Tuesday, May 7, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldاردو زبان کے متعلق چند معروضات

اردو زبان کے متعلق چند معروضات

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

ڈاکٹر مشتاق احمد
عالمی سطح پر یہ فکر مندی ظاہر ہو رہی ہے کہ اب انسان کا وسیلۂ اظہارزبان اپنے وجود کی جنگ لڑ رہا ہے ۔ کیوں کہ عالمی سطح پر یونیسکو کے ذریعہ جو رپورٹ شائع ہوئی ہے اس میں اس حقیقت کا انکشاف ہوا ہے کہ گذشتہ پچاس سال میں دنیا کی 220زبانیں اپنا وجود کھو چکی ہیں۔ یعنی صفحۂ ہستی سے اس کا نام ونشان تک مٹ چکا ہے ۔ ماہرینِ لسانیات بھی زبانوں کے خاتمے کے وجوہات تلاش رہے ہیں اور یہ خدشہ بھی ظاہر کر رہے ہیں کہ اگر زبانوں کے مرنے کی یہی روش جاری رہی تو کیا ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ یہ انسان اپنے ذریعۂ اظہار سے محروم ہو جائے گا ۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے ۔ جہاں تک ہندوستان کا سوال ہے تو مردم شماری 2011کے مطابق 40ہندوستانی زبانیں بھی مردہ ہو چکی ہیں اور 270ایسی زبانیں ہیں جن کے بولنے والے محض دس ہزار تک محدود ہو گئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب زبان کے بولنے والے اور لکھنے والے ہی نہیں ہوں گے توپھر اس زبان کے وجود پر خطرہ فطری عمل ہے۔
ہم سب اس حقیقت سے واقف ہیں کہ ہمارا ملک ہندوستان ایک کثیراللسان خطۂ ارض ہے ۔ یہاں 19569زبانیں بولی جاتی ہیں ۔ ہمارے آئین کے شیڈول7میں 22زبانوں کو شامل کیا گیاہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ بقیہ زبان کے تئیں حکومت سنجیدہ نہیں ہے ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ملک میں جتنی بھی زبانیں اور بولیاں موجود ہیں ان کو بچانے کے لئے مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتیں اپنی اپنی سطح سے کوشاں ہیں۔ لیکن یہاں بھی یہی ایک سوال اٹھتا ہے کہ کسی بھی زبان کی زندگی کا انحصار صرف سرکاری مراعات پر ممکن نہیں بلکہ اس زبان کے بولنے والے پر منحصر ہے کہ وہ اپنی زبان کی ترقی کے لئے کون سا لائحہ عمل تیار کرتے ہیں اور عملی اقدام اٹھاتے ہیں ۔ہمارے ملک میں مادری زبان کی تعداد 1369ہے ۔ کسی ایک ملک میں اتنی تعداد مادری زبان کی ہو اس سے بھی یہ اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ اس ملک کی تکثیریت کے معنی کیا ہے ۔کیوں کہ زبان صرف اور صرف ما فی الضمیر کے اظہار کا نام نہیں ہے بلکہ ہماری تہذیب وتمدن کی شناخت بھی ہے ۔ ہر ایک زبان کی اپنی ایک تہذیب ہے جو اسے دوسری زبانوں سے منفرد وممتاز رکھتی ہے ۔
اردو کے تعلق سے جب ہم گفتگو کرتے ہیں تو ہمیں زبان کی تاریخ اور ملک کے جغرافیائی حدود کی بھی معلومات رہنی چاہئے۔ کیوں کہ ہندوستان میں دورِ آغاز سے ہی زبانوں کو لے کر ایک طرح کی عصبیت رہی ہے ۔ بالخصوص آزادی کے بعد جب زبانو ںکو لے کر سیاست شروع ہوئی تو اس عصبیت کو اور فروغ حاصل ہوا ۔ ہم اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتے کہ ہمارے ملک میں کئی ریاستوں کا وجود محض زبان کی بنیاد پر قائم ہے اور آج بھی لسانی سیاست کا چراغ روشن ہے ۔ ورنہ کیا وجہ ہے کہ قومی زبان ہندی آج تک جنوبی ومشرقی ریاستوں میں اپنے لئے مخصوص جگہ نہیں بنا سکی ہے۔ یہاں ہم اردو والوں کو اس سے سبق لینا چاہئے کہ محض سرکاری مراعات سے اگر کوئی زبان فروغ پاتی تو ہندی آج بھی نصف درجن ریاستوں میں حاشیے پر نہیں ہوتی کیوں کہ ہندی کے لئے جتنے فنڈ مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں کے ذریعہ دئے جاتے ہیں وہ دیگر زبانوں کے حصے میں نہیں آتی۔ مختصر یہ کہ زبان کے فروغ کے لئے لازمی ہے کہ اس زبان کے بولنے والے صدق دل سے اپنی زبان کی ترقی کے لئے اس کی تعلیم کا راستہ ہموار کریں۔ کیو ںکہ زبان صرف زبانی عمل سے زندہ نہیں رہ سکتی بلکہ اس کے لئے حتمی طورپر تعلیمی عمل کو مستحکم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے ۔مگر افسوس صد افسوس ہم اردو والے کہیں نہ کہیں خوش فہمی یا مغالطے کے شکار ہیں کہ ہماری زبان اردو اب عالمی زبان بن گئی ہے یہ کبھی مر نہیں سکتی ،اس میں کتابوں کی اشاعت روز بروز بڑھ رہی ہے ۔ اخباروں کی تعداد میں اضافہ ہو رہاہے۔اردو کے تئیں سیاست دانوں کا نظریہ ہمدردانہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اردو تعلیم کا دائرہ دنوں دن محدود ہوتا جا رہاہے ۔ کل تک جو خاندان اردو گھرانہ کی حیثیت رکھتا تھا اب اس خاندان میں نئی نسل کے بچے ’’ابّو ‘‘اور ’’امی‘‘ کی جگہ ’’ممی‘‘ اور ’’ڈیڈ‘‘بولنے لگے ہیں۔ اردورسم الخط ان کے لئے اَن بجھ پہیلی بن گئی ہے ۔بالخصوص انگلش میڈیم اسکول میںپڑھنے والے 80فی صد اردو معاشرے کے بچے اپنی زبان سے لا تعلق ہوگئے ہیں ۔اکثر یہ بات سامنے آتی ہے کہ چوں کہ اسکول میں اردو تعلیم کا نظام نہیں ہے اس لئے یہ بچے اردو نہیں پڑھ رہے ہیں ۔ لیکن سچائی یہ نہیں ہے ۔کیوں کہ بچے جب اسکول جانے کے لائق ہو تے ہیں تب جاتے ہیں اس سے پہلے وہ اپنے گھر کے اندر کی زبان سیکھتے ہیں ۔جب ہم اردو کو مادری زبان کے طورپر اختیار کریں گے اور اپنے گھروں میں اس کے چلن کو عام رکھیں گے تو فطری طورپر ہمارے بچے اس زبان سے آشنا ہوں گے اور جب تعلیمی سلسلہ شروع ہوگا تو وہ بھی اردو کی چاہت لئے تعلیمی اداروں میں داخل ہوگا ۔ آج چو ں کہ ہمارے گھروں سے ہی اردوبے دخل ہوگئی ہے تو پھر ہم اپنے معصوم بچوں پر ہی کیوں الزام دھریں؟۔ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اب اردو گھرانہ ایک طرح سے احساس کمتری کا بھی شکار ہوگیا ہے۔ہم یہ سمجھنے لگے ہیں کہ آج کی دنیا میں اردو کوئی مستقبل نہیں ہے ۔ مگر یہ خیال سراسر غلط ہے ۔ کیوں کہ آج کی گلوبلائزیشن کی دنیا میں آپ کسی بھی زبان میں اگر مہارت رکھتے ہیں تو آپ کے لئے بازار کھلا ہواہے۔ کیا آپ کے آس پاس میں انگریزی یا ہندی زبان میں ڈگری رکھنے والا نوجوان بے روزگار نہیں ہے؟یا پھر دوسرے علوم میں ایم۔اے ، پی ایچ ڈی کرنے والا بے روزگار نہیں ہے ؟۔ پھر یہ بات کیوں کہی جاتی ہے کہ جب تک اردو کو روزگار سے نہیں جوڑا جائے گا اس وقت تک ا س کا فروغ ممکن نہیں ۔سوال یہ ہے کہ زبان کی تعلیم صرف اور صرف روزگار سے تعلق نہیں رکھتی ۔ بلکہ اس زبان کے بولنے والے کی شناخت کی ضامن ہوتی ہے اور جس زبان کے بولنے والے نے اس کلیہ پر عمل کیاہے وہ زبان دنوں دن پھیل رہی ہے ۔اس کی ایک زندہ مثال بنگلہ زبان ہے کہ اس کے بولنے والوں نے کس طرح اپنی زبان اور اپنے رسم الخط کو حرزِ جاں بنا رکھا ہے ۔ نتیجہ ہے کہ بنگلہ زبان کا اخبا ر ’’امرت بازار‘‘ کی تعداد اشاعت دنوں دن بڑھتی جا رہی ہے ۔جب کہ اردو اخباروں کی تعداد اشاعت حقیقی دنوں دن کم ہوتی رہی ہے ۔ البتہ فرضی تعداد میں اضافہ ضرور ہو رہا ہے ۔ جیسا کہ کچھ دنوں پہلے دہلی سے شائع ہونے والے اخباروں کی فہرست اور ان کی تعداد اشاعت کا حقیقی منظر نامہ پیش کیا گیا تھا ۔
بہر کیف! اردو کے تعلق سے اردومعاشرے میں جوخوش فہمیاں عام ہیں وہ اردو کے وجودکے لئے مضر ثابت ہو سکتی ہے کیوں کہ جب تک اس کی تعلیم کا سلسلہ چلتا نہیں رہے گا اور اس کے رسم الخط کو زندہ نہیں رکھا جائے گا اس وقت تک اس زبان کی شناخت مستحکم نہیں رہ سکتی ۔حال ہی میں ایک سرکاری جلسے میں یہ حقیقت واضح کی گئی کہ اسکولوں میں اردو پڑھنے والے طلباء کی تعداد دنوں دن کم ہورہی ہے ۔ ایک طرف حکومت کی عصبیت ہے کہ جو طلباء اردو پڑھ رہے ہیں اسے اردو رسم الخط میں اردو زبان کے علاوہ دیگر مضامین کی کتابیں دستیاب نہیں ہوتیں۔ تو دوسری طرف ہمارے اساتذہ بھی تساہلی کے شکار ہیں اور غفلت برتتے ہیں کہ ان بچوں کو اردو نہیں پڑھاتے۔بلکہ بیشتر اردو اساتذہ دوسرے مضامین پڑھاتے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ ہم چھوٹے چھوٹے بچوں کو بھی دیگر مضامین کے ٹیوشن دلواتے ہیں کیا یہ ممکن نہیں کہ اس کے لئے اردو ٹیوٹر کابھی انتظام کیا جا سکے؟ ۔ اسی جلسے میں اس حقیقت کا اعتراف کیا گیا کہ اردو کے فروغ میں مدارسِ اسلامیہ کا اہم کردار ہے ۔ بلا شبہ اس تاریخی حقیقت سے انکار ممکن نہیں لیکن یہ حقیقت اب قصۂ پارینہ ہے کیوں کہ اب بیشتر مدارس میں بالخصوص سرکاری مدارس میں درس وتدریس کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے ۔ محض امتحانات کے فارم بھرے جا رہے ہیں ۔اگرچہ مدارس سے منسلک اساتذہ اس بات سے خفا بھی ہو سکتے ہیں لیکن خود احتسابی کے عمل سے اگرہم آپ گذریں تو پھر خفگی کا کوئی جواز نہیں ۔یہاں ایک دلچسپ بات کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ایک بار اسی موضوع پر مذاکرہ ہو رہا تھا تو ہمارے ایک آشنا نے مجھ سے یہ سوال کیا کہ پڑھائی تو سنسکرت پاٹھشالے میں بھی نہیں ہو رہی ہے اور اسکول کالجوں میں بھی صرف فارم پُری اور امتحان ہورہے ہیں ۔ تو پھر مدارس کے سلسلے میں ہی یہ ریمارکس کیوں؟۔میں تھوڑی دیر کے لئے خاموش رہا پھر میں نے ان سے ایک سوال کیا کہ سنسکرت کے پاٹھشالے کے پنڈت اور اسکول وکالج کے دیگر مذاہب کے اساتذہ پر پانچ وقت کی نماز ، روزہ، زکوٰۃ ، حج فرض نہیں ہے ۔تو کیا اب مدارس کے اساتذہ بھی اپنے ان فرائض کو چھوڑ دیں گے ۔اگر چہ ان کی جانب سے کوئی جواب نہیںملا لیکن ان کے چہرے کے تاثرات سے ایسا ضرور محسوس ہوا کہ انہیں یہ بات بھی ناگوار گذری تھی ۔
دراصل جس طرح مسلم معاشرہ دیگر معاملات میں پسماندگی کا شکار ہے اسی طرح لسانی شعبے میں بھی انحطاط کے دور سے گذر رہاہے  بالخصوص آزادی کے بعد سیاست دانوں نے ہمیں جذباتی نعروں میں اس طرح الجھائے رکھا اور ہم اپنے ذاتی مفادات کی بازیابی میں کچھ اس طرح خود غرض ہوگئے کہ اجتماعی شعور ہمارے اندر سے جاتا رہا اور جب کسی قوم کے اندر اجتماعی شعور کا فقدان ہو جائے تو پھر اس قوم کی پسماندگی اس کا مقدر بن جاتاہے ۔ کیوں کہ اس حالت میں ہم خود احتسابی کے عمل سے دورہو جاتے ہیں۔ ایسی صورت میں طرح طرح کی خوش فہمیوں اور غلط فہمیوں کے شکار ہو جاتے ہیں ۔ چوں کہ زندگی کے دوسرے شعبے کے تئیں بھی ہماری سنجیدگی ختم ہوتی چلی جاتی ہے اسی طرح زبان کے تئیں بھی لا تعلقی کا عمل شروع ہو جاتاہے ۔ آج اردو بھی ہماری خوداحتسابی سے محرومی کا خمیازہ بھگت رہی ہے کہ ہمارے معاشرے سے اردو رسم الخط ختم ہوتا جا رہاہے یہ زبان جو ہماری تہذیبی شناخت تھی وہ ہمارے معاشرے سے ختم ہوتی جا رہی ہے اور ہم ہیں کہ بس حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں اور تمام تر شکوے گلے سرکاری محکموں اور ان کے آفیسروں سے کر رہے ہیں کہ وہ اردو کے لئے سنجیدہ نہیں ہیں۔ جب ہم خود ہی اپنی زبان کی زندگی کے لئے جو عمل لازمی ہے یعنی اس کی تعلیم، اس کے لئے کچھ کرنے کو تیار نہیں ہیں ۔ تو پھر اس زبان سے محض کھوکھلی محبت کا اظہار کب تک ؟۔اور کیا یہ اظہار اس زبان کو ابدیت بخش سکتی ہے ؟یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے ۔
پرنسپل ، سی ایم کالج، دربھنگہ
موبائل:9431414586
٭٭
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular