مہاراشٹر میں مسلم رزرویشن

0
66

 

Muslim reservation in Maharashtra

مہاراشٹر میںمسلمانوں کو ریزرویشن دئے جانے کا معاملہ ایک بارپھر گرم ہو گیا ۔مہاراشٹر میں کانگریس اور سیو سینا کی مشترکہ حکومت ہے اس لئے شیو سینا کے سر بہت سے معاملوں میں بدلے بدلے نظر آتے ہین۔اگر چہ اس کی شناخت ایک متشدد نظریاتی جماعت کی ہے۔اس بار مسلمانوں کے ساتھ مراٹھا برادری کو بھی شامل کیا گیا ہے تاکہ مخالفت کے سر کمزور پڑ جائین۔ مسلمانوں اور مراٹھا برادری کو ریزرویشن دیے جانے کے لئے کانگریس پارلیمانی بورڈ میں قرارداد منظور کی گئی ہے۔محمد عارف نسیم خان نے کہا کہ عدالت نے بھی مسلمانوں کے ریزرویشن پر اپنی رضا مندی ظاہر کی تھی مگر سابقہ حکومت نے محض تعصب کی بنیاد پر مسلمانوں کو ریزرویشن کے ان کے حق سے محروم کر دیا تھا۔
واضح رہے کہ مہاراشٹر میں مسلمانوں اور مراٹھا برادری کو ریزرویشن دیا جائے اس قسم کی قرارداد گزشتہ روز کانگریس پارلیمانی بورڑ میں منظور کی گئی۔ اس کے علاوہ بورڈ میں مرکزی حکومت کے سیاہ زرعی قوانین، مزدورقوانین، ایندھن کی بڑھتی قیمتوں، ریاست کے سیاسی صورت حال، پارٹی کے تنظیمی امور کے ساتھ ہی حکومت کے کام کاج پر بھی غور وفکر کیا گیا اور پارٹی کے تنظیمی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کے لیے مختلف پروگرام کے انعقاد کا جائزہ بھی لیا گیا۔
جس میں ’ایک دن کسانوں کے ساتھ‘ پروگرام کو عملی جامہ پہنانے نیز مہاراشٹر میں کانگریس کی عظمت رفتہ کی بحالی کے لیے ’سنکلپ ابھیان‘ شروع کرنے پر بھی توجہ مرکوز کی گئی جس کے لیے چھ ماہ کا پروگرام آل انڈیا کانگریس پارٹی نے طے کیا ہے۔ یہ اطلاع آج یہاں مہاراشٹر پردیش کانگریس کمیٹی کے نگراں ایچ کے پاٹل نے دی ہے۔پارلیمنٹری بورڈ کے اس اجلاس کی صدارت ریاستی کانگریس کے صدر نانا پٹولے نے کی جبکہ ریاست کے نگراں ایچ کے پاٹل اس میں خصوصی طور پر موجود تھے۔ ان کے علاوہ کانگریس کے اعلی لیڈران بھی موجود تھے۔ اس میٹنگ میں چار قراردادیں منظور کی گئیں جس میں پہلی قرارداد یہ کہ مرکز کے کسان ومزدو مخالف قوانین فوری طور پر رد کیا جائے۔ یہ قوانین ریاست میں لاگو نہ کیے جائیں بلکہ کسانوں کی فلاح وبہبود کے لیے نیا قانون بنایا جائے۔
دوسری قرارداد میں قانونی بورڈ کو فوراً قائم کرتے ہوئے اس کے مطابق فنڈ تقسیم کیا جائے۔ تیسری قرارداد یہ کہ مراٹھا ومسلم ریزرویشن کی کانگریس پارٹی مکمل حمایت کرتی ہے۔ کسی بھی دوسرے ریزرویشن کو چھیڑے بغیر ان دونوں طبقات کو ریزوریشن ملنا چاہیے۔ چوتھی قرارداد یہ کہ پسماندہ طبقات، اقلیتوں، اوبی سی و خانہ بدوش برادری کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے ریاست کے مالی بجٹ میں ان کے لیے بھرپور حصہ مختص کیا جائے نیز جو مختص کیا جائے وہ لیپس نہ ہو، اس کے لیے قوانین بنائے جائیں۔
واضح رہے کہ مسلمانوں کے ریزرویشن کے معاملے کو سابق اقلیتی امور کے وزیر محمد عارف نسیم خان نے اٹھایا جس کی سابق راجیہ سبھا ممبر حسین دلوائی ودیگر ممبران نے بھرپور حمایت کی۔ اس موقع پر نسیم خان نے کہا کہ جب ریاست میں کانگریس و این سی پی کی حکومت تھی تو مراٹھا برداری کے ساتھ مسلمانوں کے ریزرویشن کو منظوری ان کی معاشی صورت حال کے پیشِ نظر دی گئی تھی، جسے اس کے بعد آنے والی بی جے پی کی حکومت نے منسوخ کر دیا تھا۔ مگر اب جبکہ ریاست میں دوبارہ کانگریس این سی پی وشیوسینا کی حکومت قائم ہوگئی ہے تو پھرمسلمانوں کو ریزرویشن کو فوری طور پر بحال کیا جانا چاہیے۔
نسیم خان نے یہ بھی کہا کہ عدالت نے بھی مسلمانوں کے ریزرویشن پر اپنی رضا مندی ظاہر کی تھی مگر سابقہ حکومت نے محض تعصب کی بنیاد پر مسلمانوں کو ریزرویشن کے ان کے حق سے محروم کر دیا تھا۔ نسیم خان کے اس مطالبے پر وہاں موجود تمام ممبران نے زوردار حمایت کی جس کے بعد یہ مراٹھا برادری کے ساتھ مسلمانوں کے ریزرویش کی قرارد منظور کی گئی۔لیکن دوسرے ریزرویشن کے حصوں کو چھیڑے بغیر اگر الگ سے ریزرویشن دیا جاتاہے تو یہ حصہ ظاہر ہے کہ جنرل سے ہی لیا جائے گا جس کی بنا پر جنرل کوٹا اور محدود ہو جانے کا اندیشہ پیدا ہو جائے گا اور اس کی بنا پر جنرل طبقہ کی طرف سے مخالفت کا سامنا کر پڑ سکتا ہے۔

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here