تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں
https://chat.whatsapp.com/ 9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B
https://www.facebook.com/
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
[email protected]
9807694588(موسی رضا)
تخلیق: علیشا رضوی
عصمت کا مرتبہ ایک عام افسانہ نگار کی طرح ہی نہیں بلکہ ایک اچھی فنکار، منفرد افسانہ نگار اور ہر دل عزیز شخصیت کا ہے۔ اُردو کے افسانوی ادب میں عصمت چغتائی کا ایک بڑا نام ہے جسے منٹو کا نسانی قالب بھی کہا گیا۔ عصمت چغتائی ادبی دنیا کی مقبول کہانی کار ہیں۔ ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں انہیں مختلف اعزازات سے نوازا گیا جن میں مخدوم ایوارڈ، ساہتیہ اکادمی ایوارڈ، اقبال سمان اور نہرو ایوارڈ اہم ہیں۔ عصمت چغتائی اُردو کے نئے افسانے کی معمار ہیں۔ وہ ایک درد مند اخلاق، ذہن اور جرأت آزما قوتوں کی مالک ہیں۔ وہ زندگی کی سچائیوں سے پیار کرنے والی اور ان سچائیوں کو اپنی بے پناہ تخلیقی قوتوں سے کہانیوں کا رُوپ دینے والی عظیم فنکار ہیں۔
عصمت چغتائی اُردو افسانے کے عظیم کہانی کاروں سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی اور کرشن چندر کی ہم عصر ہیں۔ عصمت چغتائی نے جس دور میں اپنے فنی سفر کا آغاز کیا اس دور میں معاشرے پر روایت رسم و رواج مروجا اخلاقی اقدار کی گرفت مضبوط تھی۔ قدامت پسندی کی وجہ سے لڑکیوں کی تعلیم اور ان کے ادبی ذوق کے برلا اظہار کو معیوب خیال کیا جاتا تھا۔ عصمت چغتائی تعلیم یافتہ تھیں، ذہین تھیں، عصری شعور سے آگاہ تھیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنے علم مشاہدے اور تجربے کے ذریعہ انسانی نفسیات کی تہہ در تہہ گہرائیوں میں جاکر لاشعوری زندگی میں حقائق سے آشنا ہوئیں۔
عصمت چغتائی کے افسانے ایک ’’انسائیکلوپیڈیا‘‘ ہیں۔ جن میں عورت کے حوالے سے معلومات کے ایسی روشنی موجود ہے کہ کھلی آنکھوں سے مطالعہ کرنے والوں کے ذہن اور قلب منور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ عصمت چغتائی ایک عورت ہے اور ایک فنکار ہے۔ عورت ذات کے ناطے اس نے انسانی جذبات و احساسات فطرت و جلّت مجبوری و بے بسی، اُمنگوں، نفسیاتی ابکھنوں، جنسی مسائل، سماجی و معاشرتی روایت، شوخیوں، شرارتوں، بناوٹوں، تصنع عداوتوں اور خباثتوں کا بنظر دقیق مطالعہ کیا ہے۔ عورت کی انسانی کمزوریوں کی طرف سے اس نے انہیں بند نہیں کیا بلکہ عورت کے ہر طرح کے رنگ ڈھنگ ہمارے سامنے لاکر ان کی تہہ میں چھپے ہوئے کرب اور بے چارگی و بے بسی کو نمایاں کیا ہے۔
عصمت چغتائی نے اپنے افسانوں کے ذریعے ہر عمر کی پردہ نشین گھریلو خواتین اور گھر سے باہر کی عورتوں کی نفسیات اور ان کی جنسی احساسات و جذبات کے بیان میں انتہائی دروں بینی، داخلیت اور بے باک حقیقت نگاری سے کام لیا ہے۔ عصمت چغتائی کے وہ افسانے جن میں عورت کے تصور کو بہت ہی موثر انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ ان میں چوتھی کا جوڑا، چھوٹی آپا، پنکچر، گیندا، گھر والی، بہو بیٹیاں، لحاف، دو ہاتھ، سونے کا انڈا، ساس، ننھی کی نانی، ڈائن، پتھر دل، کافر، پیشہ، جھوٹی تھالی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ کیونکہ ان افسانوں کے زیراثر نسوانی کرداروں کی مختلف سماجی حیثیتوں کو اُجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ عصمت کے ان افسانوں میں ان کی غیر معمولی صلاحیت دیکھنے کو ملتی ہے اور ایک ایسی فنکار عورت کی شبیہ اُبھرتی ہے جو بے خوف اور نڈر ہے۔ یہ باغی عورت نتائج سے بے پرواہ ہوکر مظلوم اور معصوم عورتوں کے بارے میں مختلف زاویوں سے لکھتی ہے۔ عصمت نے ان عورتوں کے بارے میں کھل کر لکھا ہے، جن کی زندگی ادھوری اور ناکام رہی، جو چہار دیواری میں پلیں اور جن کی عمر آنگنوںاور دالانوں میں سہمی سہمی گزر گئی۔ اس زاویہ سے دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ عصمت کی کہانی نے اُردو فکشن کی روایت میں ایک غیر معمولی تاریخی رول ادا کیا ہے۔
جنسی مسائل پر ان کا ایک اہم افسانہ ’لحاف‘ ہے۔ جس میں شادی شدہ عورت کے جنسی تقاضوں کا پورا نہ ہونا اور اس کے خراب نتائج جو بے راہ روی اور میلان ہم جنسی وغیرہ کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ اس افسانہ کا موضوع ہے۔ عصمت نے شادی شدہ عورتوں کی جنسی الجھنوں کے ساتھ ہی نوجوان لڑکیوں کے جنسی جذبات اور فطری تقاضوں کو بھی افسانوں کا موضع بنایا ہے۔ جھوٹی آپا، جال، پردے کے پیچھے وغیرہ افسانے نہ صرف یہ کہ موضوع کے لحا ظ سے اہم ہیں بلکہ ان کی فنی پیشکش بھی انہیں معیاری افسانوں میں جگہ دلاتی ہے۔ افسانہ ’’جھوٹی آپا‘‘ اگر ایک نوجوان لڑکی کی زندگی کے مختلف پہلو سے ہمیں روشناس کراتا ہے تو پردے کے پیچھے میں لڑکیوں کے معصومانہ تجسس کو فنکارانہ مہارت کے ساتھ پیش کیا ہے۔ فیصل جعفری اس ضمن میں رقم طراز ہیں:
’’پردے کے پیچھے تو ایک نہایت معصوم اور بے ضرر قسم کا انسان ہے جس میں پردے کے پیچھے بیٹھی ہوئی طالبات پردے سے باہر موجود کچھ طالب علموں کے متعلق اپنی اپنی پسند یا یوں کہئے کہ اپنے اپنے تخیلی شوہروں کے بارے میں اظہار رائے کرتی ہیں اور ان کی سہیلیاں ایک دوسرے کے پسندیدہ لڑکوں کے بارے میں چہلیں اور چھیڑ چھاڑ کرتی ہیں۔ ظاہر ہے کہ محض اوپری چھیڑ چھاڑ ہے، اس افسانے کو جاں نثار اختر کی اسی ماحول میں لکھی گئی نظم کا نثری اور افسانوی (Ounter Part) کہا جاسکتا ہے‘‘۔(۱)
عصمت نے تقریباً سبھی اہم مسائل پر افسانے لکھے ہیں۔ اولاد نرینہ کی خواہش اور لڑکی کے پیدا ہونے پر ماتم ہمارے سماج کی تلخ ترین حقیقت ہے۔ دورِجہالت سے لے کر آج تک انسان اس سوچ سے پیچھا نہیں چھڑا سکا۔ یہ مسئلہ آج جوں کا توں موجود ہے۔
’’دیوار کے اس پار صف ماتم بچھی ہوئی تھی، دہلیز پر بندومیاں کی ماں پھسکڑا مارے بیٹھی نکمّی بہو … سات پشت کو گالیاں دے رہی تھیں، موئی ہجڑوں کے خاندان کی … لونڈیا نہ جنے گی تواور کیا کرے گی‘‘۔ (۲)
لڑکی کی پیدائش پر جس ماتمی صورت کا نقشہ عصمت نے مندرجہ بالا سطروں میں کھینچا ہے وہ سماجی نظام کی ایک اور ناہمواری کا نشاندہی کرتا ہے۔ وہ کھلے کھلے الفاظ میں ننگے حقائق کو ہمارے سامنے لاتی ہے، لیکن اس کی کہانیاں شوخ چنچل اور الہڑ جوانیوں کی کہانیاں نہیں۔ وہ چور اور چغلی خور ننھی کی نانی کا قصہ بھی بیان کرتی ہے تو اس کی بے بسی و نامرادی کو دم توڑتی اور سسکتی انسانی اقدار کا نوحہ بنادیتی ہے۔ وہ کمزور ذات کی بدکرداری اور کمینے پن کے ذمہ دار لوگوں کو کان سے پکڑ کر ہمارے سامنے لاکر کھڑا کرتی ہیں۔ عصمت کا قلم بے باک ہی نہیں بہت ذمہ دار بھی ہے۔ عصمت کے افسانے دیدۂ عبرت نگاہ رکھنے والوں کے لئے اُردو ادب کا ایک گراں قدر سرمایہ ہیں۔ یہ افسانے رومان پرور فضائوں کو پسند کرنے والوں کے بجائے حقیقت پسند انسانوں کے مطالعہ کی چیز ہیں۔
افسانوں کے زیرنظر مجموعہ میں شامل اپنی ذات اور اپنے خیالات سے متعلق افسانوی مضمون ’’بقلم خود‘‘ میں عصمت لکھتی ہیں۔
’’مجھے روتی بسورتی حرام کے بچے جتنی ماتم کرتی نسوانیت سے ہمیشہ سے نفرت تھی۔ خواہ مخواہ کی وفا اور وہ جملہ خوبیاں جو مشرقی عورت کا زیور سمجھی جاتی ہیں مجھے لعنت معلوم ہوتی ہیں۔ جذباتیت سے مجھے سخت کوفت ہوتی ہے۔ عشق قطعی وہ آگ نہیں جو لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بجھے۔ عشق میں محبوب کی جان کالاگوجانا، خود کشی کرنا، واویلا کرنا میرے مذہب میں جائز نہیں۔ عشق مقوی دل و دماغ ہے نہ کہ جی کا روگ‘‘۔
عصمت نے اپنے افسانوں کے ذریعہ متوسط مسلم گھرانوں کی عورتوں کی ’’ٹھیٹھ اُردو‘‘ سے بھی واقف کرایا ہے۔
علی سردار جعفری اس سلسلے میں اپنی رائے ان الفاظ میں ظاہر کرتے ہیں۔
’’آپ غالب کی نقل کرسکتے ہیں لیکن خاندانوں کی عام بولیوں کی نقل کرنا بے حد مشکل کام ہے اور عصمت نے یہ مشکل کام کرکے دکھایا۔ انہوں نے گھریلو زبان کو تخلیقی اعجاز عطا کیا‘‘۔ (۳)
عصمت کے افسانوں کی یہی وہ خصوصیات ہیں جو اُردو کے اہم ترین افسانہ نگاروں کی فہرست میں ان کا مقام محفوظ رکھتی ہیں۔ سماج کے وہ مسائل جو عصمت کے زمانے میں تھے اور آج بھی کم و بیش باقی ہیں۔ اور اگر نہ بھی رہیں تو بھی عصمت کے افسانوں کی اہمیت کم نہ ہوگی۔ کیونکہ اور کچھ بھی نہ ہو تو بھی زبان کا جادو اور اسلوب کی گرمی انہیں باقی رکھے گی۔
حواشی
(۱)عصمت چغتائی کا فن مشمولہ اُردو افسانہ روایت اور مسائل۔ ص۔431
(۲)سونے کا انڈا مشمولہ افسانوی مجموعہ چھوئی موئی۔ ص173
(۳) بحوالہ جڑیں اور کونپلیں (رپورتاژ) علی احمد فاطمہ۔ مشمولہ نیا افسانہ مسائل اور میلانات۔ ص 195
٭٭٭