Sunday, May 12, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldادھورے خواب

ادھورے خواب

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

(محمد علیم اسماعیل)

وہ جلد گھرپہنچ جانا چاہتا تھاجیسے کوئی پر ند ہ اڑ کر ایک جگہ سے دوسری جگہ چلا جاتا ہے بس اسی طرح۔ اس نے چھٹی کے لیے درخواست بھی دی تھی لیکن اس کی چھٹی منظور نہیں ہو رہی تھی۔ اسے اس بات کا ڈر تھا کہ اگر درخواست منظور کیے بنا وہ اپنے گھر چلا گیا تو نوکری چلی جائے گی، اس لیے وہ ابھی نہیں نکلا تھالیکن اب اس سے صبربھی نہیں ہو رہا تھا۔ آفس میں ابھی بہت کام باقی تھا اوروہ ایک مشین کی طرح کام کرتے جا رہا تھالیکن کام ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔اسے ایک گھٹن سی محسوس ہو نے لگی اوردل میں ایک چبھن سی ہو رہی تھی۔اپنی سوچ پر اب اس کا قابو نہیں رہا ،بظاہر اس کا جسم کام کر رہا تھا لیکن دماغ کہیں اور تھا۔اس کا سر گھن چکر بن گیا تھا۔اس نے اپنے سر کو زور سے جنبش دی اورسوچنے لگا بھاڑ میں جائے نوکری ،اپنا بیگ تیار کیا اور نکل پڑا۔
وہ سوچنے لگا بچپن میں جب کوئی اس سے لڑائی کرتا یا اسے مارتا تو اس کا بڑا بھائی ایک ڈھال کی بن کر سامنے کھڑا ہو جاتا تھا۔بچپن سے لے کر اب تک بڑے بھائی کی ایک ایک قربانی اسے یاد آنے لگی اور آنکھوں میں آنسوئوں کا ایک سیلاب امڈا اور برس گیا۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھالنے کی کو شش کی لیکن ایک بعد ایک مسلسل واقعات یاد آتے گئے اور آنسوئوں کا سیلاب امڈ امڈ کر برستا رہا ۔
تین سال پہلے وہ لندن آیا اور آج گھر جا رہا تھا۔اس کے دل میں تمنائوں نے سر اٹھا یا اور وہ ان کے آگے جھک گیا ۔اخبار میں اس نے اپنے ملک کے ایک شخص کے امیر بننے کی کہانی پڑھی تھی۔وہ شخص اپنے ملک میں پڑھائی مکمل کرنے کے بعد لندن چلا گیا اور ترقی کرتے کرتے بہت امیر بن گیا ۔تب سے اس کے دل میں لندن جاکر امیر بننے کی خواہش نے گھر بنا لیا ۔لندن جاکر امیر بننا اس کا خواب بن گیا۔
اس نے لندن جانے کے تصور کو آنکھوں میں سجائے اپنی زندگی کے شب وروز گذارے اور اسی خواب کو برسوں سے جیتا رہا تھا۔
وہ زندگی میں کچھ کرنا چاہتا تھا،بہت پیسے کمانا اور امیر بننا چاہتاتھا۔وہ اپنے دوستوں سے کہتا مجھے اپنا کیرئر بنانا ہے بس یہی ایک چھوٹا سا خواب ہے میرا۔ گھر کے سبھی افراد نے سمجھایا دوستوں نے بھی روکا پر اس کی ضد کے آگے سبھی کی کوششوں نے دم توڑ دیا۔ اس کے اندر پیدا ہوا خواہشات کا طوفان کسی سے روکے نہ رکا۔
ایک ان دیکھی طاقت اس پر غالب ہو گئی اور وہ اسی کے ساتھ بہتا چلا گیا ۔ اس کے اس فیصلے سے سب سے زیادہ دکھ اس کے ماں باپ کو ہوا ۔دکھ ،یہ دکھ ان کے اندر گہرائی تک اترتا چلاگیا تھااور آنکھوں سے آنسوئوں کی لڑیاں جاری ہوئیں۔انھیں اپنے بچے کی مرضی کے آگے اپنی خوشی کا گلا گھونٹا پرا۔ ماں نے سینے پر پتھر رکھ کر اسے الوداع کہا ۔ بظاہر ماں خاموش اور اداس تھیںلیکن رنجیدگی نے چہرے پر یوں جالا بن دیا تھا جسے دیکھ کو ایسا لگتاتھا جیسے اندر بھیگی آنکھوں کی فصل اگ آئی ہواور اندر ہی اندر بہت کچھ ٹوٹ پھوٹ گیا ہو۔ باپ اور بڑا بھائی ایئر پورٹ تک چھوڑنے آئے تھے ۔اسے اپنے ملک میں بھی نوکری کے بہت سے موقعے ملے لیکن وہ لندن میں نوکری کرنا چاہتا تھا ۔اسے الوداع کہنے سے پہلے باپ نے اس سے کہا ’’ بیٹا اس بات کا ہمیشہ دکھ رہے گا کہ ہمارے بزرگوں نے اپنی جان و مال کی قربانی دے کر جن سے آزادی حاصل کی آج تم لاکھوں روپئے خرچ کر کے ان ہی کے پاس جا رہے ہو۔‘‘
وہ اپنی خواہشات کا پٹارا اپنے سینے میں دبائے لندن آپہنچا تھا۔ گھر پر تمام افراد کے معمول میں فرق آگیا تھا۔ہر کسی کو اس کی کمی ستانے لگی تھی۔گھر کے سبھی افراد اسے بڑے لاڑ وپیار سے رکھتے ، اس کی پڑھائی میں خلل نہ ہو اس لیے اسے کوئی بھی کام نہیں کہتے تھے ۔اس کی ہر چھوٹی بڑی خواہش فوراـپوری کی جاتی تھی۔
لندن کی چکاچوند روشنی اسے خوب بھاگئی ، وہ وہاں کی فضائوں میں ایسا کھویا کہ اسے کسی کی یاد بھی نہ آئی۔لندن میں اسے اچھی نوکری مل گئی،خوب پیسے آنے لگے۔دوستوں کے ساتھ گھومنا پھرنا ،بڑی بڑی ہوٹلوں میں کھانا کھانا اور بڑی بڑی پارٹیوں میں جانا اس کا معمول بن گیا تھا۔
ایک ماں تھی جو ہمیشہ اس کی فکر میں بے قرار رہتی تھی،ہر وقت اس کے ذہن میں صرف اسی کا ہی خیال رہتا تھا۔وہ اکثر اکیلے میں سوچتی رہتی ’’یہ زندگی بھی بڑی عجیب ہے۔نجانے درد کے کتنے سمندر پار کرنے ہوتے ہیں۔‘‘ان خیالات میں کھو کر ماں کی آنکھیں نم ہو جاتی تھیں۔
ایک روز گھر کے فون کی بیل بجی ،ماں نے فون اٹھایا،اس نے ماں کی خیریت پوچھنے کے بعد کہا ’’آپ کو بہو مبارک ہو۔‘‘اس کے بعد دونوں طرف خاموشی نے ڈیرا ڈال دیا۔خاموشی کا وہ ایک پل کئی صدیوں سے کم نہ تھا۔گھر کے تمام افراد کے چہروں پر ناراضگی پسر گئی ۔لیکن یہ ناراضگی آخر کب تک قائم رہتی، اس کی خوشی کی خاطرگھر کے تمام افراد زہر کا یہ گھونٹ بھی امرت کی طرح پی گئے اور بہو کو گھر لانے کی دعوت دی ۔اور اس نے کہا ’’ماں ۔۔۔۔۔۔ ہماری کمپنی کو ایک بہت بڑا کنٹریکٹ ملا ہے،بہت کام کرنا ہے ،اس لیے ابھی نہیں آسکتا۔‘‘یہ سن کر سبھی کے چہروں پر ماتم چھا گیا ۔بڑے بھائی نے فون پر بات کرتے ہوئے کہا ’’چھوڑدو یہ لندن کی نوکری اور چلے آئو اپنے ملک ،دوسرے ملک کی ایک روٹی سے اپنے ملک کی آدھی روٹی بہتر ہے۔‘‘اور اس نے جواب دیا ’’بھیا تم بھی شروع ہو گئے ماں کی طرح۔۔۔۔۔۔ اچھا ٹھیک ہے میں رکھتا ہوں ،باس کی کال آرہی ہے۔‘‘ دن گزرتے گئے ۔۔۔۔۔۔وقت گزرتا گیا۔۔۔۔۔۔ تین سال گزر گئے لیکن وہ لوٹ کر نہیں آیا او ر نہ ہی گھر والوںکا انتظار ختم ہوا ۔
پھر ایک دن اس کے بڑے بھائی کا ایکسڈنٹ ہو گیا۔ وہ بری طرح زخمی ہو گئے تھے ۔ہر ممکن علاج کیا جا رہا تھا لیکن صحت دن بہ دن گرتی جا رہی تھی۔ جب اسے اس حادثے کی خبر ملی تو ،اس کی چھٹی منظور نہ ہونے کے باوجود ’’بھاڑ میں جائے نوکری ‘‘ یہ کہہ کر وہ نکل پڑا ۔ایئر پورٹ سے سیدھے اسپتال پہنچا ،وہاں جاکر معلوم ہوا کہ اس کے بڑے بھائی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔
اس کے ہوش وحواس نے کام کرنا بند کر دیا۔اس کی کچھ سمجھ ہی نہیں آیا کہ اب کیا کیا جائے ۔ کوئی رکشہ دکھائی نہیں دیا۔وہ بد حواسی میں بہت تیزی سے گھر کی طرف دوڑا ، اس کا پیر پھسلا، وہ زمین پر گر ا، ایک بڑے پتھر سے اس کا سر زور سے ٹکرا گیا،سر سے خون بہنے لگا،سر چکرا گیا ، تھوڑی دیر بعد وہ پھر اٹھااور بھاگتاہواسیدھے گھر گیا۔وہ گھر پہنچا تو دیکھا کہ گھر میں بڑے بھائی کی موت کا ماتم پسرا ہوا تھا۔
پھر محلے کے ایک شخص نے اس کے والدین کچھ کہا۔ وہ ان کے سامنے کھڑا تھا لیکن انھوں نے اس طرف دیکھا بھی نہیں اور اس کی آواز سنی بھی نہیں۔وہ دل ہی دل میں کہہ رہا تھا کہ شاید وہ اس سے ناراص ہیں۔اس لیے اس کی جانب دیکھ بھی نہیں رہے ہیں۔اس کے والدین سیدھے گھر سے باہر بھاگنے لگے اور وہ ان کے پیچھے۔والدین بھاگتے ہو ئے اسی جگہ گئے جہاں وہ گرا تھا اور
اس کا سر ایک بڑے پتھر سے ٹکرا گیا تھا، وہاں لوگوں کا ہجوم لگ گیا تھا۔جب اس نے قریب جاکر دیکھا تو اس پتھر کے پاس اس کی لاش پڑی تھی ،وہ مر چکا تھا۔ابّا دور کھڑے تھے اور ان کی آنکھوں سے آنسوئو ںکے دھاریں بہہ رہی تھی اور ماں لاش سے لپٹ کر رو رہی تھی۔
��

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular