کرن کے بعد کوشیاری کی باری – After Kiran, it is Koshiari’s turn

0
79

ڈاکٹر سلیم خان
مہاراشٹر قانون ساز اسمبلی کےبجٹ اجلاس میں پہلے ہی دن حکمران جماعت اور حزب اختلاف کے مابین تصادم ہوگیا۔ سابق وزیر خزانہ سدھیر منگینٹیواور نے حکومت کو ترقیاتی کارپوریشن کے معاملے میں آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے پوچھا کہ اس نے قانونی ترقیاتی کارپوریشن کو دوبارہ قائم کیوں نہیں کیا؟ حکومت 72 دن بعد بھی کوئی فیصلہ کیوں نہیں کر پائی۔ اس پر نائب وزیر اعلیٰ ، اجیت پوار نے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کے ذریعہ حکومت کے لیے رکاوٹیں کھڑی کیے جانے کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے جواب دیاکہ ہم ایک آئینی ترقیاتی کارپوریشن قائم کریں گے۔ میں اسے بجٹ میں فنڈ بھی دوں گالیکن یہ اعلان اس دن ہوگا جب گورنر 12 اراکین اسمبلی کے ناموں کا اعلان کریں گے۔ اجیت پوار نے جب 12 ایم ایل اے کا معاملہ اٹھایاتو دیویندر فڑنویس نے جارحانہ انداز میں سوال کیا کہ کیا 12 ارکان اسمبلی کے لیے حکومت مراٹھواڑہ اور ودربھ کے لاکھوں افراد کو یرغمال بنا کر رکھنا چاہتی ہے؟” ہم آپ سے حق مانگ رہے ہیں بھیک نہیں”۔ سابق وزیر اعلیٰ نے واک آوٹ کی دھمکی تو دی مگر گورنر کوشیاری کے دھاندلی کی وجہ نہیں بتائی اور یہ حق تلفی کس کے ایماء پر کیوں کی جارہی ہے یہ بھی نہیں بتایا اس کے باوجود گورنر کوشیاری تنازع کا سبب بن ہی گئے۔
کرن بیدی کو تو مرکزی حکومت نے ہٹا دیا مگر بھگت کوشیاری ہنوز گورنر کے عہدے پر براجمان ہیں۔ اس بات کا قوی امکان ہے 71سالہ کرن بیدی کی طرح 81 سالہ بھگت سنگھ کوشیاری کو بھی سبکدوش کرکے بھجن کیرتن کرنے کے لیے کیلاش پربت روانہ کردیا جائے جو ان کے ان آبائی وطن اترا کھنڈ میں واقع ہے۔ کرن بیدی کی برطرفی ایک کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ سیاسی جوڑ توڑ میں ماہر نہیں ہیں اس لئے انہیں ہٹادیا گیا ہے۔ اس کے برعکس کوشیاری جوڑ توڑ کے ضرورت سے زیادہ ماہر ہیں لیکن وہ دن دور نہیں کہ جس طرح کرن بیدی کی برطرفی بی جے پی کی سیاسی مجبوری بن گئی تھی اسی طرح کوشیاری کو بھی ہٹانا اس کے لیے ناگزیر ہوجائے۔ ۔ پدو چیری کے وزیراعلیٰ نارائن سامی نے جس چالاکی سے کرن بیدی کو بی جے پی کی علامت بناکر اسے علاقائی وقار کے خلاف بیرونی مداخلت کا رنگ دے دیا یہی معاملہ بھگت سنگھ کوشیاری کے ساتھ ہوسکتا جو سیاسی اعتبار سے بی جے پی کے لیے مشکلات پیدا کرے گا اور انہیں بے آبرو کرکے بھگانا پڑے گا ۔
کرن بیدی کو ہٹانے کے بعد تمل ناڈو کے گورنر بنواری لال پروہت کو یہ اضافی ذمہ داری دی جانی چاہیے تھی۔بنواری لال پروہت بڑے گھاگ سیاستداں ہیں۔ وہ ناگپور سے پہلے کانگریس اور پھر بی جے پی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوچکے ہیں لیکن بیدی اور بھگت کی مانند باہری آدمی ہیں ۔ اس لیےآندھر ا پردیش کی گورنر تلسمئی راجو کو یہ ذمہ داری دی گئی تاکہ پدو چیری کے لوگ انہیں پرایا نہیں بلکہ اپنا سمجھیں اور نارائن سامی مرکزی حکومت کا خوف دلا کر کامیاب نہ ہونے پائیں۔ اس کرتب بازی سے قطع نظر کرن بیدی کا کام تو تمام ہوہی گیا۔کرن بیدی کے علاوہ گورنر جگدیپ دھنکر بھی فی زمانہ کبھی کبھار خبروں میں آجاتے ہیں کیونکہ مغربی بنگال پر انتخاب کے بادل منڈلا رہے ہیں مگر مہاراشٹر کے گورنر بھگت سنگھ کوشیاری تو بن بادل برستے رہتے ہیں۔ مہاراشٹر میں اِادھر بی جے پی انتخاب ہاری اُدھر سابق گورنر ودیا ساگر راؤ کی پانچ سالہ معاتدکے ختم ہوئی ۔ اس کا فائدہ اٹھا کرمرکزی حکومت نے ان کی جگہ آر ایس ایس کے تجربہ کاررہنما اور اتراکھنڈ کے سابق وزیر اعلیٰ بھگت سنگھ کوشایری کو نا گورنر مقرر کردیا ۔
کوشیاری سیاست کے پرانے چاول ہیں ۔ ماضی میں وہ بی جے پی کے نائب صدر اور اتراکھنڈ کےاولین پارٹی صدر رہ چکے ہیں۔ انہوں نے 2001-02مںی اتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ اور2002-07تک حسب مخالف کے رہنما کی ذمہ داریادا کی ہے ۔اس کے علاوہ وہ اتر پردیش اسمبلیمیں ایم ایل اےاور راجہں سبھا و لوک سبھاکے رکن بھیتھے ۔ آگرہ یونو رسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد کوشا۔ری نے تدریس اور صحافت سے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز کیا مگر پھر کالی ٹوپی اور خاکی نیکر پہن کر آر ایس ایس کے وفادار سپاہی بن گئے ۔ان کی آمد پر سابق وزیر اعلیٰ دیویندر فردنویس سے نے انہیں مبارک باد دی تو جواب مں گورنر کوشارری نے کہا کہ وہ مہاراشٹر کی ترقی اور بھلائی کے لئے کوشاں رہں گے۔ ان کے نزدیک صوبے کی فلاح وبہبود سے کیا مراد ہے یہ اس وقت پتہ چلا جب انہوں نے صبح پانچ بجے فردنویس کے ساتھ اجیت پوار کی بغیر اکثریت کی جانچ کیے حلف برداری کروادی۔ اس کے بعد تو ایک لامتناہی سلسلے کا آغاز ہ وگیا ۔ مثلاًپالگھر کے معاملے میں متنازع بیان اور خواتین کے کمیشن کی سربراہ سے لوجہاد کے قانون پر بنا مطلب کی گفت وشنید۔ وزیر اعلیٰ کو ودھان پریشد میں نامزد کرنے سے انکار اور کورونا لاک ڈاون کے دوران عبادتگاہوں کو لے کر شیوسینا کے ہندوتوا پر سوالیہ نشان وغیرہ وغیرہ ۔
سیاسی بیان بازی کے علاوہ انتظامی امور میں بھی مداخلت مثلاً ممبئییونو رسٹی کے وائس چانسلر کو خط لکھ کر آئی آئی ایف سی ایل کمپنی کوٹھیکہ دینے کی سفارش ۔ صوبائی حکومت کی جانب سے تنم ممکنہ ایم ایل سی کے سفارشی خطوطپر دستخط کرنے میں ٹال مٹول وغیرہ ۔ ان متنازع حرکتوں سے مہا وکاس آگھاڑی کی حکومت کے ساتھ ان کے کئی معاملات پر شدید اختلافات پیدا ہوگئے۔حکومت مہاراشٹر نے بھی موقع پاتے ہی گورنر کوشیاری کی تمام ہوشیاری کا انتقام لے لیا ۔ 12فروری 2021 کے دن بھگت سنگھ کوشااری کو اپنے صوبے اتراکھنڈ کی راجدھانی دہرادون مںق گزٹڈ افسران کے ایکغیر سرکاری یعنی نجی پروگرام مں حصہ لاور تھا۔ اس کے لیے انہوں دو فروری کو نہ صرف سرکاری جہاز کا مطالبہ کیا بلکہ گیارہ جنوی کو یہ جانے بغیر کہ اجازت ملی یا نہیں ہوائی اڈے پر جہاز میں جاکر بیٹھ گئے ۔اس کے بعد ان کو مطلع کاگ گاہ کہ انھںص سرکاری طاگرے سے سفر کرنے کی اجازت نہںر ہے ۔ اس بے عزتی کے بعد مجبوراً ان کے معاوننا نے اسپائس جٹو طاکرے سے انہیں روانہ کر دیا۔
گورنر کی اس توہین پر حزب اختلاف کے رہنما دیویندر فردنویس نے شدید ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے اس کو ریاستی حکومت کا غرور بتایا لیکن اس کی اصل ذمہ داری تو خود گورنر کی تھی ۔ اول تو نجی دورے کے لیے سرکاری جہاز کا استعمال مناسب نہیں تھا ۔ دوسرے اجازت ملی یا نہیں یہ معلوم کرنا ان کی اپنی ذمہ داری تھی۔ وہ اگرایسا کرتے تو سرکاری جہاز میں بیٹھ کر اپنی عزت نہیں خراب کرواتے۔ دہرادون سے واپس آکر گور نر بھگت سنگھ کوشامری نے ایک تہنی۔ تقریب کے میں اپنا نزلہ اتارتے ہوئے کہا کہ اتر پردیش مں کہا جاتا ہے کہ اگر مہاراشٹر مں سا ست کر نا ہو تو کوآپر یوم بنکں اور شکر کے کار خانے قائم کرو۔ انہوں نے ملک کے موجودہ حالات مںے بنکو ں کے کاروبار پر تنقدر کرتے ہوئے کہا کہ’’ ممبئی اور اطراف مںا موجود بڑے بنکو ں مںن ہو نے والی بد عنوانی سے عوام کا بنکنگ سسٹم پر سے بھرو سہ اٹھ گار ہے۔ ان حالات کو سدھارنے کے لیے سرکار اور کوآپر یو اداروں کوایمانداریکا مظاہرہ کر نا ہوگا۔اس طرح دوبارہ عوام کا اعتماد حاصل کر نا ممکن ہے۔ اس لئے سر کار اور کوآپر یو ح اداروں کے درمیان تعاون و اشتراک کی سخت ضرورت ہے‘‘۔
سنگھ پریوار کی سیاست میں اپنی عمر کا طویل عرصہ گزارنے کے بعد بھاشن بازی کی جو عادت پڑی ہوئی اس سے مجبور ہوکر کوشارریبولے کہ آج کے زمانے مںو بنکن انتظامہن عوام کو دونوں ہاتھ سے لوٹ کر کنگال کررہا ہے اس کا احساس وقتاً فوقتاً بنکورں کے دیوالہم ہو نے سے ہو تا رہتا ہے۔دوسروں پر بدعنوانی کا طنز کسنے والے بھگت سنگھ کوشیاری بھول گئے گزشتہ سال ان کے خلاف ہائی کورٹ کے حکم پر عمل درآمد نہ کرنے کے معاملے میں توہین عدالت کا نوٹس جاری کیا جاچکا ہے۔ جسٹس شرد کمار شرما کی بینچ نے دہرادون کی غیر سرکاری تنظیم (این جی او) رورل لِٹیگیشن اینڈ اینٹائیٹلمینٹ کیندر کی جانب سے دائر توہین عدالت کی عرضی پر شنوائی کرتے ہوئے نوٹس جاری کیا تھا۔عرضی گذار نے عدالت کو بتایا تھا کہ سابق وزیر اعلیٰ بھگت سنگھ کوشیاری کے خلاف دائر توہین عدالت کی عرضی قابل سماعت ہے۔
یہ کوئی احتجاج یا مظاہرے کا فرضی مقدمہ نہیں بلکہ بدعنوانی کا معاملہ ہے۔اتراکھنڈ ہائی کورٹ نے ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ بھگت سنگھ کوشیاری کو سرکاری رہائش گاہ اور دیگر سہولتوں کے الاٹمنٹ کے معاملے میں گزشتہ برس تین مئی کو بازار کی شرح پر بقایا جمع کرنے کی ہدایت دی گئی تھی لیکن کوشیاری نے عدالت کی ہدایت پر عمل درآمد نہیں کیا اور نہ جواب دینے کی زحمت کی اس لیے یہ توہین عدالت کا معاملہ بن گیا ۔یہ ہے سنگھ پریوار کے اپدیش (نصیحت) کرنے والوں کاکردار۔ ان لوگوں کو معلوم ہونا چاہیےکہ جن کے مکان شیشے کے ہوتے ہیں وہ دوسروں کی جانب پتھر نہیں اچھالتے ۔ بھگت سنگھ کوشیاری اگر اپنی ناپسندیدہ حرکتوں سے باز نہیں آئے تو ادھو ٹھاکرے کو بھی گورنر ہاوس کے باہر دھرنا دینا ہوگا اوروہ بھی صدر مملکت سے ملاقات کے لیے مجبور ہوجائیں گے ۔ مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ مرکزی حکومت سے گورنر کو واپس بلانے کی درخواست تو کرہی دی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کرن بیدی کی طرح کوشیاری کی باری کب آتی ؟ ان سے جتنی جلدی نجات مل جائے اتنا ہی اچھا ہےکیونکہ کرن بیدی نے پدو چیری میں بی جے پی کا اتنا نقصان نہیں کیا جتنا بھگت سنگھ کوشیاری مہاراشٹر میں کرچکےہیں ۔ اس لیے ان کو واپس بلا لینا خود بی جے پی کے بھی مفاد میں ہےغالب کا یہ شعر کوشیاری پر خوب صادق آتا ہے کہ ؎
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
ضضضض

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here