اس کے لئے صرف روزہ افطار ہی کیوں؟
وقار رضوی
اگر آج کے حالات آپ کو اس بات پر آمادہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں کہ اپنی تہذیب کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے، آپسی میل ملاپ پر زور دیا جائے، بھائی چارے کے اسباب تلاش کئے جائیں، گنگا جمنی تہذیب کو باقی رکھا جائے، سیکولر نظام کو کسی قیمت پر ٹوٹنے نہ دیا جائے، تو اس کے لئے بس روزہ افطار ہی کیوں؟ کیونکہ روزہ افطار تو بس ایک مہینے کا ہے پھر باقی 11 مہینے اپنی تہذیب کا کیا ہوگا؟ آپسی میل ملاپ کیسے پنپے گا؟ گنگا جمنی تہذیب کیسے پروان چڑھے گی؟ سیکولر نظام جو آج ختم ہونے کو ہے یہ کیسے قائم رہے گا؟ یہ سوال اُن لوگوں سے ہے جو اس بات پر بضد ہیں کہ روزہ افطار کا لفظی معنیٰ روزہ دار کو روزہ کھلوانا نہیں بلکہ حالات کے تحت اب اس کا لفظی معنیٰ میل ملاپ، بھائی چارہ، گنگا جمنی تہذیب و سیکولر نظام کو قائم رکھنا ہے۔
ایسے لوگوں سے ہماری مؤدبانہ گذارش ہے کہ اسلام کو ایک بار ٹھیک سے سمجھنے کی کوشش کریں کیونکہ اسلام کسی ایک وقت، کسی ایک کلچر، کسی ایک تہذیب، کسی ایک ملک کے لئے نہیں بلکہ قیامت تک آنے والے سبھی اوقات، سبھی حالات، سبھی کلچرکے لئے آیا تھا۔ اسی لئے اس میں وقت کے حساب سے نہ کبھی کوئی بدلائو ہوا ہے اور نہ ہوگا۔ اسی لئے اسے سائنسی مذہب کہا جاتا ہے۔
جن حالات کا آج رونا رویا جارہا ہے کہ آج ضرورت ہے کہ ہم سب کے ساتھ بیٹھ کر روزہ افطار کریں جس سے آپسی دوریاں ختم ہوں، اس کا حل اسلام نے 1400 سال پہلے ہی نکال دیا تھا کہ بد سے بدتر حالات ہوجائیں لیکن اگر اسلام کے صرف اس ایک حکم پر تم عمل کروگے تو نہ کبھی تمہاری تہذیب پامال ہوگی، نہ تمہیں کسی سے بھائی چارہ پیدا کرنے کے لئے روزہ افطار کی ضرورت پڑے گی، نہ تمہیں گنگا جمنی تہذیب مٹنے کا خطرہ ہوگا اور نہ تمہاری سیکولرازم پر کبھی آنچ آئے گی۔ وہ ایک حکم تھا پڑوسی کے حقوق، پڑوسی کا حق۔ اسلام نے پڑوسیوں کے لئے جو قانون بنایا اس ایک قانون پر اگر مسلمان عمل کرلیتا تو کبھی اسے آج کے دن نہ دیکھنے پڑتے۔
پڑوسی کا حق یہ ہے کہ دائیں، بائیں، آگے اور پیچھے چالیس چالیس گھر تک آپ کی ذمہ داری ہے کہ کوئی بھوکا نہ سوئے اور پڑوسی کی تشریح میں مسلمان ہونے کی شرط نہیں ہے پڑوسی کسی بھی مذہب کا ہو وہ آپ کا پڑوسی ہے، آپ کا اس پر حق ہے، آپ اس کی ہر پریشانی اور خوشی میں شریک ہیں اور یہی سائنٹفک بھی ہے کیونکہ خدا نخواستہ آپ کو ہارٹ اٹیک پڑجائے تو آپ کا پڑوسی ہی آپ کا سب سے بہتر مددگار ہوسکتا ہے آپ سے دور آپ کا بیٹا یا بھائی بھی نہیں۔آپ نے اگر اپنے پڑوسیوں نے بھا ئی چارہ پیدا کر لیا ہوتو آپ کو حق ہے آپ اور آگے قدم بڑھا ئیں۔
حفیظ نعمانی صاحب نے ہمارے مضمون کی تائید میں ایک پچاس سال پہلے کے واقعے کو نقل کرتے ہوئے لکھا کہ ریاست کے اس وقت کے ایک پارٹی کے صدر نے روزہ افطار کیا اور اس روزہ افطار میں پارٹی کے سبھی ممبروں نے اپنے اپنے حامیوں کو بلالیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جو لوگ روزہ تھے انہیں ایک گلاس شربت کیا پانی اور ایک کھجور بھی نصیب نہ ہوسکا۔ ایسے روزہ افطار کی حمایت تو شاید آپ بھی نہ کریں اور ہم بھی ایسے ہی روزہ افطار کی مخالفت کرتے ہیں جو سرکاری پیسے سے کیا جاتا ہے اور اس میں روزہ دار پانچ اور غیرروزہ دار 95 ہوتے ہیں، جس میں ہم اپنے ذاتی تعلقات کو مضبوط کرنے کیلئے روزہ داروں کو نظرانداز کرتے ہیں ان پر غیرروزہ داروں کو ترجیح دیتے ہیں ہم نے ایسے روزہ افطار کی مخالفت کی جو اپنے گھر پر کبھی ایک کھجور بھی نہیں کھلاتے اور دوسروں کے مال پر یا حسین کہتے ہیں۔
اگر آپ کو لگتا ہے کہ روزہ افطار ہی آج کے مسئلے کا حل ہے اور یہ ہمارے کلچر کا حصہ ہے، میل ملاپ کی وجہ ہے، بھائی چارے کا سبب ہے، گنگا جمنی تہذیب کی علامت ہے تو اس سے ہی سیکولر نظام کو قائم رکھا جاسکتاہے تو بسم اللہ۔ پہلا حق پڑوسیوں کا ہے اُنہیں بلائیں اپنے گھر پر، انہیںکرائیں اپنے ساتھ روزہ افطار پھر حق دوستوں کا بھی ہے انہیں بھی بلائیں لیکن پڑوسیوں کے ساتھ یا بعد! تو آپ واقعی چاہتے ہیں کہ آج کے ماحول میں میل ملاپ بڑھے، بھائی چارہ پنپے، گنگا جمنی تہذیب نکھرے، سیکولر نظام قائم رہے۔ ورنہ آپ چاہے ہر روز غیرروزہ داروں کو دوسرے کے مال پر روزہ افطار کرائیں، ہوگا کچھ نہیں۔ وہی ڈھاک کے دو پات، چھلاوہ ہی چھلاوہ بس اور کچھ نہیں۔
٭٭٭