تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں
https://chat.whatsapp.com/ 9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B
https://www.facebook.com/
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
[email protected]
9807694588(موسی رضا)
مضمون نگار: عارف نقوی (برلن)
آج سارے جرمنی میں یوم اتحاد منایا جا رہا ہے۔ مشرقی اور مغربی جرمنی کی ہم آغوشی کی ۳۴ ویںسالگرہ۔ شہروں میں کاروبار اور دُکانیں بند ہیں۔ جشن منائے جا رہے ہیں۔ موسم بھی اس وقت دن کے ۱۱ بجے بہت سہانا ہے۔ چمچماتی ہوئی دھوپ نکلی ہے۔ درجہ ء حرارت ۲۰ گراڈ ہے۔ لوگوں کے چہروں پر رونق اور بشاشی نظر آرہی ہے۔ حالانکہ محکمہء موسمیات کے اندازے کے مطابق تیسرے پہر کوبارش ہو سکتی ہے۔ کل سے ہی یہاں پر اسلامی مراکز کا ایک ہفتہ بھی منایا جا رہا ہے اور آج شام مجھے برلن کی سب سے پرانی مسجد کے امام نے ایک تقریب میں مدعو کیا ہے۔
دراصل جرمنی کے اتحاد کی اصلی تاریخ ۹؍نومبر ہے کیونکہ اس دن ۱۹۸۹ء میں برلن کی دیوار ٹوٹی تھی اور مشرق اور مغرب کے بیچ راستے پرامن طریقے سے بغیر کسی تصادم کے کھل گئے تھے اور رشتے داروں کو ایک دوسرے سے گلے ملنے کے مواقع فراہم ہوگئے تھے۔ اس وقت میری عمر ۵۵ برس کی تھی۔اب ۸۹ برس کی ہے۔ اپنے ۶۳ برس کے قیام میں مجھے جرمنی کی زندگی کو قریب سے دیکھنے کے مواقع حاصل ہوئے ہیں۔جدائی کی تکلیفیں، فرقت کا درد اور کسک ایک دوسرے سے وصال کی آرزوئیں اور تڑپ ، آپسی نوک جھونک اور الزامات اور پھر ہم آغوشی کے بعد کی مسرتیں اور شکوے شکایتیں، خوشیاں اور مایوسیاں۔ وہ زمانہ جب خطرناک سرد جنگ کے بعد ناٹو اور وارسا بلاک نے نفرت کی پالیسی کو چھوڑ کر امن اور خلوص کی پالیسیاں اپنانے کے وعدے کئے تھے، ایٹمی ہتھیار سازی میں کمی اور ساری دنیا کے ماحول کو بہتر بنانے کی قسمیں کھائی تھیں۔ لیکن پھر افغانستان، عراق، لیبیا اور دنیا کے دوسرے مقامات پر ان کے رنگ بدلتے گئے۔ یہاں تک کہ روس اور یوکرین کی جنگ اور اس میں دیگر حکومتوں کے ہتھیاروںکے کھیل منظر عام پر آرہے ہیں۔زرگری اور اسلحہ بندی ایک بار پھر معراج پر پہنچنے لگی ہے۔اورموسمیات کے مسائل ، قیمتوں میں اضافے، انسانی استحصال اور دیگر خطرناک مسائل کے خلاف لوگوں کی زبانیں بند ہو گئی ہیں، ان کی جگہ جھوٹی قوم پرستی، علاقائی اور فرقہ وارانہ نفرت اور توسیع پرستی کے خطرناک نعرے گونج رہے ہیں اور دنیا میں تانا شاہیوں کے لئے میدان صاف ہو رہے ہیں اور لوگوں کی خصوصاً دانشوروں کی آنکھوں پر پردے پڑ گئے ہیں۔
دراصل جیسا کہ میں نے عرض کیا جرمن اتحاد کے مبارک دن کی یادگار تو ۹؍ نومبر کو منانا چاہئے۔ لیکن یہ دن جرمن تاریخ کے شرمناک دنوں میں بھی شمار ہوتا ہے۔ ۹ ؍ نومبر ۱۹۱۴ء کو پہلی جنگ عظیم کے نتیجے میں ۹؍ نومبر ۱۹۱۴ء کو جرمن بادشاہ قیصر ولہم کو اپنی گدّی چھوڑنا پڑی تھی اور ۹؍ نومبر ۱۹۲۳ء کو ہٹلر نے میونخ میں مسلح بغاوت کرکے حکومت کو الٹنے کی کوشش کی تھی اور ۹ ؍ نومبر ۱۹۳۸ء کو ہی ہٹلر کے نازیوں نے ’’پوگروم‘‘ کے نام سے یہودی ٹھکانوں پر حملے کئے، انہیں مسمار کیا تھا اوربہت سے یہودیوں کو پکڑ کر کنسنٹریشن کیمپوں میں ڈالا تھا۔ اور دانشوروں کی کتابیں جمع کرکیان کے انبا جلائے تھے۔ اس لئے اس دن جرمن اتحاد کی سالگرہمنانا مناسب نہیں سمجھا گیا۔ بلکہ مشرقی اور مغربی جرمنی کی ہم آغوشی کی یادگار منانے کے لئے آج کا دن طے کیا گیا تھا۔لیکن میرے لئے جرمنی کے اتحاد اور ۹؍ نومبر ۱۹۸۹ء کی ایک خاص اہمیت ہے لیجئے ملاحظہ فرمائیے:
ریت کی دیوار
’’ فاٹی (پاپا) ، میں یہاں ہوں۔ بورن ہولمر اسٹراسسے پر!‘‘
میری بیٹی نے فون پر بتایا۔ اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی۔
بورن ہولمر اسٹراسسے نامی سڑک پر؟ مگر یہ مشرقی برلن میں ہے۔ اور میری بیٹی تو مغربی برلن میں رہتی ہے۔مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ لگا جیسے خواب دیکھ رہا ہوں۔میں جلدی سے تیار ہوا اورکار سے اس طرف روانہ ہو گیا۔
یہ ۹؍ نومبر ۱۹۸۹ء کی ایک خنک رات تھی۔ اتفاق سے آج شام کو میں پریس کانفرنس میں نہیں گیاتھا۔ میری طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی۔ روز پریس کانفرنسوں اور صحافی دوڑ بھاگ سے اکتا کر آج میں کم سے کم ایک رات آرام کرنا چاہتا تھا۔اور بستر پر لیٹتے ہی فوراً سو گیا تھا۔کسی نئے واقعے کی امید نہیں تھی۔ مگر اب نرگس کے فون نے مجھے جگا دیا تھا اور میںاڑ کر اس تک پہنچنا چاہتا تھا۔ میرے گھر سے بورن ہولمر اسٹراسسے تک غالباً چار یا پانچ کیلو میٹر کا فاصلہ تھا۔
سڑکوں پر میلوں تک گاڑیوں کی قطاریں لگی ہوئی تھیں، ہارن زور زور سے بج رہے تھے لال ، پیلی اور ہرہی بتیوں کی کسی کو پروا نہیںتھی۔ پاپ میوزک کی آوازوں سے کان پھٹے جا رہے تھے۔ نہ کوئی پولیس والا نظر آتا تھا نہ ٹریفک کانسٹبل۔ لگتا تھا پولیس راج بغیر پولیس کے چل رہا ہے ۔بورن ہولمر پر مشرقی برلن کےچیک پوائنٹ کو کھول دیا گیا تھا اور اب شہر کے دونوں طرف کے لوگ آسانی سے آ جا رہے تھے۔ کندھے سے کندھا چھل رہا تھا۔
’’ فاٹی‘‘ ، میں یہاں ہوں!‘‘
میری بیٹی کی آواز پھر سنائی دی۔ وہ ایک فٹ پاتھ پر کھڑی ہاتھ ہلا رہی تھی۔میں اس سے پہلے بھی کئی بار اس سڑک پر سے گزر چکا تھا۔ اس سڑک پر مغربی برلن کے قریب جی ڈی آر کی ایک فوجی چوکی تھی جہاں سے مغربی جرمنی کے باشندے یا غیر ملکی ڈپلومیٹ اور جرنلسٹ اپنے شناختی کارڈ دکھانے کے بعد گزرسکتے تھے۔مگر مشرقی جرمنی کے لوگوں کومغرب میں جانے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن آج وہاں نہ کوئی ٹوکنے والا تھا نہ پاسپورٹ پوچھنے والا۔بس ایسا لگتا تھا جیسے میں کسی میلے میں پہنچ گیا ہوں۔ ہر طرف لوگ شور مچا رہے تھے ، خوشی سے ناچ رہے تھے۔ایک دوسرے کو مبارکبادیں دے رہے تھے۔میرے ذہن میں خیالات کا ایک ہجوم موجزن تھا۔
میں ۲۸ ؍برس قبل۱۹۶۱ء میں مشرقی جرمنی میں آیا تھا۔ یہ وہ سال تھا جب۱۳؍ اگست کو مشرقی جرمنی یعنی جی ڈی آرنے اپنی سرحدیںبند کر دی تھیںاور جرمنی کے دونوں حصوں یعنی مغربی اور مشرقی جرمنی کے بیچ آمدو رفت بند ہو گئی تھی اور لاکھوںخاندن بٹ کر رہ گئے تھے جیسے ہندوستان اور پاکستان یا شمالی اور مغربی کوریا کے لوگ۔ ہمیں تو بس یہ بتایا گیا تھا کہ مشرقی جرمنی کی سرکار نے یہ کارروائی مغرب کی ریشہ دوانیوں سے تنگ آکر کی ہے جو مشرق کی معیشت کو کھوکھلا بنانا اوریہاں کے محنت کشوں کو ورغلا کرمغرب میں لے جانا اور اشتراکیت کو مٹانا چاہتی تھی۔ ہمیں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ مشرق میں سچی جمہوریت اور اشتراکیت ہے۔ پرانی جنگ و زرگری کی بنیادوں کو ختم کر دیا گیاہے۔ استحصال کی جڑوں کو مٹا دیا گیا ہے۔ امیر و غریب کا فرق اب نہیں ہے۔ نسلی امتیاز اور جنگ و جدل کو لعنت سمجھا جاتا ہے۔اور امن و اخووت ، دوسرے ملکوں سے دوستی اور محبت کے سرگم گونجتے ہیں۔خصوصاً پسماندہ اور پچھڑے ہوئے ملکوں کی حمایت کی جاتی ہے۔
میں نوعمری سے ہی سماجی نا برابری ، استحصال اور ظلم و ستم کا مخالف رہا ہوں ، ہندوتان کی آزادی کے وقت مذہبی جنون اور ایک کروڑ انسانوں کے قتل عام اور پھر ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر ایٹم بم سے لاکھوں بے گناہوں کے ہولناک قتل عام سے متاثر ہو چکا ہوںاور اس سب کی نجات اشتراکیت میں نظر آئی ہے اوراقبال کے ان اشعار کا دلدادہ ہوں:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
اور
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
اور مجاز کے الفاظ
زمانے سے آگے تو بڑھئیے مجاز
زمانے کو آگے بڑھانا بھی ہے
اور ڈرامے ’’سرائے کے باہر ‘‘ میں کرشن چندر کے ڈائلاگ ہمارے کانوں میں گونجتے تھے :
’’اگر یہ قوس و قزح ہر آنکھ میں نظر آجائے تو ہماری یہ سامنے والی کھڑکی ہمیشہ کے لئے کھل جائے گی۔‘‘
اس لئے بہت سی باتیں جو ہمیں یہاں پر بتائی جاتی تھیں ہمیں اپنے دل کی آوازیں لگتی تھیں اور ہم انھیں قبول کر لیتے تھے۔ لیکن جیوں جیوں وقت گزرتا جاتا تھا ذہن میں نئے نئے سوالات کلبلاتے تھے۔مثلاً یہ کہ یہاں کے لوگ اپنی حکومت پر اعتماد کیوں نہیں کرتے؟ اگر انھیں موقع ملتا ہے تو مغرب میں کیوں بھاگ جاتے ہیں؟ یہاں کی سرکار کو اپنے عوام پر اعتماد کیوں نہیں ہے؟ بہت سی کھانے پینے کی ضروری چیزیں کیوں مہیا نہیں ہیں، جبکہ وہ ہندوستان جیسے پچھڑے ملک میں بھی مل جاتی ہیں؟ میرے ایک دوست سرل سین کی بیوی کو شکایت تھی کہ ان کی بچی کیلے کھانے کے لئے ترستی ہے۔لیکن سب سے زیادہ پریشان کن سوالات یہ تھے کہ یونی ورسٹی میں پروفیسروں کی کینٹین، ملازمین کی کینٹین، ریسرچ اسکالروں کی کینٹین اور طلباء کی کینٹین الگ الگ کیوں ہیں؟۔ ان میں ملنے والے کھانوں اور ان کے داموں میں فرق کیوں ہے؟ جی ڈی آر کے پاس اگر پیسے نہیں ہیں تو بعض پروفیسروں کو بے پناہ تنخواہیں کیوں دی جاتی ہیں جبکہ یو نیورسٹی کے عام ٹیچروں کو تنخواہیں بہت کم ملتی ہیں؟ پھر جی ڈی آرکی سرکار نے جگہ جگہ مخصوص دوکانیں Intershopsکیوں کھول رکھی ہیں جہاں صرف غیر ملکی ہارڈ کرنسی میں ہی بہترین مال خریدے جا سکتے ہیں اور اس طرح ملک کے اندر دو طبقے پیدا ہو گئے ہیں۔ وہ لوگ جن کے رشتے دار مغرب میں رہتے ہیں اور انھیںمغربی کرنسی حاصل ہے اور دوسرے وہ جن کے رشتے دار مغرب میں نہیں ہیں یا وہ اشتراکیت کے اتنے سچے وفادار ہیں کہ انھوں نے اپنے مغربی رشتے داروں اور دوستوں سے سارے تعلقات توڑ لئے ہیں اورگھٹیا چیزوں پر بسر کرنے کے لئے مجبور ہیں؟اور ایک طرح سے اشترکیت سے وفاداری کی اشتراکی ملک میں ہی سزا پا رہے ہیں۔یہ اور اس قسم کے لاتعداد سوالات وقت کے ساتھ بڑھتے جا رہے تھے۔ خصوصاً جب سے میں نے اپنی یونی ورسٹی اور اس کے بعد ریڈیو پر ملازمت کے زمانے میں غیر ملکی صحافی کی حیثیت سے مختلف ہندوستانی اخبارات اور پھر آل انڈیا ریڈیو اور پریس ٹرسٹ آف انڈیا کے لئے کام کرنا شروع کیا تھا ،جس کی وجہہ سے مجھے مغربی برلن اور مغربی جرمنی میں آنے جانے کی پوری اجازت تھی اور ساتھ ہی پی ٹی آئی وغیرہ کی طرف سے ڈالر میں رقم ملنے لگی تھی ۔میں مغرب سے اپنے یا اپنی فیملی کے لئے کوئی بھی چیز لا سکتا تھا۔اور میرے بہت سے دوست احباب رشک کرنے اور طعنے کسنے لگے تھے۔ مجھے خود بھی کبھی کبھی اس بات پر شرم آتی تھی کہ اشتراکی ملک میںمجھے وہ سہولتیںحاصل ہیں جو میرے بہت سے دوستوں اور ساتھیوں کو نہیں ہیں۔ مثلاً یہ کہ میرے پاس مرسیڈیس کار تھی جبکہ ہمارے ریڈیو کے جنوبی مشرقی شعبہ کا صدر اس بات پر ہی خوش تھا کہ اس کے پاس کسی طرح سے جی ڈی آر کی ٹرابانٹ کار ہو گئی ہے ، جو گھٹیا درجے کی کار مانی جاتی تھی۔یا میں ڈپلو میٹک دوکان Versinaسے نہایت ہی سستی چیزیں خرید سکتا تھا،جن کے لئے میرے بہت سے دوست ترستے تھے۔ اوراگر کبھی کار خراب ہوگئی تو میکینک کو ایک بوتل برانڈی یا ایک کارلٹن سگریٹ تحفے میں دے دیتا تھا اور وہ گھر پر آکر کارٹھیک کر جاتا تھا۔
انسانی ذہن کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ کبھی کبھی بہت سی چیزیں دیکھنے کے بعد بھی ان پر یقین کرنا نہیں چاہتا۔شاید یہی حال ہم لوگوں کا بھی تھا۔ تلخ باتوں سے چونکہ انسان کو تکلیف ہوتی ہے اس لئے اکثر وہ جواز ڈھونڈھنے کی کوشش کرتا ہے۔ چنانچہ جی ڈی آر کی تمام کمزوریاں ہمیں اس کی مجبوریاں نظر آتی تھیں ۔ جن کی وجہہ ہمیں یہ سمجھ میں آئی کہ یہاں کے حالات ہی شروع سے ناسازگار تھے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہاں کی سرکار لوگوں کے آرام و آسائش کے لئے کچھ کرنا ہی نہیں چاہتی ہے۔
کوآپریٹیوفارم کے ماڈل نے سب سے زیادہ متاثر کیا۔ یہاں آنے کے بعد ہر قدم پر ہمیں جی ڈی آر کی ترقی کی داستانیں، مغرب کی ریشہ دوانیوںکے قصے ۔نازی وحشت و بربریت اور اشتراکیوں کی قربانیوںکی کہانیاں سننے کو ملیں۔ہمیں یہ بتا یا گیاکہ جی ڈی آر پچھڑے ہوئے ملکوں کی مدد کرتا ہے کیونکہ وہ سچے دل سے مساوات،امن اور بھائی چارے میں یقین رکھتا ہے اور نازی ازم، نسل واد اور سرمایہ داری کی جڑوں کو اکھاڑ پھینک دیا گیا ہے۔ساتھ ہی مغربی جرمنی کی تصویرہمارے سامنے ایک سرمایہ دار، جارحیت پرست اور جنگ باز ملک کی پیش کی جاتی تھی جہاں پرانے نازی معیشت پر پھر سے چھا گئے ہیںاورملک کو سامراجیت کی طرف لے جا رہے ہیں۔یہاں آنے کے بعدجب میں نے دونوں ملکوں کے پریس کی رپورٹوں کو دیکھا تو ان میں صرف ایک دوسرے کی برائیاںتھیں۔ جی ڈی آر کے پریس سے اگر یہ گمان ہوتا تھا کہ مغرب میں سبھی نازی ، منافع خور اور جنگ باز ہیں تو مغرب کے پریس میں مشرقی جرمنی میںاشتراکی تانا شاہی، جمہوریت کے عنقاء اور بڑھیا چیزوں سے لوگوں کی محرومی کی داستانیں اور تصویریں بھری رہتی تھیں۔ چنانچہ اب ہم حالات کا یک طرفہ جائزہ لینے کی بجائے دونوں پہلوئوں سے غور کر نے لگے تھے۔
۲۵ ؍مئی ۱۹۶۴، کو انگرڈ کے ساتھ میرا عقد ہوا۔ اس موقعے پردعوت میں انگرڈ کی والدہ اور دیگر رشتے داروں کے علاوہ ہربرٹ فشر، جو نئی دہلی میں جی ڈی آرمشن کے سربراہ رہ چکے تھے، اور اپنی نوجوانی کے زمانے میں مہاتما گاندھی کے ساتھ ان کے آشرم میں رہ چکے تھے نیز ان کی اہلیہ مسز لوسی فشر اور ایک جرمن صحافی کرائپے اور ان کی اہلیہ اور کئی ہندوستانی دوست جیسے سنیل سین گپتا، سبرتا چٹرجی وغیرہ موجود تھے۔ مجھے یاد ہے سنیل سین رات کو ہر آدھے گھنٹے کے بعد زچہ خانے میں فون کر کے اپنی اہلیہ کارین کی خیریت معلوم کرتے تھے، کیونکہ وہ وہاں پر بھرتی تھیں۔ انگرڈ کے ددیہالی رشتے دار موجودنہیں تھے۔ اس کے والد ہرمان روئش مغربی جرمنی کے شہر کیل میں تھے اور دوسری جنگِ عظیم کے بعد سے کبھی برلن نہیں آئے تھے، انھوں نے انگرڈ کی والد ہ سے طلاق لے لی تھی اور ایک دوسری خاتون سے کیل میں شادی کر لی تھی۔ انگرڈ کی دادی کبھی کبھی اپنی پوتی کو تحفے بھیج دیا کرتی تھیں مگر اس نے اپنی دادی، دادا اور چچا، چچی کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ وہ بلیک فارسٹ میں رہتے تھے اور پتہ نہیں کیوں برلن آنےسے پرہیز کرتے تھے۔
ہماری شادی کے بعدجب انگرڈ نے انھیں میری تصویر بھیجی تو ایک دن انگرڈ کی دادی نے مجھے مغربی جرمنی کے پہاڑی مقام بلیک فارسٹ میں آ کر جاڑوں کی چھٹیاں گزارنے کی دعوت دی۔ وہ وہاں کے قصبے آخرن میں رہتی تھیں۔مجھے ابتدا میں وہاں جانے میں کچھ جھجھک ہوئی کیونکہ میں نے سن رکھا تھا کہ مغربی جرمنی کے لوگ ہندوستانیوں کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ مگر جب میں ٹرین سے وہاں پہنچا تو انگرڈ کی دادی ، داد ا اور چچازاد بھائی بہنوں نے اتنی گرم جوشی سے میرا استقبال کیا اور اس قدر خاطر تواضع کی کہ میں حیرت اچھے اور برے لوگ ہر ملک، ہر مذہب ، ہر سوسائٹی ، ہر قبیلے اور ہر خاندان میں ہوتے ہیں۔بعد میں جب انگرڈ کی دادی کا انتقال ہوا تو میں اپنی بیٹی کو لے کر بلیک فارسٹ گیا جہاں انگرڈ کے والد ہرمان روئش سے بھی ملاقات ہوئی۔ وہ بھی بہت اچھی طرح سے ملے اور مجھے اور نرگس کو اپنی کار سے جی ڈی آر کی سرحد تک چھوڑنے کے لئے آئے۔ اب میرے لئے مغرب اور مشرق کے لوگوں کی انسان دوستی کے بیچ فرق ڈھونڈھنا مشکل ہوگیا۔ہاں سیاسی طور پر ابھی بھی میرے دل میں جی ڈی آر کا احترام زیادہ تھا، کیونکہ وہ اشتراکی ملک تھا۔البتّہ یہ گتھی سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ اگر اشتراکی ہے تو خود کو اشتراکی جمہوریہ کیوں نہیں کہتا ؟ جرمن جمہوری ری پبلک کیوں کہتا ہے؟ اور سیدھے سیدھے کمیونسٹ پارٹی کی سرکار کیوں نہیں ہے؟ پانچ سیاسی پارٹیوں (سوشلسٹ یونیٹی پارٹی ، کرسچین ٍجمہوری پارٹی، لبرل جمہوری پارٹی ، نیشنل جمہوری پارٹی اور کسان پارٹی )کی مخلوط سرکار کیوں ہے۔ جبکہ ہر بات میں سوشلسٹ یونیٹی پارٹی کی کا ہی حکم چلتا ہے؟
کچھ سال بعد میرے پھوپھی زاد بھائی یوسف محمود علی نے لندن سے مجھے اور میری بیوی اور بیٹی کو چھٹیاں گزارنے کے لئے اپنے وہاں دعوت دی ۔ میں کیونکہ غیر ملکی صحافی بھی تھا اس لئے یہاں پر میرے حقوق بھی کچھ زیادہ ہی تھے۔ پھر بھی جی ڈی آر کے قوانین کے مطابق پہلے انگڑد کو اپنے دفتر میں درخواست دینا تھی۔ پھر اس کے بعد منسٹری کو فیصلہ کرنا تھا۔ چنانچہ انگرڈ نے دو درخواستیںداخل کیں: برطانیہ کے سفر کے لئے اجازت کی اور دوسری درخواست کہ وہ اپنے والد کی ۷۰ ویں سالگرہ میں شرکت کے لئے کیل( مغربی جر منی) جانا چاہتی ہے۔ ہفتوں انتظار کرنے کے بعد برطانیہ جانے کے لئے انگرڈ کی درخواست قبول کر لی گئی، مگراسے اپنے والد کی سالگرہ میں شرکت کے لئے جانے سے منع کر دیا گیا۔ جب کوئی چارہ نہیں رہ گیا تو میں ایک دن جی ڈی آر کی وزارت خارجہ میں پہنچا اور وہاں وِ ٹوَر نامی جو صاحب ایشیائی صحافیوں کے لئے ذمے دار تھے ان سے مل کر دو ٹوک باتیں کیں:
’’ میری اہلیہ کو انگلینڈ جانے کی آپ لوگوں نے اجازت دی ہے ۔ اس کا شکریہ ۔ لیکن مغربی جرمنی کے سفر کے لئے اس کی درخواست کو رد کرکے زیادتی کی گئی ہے۔ میں اسے مناسب نہیں سمجھتا ہوں۔ دیکھئے میں اتنا مالدار نہیں ہوں کہ اپنی اہلیہ کے ساتھ ہوائی جہاز سے سفر کروں۔ میں ریل سے مغربی جرمنی سے ہوتا ہوا جائوں گا۔ اور آپ پسند کریں یا نہیں وہ اپنے والد سے ضرور ملے گی۔اور اگر برطانیہ کے لئے سفر کی اجازت بھی واپس لی جائے گی تو میرے پاس سوائے اس کے اور کوئی راستہ نہیں ہے کہ اپنی بیوی اور بچی کو لے کر ہندوستان چلا جائوں ۔پھر ہم وہاں سے کہاں جائیں گے اس پر کسی کو اختیار نہیں ہوگا۔میں کیوںکہ ایک غیر ملکی صحافی کی حیثیت سے آپ کی وزارت میں اکریڈیٹڈ ہوں اور آپ لوگوں سے ہمارے اچھے تعلقات ہیں اس لئے میرے دل میں جو بات تھی آپ سے کہہ دی ہے۔تاکہ بعد میں آپ کوشکایت نہ ہو کہ میں نے نہیں بتایا۔ ‘‘ وِٹوَر شاید اس دو ٹوک گفتگو کے لئے پہلے سے تیار نہیں تھے۔ اس لئے کوئی واضح جواب نہیں دیا۔ بس اتنا کہا:
’’ ہو سکتا ہے، کہ اُن کے دفتر والوں کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہو۔ اپنی اہلیہ سے کہئے پھر سے رجوع کریں۔‘‘میں نے بھی زیادہ بحث نہ کی۔ بات کا رخ بدل دیا اور جی ڈی آر کے کچھ مسائل کے بارے میں پوچھنے لگا۔چند دن بعد میری اہلیہ نے بتایا کہ ان کے دفتر والوں نے انھیں بلا کر کہا ہے کہ وہ اپنی درخواست دوبارہ داخل کر سکتی ہیں۔اور اس طرح اسے دونوں جگہ جانے کی اجازت مل گئی۔ ہم پہلے ریل سے مغربی جرمنی کے شہرہمبرگ گئے۔ انگرڈ کے والد وہاں اسٹیشن پر ہمارا انتظار کر رہے تھے ۔ وہاںسے ہم ان کے ساتھ ’کیل ‘گئے۔ وہاں کئی دن انگرڈکے والد اور ان کی دوسری بیوی ’کاتیا روئش‘ کے ساتھ گزارے ۔ پھر انھیں کی کار سے ہالینڈ میں امسٹرڈم اوربندرگاہ ہوک آف ہالینڈ گئے اور وہاںسے پانی کے جہاز سے لندن کے لئے روانہ ہو گئے۔ لندن۔ مانچسٹر اور بلیک برن میں چھٹیاں گزارنے کے بعدبروسلس پیر س اور بلیک فارسٹ ہوتے ہوئے اور انگرڈ کے ددیہالی رشتے داروں سے ملتے ہوئے برلن واپس لوٹے۔مجھے حیرت تھی کہ انگرڈ کے والد تقریباً ایک ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کر کے ہم سے ملنے کے لئے کار سے بلیک فارسٹ تک آئے اور جی ڈی آر کی سرحد تک ہمیں چھوڑنے کے لئے گئے تھے۔ انگرڈ اور ان کے درمیان چالیس سال کی دوری ختم ہو گئی تھی ۔ باپ اور بیٹی نے ایک دوسرے کو پالیا تھا۔انھیں دنوں ایک واقعہ یہ ہوا ،کہ میری بیٹی جو شروع سے میرے پاسپورٹ میں بحیثیت ہندوستانی درج تھی، کیونکہ اس کی پیدائش کے فوراً بعد ہی میں نے مغربی برلن جا کر ہندوستانی قونصل خانے میں اس کی رجسٹری کر دی تھی، اس کا نام جی ڈی آر کے ویزا ڈیپارٹمنٹ نے میرے پاسپورٹ کے ویزا والے صفحے سے خارج کر دیا اور کہا کہ وہ ہندوستانی نہیں جرمن ہے، کیونکہ یہاں پیداہوئی ہے۔ اب وہ آزادی سے ہر وقت میرے ساتھ مغربی برلن یا مغربی جرمنی نہیں جا سکتی تھی۔میں نے اس اقدام کی شکایت ہندوستانی سفارت خانے میں کی، فرسٹ سکریٹری رندھاوا نے اس سلسلے میں کاروائی کا وعدہ کیا ،مگر بس وعدوں پر ٹالتے رہے ۔شاید وہ اس بات پر جی ڈی آرکے ساتھ تعلقات خراب نہیں کرنا چاہتے تھے۔ان کا کام تو جی ڈی آر سے ہندوستان کے تعلقات سنوارنا تھا پیچیدگیاں پیدا کرنا اور خراب کرنا نہیں۔البتہ اب یہ بات صاف ہو گئی تھی کہ ہر ایک کے سامنے صرف اسکے اپنے مفاد اور اصول ہیں۔ اور مجھے یہ سوچنا پڑ رہا تھا کہ اور کتنے دن یہاں قیام کرنا ہوگا۔اس دوران جی ڈی آر سرکار یہ فیصلہ کر چکی تھی کہ خاص اہم موقعوں پر تقریبات میںشرکت کے لئے سگے رشتے دار جی ڈی آر سے مغربی جرمنی جا سکتے ہیں۔ چنانچہ جب انگرڈ کے والد نے اپنی شادی کی ۲۵ ویں سالگرہ ’کیل‘ میںمنائی (دوسری شادی کی) تو اس میں شرکت کے لئے انگڑدڈ کو تو اجازت دیدی گئی مگر میری بیٹی نرگس کو منع کر دیا گیا۔ میں نے بہت کوشش کی مگر کوئی فائدہ نہ ہوا۔
پھر وہاں سے واپسی سے ایک دن قبل ہملوگ رات کا کھانا کھا رہے تھے کہ انگرڈ کی والدہ کا فون برلن سے آیا ۔’’ جی ڈی آر کے ویزا ڈیپارٹمنٹ والوں نے فون کرکے بتا یا ہے کہ نرگس اگر چاہے تو جا سکتی ہے۔‘‘
مگر اب کوئی فائدہ نہیں تھا ۔ اگلے دن ہم لوگ خود برلن واپس روانا ہونے والے تھے۔ اب ایسی اجازت سے کیا فائدہ۔ایسا لگا جیسے جان بوجھ کرزخم پر نمک چھڑکا گیا ہے۔ بہرحال اس سے اور بد مزگی ہو گئی اور دل میں آپ ہی آپ ایک خلش سی پیدا ہو گئی ۔اسی زمانہ میں مجھے آل انڈیا ریڈیوکی طرف سے ملازمت کا آفر ملا اور نئی دلی میں کام کرنے کے لئے بلایا گیا۔ تحریری امتحان ہندوستانی سفارت خانے میں لیا گیا اور براڈکاسٹنگ کا ٹسٹ ریڈیو اسٹیشن کے اسٹوڈیو میں۔ میں نے دونوں امتحان بخوبی پاس کر لئے اور فیصلہ کر لیا کہ اب ہمیشہ کیلئے ہندوستا واپس چلا جائوں گا۔ یہ ۱۹۷۷ء کی بات ہے۔ مگر جب دہلی پہنچا تو لو ک سبھا کے الکشن کا اعلان ہو چکا تھا اور ایسا لگ رہا تھا جیسے اندراگاندھی کی سرکار ، جس نے مجھے یہ پیش کش کی تھی الکشن میں ہار جائے گی ۔ اس لئے جب ’ایکسٹرنل سروسز‘ کے ڈائرکٹر نے مجھ سے پوچھا:’’ نقوی صاحب آپ نے ہماری پیشکش کا جواب نہیں دیا‘‘ ، تو مجھے ان سے کہنا پڑا:
’’ابھی کچھ دن اور رک جائیے۔‘‘
پھر وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا ۔ مسز گاندھی الکشن میںبری طرح سے ہار گئیں۔ میں اندنوں نئی دہلی میں ششی بھوشن ایم۔پی۔ کے گھر پر مقیم تھا، جن سے اچھی دوستی ہو گئی تھی۔ انھوں نےجہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے دہلی میں جن سنگھ کے لیڈر بلراج مدھوک کو ہرایا تھا اور اس بار اٹل بہاری باجپئی کے خلاف الکشن لڑ رہے تھے۔ ایک دن صبح ابھی ہماری آنکھ کھلی ہی تھی کہ فون کی گھنٹی بجی۔ششی جی نے مجھے بتایا کہ پی ایم ہائوس سے فون تھا۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ تازہ رپورٹ یہ ہے کہ’’دہلی میں ہم سب سیٹیں ہار جائیں گے۔‘‘ پھر خود ہی بولے: ’’ مگر میں اپنی سیٹ جیت لوں گا۔‘‘
میں ان کا دل نہیں توڑنا چاہتا تھا۔ حالانکہ میں دیکھ رہا تھا کہ آندھی کس طرف چل رہی ہے۔اب میںالکشن کا انجام اور ششی جی کا ہارا ہوا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتا تھا۔چنانچہ میں نے سنیل دت کو بمبئی (ممبئی) فون کیا۔ وہ گھر پر نہیں تھے۔ نرگس بھابھی نے بتایا کی وہ شوٹنگ پر گئے ہوئے ہیں، مگر تم آجائو ۔ تب تک وہ بھی واپس آجائیں گے۔ الکشن سے دو دن قبل میں بمبئی چلا گیا اور وہاں پالی ہِل پر ان کے گھر میںنرگس دت اور سنیل دت کا مہمان رہا۔ میںشام کو ممبئی پہنچا تو اس وقت نرگس بھابھی گھر پر نہیں تھیں۔ تھوڑی دیر بعد وہ بھی آگئیں۔
کچھ پریشان سی لگ رہی تھیں۔ رات کے کھانے پر کہنے لگیں: ’’عارف ، آج عجیب بات ہوئی۔اس سے پہلے جب بھی میںکسی جلسے میں جاتی تھی تو لوگ زوردار استقبال کرتے تھے۔ آج میں جب کانگریس کی الکشن میٹنگ میں تقریر کررہی تھی، تو ایک عورت نے مجھ سے کہا: ’آپ کو مدر انڈیا کا اپنارول یاد ہے؟ آپ نے گائوں کی لاج بچانے کے لئے اپنے بیٹے کو گولی مار دی تھی۔ آپ یہ مسز گاندھی سے کیوں نہیں کہتیں؟‘‘
ان کا خیال تھا کہ مسز گاندھی سچّی قوم پرست، جمہوریت پرست اور ایماندار رہنما تھیں۔بہت سی غلطیاں ان سے منسوب کی گئی ہیں ، مگر مسز گاندھی پر ان کے لئے الزام لگانا غلط ہے۔ بہرحال میں الکشن سے ایک دن قبل کراچی چلا گیا اور وہاں پر کچھ دن رشتے داروںکے ساتھ گزارنے کے بعد جرمنی واپس آگیا۔ مگر اب یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ میں جی ڈی آر میں ہمیشہ نہیں رہ سکوں گا۔ البتہ مسز گاندھی کی شکست کے بعدنئی سرکار نے میرا سالانہ کنٹریکٹ ایک سال کے بعد پھر سے بحال نہیں کیا ۔ اس دوران مجھے ہندوستان کی سب سے بڑی نیوز ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیانے جی ڈی آر اور مغربی برلن کیلئے اپنا نمائندہ بنا لیا اور میری ذمے داریاں بڑھ گئیں۔ میں اب پی ٹی آئی کے نمائندے کی حیثیت سے سرگرم تھا اوریہاں پر کامیاب غیر ملکی صحافیوں میں شمار کیاجا تا تھا۔
وقت گزرتا گیا ۔عالمی سطح پر تنائو میں کمی ہوئی ۔ جی ڈی آر میں بھی لوگوں کو کچھ سہولتیں ملنے لگیں۔ مختلف ممالک کے سفارت خانے کھل جانے اور مغربی اخبارات ا ور ٹی وی کے نمائندوں کے یہاں پر آجانے کے بعد سے ماحول میں کافی تبدیلیاں ہو رہی تھیں۔ خود جی ڈی آر سرکار مغربی ممالک سے سفارتی و معاشی تعلقات بڑھانے کے لئے کوشاں تھی۔ ساتھ ہی سوویت یونین میں گورباچوو کی گلاس نوس کی پالیسی کی وجہہ سے مشرقی یوروپ کے لوگوں میں نئی لہر پیدا ہو گئی تھی اوربہت سے لوگ مغربی جرمنی جانے کے لئے مظاہرے کرنے لگے تھے۔ انھیں دنوں یہ خبر آئی کہ انگرڈ کے والد کا کیل میںانتقال ہو گیا ہے۔ ان کی بیماری کی خبر ہمیں ان کی دوسری بیوی نے نہیں دی تھی۔ اب اچانک اس خبر نے ہمیں پریشان کر دیا تھا۔ اس دوران جی ڈی آر میں یہ قانون بن گیا تھا کہ اگر کوئی سگارشتہ دار مغربی جرمنی میں شادی بیاہ اور تعزیت میں شرکت کے لئے جانا چاہتا ہے تو اس کو اجازت دے ی جائے گی۔ چنانچہ میںانگرڈ اور نرگس کو لے کر کیل گیا اور تجہیز و تکفین میں شرکت کی۔مگر اب ہمیں یقین ہو گیا تھا کہ شاید یہ مغربی جرمنی میں انگرڈ اور نرگس کا آخری سفر ہے۔کیونکہ نہ تو اب انگرڈ کے والد زندہ تھے اور نا ہی دادا اور دادی ۔ اب وہاں جانے کا کوئی قانونی جواز نہیں رہ گیا تھا۔
چنانچہ کیل سے واپسی میں جب مغربی برلن میں پہنچ کر نرگس اور انگرڈ نے وہیں رہنے کی خواہش ظاہر کی تو میں اس کی مخالفت نہیں کر سکا۔ یہ ان کا اپنا ، اور ان کے مستقبل کا معاملہ تھا۔ حالانکہ مجھے اسی دن مشرقی برلن واپس آکر مسائل کا سامنا کرنا تھا، مگر مجھے اس کی کوئی فکر نہیں تھی۔ ان دونوںکا مستقبل زیادہ اہم تھا ۔ میں ہر وقت وہاں جا کر ان سے مل سکتا تھا۔انھیں دنوں ایک دن ایک نوجوان ’’ ایم‘‘ میرے پاس آیا اور بولا کہ وہ مغربی برلن جانا چاہتا ہے ۔ میں اسے اپنی کارکی ڈکی میں چھپا کر وہا لے جائوں۔ کیوں کہ میں غیر ملکی صحافی ہوں میری کار کی تلاشی نہیں ہو گی۔لیکن یہ میرے لئے ایک جرم تھا ۔ آج تک میں نے ایسا کوئی کام نہیں کیا تھا، جو قانون کے خلاف ہو۔اس لئے میں نے انکار کر دیا۔ بعد میں اس نے مایوس ہو کر اوڈر نیسی دریا کو پار کر کے پولینڈ جانے اور وہاں مغربی جرمنی کے سفارتخانے میں پناہ لینے کی کوشش کی مگر پہرا اتنا سخت تھا کہ دریا پار کرنے کی ہمت نہ پڑی ۔ پھر اس نے پراگ جانے اور وہاں قسمت آزمائی کی کوشش کی۔ لیکن وہاں بھی پہرا بہت سخت تھا۔
بہر حال اب انگرڈ اور نرگس مغربی برلن میں مقیم تھیں۔ میں روز وہاں جا کر ان کی خیریت دریافت کرتا تھا اور کافی وقت اس میں نکل جاتا تھا۔ جی ڈی آر میں کیونکہ ان دنوں بہت تیزی سے سیاسی تبدیلیاں ہو رہی تھیں۔ چاروں طرف مظاہرے ہونے لگے تھے۔ پارٹی اور سرکار کی لیڈرشپ میں بھی تیزی سے تبدیلیاں ہورہی تھیں۔اور روسی پشت پناہی ایک طرح سے غائب ہو چکی تھی اس لئے کسی کو انگرڈ اور نرگس کی غیر موجودگی کی بھی فکر نہ تھی۔ اب اچانک نرگس کا فون آیا تھا: ’’فاٹی، میں یہاں ہوں۔بورن ہولمر اسٹراسسے پر۔‘‘
وہ لوگوں کی بھیڑ میں فٹ پاتھ پر ایک طرف کھڑی ہاتھ ہلا رہی تھی: ’’ یہاں، یہاں، میں یہاں ہوں۔‘‘
٭٭٭٭٭