تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں
https://chat.whatsapp.com/ 9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B
https://www.facebook.com/
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
[email protected]
9807694588(موسی رضا)
تاریخی مقامات کی زیارت سے ایمان میں تازگی
سہیل انجم
گزشتہ قسط میں مسجد نبوی کے پاس واقع مسجد غمامہ کا ذکر ہوا تھا۔ مسجد نبوی میں دو قسم کے گیٹوں کے نمبر ہیں۔ ایک تو مسجد کی عمارت کے گیٹ اور دوسرے مسجد کے صحن کی بیرونی جانب سلاخوں دار چہار دیواری کے گیٹ۔ سلاخوں دار چہار دیواری کے گیٹ نمبر 310 کی لائن میں گیٹ نمبر 316 ہے جس کے بالمقابل باب السلام ہے۔ اس گیٹ کی بیرونی جانب دو مسجدیں مسجد ابو بکر اور مسجد علی ہیں۔ یہ مسجدیں بھی ان مقامات میں شمار ہوتی ہیں جہاں حضور اکرم ؐنے نماز ادا فرمائی تھی۔ مسجد ابوبکر کے مقام پر حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے اپنے دور خلافت میں نماز پڑھی تھی۔ لہٰذا وہاں ان کے نام سے مسجد تعمیر کی گئی۔ جبکہ مسجد علی کے مقام پر حضرت علی ؓ نے نماز ادا کی تھی۔ لہٰذا وہاں ان کی یاد میں ایک مسجد تعمیر کی گئی۔ یہیں قریب میں ثقیفہ بنی ساعدہ نامی مقام ہے۔ یہ وہ تاریخی جگہ ہے جہاں اللہ کے رسولؐ کی وفات حسرت آیات کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو خلیفہ منتخب کیا گیا تھا۔ یہاں سے تھوڑی مسافت پر مسجد بلال ہے۔ یہ مدینہ میں کافی مشہور ہے۔ باخبر افراد کے مطابق اس کا حضرت بلال ؓ سے کوئی تعلق نہیں۔ اسے جس شخص نے تعمیر کرایا تھا اس کا نام بلال تھا۔ لیکن عام طور پر لوگ اس کی نسبت حضرت بلال ؓ کی جانب کرتے ہیں۔ گیٹ نمبر 310 اور 316 کے درمیان ایک کثیر منزلہ عمارت ہے جو کہ مسجد کا ایڈمنسٹریشن ہاؤس ہے۔ وہیں دو عمارتوں میں میوزیم قائم ہیں۔ گنبد خضرا کے بالمقابل بیرونی چہار دیواری کے بعد مدینہ کی سپریم کورٹ ہے۔ قدیم تاریخی روایات کے مطابق مسجد نبوی کے جنوبی حصے میں مشرقی کنارے سے قریب حضرت ابو ایوب انصاری ؓ کا مکان تھا جہاں اللہ کے رسول نے قیام فرمایا تھا۔ جنوبی حصہ قبلے کی جانب گنبد خضرا کے بالکل سامنے والا علاقہ ہے۔ مسجد نبوی کے آس پاس کا پورا علاقہ بہت متبرک ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ سے جڑے بہت سے تاریخی واقعات نے اس پورے خطے کو مقدس بنا دیا ہے۔
اگلے روز یعنی منگل کو ٹریول ایجنسی کی جانب سے مدینہ منورہ کے اہم اور تاریخی مقامات کی زیارت کرائی گئی۔ عام طور پر جن مقامات کی زیارت کرائی جاتی ہے ان میں مسجد قبا، مسجد قبلتین، مسجد جمعہ، جبل احد اور کچھ کھجوروں کے باغات وغیرہ شامل ہیں۔ یہ عجیب اتفاق رہا کہ اس بار مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں کرائی جانے والی زیارت نامکمل سی لگی۔ دونوں شہروں میں جو گائڈ ملے ایسا لگا جیسے انھوں نے کوئی بہت زیادہ دلچسپی نہیں لی یا ان کو عجلت تھی۔ پچھلے سفر میں جامعہ اسلامیہ میں پی ایچ ڈی کے ایک طالب علم مولانا جاوید ندیم نے ہم لوگوں کو ان تاریخی مقامات کی بھی زیارت کرائی تھی جن کی زیارت عام طور پر ٹور آپریٹرس نہیں کراتے۔ جاوید ندیم ممبئی کے باشندہ ہیں۔ وہ جامعہ اسلامیہ سنابل نئی دہلی کے سابق طالب علم اور ہمارے بیٹے سلمان فیصل کے سنابلی ہم جماعت ہیں۔ انھوں نے اس بار بھی ملاقات کی، ایک وقت کھانے پر مدعو کیا اور اپنی محبتوں سے نوازا۔ میں نے اپنے دوسرے سفرنامہئ حج میں ان مقامات کی مختصر تفصیل بیان کر دی تھی جن کی زیارت انھوں نے کرائی تھی۔ جی چاہتا ہے کہ قارئین کی دلچسپی اور مفاد کے لیے اس کی اور تازہ زیارت کی تلخیص پیش کر دی جائے۔
زائرین کو سے پہلے مسجد قبا کی زیارت کرائی جاتی ہے۔ اس مسجد کی ایک خاص اہمیت ہے۔ اسے اللہ کے رسولؐ نے ہجرت کرکے مدینہ پہنچنے پر سب سے پہلے تعمیر کیا تھا۔ گھر سے باوضو آنے اور اس میں دو رکعت نماز ادا کرنے کا ثواب ایک عمرہ کے برابر ہے۔ مسجد کے دروازے پر اس تعلق سے عربی اور انگریزی میں ایک بورڈ بھی آویزاں ہے۔ حجاج کرام اور زائرین یہاں ہر حال میں آتے ہیں اور دو رکعت نماز ادا کرتے ہیں۔ اس میں بھی آب زم زم کا انتظام ہے جس سے مصلی سیراب ہوتے ہیں۔ تمام مسجدوں کی طرح یہاں بھی خواتین کی نماز کے لیے الگ ایک جگہ مقرر ہے۔ ہم لوگوں نے دو رکعت نماز ادا کی اور باہر نکل آئے۔ مسجد قبا کے مغرب میں ایک پارک ہے جو پہلے ایک باغیچہ ہوا کرتا تھا۔ اس پارک میں ایک کنواں ہے جس کا نام ”بیر خاتَم“ ہے۔ اسے بیر اریس بھی کہتے ہیں۔ اللہ کے رسولؐ کے پاس ایک مہر ہوا کرتی تھی ”خاتَم“۔ وہ آپ کے بعد حضرت ابو بکر کو اور پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کو منتقل ہوئی مگر وہ اس کنویں میں گر گئی۔ غوطہ خور اس کو تین روز تک تلاش کرتے رہے مگر نہیں ملی۔ اسی مناسبت سے اسے بیر خاتم کہا جاتا ہے۔ اب یہ خشک ہو گیا ہے۔
یہاں سے تھوڑی مسافت پر مسجد جمعہ ہے۔ یہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جمعہ ادا کی تھی۔ جب آپؐ مسجد قبا کی تعمیر کے بعد مدینہ روانہ ہوئے تو اس جگہ کے مسلمانوں نے آپ کا شاندار استقبال کیا اور کہا کہ آپ نے قبا کے مسلمانوں کو مسجد تفویض کی ہے ہمیں بھی کچھ مرحمت فرمائیے۔ وہ جمعہ کا دن تھا۔ آپ نے وہاں نماز جمعہ ادا کی۔ غالباً وہ پہلی باضابطہ نماز جمعہ تھی۔ اس یاد کو زندہ رکھنے کے لیے وہاں ایک مسجد تعمیر کی گئی جو اب مسجد جمعہ کے نام سے معروف ہے۔ مسجد قبا سے شمال کی جانب پانچ سو میٹر کے فاصلے پر یہ مسجد واقع ہے۔
یہاں ہم نے مسجد قبلتین بھی دیکھی۔ یعنی دو قبلوں والی مسجد۔ اس بارے میں اختلاف ہے کہ اسی مسجد میں نماز کے دوران تحویل قبلہ کا حکم ہوا تھا اور اللہ کے رسولؐ نے قبلہ تبدیل کیا تھا۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ اس وقت یہ مسجد تھی ہی نہیں۔ بلکہ ایک چبوترہ تھا جہاں مسلمان نماز ادا کرتے تھے۔ تحویل قبلہ کے روز اللہ کے رسولؐ مدینہ میں تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ظہر کے وقت وحی نازل ہوئی کہ قبلہ تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اب آپ جو اگلی نماز پڑھیں گے وہ خانہئ کعبہ کی طرف رخ کرکے پڑھیں گے۔مسجد قبلتین کا علاقہ بنو سلمیٰ کا علاقہ کہلاتا ہے۔ اسی علاقے کے ایک صحابی اللہ کے رسولؐ کے پاس علم دین سیکھنے گئے ہوئے تھے۔ وہ ظہر کے بعد وہاں سے نکلے اور جب یہاں پہنچے تو عصر کا وقت ہو رہا تھا۔ انھوں نے جب دیکھا کہ یہا ں کے مسلمان اب بھی پرانے قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز ادا کر رہے ہیں تو وہ چلائے کہ قبلہ تبدیل ہو گیا ہے اپنا اپنا رخ خانہئ کعبہ کی طرف پھیر لو۔ اس وقت جو لوگ نماز پڑھ رہے تھے انھوں نے اپنا رخ خانہئ کعبہ کی طرف پھیر لیا۔ بعد میں صحابہ نے یہاں مسجد تعمیر کی جو مسجد قبلتین کے نام سے موسوم ہوئی۔ مسجد قبلتین کے پاس ایک وادی ہے جس کا نام ”وادی عقیق“ ہے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے اسے وادی مبارک کہا ہے۔ انھوں نے اللہ کے حکم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ آپ اس وادی میں عبادت کریں۔ اس وادی کو ایک نہر کی شکل دے دی گئی ہے۔ اس کے اوپر آمد و رفت کے لیے پل بنائے گئے ہیں۔ اس وادی میں بڑے قیمتی پتھر ہیں۔ صحابہ اور تابعین کے زمانے میں اس وادی میں بڑی چہل پہل رہا کرتی تھی۔ یہاں مشرق سے مغرب تک محل، مکانات، قلعے، کھیتیاں اور باغات تھے۔
زائرین جبل احد کی بھی زیارت کرتے ہیں۔ اسے تاریخ اسلام میں ایک اہم حیثیت حاصل ہے۔ یہاں مشرکین اور مسلمانوں کے درمیان بڑی خوں ریز جنگ ہوئی تھی۔ ابتدا میں اسلامی فوج نے مشرکین کی فوج کو شکست دے دی تھی۔ لیکن اللہ کے رسولؐ کے ایک حکم کی نافرمانی کی وجہ سے مسلمانوں کو شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ ستر سے زائد صحابہئ کرام شہید ہو گئے جن میں آپ کے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں۔ اللہ کے رسولؐ نے ایک پہاڑی پر پچاس تیر انداز تعینات کر دیے تھے اور ان کو حکم دیا تھا کہ وہ اس پہاڑی کو کسی بھی حال میں نہ چھوڑیں۔ لیکن جب خاتمہئ جنگ پر مسلمانوں نے مال غنیمت سمیٹنا شروع کر دیا تو چالیس تیر انداز اتر کر نیچے آگئے۔ حضرت خالد بن ولید نے جو کہ اس وقت تک مشرف بہ اسلام نہیں ہوئے تھے اور تاک میں تھے، حملہ کر دیا اور مسلمانوں کی شکست ہو گئی۔ جس مقام پر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہئ کرام کی قبریں ہیں اسے لوہے کی اونچی ریلنگ سے گھیر دیا گیا ہے۔ جب بہت سے لوگ وہاں خرافات و بدعات میں ملوث ہونے لگے تو وہاں شیشے کی دیوار بنا دی گئی۔ اس کے باوجود بہت سے لوگ یہ سوچ کر کہ وہ حضرت حمزہؓ کی قبر پر چڑھاوا چڑھا رہے ہیں وہاں عطر وغیرہ گراتے ہیں جس کے نشانات شیشے کی دیوار پر موجود ہیں۔ مولانا جاوید ندیم نے یہ بھی بتایا کہ چھوٹی پہاڑی پر شہید ہونے والے صحابہئ کرام کو وہیں آس پاس دفن کیا گیا تھا۔ اس جنگ کے 59 سال کے بعد اس علاقے میں سیلاب آیا تھا جس کی وجہ سے کچھ قبریں ظاہر ہو گئی تھیں۔ ایک بار وادی کی صفائی کی جا رہی تھی تو اس وقت بھی کچھ قبریں ظاہر ہوئی تھیں۔ اس وقت حضرت معاویہ ؓنے حکم دیا تھا کہ جن کے رشتے داروں کی لاشیں ہیں وہ وہاں سے ان کو ہٹا لیں۔ ان کو اٹھا کر ایک محفوظ مقام پر منتقل کیا گیا۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ نہ تو قرآن سے اور نہ ہی حدیث سے یہ بات ثابت ہے کہ شہدا کی لاشیں محفوظ رہتی ہیں لیکن تجربے سے یہ بات ضرور ثابت ہوئی ہے۔ لہٰذا جب وہاں سے لاشیں ہٹائی گئیں تو ایک صحابی کی لاش کے کان کے پاس سے خون بھی نکل رہا تھا۔ وہ بالکل تر و تازہ لاشیں تھیں۔
ہم لوگوں نے خندق کا پورا علاقہ بھی دیکھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ کہاں کہاں اللہ کے رسول ؐ خندق کا معائنہ کیا کرتے تھے، کہاں آپ نے دعائیں کیں اور کہاں اصحاب کرام کو ہدایتیں دیں۔ خندق کی کھدائی کے دوران ایک بہت اہم واقعہ پیش آیا تھا۔ ہوا یوں کہ اچانک ایک جگہ ایک بڑی سی چٹان آگئی جو ٹوٹ نہیں رہی تھی۔ اللہ کے رسولؐ نے ایک کلہاڑی لی اور ضرب لگائی تو چٹان ریزہ ریزہ ہو گئی۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورے پر خندق کھودی گئی تھی۔ اس لیے اس یاد کو باقی رکھنے کے لیے یہاں ایک مسجد تعمیر کرا دی گئی ہے جو انھی کے نام سے موسوم ہے۔ یہاں صحابہ کرام بیٹھ کر اللہ کے رسولؐ کے ساتھ میٹنگ کیا کرتے تھے۔ یہاں اوپر پہاڑی پر ایک چوکی بنی ہوئی ہے۔ وہاں اللہ کے رسولؐ نے صحابہ کرام کو تعینات کیا تھا تاکہ وہ نظر رکھیں کہ کفار مکہ کا لشکر کہاں تک پہنچا۔ اس کے پیچھے ایک اُطم تھا یعنی چھوٹا قلعہ جہاں آپ نے خواتین کو بحفاظت رکھا تھا۔ تھوڑا الگ ہٹ کر پہاڑی پر ایک جگہ آپ نے بیٹھ کر دعائیں کی تھیں۔ وہاں بھی ایک مسجد بنا دی گئی ہے۔ اب اس کو مقفل کر دیا گیا ہے۔ وہ چونکہ کافی اونچائی پر ہے اس لیے وہاں تک پہنچنے کے لیے طویل زینے بنائے گئے ہیں۔ یہاں بہت سی چھوٹی چھوٹی مسجدیں تھیں جن کو ختم کرکے ایک بڑی مسجد ”مسجد خندق“ کے نام سے تعمیر کر دی گئی ہے۔ یہ خندق صحابہئ کرام نے محض چھ دن کے اندر کھودی تھی۔ اس کی لمبائی تقریباً ڈھائی کلومیٹر، گہرائی تقریباً چار میٹر اور چوڑائی تقریباً چھ یا سات میٹر تھی تاکہ ایک تندرست گھوڑا بھی اس کو پھلانگ نہ سکے۔
انھوں نے یہودی سردار کعب بن اشرف کا قلعہ بھی دکھایا جس کے صرف نشانات باقی ہیں۔ اب اس جگہ کو تاروں سے گھیر دیا گیا ہے۔ کعب بن اشرف ایک مالدار شخص تھا۔ معاشرے میں اسے عزت حاصل تھی۔ وہ ایک شاعر بھی تھا۔ وہ اللہ کے رسولؐ اور صحابہئ کرام کا بدترین دشمن تھا۔ وہ نہ صرف رسول اللہؐ کی شان میں بلکہ صحابہ اور صحابیات کی شان میں بھی ہجو لکھتا اور لوگوں کو سناتا تھا۔ جب اس کی بیہودگی بہت زیادہ بڑھ گئی اور اللہ کے رسول ؐ کو اس سے بہت تکلیف پہنچنے لگی تو انھوں نے اس کے خاتمے کا فیصلہ کیا۔ ان کے حکم پر بعض صحابہ نے ایک منصوبہ کے تحت اسے ہلاک کر دیا۔ اس کی ہلاکت نے یہودیوں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
ہم لوگوں نے وہ کنواں بھی دیکھا جس کا نام بیر غرس ہے۔ یہ حضرت سعد بن خیثمہ کی ملکیت تھا۔ قبا کے کنوؤں میں بیر غرس کا بھی شمار ہوتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک بار رسول اللہ ؐبیر غرس تشریف لائے۔ ایک ڈول پانی منگوایا۔ اس سے وضو کیا اور بچا ہوا پانی کنویں میں ڈال دیا۔ اس کے بعد اس کا پانی کبھی خشک نہیں ہوا۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ آج میں نے خواب دیکھا کہ میں نے جنت کے ایک کنویں پر صبح کی۔ چنانچہ آپ صبح کو بیر غرس تشریف لے گئے۔ اس کے پانی سے وضو کیا اور اس میں اپنا لعاب دہن ڈالا۔ آپ نے اس کے لیے برکت کی دعا کی تھی اور کہا تھا کہ یہ جنت کے چشموں میں سے ایک چشمہ ہے۔ اب اس کے چاروں طرف کافی اونچی دیوار تعمیر کرکے اس کے اوپر سائبان رکھ دیا گیا ہے۔ مسجد قبا اور مسجد قبلتین کے قریب بیر رومہ ہے جسے بیر عثمان بھی کہا جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس کنویں کا پانی نہایت شیریں، لطیف اور پاکیزہ ہے۔ یہ جنتی کنواں کے نام سے بھی مشہور ہے۔ حضرت عثمان ؓ نے اس کنویں کو خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اس کنویں کے پانی سے آج بھی ملحقہ باغِ عثمان کو سیراب کیا جاتا ہے۔ یہ باغ سعودی وزارت زراعت کے زیر نگرانی ہے جس کی وجہ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہونے کے باوجود زائرین کو یہاں داخل ہونے میں دشواری پیش آتی ہے۔ اس کے گرد کھجوروں کا باغ اور ایک فارم بھی ہے۔ ہم نے وہ وادی بھی دیکھی جہاں شراب حرام ہونے کے بعد پھینکی گئی تھی اور شراب کی ندی بہنے لگی تھی۔ (جاری)
9818195929