تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں
https://chat.whatsapp.com/ 9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B
https://www.facebook.com/
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
[email protected]
9807694588(موسی رضا)
مضمون نگار: محمد اویس سنبھلی
طب یونانی کے مشہور اسکالر ڈاکٹرسید محمد حسان نگرامی ۸؍جولائی ۲۰۲۳ء کی شام ساڑھے سات بجے لکھنؤ کے ریلیف اسپتال میں انتقال فرماگئے۔ اللہ غریق رحمت کرے، مرحوم لکھنؤ شہر کی نمایاں شخصیتوں میں تھے۔انہوں نے’طب‘ کے ساتھ ہی اردو زبان و ادب کی بھی خدمات انجام دیں۔
ڈاکٹر حسان نگرامی ۲۸؍جون ۱۹۵۲کو بستی میں پیداہوئے۔ابتدائی تعلیم مدرسہ بدریہ بستی میں حاصل کی۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے عالم، فاضل ادب اور بی اے کے امتحانات پاس کیے۔ ۱۹۷۸ میں تکمیل الطب کالج لکھنؤ سے درسیات کی تکمیل کی۔۱۹۸۰ء میں سنٹرل کونسل فار ریسرچ ان یونانی میڈیسن نئی دہلی میں ملازمت اختیار کی۔ملازمت کے دوران ۱۹۸۲ میںکانپوری یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے بھی کیا۔ رٹائرمنٹ سے چند سال قبل ان کا ٹرانسفر لکھنؤ ہو گیا تھا یہیں ۳۰؍جون ۲۰۱۲ کو ۳۲؍برس کی طویل ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔
حسان نگرامی تکمیل الطب کالج کے ممتاز فارغین میں تھے۔ تکمیل الطب کالج کے ناموروں کی مختصر سے مختصر فہرست بھی اگر تیار کی جائے گی تو اس میں ڈاکٹر حسان نگرامی کا نام ضرور شامل ہوگا۔حکیم وسیم احمد اعظمی نے اپنی کتاب’ تکمیل الطب کالج لکھنؤ کی علمی خدمات‘ میں ان کی شخصیت اور فن پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔حسان نگرامی صاحب کو تکمیل الطب کالج لکھنؤ کے اختصاص کا احساس تھا اور وہ اپنی اس مادر درسگاہ کے ترجمانوں میں تھے۔حکیم وسیم احمد اعظمی نے لکھا ہے:
’’ حکیم سید محمد حسان نگرامی تکمیل الطب کالج کے ناموروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ کثیر جہتی شخصیت کے مالک ہیں۔مطب کے ساتھ تقریر و تحریر کے بھی آدمی ہیں۔ تصنیف وتالیف ،تحقیق اور ادویاتی کاشت وغیرہ ان کے علمی و عملی مجال ہیں۔ تحریکی مزاج کے حامل ہیں اور ہر دم رواں دواں رہتے ہیں۔انتہائی متشدد ’ تکمیلی ‘ ہیں اور اس حوالہ سے بعض مرحلوں میں بدیہی حقیقتوں سے بھی صرف نظر کرجاتے ہیں۔ جہاں بھی ہوں اختصاص کی راہ نکال لیتے ہیں اور یہ اپنے آپ میں یقیناً بڑی بات ہے۔ان کی علمی و طبّی خدمات کا اعتراف بھی کیا جاتا رہا ہے۔وہ درجن بھر سے زائد اعزازات بھی حاصل کرچکے ہیں اور حکومت اُتر پردیش کے ’ یش بھارتی سمان‘ سے بھی مفتخر ہیں۔متعدد صحتی، تعلیمی اور فلاحی تنظیموں کے رکن اور روح رواں ہیں‘‘۔
حکیم وسیم احمد اعظمی صاحب کی یہ تحریر ۲۰۲۰ء کی ہے۔ڈاکٹر حسان نگرامی کم و بیش ڈیڑھ درج کتابوں کے مصنف ، مؤلف اور مترجم تھے اور تقر یباً یہی تعداد ان کے غیر مطبوعہ مسودات کی بتائی جاتی ہے۔ان کی متعدد کتابیں نعمانی پرنٹنگ پریس میں چھپیں۔’انور جلالپوری: شخصیت اور فن‘کے نام سے انہوں نے ایک کتاب لکھی تھی، جسے وہ ہمارے پریس سے شائع کرانا چاہتے تھے لیکن میری کوتاہی کہ ان سے ملاقات کا وقت نہیں نکال سکا، جس کے سبب وہ کچھ دن ناراض بھی رہے، لیکن پھر اس کے بعد وہ سب کچھ بھول گئے ۔ ہم تو انہیں کم ہی فون کرپاتے تھے لیکن وہ گاہے گاہے ،حیلے بہانے سے یاد کرلیا کرتے تھے۔ ہمیں ان کی بہت سی باتوں سے اختلاف تھا، جس کی وجہ سے ہم نے ملاقاتوں کا سلسلہ کم کردیا تھا۔انہیں بھی ہماری اس روش کا احساس تھا،مگر وہ رابطہ قائم رکھنے پر یقین رکھتے تھے۔
ڈاکٹر حسان نگرامی سے میرا پہلا تعارف ۲۰۱۶ میں پدم شری حکیم سید ظل الرحمن صاحب (علی گڑھ) کے توسط سے ہوا۔ لکھنؤ میں جنتادردمنددواخانہ(سنبھل) نے ایک’ بزنس سمینار‘ کا انعقاد کیا تھا ۔ پروگرام کی صدارت کے لیے پدم شری حکیم سید ظل الرحمن صاحب سے درخواست کی گئی تھی، جسے انہوں انتہائی محبت کے ساتھ قبول فرمایا۔ مہمانِ خصوصی کے طور پر ڈاکٹر سکندر حیات (ڈائرکٹر یونانی سیوائیں، حکومت اُتر پردیش) اور حکیم وسیم احمد اعظمی( ڈپٹی ڈائرکٹر سنٹرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف یونانی میڈیسن،لکھنؤ) کے نام طے کیے گئے تھے کہ اچانک حکیم ظل الرحمن صاحب کا فون آیا ، انھوں نے دریافت کیاکہ’ اویس صاحب! کیا آپ ہمارے ڈاکٹرحسان نگرامی صاحب سے واقف ہیں؟ ‘ میرے انکار کرنے پر انھوں نے موصوف کے چند علمی کاموں کاتعارف کراتے ہوئے فرمایاکہ’اگر ہوسکے تو مہمانوں کی فہرست میں ان کا بھی نام شامل کرلیں؟‘ ۔۔۔۔حکیم ظل الرحمن کے اس مشورے کو ہم نے حکم کا درجہ دیا اور ڈاکٹر حسان صاحب سے اُن کے گھر جاکر ملاقات کی اور پروگرام میں شرکت کی درخواست کی۔جسے انہوں نے قبول کرلیا۔یہی ملاقات ان سے رابطے کا سبب بنی اور اس کے بعد تو ملاقاتوں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔۔۔جس میں نرم گرم ،ہر طرح کی گفتگو ہوتی رہی۔
ڈاکٹرحسان صاحب نے خوب کام کیااور نام بھی کمایا، ان کی کاوشوں کا ا عتراف بھی ہوا۔ایک درجن سے زیادہ ایوارڈ ز سے وہ سرفراز ہوئے جس میں ’یش بھارتی سمان‘ بھی شامل ہے اوروہ شاید دوسرے طبیب ہیں، جن کو یہ اعزز حاصل ہوا۔ان سے پہلے حکیم سید ظل الرحمن (علی گڑھ) کو یہ سرفرازی عطا ہوئی تھی۔ ’یش بھارتی یوارڈ کے لیے انھوں نے اپنے علمی و ادبی خدمات پر مشتمل ایک تفصیلی زندگی نامہ[ بایوڈیاٹا]تیار کیا تھا جو کم و بیش ۲۰۰؍صفحات پر مشتمل تھا ۔ اس کی زیارت کی سعادت مجھے بھی ملی۔
گزشتہ چند برسوں میں انھوں نے سماج کے ہر طبقے میں تعلقات بنائے تھے اور اس طرح انہوں نے اپنی ایک حیثیت بنالی تھی۔اُن کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ کچھ بھی چھپاتے نہیں تھے ۔اپنی علمی، تحقیقی ،تعلیمی اور کاروباری سرگرمیوں ، اپنی کاوشوں اور کوششوں سب کا ذکر کردیا کرتے تھے۔’یش بھارتی ایوارڈ ہو یا اُترپردیش اردو اکادمی کا ایوارڈ یاپھرایسا ہی کوئی دوسرا ایوارڈیا اعزاز، وہ اس سلسلہ میں ہونے والی ہر پیش رفت کو خوب لطف لے کر سنا دیا کرتے تھے۔
طب یونانی کے لئے ان کی خدمات یقیناً بہت اہم ہیں لیکن گذشتہ کئی برس سے وہ ادبی میدان میں بھی خوب سرگرم تھے۔اپنے والد ماجد مرحوم (مولاناسید عبدالغفار نگرامی ندویؒ)کی یاد میںانھوں نے ایک تنظیم بنائی تھی جس کے بینر تلے متعدد علمی و ادبی سمینار اور مذاکرے کرائے۔ اردو سے ان کی محبت کوئی نئی بات نہیں تھی ،دراصل طالب علمی کے زمانے سے ہی انھیں زبان و ادب سے خاصا شغف رہا ہے۔۱۹۷۴ میںغالب انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی کے زیر اہتمام ان کے ایک مسابقتی مضمون ’’غالب: شخصیت اور فن‘‘ پر آنجہانی اندراگاندھی (سابق وزیر اعظم ہند) کے ہاتھوںتوصیفی سند اور ایک ہزار روپئے نقد ملے تھے۔ اس سے آپ ان کی اردوسے محبت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔
وہ ایک منصوبہ کے تحت ہندی میں بھی لکھنے لگے تھے ۔ جس سے یقیناً ان کاحلقۂ اثر بڑھا ہوگا ۔ ایک کالم نگار کے طور پر بھی وہ سرگرم عمل تھے ۔ ملک کے سیاسی بحران، علمی و ادبی مسائل اور طب یونانی کے حوالہ سے ان کے بعض کالم بہت اہم ہیں۔ مرحوم کے ورثاء اگر ان کے کالم کا ایک انتخاب شائع کردیںتو وہ بڑے کام کی چیز ہوگی۔ خاص طور پر وہ کالم جو انہوںنے ’کورونا ‘کے وبائی دور میں لکھے تھے ۔
مرحوم سے میری آخری ملاقات ۱۹؍فروری ۲۰۲۳ کو لکھنؤ میں منعقد ہونے والی’ آل انڈیا اردو کانفرنس ‘میں ہوئی تھی۔اس وقت وہ بالکل حشاس بشاش تھے۔ ان کے چہرے پر بیماری کا کوئی اثر نہیں تھا۔ اس کے بعد کھدرے میں سڑک چلتے ایک روز سلام دعا ہوئی۔ اُس دن تھکان اُن کے چہرے پر صاف نظر آرہی تھی، وہ دارالعلوم فاروقیہ کاکوری سے مولانا عبدالعلی فاروقی صاحب کی کتاب’اکثر یادآتے ہیں‘ کی رسم اجراء میں شرکت کرکے واپس ہورہے تھے۔چند ماہ قبل تک کوئی ان کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ کینسر جیسے موزی مرض مبتلاہیں۔ یہ ان کا خاص مزاج تھا۔ حالانکہ ان کی یہ بیماری تقریباً ۵؍برس پرانی تھی۔
یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ زندگی اور موت کی جنگ میں جیت ہمیشہ موت کے حصہ میں آتی ہے۔ ڈاکٹر حسان نگرامی بھی یہ جنگ ہار گئے لیکن اس میں ملی ہار کے باوجود ان کی اصل کامیابی یہ ہے وہ اپنے علمی کارناموں کے سبب ایک طویل مدت تک اہل علم و ادب کے درمیان یاد کیے جاتے رہیں گے۔
٭٭٭
رابطہ:9794593055