ و علیہ و الہ والسلم نے ان سے جبرائیل علیہ السلام نے ان سے خدا وند عالم نے فرمایا کی لا الہ الا اللہ میرا قلعہ ہے جو اسے زبان پر جاری کریگا وہ میرے قلعے میں داخل ہوجائیگا اور جو میرے قلعہ رحمت میں داخل ہوگا وہ میرے عذاب سے محفوظ ہو جائیگا ” کچھ قدم چلنے کے بعد اپ نے پھر فرمایا کہ” لیکن اسکے کہنے کی کچھ شرطیں ہیں اور ان شرطوں میں سے ایک شرط میں ہوں ”
امام جب دارلخلافہ مرو پہنچے تو مامون نے اپ کا بظاہربہت زیادہ احترام و اکرام کیا اور پھر اپنا آصل مقصد بیان کیا. پہلے تواس نے اپکو حکومت کی پیشکش کی جس کو امام نے لینے سے انکار کردیا. اس انکار کے بعد اس نے اپ کو اپنی ولیعہدی پیش کی اس کو بھی امام نے یہ کہہ کر منع فرمایا کہ یہ سب دنیاوی اعزازت ہمارے شایان شان نہیں ہیں. مامون نے مزید اصرار کیا اور پھر امام کے مسلسل انکار پر دھمکی امیز الفاظ میں کہا کہ اگر اپ قبول نہ کریں گے تو اپ کو قتل کردیگا. یوں تو امام کے لئے قتل کی دھمکی کوئ معنی نہیں رکھتی تھی لیکن اس وقت کوئ شرعی جواز نہ تھا کہ جس کے لئے جان قربان کردی جائے اس لئے امام نے بادل نا خواستہ اسکی یہ پیشکش کچھ شروط کے ساتھ قبول فرمائ. امام نے مامون سے شرط رکھی کہ وہ حکومت کے کسی معاملے میں دخل نہیں دیں گے سوائے اس کے کہ اگر ان سے کسی جائز اور حق بجانب معاملے میں مشورہ طلب کیا جائیگا تو وہ ضرور دینگے اور یہ شروط مامون نے مان لیں.
امام کا اب معمول یہ تھا کہ زیادہ وقت اپکا یا تو عبادت و ریاضت میں گزرتا اور یا علمی مباحث اور مناظروں میں گزرتا تھا. کیونکہ مامون خود بہت علمی مباحث اور مناظروں میں دلچسپی رکھتا تھا اس لئے ایسے مشکل مناظرے جہاں اسکے درباری علماء بے بس نظر آتے وہاں وہ ہمیشہ امام کی مدد کا طلبگا ر ہوتا اور امام کی مدد سے مناظرے میں فتح ہوتی. ہر مشکل وقت میں امام اس کی مدد فرماتے تھے. مامون نے امام کے نام کےسکےڈھلواکر جاری کیے تھے.کیونکہ ان سکوں پر امام کا اسم اطہر کندہ تھا اس لئے امام کے معتقدین برکت اور سفر میں حفاظت اور خیریت کےلئے آمام کا سکہ انکی ضمانت کے طور پر رکھتے تھے. اس لئے اس سکہ کی جگہ آج بھی ہم امام ضامن کا سکہ امام کے حزر کے طور سفر کرنے سے پہلے بازو پر باندھتے ہیں جس کو لوگ امام ضامن بھی کہتے ہیں.
امام کی راتیں مسلسل عبادت میں گزرتیں اور آپ دن میں اکثر روزہ رکھتے تھے. اپنے غلاموں اور کنیزوں کے ساتھ نہایت شفقت سے پیش آتے. غلاموں کو اپنے ساتھ دسترخوان پر بٹھاتے. دربار میں کیونکہ خارجی امراء بھی آتے تو اپ ولیہد کے منصب کے اعتبار سے تو ظاہری بہتر لباس پہنتے مگر اندر وہی کمبل یا معمولی کپڑے کا لباس زیب تن کرتے تھے.
کیونکہ عراق اور دیگر علاقوں میں اب علویوں کی بغاوت پو قابو پالیا گیا تھا اور خلیفہ کے مشیر خاص فضل بن سہیل کو بھی بنو عباس کے امراء کی خوشنودی اور حمایت حاصل کرنے کی غرض سے قتل کرایا جاچکا تھا اس لئے اب خلیفہ کے لئے امام کی ولیعہدی خار بن کر کھٹکنے لگی. امام کیزاہدانہ زندگی علمی فضیلت اپکی حکومتی امور میں عدم مداخلت اور آپکی اسکی دامادی کے باوجود بھی بادشاہ مامون اپنے سیاسی مقصد حاصل ہوجانے کے بعد اب امام کی جان کے درپئے تھا. جس طرح اسکے لئے حکومت کے حصول کے لئے اپنے بھائی کا قتل معمولی بات تھی اسی طرح اسے امام سے وہ تمام رشتے اور روابط بھی ان کے قتل سے باز نہ رکھ سکے. اور اسطرح اس کی رچی ہوئ امام کے قتل کی سازش نے اس کے امام کو ولیعہد مقرر کرنے کی اصل حقیقت سب پرعیاں کردی۔

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular