نو جوان نسل میں تمباکواور دیگر منشیات کا بڑھتا رجحان

0
330

تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں

https://chat.whatsapp.com/9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B

https://www.facebook.com/urduavadhnama?mibextid=ZbWKwL


اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

[email protected] 

9807694588(موسی رضا)


مضمون نگار: نثار غنائی

اس میں کوئی شک نہیں کہ جموں کشمیر میں بھی گزشتہ کئی ماہ سے نشہ مکت بھارت ابھیان کی سرگرمیوں کا عروج رہا ہے، خاص طور پر اسکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ شہری و دیہی علاقوں میں بھی پروگرام منعقد کیے گئے اور نشہ مکت بھارت ابھیان کو حقیقت بنانے کی سعی کی گئی۔ تاہم تمباکو اور دیگر منشیات کے استعمال کے بڑھتے ہوئے اعداد و شمار سماج کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔ جموں وکشمیر کو ہندوستان کا تاج اور اولیاؤں و صوفیوں کی سرزمین کہا جاتا ہے۔مگر آج یہی جموں کشمیر منشیات کی برُی وبا سے جُھونج رہا ہے۔ ملک کے دیگر علاقوں کے ساتھ ساتھ جمّوں کشمیر میں بھی یہ وبا تیزی سے بڑھتی جارہی ہے۔ آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز نیشنل ڈرگ ڈیپنڈس ٹریٹمنٹ سنٹر کے ذریعے حال ہی میں کراے گئے ایک سروے کے مطابق جموں کشمیر میں نشے کے عادی افراد کی تعداد تقریباً دس لاکھ ہوچکی ہے۔یہ کل ایک کروڑ چھتیس لاکھ آبادی کا 7.35 فیصد ہے۔ نشوں کے شیدائی اپنی جان کے دشمن اور اپنے رب کے ایسے ناشکر گزار بندے ہوتے ہیں جو اس کی عطا کردہ زندگی کی قدر کرنے کے بجائے اسے برباد کرنے پر تُلے رہتے ہیں اور منشیات فروش ملک و ملت کے وہ دشمن ہیں جو نوجوان نسلوں کو تباہ کر کے ملک و ملت کی بنیادیں کھوکھلی کر رہے ہیں۔ بڑی تعداد میں کم عمر کے بچے تمباکو اور دیگرمنشیات کا شکار ہو رہے ہیں۔ منشیات میں کسی بھی طرح سے ملوث افراد اور اس کا استعمال کسی خاص جگہ کا مسلہ نہیں بلکہ پوری دنیا اس کے برُے اثرات کا شکار ہے۔اس کے عادی افراد کو حلال و حرام کی تمیز نہیں رہتی، معاشی مسائل اپنی انتہا کو پہنچ جاتے ہیں۔
https://avadhnama.com/maa-ka-ehtram-har-bache-ki-zimmdari-by-dr-muzaffar-husain-ghazali/
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں دس لاکھ سے بھی زیادہ افراد ہیروئن کے عادی بن گئے ہیں۔جموں وکشمیر میں تمباکو،بھنگ، چرس،گانجا، ہیروئن، سفید پاؤڈر، براؤن شوگر، افیون، نشہ آور پکوڑے، بھنگ کے پاپڑ اور اس کے علاوہ نشہ آور ادویات سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی چیزیں ہیں جن میں کوریکس، نشہ آور انجیکشن اور نشہ آور گولیاں بھی شامل ہیں۔ یہ مادے کئی طرح سے لئے جاتے ہیں، کچھ کو کھایا جاتا ہے کچھ کو سونگھ کر لیا جاتا ہے اور کچھ انجیکشن کے ذریعے نس میں چڑھایا جاتا ہے۔ آل انڈیا انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنس (ایمس) کے ذریعے کیے گئے ایک سروے کے مطابق ہندوستان میں تقریباً 8,50,000 انجیکشن کے ذریعے منشیات لئے جاتے ہیں، قریب 4,60,000 بچے اور 18,00000 بالغ سونگ کر نشیلی ادویات کا استعمال کرتے ہیں۔جبکہ تمباکو کا استعمال عام ہو گیاہے۔جو بہت تشویش ناک ہے۔ اسی حوالے سے منڈی کے مقامی صحافی اور دانشور ریاض ملک بتاتے ہیں کہ اگر چہ نوجوان نسل میں ترقی اور خوشحالی کا شوق وجزبہ ہے۔ تاہم یہ شوق اور جزبہ گنے چنے شہری اور ترقی یافتہ علاقوں تک ہی محدود ہے۔ جہاں ہر طرح زندگی کی سہولیات میسر ہیں۔ اس کے برعکس دیہی علاقوں میں یہی نوجوان بجاے ترقی خوشحالی کے اپنی زندگیوں کی تباہی اور بربادی میں بڑے شوق سے منہمک ہیں۔ سماج اور معاشرہ کے ماحول سے متاثر ہوکر منشیات کی لعنت سے متاثر ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ جن بچوں کی تربیت والدین کے ہاتھوں بچپن میں ہی اپنے لئے نشہ آور اشیاء کو منگوانے سے کی جاتی ہے۔ تمباکو، نسوار، بیڑی، گُٹکا یا سگریٹ کو معمولی سمجھ کر بچوں کے ذریعے دوکان سے منگوایا جاتا ہے۔ جو کہ اکثر علاقوں میں ایک معمول ہے۔ آخر میں یہی معمول بچوں کو نشہ کی طرف راغب کرتاہے اور وہ چرس، گانجا، بھنگ اور ہیروئن جیسی بُری چیزوں کا استعمال کرنے لگتا ہے۔ بچے پہلے شوق سے نشہ کرتے ہیں۔ کچھ دنوں بعد مجبوری بن جاتی ہے۔ پھر جب مجبوری بنتی ہے تو اس کو خریدنے کے لئے وہ کچھ بھی کرگزرتے ہیں، چوریاں، ڈکیٹیاں،آبروٗ ریزیاں،تعلیم سے دوٗریاں،والدین کی گسُتاخیاں،یہاں تک کہ خوٗدکشی تک بھی نوبت پہنچ جاتی ہے۔ جس کا آغاز معمولی سمجھ کرکیا جاتا ہے وہ ایک وبال بن کر سماج کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کردیتاہے۔
اس سلسلے میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ اینڈ نیورو سائنس (NIMHANS) کی ڈاکٹر ایشا شرما کہتی ہیں کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ نوعمر لوگ منشیات کی طرف راغب ہوتے ہیں لیکن آج کے دور میں معلومات زیادہ ہے۔ سوشل میڈیا پر ایکسپوز زیادہ ہے اس لیے منشیات کا شکار ہونے کے امکانات پہلے سے زیادہ بڑھ گئے ہیں جس کے سبب بچے نشہ آور اشیاء کا تجربہ کرتے ہیں۔ ڈاکٹر ایشا کا کہنا ہے کہ کچھ بچوں کی شخصیت یا مزاج اس نوعیت کا ہوتا ہے کہ ان میں تجسّس زیادہ ہوتا ہے۔ وہ نئی نئی چیزیں کرنا چاہتے ہیں خطرہ مول لینا چاہیے ہیں۔ تجربہ کرنے کی فطرت ان میں زیادہ ہوتی ہے۔ اس طرح کا مزاج مخصوص سماجی اور خاندانی حالات میں انہیں منشیات کی طرف مائل کرسکتا ہے۔ضلع بانڈی پورہ کے ایک مڈل اسکول میں ہیڈ مسٹریس کے عہدے پر فائزمحترمہ تبسم کشمیری بتاتی ہیں کہ کشمیر کے مختلف علاقوں کے ساتھ ساتھ ضلع بانڈی پورہ میں بھی منشیات کی بُری وبا دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ حالانکہ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں اور تنظیموں کی جانب سے اس سماجی علت کو روکنے کے لئے مُہیم چلائی جا رہی ہیں تاہم ان تمام احتیاطی تدابیروں کے باوجود منشیات کی شرح میں کمی کے بجائے مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے ایک شخص کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ضلع بانڈی بورہ کا رہائشی ایک شخص منشیات کا اتنا عادی ہو گیا کہ بہت کم وقت میں وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا، علاج ومعالجہ کروانے کے بعد اسے پاگل خانے میں بھرتی کرنا پڑا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ایسی صورت حال میں حکومت کو منشیات کے کالے کاروبار کے خلاف سخت اقدامات کے ساتھ ساتھ لوگوں کو اس بارے میں مزید معلومات فراہم کرنی ہوگی کیونکہ شعور اور سختی کی مدد سے ہی ان منشیات فروشوں پر لگام کسی جاسکتی ہے۔
دور جدید میں ہو رہی سائنسی تحقیق اس بات کی کھوج میں ہیں کہ نشہ آور اشیاء کے استعمال سے منشیات کی لت میں تبدیل ہونے کے پیچھے کون سے عوامل کارفرما ہیں؟ منشیات کی لت لگنے کے بعد انسان اپنے اہل وعیال، دوستوں اور سماج سے الگ رہنا پسند کرتا ہے اور نشہ آور اشیاء کو حاصل کرنے کے لئے وہ کسی بھی حد تک چلا جاتا ہے۔یوٹی جموں وکشمیر کے لگ بھگ سبھی اضلاع گزشتہ تین دہائیوں سے منشیات کی اِس سماجی علت کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں جس کے نتیجے میں مختلف بیماریوں کے ساتھ ساتھ نفسیاتی مسائل نے بھی جنم لے لیا ہے جیسے ذہنی دباؤ وغیرہ۔ اب اس ضمن میں سرکار کو مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔وہیں عوام کو بھی حکومت اور پولیس کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے، تعلیمی اداروں خصوصاً کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ کی دیکھ ریکھ کی جائے، دیہی اور شہری علاقوں میں نوجوانوں کی اصلاح کی جاے اور بااثر شخص کی موجودگی میں نوجوانوں کے درمیان میٹینگ کا اہتمام کیا جائے، دوکانداروں کے مابین بھی الگ میٹینگ رکھی جائے جس میں انہیں اس بات پر متوجہ کیا جائے کہ وہ اپنی دکانوں اور ہوٹلوں میں کسی بھی قسم کی نشہ آور اشیاء کو ہرگز جگہ نہ دیں۔ اسکولوں، کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے ارِد گرِد کی دوکانوں کا وقتاً فوقتاً معائنہ کیا جانا چاہیے۔ شادی بیاہ کے موقعوں پر اور کسی بھی قسم کے اجتماعی پروگراموں میں نشہ آور اشیاء کے استعمال پر پابندی لگائی جائے تاکہ سماج سے اس بُری لعنت کا حقیقی طور پر خاتمہ کیا جاسکے۔(چرخہ فیچرس)
 منڈی،پونچھ

 

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here