Friday, May 3, 2024
spot_img
HomeMuslim World"استاد - مرتبہ اور ذمہ داری"

“استاد – مرتبہ اور ذمہ داری”

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

مہتاب منیر

حیاتِ انسانی کا نظام دو عناصر یعنی جسم اور روح کے میل ملاپ سے تشکیل پاتا ہے۔ جسم کی نگہداشت حقیقی والدین کی ذمہ داری ہے جب کہ روحِ انسانی کے ثمردار پودے کو خونِجگر دے کر سینچنے والی ہستی کا نام استاد ہے۔ حقیقی والد بچے کا جسمانی باپ جب کہ استاد بچے کا روحانی باپ ہے۔
امام غزالیؒ نے استاد کو اس طرح خراج تحسین پیش کیا ہے:”حقیقی باپ نفس کو آسمان سے زمین پر لاتا ہے مگر روحانی باپ تحت الثریٰ سے سدرۃالمنتہیٰ پر لے جاتا ہے۔”استاد کی عظمت اور فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ رب ذوالجلال خود سب سے پہلے اور بڑے معلم ہیں۔ارشاد ربانی ہے:(ترجمہ)”پڑھ تیرا رب بہت بزرگی والا ہے جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا اور انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔”
ایک استاد لوہے کو تپا کر کندن اور پتھر کو تراش کر ہیرا بناتا ہے۔ استاد کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت امام ابو حنفیہؒ فرماتے ہیں” میں نے زندگی بھر استاد کے گھر کی طرف پیر نہیں کیے”۔ علامہ اقبال کے بارے میں آتا ہے کہ آپ نے”سر” کا خطاب اس وقت تک قبول نہیں کیا، جب تک اپنے استاد مولوی میر حسن صاحب کو شمس العلماء کا خطاب نہ دلوایا۔ اسی طرح مولانا شبلی کے بارے میں آتا ہے کہ آپ اپنے استاد مولوی فاروق چریاکوٹی کی ایسی خدمت کرتے تھے کہ اپنے استاد کو پانی گرم کرکے نہلاتے تھے۔ اللہ اللہ کیا شان ہے استاد کی ۔۔۔۔۔
اسلام میں استاد کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے۔ تعلیم و تعلم کو اسلام میں ایک عظیم ذمہ داری کے طور پر پیش کیا ہے اور جو لوگ اس پیشہ سے وابستہ ہوئے ہیں اور قوم کو زیور علم سے آراستہ کرتے ہیں انہیں حد درجہ تعظیم و تکریم کے مقامِ بلند پر فائز کیا گیا ہے۔لیکن عصری سکولوں اور کالجوں میں تعلیم جب سے تجارت بن گئی اور درسگاہیں تجارت کی منڈیوں میں تبدیل ہو گئیں اس وقت سے یقینًا ” استاد” جیسی عظیم ہستی کی قدرو منزلت بھی وہاں گھٹ کر رہ گئی،قوم کے معماروں اور سرمایہ ملت کے محافظوں کے ساتھ ناروا سلوک شروع ہوگیا،اور آج کل سکولوں میں اساتذہ کے ساتھ بد تمیزی اور بے ادبی کے واقعات روز رونما ہوتے ہیں۔ ایک طرف معاشرہ میں اور بالخصوص عصری جامعات میں استاتذہ کے گھٹے ہوئے معیار کو بلند کرنے کی ضرورت ہے، طلباء کے دلوں میں ان کی عظمت و اہمیت کو بڑھانے کی ضرورت ہے وہیں ساتھ میں اساتذہ کو بھی اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا اور اپنے فرائض کو بحسن و خوبی انجام دینا اشد ضروری ہے اس حوالے سے میں ایک سبق آموز واقع پیش کرنا چاہتا ہوں کہ”پرانے استاد کو اپنی تعلیم مکمل کرنے کے لیے چھٹی پر جانا پڑا تو ایک نئے استاد کو اس کے بدلے ذمہ داری سونپ دی گئی۔ نئے استاد نے سبق کی تشریح کرنے کے بعد ایک طالب علم سے سوال پوچھا تو اس طالب علم کے ارد گرد بیٹھے دوسرے سارے طلباء ہنس پڑے۔ استاد کو اس بلا سبب ہنسی پر بہت حیرت ہوئی مگر اس نے ایک بات ضرور محسوس کرلی کہ کوئی نا کوئی وجہ ضرور ہوگی۔ طلباء کی نظروں،حرکات اور رویے کا پیچھا کرتے آخر کار استاد نے یہ نکتہ پالیا کہ یہ والا طالب علم ان کی نظروں میں نکما اور غبی ہے۔۔۔۔ہنسی انہیں اس بات پر آئی تھی کہ استاد نے سوال پوچھا تو کس پاگل سے پوچھا۔جیسے ہی چھٹی ہوئی سارے طلباء باہر جانے لگے۔ استاد نے کسی طرح موقع پاکر اس طالب علم کو علیحدگی میں روک لیا،اسے کاغذ پر ایک شعر لکھ کر دیتے ہوئے کہا کہ کل اسے ایسے یاد کرکے آنا جیسے تجھے اپنا نام یاد ہے اور یہ بات کسی اور کو پتہ نہ چلے۔
دوسرے دن استاد نے کلاس میں جاکر تختہ سیاہ پر ایک شعر لکھا اور اس کے معنی و مفہوم بیان کرکے شعر مٹادیا۔ پھر طلباء سے پوچھا”یہ شعر کس کو یاد ہوگیا ہو تو وہ اپنا ہاتھ کھڑا کرے” جماعت میں سوائے اس لڑکے کے ہچکچاتے جھجھکتے اور شرماتے ہوئے ہاتھ کھڑا کرنے کو اور کوئی ایک بھی ایسا لڑکا نہ تھا جو ہاتھ کھڑا کرتا۔استاد نے اس سے کہا سناؤ تو لڑکے نے یاد کیا ہوا شعر سنادیا۔سارے طالب علم حیرت سے دیدے پھاڑے اس لڑکے کو دیکھ رہے تھے۔ استاد نے لڑکے کی تعریف کی اور باقی سارے لڑکوں سے کہا کہ اس کے لیے تالیاں بجائیں۔ اس ہفتے وقفے وقفے سے ، مختلف اوقات میں اور مختلف طریقوں سے ایسا منظر کئی بار ہوا۔ استاد لڑکے کی تعریف و توصیف کرتا اور لڑکوں سے حوصل افزائی کے لیے تالیاں بجواتا۔ آہستہ آہستہ دوسرے طلباء کا سلوک اور رویہ اس کے ساتھ بدلنا شروع ہوگیا اور اس طالب علم نے بھی اپنے آپ کو بہتر سمجھنا شروع کردیا اور غبی اور پاگل کی سوچ سے باہر نکل کر اپنی ذات پر بھروسہ کرنے لگا۔ نہ صرف پر اعتماد ہوا بلکہ اپنی صلاحیتوں کو بہتر استعمال کرکے دوسروں کے ساتھ مقابلے میں آنے لگا۔ امتحانات میں خوب محنت کی اور اچھے نمبروں سے پاس ہوگیا۔اگلی جماعتوں میں اور محنت کی اور یونیورسٹی تک پہنچا اور آجکل پی ایچ ڈیPh.D کر رہا ہے۔” یہ طالب علم اس ایک شعر کو اپنی کامیابی کی سیڑھی قرار دے رہا ہے جو ایک شفیق استاد نے چپکے سے اسے یاد کرنے کے لیے لکھ کر دیا تھا۔
لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں ایک قسم ان لوگوں کی ہوتی ہے جو خیر کی کنجیوں کا کام کرتے ہیں، شر کے دروازے بند کرتے ہیں، حوصلہ افزائی کرتے ہیں، داد دیتے ہیں، بڑھ کر ہاتھ تھامتے ہیں، اپنی استطاعت میں رہ کر مدد کرتے ہیں، کسی کے درد کو پڑھ لیتے ہیں، رکاوٹ ہو تو دور کردیتے ہیں، تنگی ہو تو آسانی پیدا کر دیتے ہیں، انسانیت کو سمجھتے ہیں اور اپنے تئیں چارہ گری کی سبیل کرتے ہیں۔
دوسرے قسم کے لوگ اس کے برعکس شر کا دروازہ کھولنے والے، چلتے ہوئے کو روکنے والے، حوصلوں کو پست کرنے والے، نصیبوں اور تقدیروں کو رونے والے، راستے کو مشکل اور بند کرنے والے ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔ آپ معلم ہیں،والد ہیں، استاد ہیں،معظم ہیں،راہ نما ہیں ایک سوال ہے آپ سے !! کیا آپ اپنی قسم بیان کرسکتے ہیں۔
(متعلم شعبہ اردو کشمیر یونیورسٹی سرینگر9797795787)

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular