Sunday, May 5, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldفن پارے کی تفہیم قرأت متن کی جہت کے تعین کے بغیر...

فن پارے کی تفہیم قرأت متن کی جہت کے تعین کے بغیر ممکن نہیں 

[email protected] 

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

 

 

ڈاکٹر ہارون رشید

نئی نسل کی اہم خاتون تنقید نگار ڈاکٹر زیبا محمود سے اہم گفتگو

ڈاکٹر زیبا محمود گنپت سہائے پی جی کالج(سلطانپور) میں شعبہ اردو کی سربراہ ہیں۔آپ کے والد ماجد پروفیسر محمود الہٰی گورکھپور یونیورسٹی میں شعبہ ارد وکے سربراہ رہے نیز وہ اسی یونیورسٹی کے عبوری وائس چانسلر بھی رہے۔تین مرتبہ اتر پردیش اردو اکادمی کے چیئر مین ہوئے اور یادگار کارنامے انجام دئے۔تحقیق اور تنقید کے میدان میں آپ نے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔ڈاکٹر زیبا محمود ان کی سب سے چھوٹی بیٹی ہیں۔اب تک زیبا محمود کی تصنیف تالیف اور ترتیب کردہ سات کتابیں’’ کلیم الدین احمد شخصیت اور تنقید نگاری،تہذیب غزل کا شاعر مجروح سلطانپوری،سفینۂ نقد،تلاش و تعبیر،بازیافت،مقدمہ الہلال اور انتقادیات‘‘ منصہ شہود پر آ چکی ہیں۔آٹھویں کتاب انتقادیات (حصہ دوم)زیر طبع ہے۔ان کے تنقیدی مضامین مختلف نیشنل اور انٹر نیشنل جرائد و رسائل کے صفحات کی زینت بن چکے ہیں۔تنقید ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔انھوں نے نہ صرف اردو کلاسیک پر قلم اٹھایا۔ بلکہ معاصر قلم کاروں اور بالخصوص ان قلم کاروں پر بھی قلم اٹھایا جن پر آج کے پروفیسران حضرات قلم اٹھانا کسرِ شان تصور کرتے ہیں۔پروفیسر کلیم الدین احمد کی شخصیت اور ان کی تنقید نگاری پرڈاکٹر زیبا محمود کاتحقیقی مقالہ اردو تنقید و تحقیق کی دنیا میںایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔انھوں نے اپنے والد پروفیسر محمود الہی کے نقش قدم پر چل کر ہی تنقید کے خارزار صحرا کو اپنا میدانِ عمل منتخب کیااور موجودہ وقت میں نئی نسل کی خاتون تنقید نگاروں میں اپنا منفرد شناخت نامہ مرتب کیا ۔آج اردو تنقید کی دنیا میں ان کا نام اعتبار اور وقار کے ساتھ لیا جاتا ہے ۔ان کی تنقیدی تحریروں کی خصوصیت یہ ہے کہ ان میں خلاقانہ نثر کے عناصر جا بجا نظر آتے ہیں جو ان کی تحریروں کو دوسروں سے ممتاز کرتے ہیں۔ہم نے ڈاکٹر زیبا محمودکی لکھنؤ آمد پر ان سے ارد و زبان ادب کی سمت و رفتار اردو تنقید اور دوسرے اہم مسائل پر طویل گفتگو کی۔ پیش ہیںچند اہم اقتباسات۔

ڈاکٹر ہارون رشید:آپ کی تعلیم وتربیت میرے علم کے مطابق انگریزی میڈٰیم سے ہوئی لیکن آپ اردو کی پروفیسر ہیں۔اردو کی طرف آپ نے رخ کب اور کیسے کیا اور اس کے محرکات کیا ہیں۔
زیبا محمود:جیسا کہ آپ جانتے ہیںکہ میرے والد پروفیسر محمود الہی اردو کے اہم نقاد اور محقق رہے ہیں انھوں نے ہم سبھی بھائی بہنوں کو انگریزی میڈیم سے تعلیم دلوائی میری تعلیم بھی انٹر تک انگریزی میڈیم سے ہی ہوئی۔لیکن اردو کی تعلیم ابا نے گھر میں بچپن سے ہی دی تھی ۔ہم سبھی بھائی بہنوںکو اردو لکھنا پڑھنا گھر میں ہی سکھایا گیا تھا۔گھر کا ماحول ایسا تھا کہ ہمارا اردو کی طرف راغب ہونا ایک فطری عمل تھا۔اسی لیے انٹر کے بعدبی اے میں اردو ایک مضمون کے طور پر لیا اور پھر ایم اے اور پی ایچ ڈی بھی اردو میں کی اورآج اردو ہی میری زندگی ہے۔
ڈاکٹر ہارون رشید:آپ نے پی ایچ ڈی کے مقالے کے لئے پروفیسر کلیم الدین احمدجیسےسخت گیر ناقد کو کیوں منتخب کیا جب کہ انھوں نے اردو شعر و ادب پر سخت حملے کئے ہیں۔غزل کو نیم وحشی صنف سخن اور اردو تنقید کے وجود کو محض فرضی قرار دیا ہے۔
زیبا محمود:یہ صحیح ہے کہ پروفیسر کلیم الدین احمد نے اردو شعرو ادب پرسخت حملے کئے ہیں۔جب میں ایم اے کر ررہی تھی تو میرے ذہن میں یہ سوال بھی اٹھنے لگے تھے کہ کلیم الدین احمد صاحب نے ایسا کیوں کیا۔ اس کے کیا اسباب وعلل ہیں اس کا جائزہ بھی لیا جانا ضروری تھا۔وہ ایک ایسے سخت گیر نقاد کی حیثیت سے مشہور ہوئے تھے کہ ان کی دوسری خوبیوں کی طرف نگاہ نہیں کی گئی۔ضرور ت تھی کہ ایسے دانشور کی زندگی اور اس کی دیگر خوبیوں کا بھی جائزہ لیا جائے۔چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ میں نے ان کی زندگی کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری اور ان کی تنقید نگاری کا جائزہ بھی لیا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ان کی سختی کے پیچھے ان کا وہ اعلی معیار تھاجس کی تشکیل عالمی ادب کے مطالعہ سے ہوئی تھی اور جس کے لئے ان کا ذہن متقاضی تھا۔پھر انھوں نے جو مباحث اٹھائے ہیں وہ ایسے نہیں کہ ان کے اخذ کردہ نتائج کو آسانی سے نظر انداز کر دیا جائے۔ان کی نیت میں خلوص تھا ۔وہ اردو شعر ادب اور اردو تنقید کو عالمی معیار پر لانا چاہتے تھے۔ان کی یہ خواہش قابل احترام ہے۔میں نے اپے مقالے میں ان تمام عناصر کا تفصیلی جائزہ لینے کی کوشش کی ہے جن سے ان کی بلندی ِذہن تشکیل پائی ہے۔
ڈاکٹر ہارون رشید:ڈاکٹر صاحبہ تنقید کیا ہے اور اس کے اغراض و مقاصد کیا ہیں۔
زیبا محمود:تنقید بذات خود ایک اکتسابی فن ہے۔اس کا کام ادب کی تشریح اور تفسیر نیز اسے ایک مثبت سمت دینا ہے۔میرے نزدیک تنقید صرف محاسن اور معائب شماری کا نام نہیں ہے۔اگر نقائص ہیں تو کیوں ہیں اور محاسن ہیں تو وہ محاسن کیا ہیں اور کیسے ہیںاس کی منطقی اور معروضی وضاحت بھی ضروری ہے۔اسی لئے ایک نقاد کے لئے اس فن پارے کے جملہ مالہ وما علیہ سے واقفیت انتہائی ضروری ہے جس پر وہ گفتگو کر رہا ہے۔جب تک ایسا نہیں ہوتا کوئی بھی نقاد اپنے موضوع سےا نصاف نہیں کر سکتا۔نئی تنقید صرف متن سے بحث کرتی ہے۔اسے منشائے مصنف سے سروکار نہیں ہوتا۔کلاسک تنقید فن پارے کو مشرقی شعریات یعنی وزن و بحر صنعت وغیرہ کو اہمیت دیتی ہے۔ترقی پسند تنقید فن پارے کے سماجی سروکار سے بحث کرتی ہے اور اسی کی روشنی میںفن پارے کی قدروقیمت کا تعین کرتی ہے۔ما بعد جدید تنقید فن پارے کی تمام ممکنہ قرات کے ذریعہ مفاہیم و معانی کو دائرہ انکشاف میں لانے کی کوشش کرتی ہے۔میں سمجھتی ہوں کہ تنقید ادب کی تفہیم کا قوی ذریعہ ہے اور تفہیم قرات متن کی جہت کے تعین کے بغیر ممکن نہیں ہے۔چنانچہ یہ جہات جتنی روشن ہوں گی ادب کی تفہیم کا دائرہ بھی اتنا ہی وسیع تر ہو گا۔اس طرح دیکھیں تو تنقید ادب کے معروضی مطالعہ کا نام ہے۔تنقید پہلے ہی سے کسی فن پارے کی قدر کا تعین نہیں کرتی بلکہ اس کے لئے معروضی مطالعہ لازمی شرط ہے ۔ساتھ ہی کسی بھی فن پارے کے معنوی امکانات کے دائرے کو وسیع کرنا بھی تنقید کا اہم فریضہ ہے۔
ڈاکٹر ہارون رشید:ابھی آپ نے فرمایا کہ تنقید پہلے ہی سے کسی فن پارے کی قدرو قیمت کا تعین نہیں کرتی بلکہ معروضی مطالعہ کے ساتھ وہ نتائج تک پہونچتی ہے لیکن کلیم الدین احمد نے تو اپنی کتا ب’’اردو تنقید پر ایک نظر‘‘ کی شروعات ہی اس جملہ سے کی کہ اردو میں تنقید کا وجود محض فرضی ہے۔یہ اقلیدس کا خیالی نکتہ یا معشوق کی موہوم کمر ہے۔ان کے یہ جملے کیا یہ ثابت نہیں کرتے کہ پہلے ہی سے ان کےذہن نے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ اردو میں تنقید کا وجود نہیںہے۔
زیبا محمود:کلیم الدین احمد کے بارے میں میں نے ابھی کہا کہ انھوں نے عالمی ادب کا مطالعہ کیا تھا وہ ان نا قدوں میں ہیں جنھوں نے نہ صرف مغربی تنقید کا مطالعہ کیا تھا بلکہ اس مطالعے کو اردو تنقید میں ڈھالنے کی عمر بھر کوشش کی۔جب وہ عالمی تنقید سے متعارف ہو چکے تو انھوں نے اردو تنقید پر اسی معیار و میزان سے نظر ڈالی تو انھیں یہ لگا کہ یہاں تو تنقید ابھی پیدا ہی نہیں ہوئی۔لیکن وہ یہ جملہ کہہ کر خاموش نہیں ہو گئے بلکہ انھوں نے پور ی کتاب میں اس مطالعہ کا نچوڑاور تجزیہ پیش کیا ہے۔
ڈاکٹر ہارون ر شید:کلیم الدین احمد پر آپ نے پی ایچ ڈی کی ہے۔کہا جاتا ہے کہ کلیم الدین احمد مشرق اور مشرقی ادب سے بیزارتھےاور مغرب کے اندھے مقلد تھے۔
ڈاکٹر زیبا محمود
زیبا محمود:یہ سوچ غلط ہے کہ کلیم الدین احمد مشرق سے بیزار تھے اور یہ بھی غلط ہے کہ وہ مغرب کے اندھے مقلد تھےاگر ایسا ہوتا تو کلیم الدین احمد اردو شاعری کے بعض تذکروں کو مرتب کیوں کرتےیا اسی صدی کے ایک مشہور شاعر شاد عظیم اآبادی کے کلام کی تدوین کیوں کرتے۔وہ یہ چاہتے تھے کہ جس طریقہ تعلیم،جس عالمی ادبی، تہذیبی اور تمدنی اسلوب سے ہندوستان متاثر ہو رہاہے ان کا بھر پور مطالعہ کیا جائے اور اس کی روح اپنےادب میں جذب کر لی جائے مگر یہ جذب و انجذاب سرسری نہ ہو بلکہ مشرقی بنیادوں میں اسے ملا دیا جائے۔
ڈاکٹر ہا رون رشید:بہت بہت شکریہ آپ نے مختصرا کافی کچھ واضح کر دیا۔یہ بتائیے کہ کیاایک اچھا ادب نظریات کا تابع ہوتا ہے یا یوں کہیں کہ نظریات کی اتباع  کئے بغیر کیا ادب کی تخلیق ممکن نہیں ہے۔
زیبا محمود:اچھا ادب نظریات کا کبھی تابع نہیں ہو سکتا ہے بلکہ نظریہ خود ادب کا تابع ہوتا ہے۔ہمارا کلاسک ادب کسی نظریہ کی اتباع یا تقلید کے نتیجےمیں وجود میں نہیں آیاتھا۔بلکہ آپ دیکھیں کہ آج قرات کے جو نئے نئے رجحانات اور طریقے سامنے آئے ہیں ۔ان نئے مباحث اور نظریوں کی قرات نے بھی عظیم شعراکو عظیم شعرا ہی تسلیم کیا ہے۔میر، غالب، اقبال اور انیس جیسے شعرا کوترقی پسندی،جدیدیت،اسلوبیات ،ساختیات ،پس ساختیات اورمابعد جدیدیت کوئی نظریہ نظر انداز کر ہی نہیں سکتا ۔بلکہ قرات کے جتنے رجحانات یا نظریے سامنے آتے رہیں گے وہ ادب کی تفہیم کے دائرے کو مزید وسعت ہی بخشیں گے۔
ڈاکٹر ہارون رشید:اردو تنقید میں کئی رجحان اور نظریات آئے اردو تنقید کی موجودہ صورت حال کیا ہے۔
زیبا محمود:اردو تنقید نے اچھا خاصا سفر طے کر لیا ہے ۔جو تنقید کبھی تذکروں اور بیاضوں میں ذاتی پسند نا پسنداور زبان و محاورات کی صحت کے دائرے تک محدود تھی اسے بالاتفاق الطاف حسین حالی نے ایک سمت دی ۔شعروشاعری کی ماہیت پر روشنی ڈالی ،مغربی خیالات سے استفادہ کیااور تنقید کو ایک فن کی حیثیت سے متعارف کرایا ۔اب یہ بھی اتفاق ہے کہ حالی کوئی تنقید کی کتاب نہیں لکھ رہے تھے ،وہ تو اپنے دیوان کا مقدمہ لکھ رہے تھے ، لیکن جو خیالات انھوں نے اپنے مقدمہ میں جمع کئے وہی تنقید کے اصول قرار پائے۔اور مقدمہ ایک الگ تصنیف کی حیثیت اختیار کر گیامگران کا دیوان وہ قد ر ومنزلت نہ پا سکا جو اس پر لکھے گئے مقدمہ کوملی اور تب سے آج تک کتنے ہی نظریےاور رجحانات سامنے آچکے ہیں اور آگے بھی آتے رہیں گے۔یہ الگ بات ہے کہ بعض حضرات کبھی شعوری اور کبھی غیر شعوری طور پرگروہ بندی کے شکار ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے تنقید بدنام ہوتی ہے۔ورنہ تنقید نے تخلیق کی تفہیم ،توضیح،تشریح اور توسیع میں ہمیشہ اہم کردار ادا کیا ہےاورآج بھی کر رہی ہے۔
ڈاکٹر ہارون رشید:آج اکثر تخلیق کار تنقید کو غیر ضروری گردانتے ہیں اور اسے ادب کے لئے سم قاتل تک کہہ ڈالتے ہیں۔
زیبامحمود:ایسا آج ہی نہیں ہورہا پہلے بھی بہت سے ایسے تخلیق کار ہوئے جنھوں نے تنقید کو تخلیق کا قاتل قرار دیا۔یہ مخالفت اس لئے ہوتی ہے کہ ایسے تخلیق کار تنقید سے اپنے حق میں اشتہاری تحریر کے متقاضی رہتے ہیں اور جب یہ خواہش پوری نہیں ہوتی تو ناقد کو ہدف ملامت بنانا شروع کر دیتے ہیں لیکن ان سے ذرا پوچھئے کہ اگر تنقید نہ ہوتی تو تخلیق کا وجود ہی نا ممکن تھا۔ہر شاعر ہر افسانہ نگار اور ناول نگار اورہر مصورجوکچھ لکھتا اور بناتاہے لکھنے سے پہلے سوچتا ہے اور تصورات و تخیلات کی دنیا ہی میں اس میں ردو بدل کرتا ہےاور مطمئن ہو جانے کے بعد اسے صفحہ قرفطا س پر حتمی شکل میںاتارتا ہے۔پھر اسے دیکھتا ہے اور پھر ترمیم کرتا ہے یہ عمل کئی مرتبہ دوہراتا ہے اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک مرتبہ تخلیق مکمل کر لینے کے بعد جب بھی وہ دوبارہ اس تخلیق کو دیکھتاہے تو اسے اس میں کچھ ترمیم و اضافہ کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔کسی بھی تخلیق کار کا یہ عمل ہی تنقید ہے۔یعنی تخلیق سب سے پہلے خود تخلیق کار کے تنقیدی عمل سے روبرو ہوتی ہے۔لیکن یہ وہ تنقید نہیں جسکی مخالفت کی جاتی ہے بلکہ یہ تنقیدی شعور ہے جو کسی بھی فنکار کو بہتر سے بہتر کی طرف اور خوب سے خوب تر کی جستجو کی طرف متحرک کرتا ہے۔اصل میں یہ تنقید اور تخلیق کے رشتے کی وہ منزل ہے جہاں دونوںکا رشتہ ایک دوسرے کے ساتھ زندگی اور سانس کی طرح مربوط نظر آتا ہے۔تنقید کے اس رویے پر تنقید کے مخالفین خاموش نظر آتے ہیںلیکن جب بھی تنقیدی رویہ تخلیق کے مکمل ہونے کے بعد کسی دوسرے کے ذریعہ اپنایا جاتا ہے تو مخالفت شروع ہو جاتی ہے۔اس لئے یہ کہنا کہ تنقید تخلیق کے لئے سم قاتل ہے قطعی طور پر غلط ہے۔کیونکہ تنقیدی عمل تخلیق کی روح ہے۔
ڈاکٹر ہارون رشید:آپ کے والد اردو میںایک اہم محقق اور ناقد کے طور پر ہمیشہ یاد کئے جائیں گے انھیں حکومت اتر پردیش اور اتر پردیش اردو اکادمی کی طرف سے اردو کا سب سے بڑا انعام ملنا چاہئے جبکہ ان سے کم تر درجے کے ادیبوں اور قلمکاروں کو وہ انعامات دئے جا چکے ہیں آپ اس بارے میں کیا سوچتی ہیں۔
زیبا محمود:بلا شبہ میرے والد اردو اکیڈمی کے تین مرتبہ چیئرمین نامزد ہوئے ۔بحیثیت چیئرمین انھوں نے یادگار کارنامے بھی ا نجام دئے۔تحقیق و تنقید میں ان کی خدمات بھی سب کے سامنے ہیں اب اگرحکومت اتر پردیش یا اردو اکیڈمی کے ذمہ داروں کی نظر ان کے کارناموں اور خدمات پر نہیں گئی تو میں کیا کر سکتی ہوں۔اکیڈمی تو ایک ہفتہ میں چار افراد پر مشتمل  کمیٹی سے انعام کے لئے ہر موضوع پرسینکڑوں کتابیں پڑھوا لیتی ہے اور انعام کا فیصلہ کر دیتی ہے۔پھر چاہے وہ کتاب وہ کیوں نہ ہو جسے اکیڈمی نے نا قابل اشاعت سمجھ کر مالی تعاون دینے سے انکار کر دیا ہو یا وہ کتاب ہو جو تکنیکی اعتبار سے اس زمرے ہی میں نہ آّتی ہو کہ انعام کے لئے اس پر غور کیا جائے ۔لیکن یہ سب کرشمے آجکل ہوتے رہتے ہیں۔
ڈاکٹر ہارون رشید:سنا ہے کہ آپ کے والد(پروفیسر محمود الہی)کا اپنا کتب خانہ بھی تھا اور اس میں ہزاروں کتابوں کے ساتھ کچھ بہت اہم اور نایاب کتب بھی موجود ہیں۔اب ان کتابوں کا مستقبل کیا ہے۔
زیبا محمود:جی ہاں میرے والد کا کتب خانہ میرے آبائی وطن ٹانڈہ میں موجود ہے جس میں ہزاروں اہم کتابیں،قیمتی دستاویز اوراہم مخطوطات موجود ہیں۔اس سے استفادہ جاری ہے ۔میری خواہش ہے کہ ایسا کچھ انتظام ہو جائے کہ اس لائبریری سے اردو والےبالخصوص نئی نسل کے لوگ فائدہ اٹھائیں۔میں کوشش کر رہی ہوں اب دیکھئے آگے کیا ہوتا ہے۔
ہارون رشید:پروفیسر محمود الہی کی غیر مطبوعہ تحریروں کو آپ نے’’ سفینہ نقد‘‘ کے نام سے شائع کیا۔پھر ان کی بہت اہم کتاب ’’بازیافت‘‘ جو عرصہ سے دستیاب نہیں تھی اس کو بھی آپ نے چند اہم اضافوں کے ساتھ دوبارہ شائع کر کے وقت کے اہم تقاضے کو پورا کیا۔لیکن آپ کے والد ایک شاعر بھی تھے اور زخمی تخلص فرماتے تھے۔کیا ان کی شاعری کا کوئی مجموعہ بھی منظر عام پر لانے کا ارادہ رکھتی ہیں۔
زیبا محمود:درست فرمایا۔میں نے سفینہ نقد میں ان مضامین اور تحریر وں کو پیش کیا جو میرے والد صاحب کے قلم سے نکلیں لیکن منزل طباعت کو نہیں پہنچ سکیں۔بازیافت ان کی بہت مشہور کتاب (مجموعہ مضامین) ہے جس میں بہت قیمتی مضامین ہیں متعدد لوگوں نے مجھ سے اس کتاب کا مطالبہ کیا تواسے ادب کے طلبا اسااتذہ اور با ذوق حضرات کے لئے از سر نو مرتب کیا اور اس میں ان کے کچھ دوسرے اہم مضامین بھی شامل کر دئے تاکہ کتاب کی افادیت میں اضافہ ہو سکے۔ہاں یہ صحیح ہے کہ میرے والد ایک شاعر بھی تھے اور اچھے شاعر تھے۔کئی مشاعروں میں وہ شریک ہوئے اور کامیابی سے ہمکنار ہوئے مجروح سلطان پوری ان کے ساتھیوں میں تھے اور دونوں شروع میں ایک ہی درسگاہ میں درس حاصل کرتے تھے۔ان کی شاعری میں انقلابی رنگ نمایاں ہے۔لیکن انھوں نے اپنی شاعری کوجب خود اپنی تنقیدی نگاہ سے دیکھا تو ان کے اندر کے نقاد کو یہ محسوس ہوا کہ ان کی شاعری کلام موزوں سے زیادہ کچھ نہیں۔(حالانکہ ان کی شاعری آج کے کئی اہم شعراسے کئی درجہ بلند ہے)تو انھوں نے یہ فیصلہ کیا کہ شاعری سے زیادہ ان کے لئے تنقید و تحقیق کا میدان زیادہ کار آمد ہے چنانچہ انھوں نے شاعری کو خیر باد کہہ دیا تھا۔پھر شاعری کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا۔اس لئے اس بارے میںمیں ابھی کوئی فیصلہ نہیں کر سکی ہوںکہ میں ان کا کلام مرتب کروں گی یا نہیں۔
ڈاکٹر ہارون رشید:آپ ایک گھریلو خاتون ہیں ۔کالج کی مصروفیات اور گھریلو مصروفیات سے آخر کس طرح آپ پڑھنے لکھنے کا وقت نکال پاتی ہیں
زیبا محمود:اردو زبان و ادب میرے لئے ایک عبادت کی طرح ہے اور اس عبادت کے لئے میں نے دن کے۲۴ گھنٹوں کو الگ الگ تقسیم کر رکھا ہے۔کالج،گھر،بچے ،سب کا الگ الگ وقت مقرر ہے ۔لکھنے پڑھنے کا کام صبح کرتی ہوںاس کے لئے ہر موسم میںتین ساڑھے تین بجے اٹھ جانا میرا معمول ہے۔یہی وقت میرے لکھنے پڑھنے کا ہوتا ہے۔
ڈاکٹر ہارون رشید:اردو زبان وادب کا مستقبل آپ کی نظروں میں ؟
زیبا محمود:اردو زبان ہوا میں نہیں پھلی پھولی۔اس کے لئے ہم نے محنت کی اسے دل سے لگایا،خون جگر سے اس کی آبیاری کی اور جان سے عزیز رکھا ۔آج اردو اگر کہیں کمزور دکھ رہی ہے تووہ وہی علاقے اور خطے ہیں جہاں یہ پھلی پھولی اور پروان چڑھی تھی۔جو لوگ اردو کا رونا روتے ہیں انھیں سوچنا چاہئے کہ وہ خود عملی طور پر اس کے لیے کیا کرتے ہیں۔اردو بحیثیت زبان آج شمالی ہند میں بلاشبہ کمزور ہو ئی ہے لیکن عالمی سطح پر اس کے چاہنے والوں اور بولنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔اردوکی نئی کالونیاں آباد ہو رہی ہیں۔رسائل نکل رہے ہیں۔اخبارات نکل رہے ہیں۔ ایک مرتبہ پھر غیر مسلموں کے اندر اردو سیکھنے کا رجحان بڑھا ہے۔اردو کے حال و مستقبل پر گرما گرم مباحثے بھی ہو رہے ہیںمگر عمل کی کیفیت عقل و امید سے کہیں زیادہ گھٹ چکی ہے۔اصل مسئلہ نئی نسل کو اردو پڑھانے کا ہے۔اگر ہم خود اپنے بچوںکو اردو نہیں پڑھائیں گے تو دوسروں سے شکوہ کیسے کر سکتے ہیں ۔ادب سے زیادہ اہم مسئلہ زبان کا ہے۔اگر ہم اردو کی فلاح چاہتے ہیں تو اس کے لئے ہمیں اپنے گھر سے کام شروع کرنا پڑے گا۔اپنے بچوں کو اردو کا شوق دلانا ہو گا۔ان کے لئے اخبارات اور رسائل اور اردو کی کتابیں مہیا کرانا ہوں گی۔خصوصا اردو خوانی کے لئے بچوںکی تربیت پر توجہ دینا ہو گی۔تلفظ کی درستگی اورنوشت و خواند میں بچوں کی اصلاح کرنا ہو گی اور محبت سے سے مسلسل حوصلہ دلانا ہو گا ۔اگر ہم ایسا کر سکے تو پھر کوئی مسئلہ نہیں رہ جائے گا۔میں نے خود اپنے بچوں کو اردو پڑھائی ہے الحمد للہ میرے دونوں بچے اردو پڑھ لیتے ہیں ان کے لئے اردو کے اخبارات اور رسائل کا بھی انتظام ہے انھیں اردو سے دلچسپی ہے اور وہ اردو سے محبت کرتے ہیں۔اپنی زبان کے تحفظ کی فکر ایک عبادت ہے اور آج ہم اس عبادت میں مشغول ہیں۔اور دوسروں کو دعوت بھی دے رہے ہیں۔اگر ہر فردا یسا سوچ لے اور اس عبادت میں لگ جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ اردو کے مستقبل کے حوالے سے ہم فکر مند ہوں۔
ہارون رشید:بہت بہت شکریہ ڈاکٹر صاحبہ ۔ہم نے آپ کا بہت وقت لیا۔انشاء اللہ باقی پھر کبھی۔
زیبا محمود:آپ کا بھی بہت بہت شکریہ ہارون صاحب۔
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular