تازہ ترین خبروں اور اردو مضامین کے لئے نیچے دئے گئے لنک پر کلک کر کے واٹس ایپ اور فیس بک پر ہمیں جوائن کریں
https://chat.whatsapp.com/ 9h6eHrmXUAXBjMyW9zQS4B
https://www.facebook.com/
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه ذیل ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔
[email protected]
9807694588(موسی رضا)
پیش کردہ: شاہد حبیب
اردو ہندی رباعیات میں مختلف النوع تجربے کرنے والے معروف شاعر اور صوفی غزل گو جناب ڈاکٹر شیامانند سرسوتی روشنؔ (پیدائش: 26/نومبر 1920 بمقام پشاور) نے چورانوے سالہ طویل عمر پاکر 25/مارچ 2014 کی صبح کو آٹھ بجے دہلی میں آخری سانس لی تھی ۔
افسوس کہ اردو دنیا اتنی بڑی شخصیت کے انتقال اور اس کی تاریخ سے ناواقف تھی۔ اخبارات نے بھی اس امر کو ضروری نہیں سمجھا تھا کہ ان کے انتقال کی خبر کو شائع کیا جائے۔ اس لیے آن لائن یا آف لائن کہیں سے بھی ان کی وفات حسرت آیات کی تاریخ کا پتہ نہیں چل پا رہا تھا۔ کئی جگہوں پر رابطہ کر کے مایوسی ہی ہاتھ لگی۔ جن گنے چنے اشخاص نے ان کی تجہیز وتکفین میں شرکت کی تھی، انھیں بھی اس کی پختہ تاریخ کا علم نہیں تھا ۔ اردو دنیا کو پروفیسر عراق رضا زیدی (سابق صدر، شعبہ فارسی ، جامعہ ملیہ اسلامیہ) کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انھوں نے ان کے پسماندگان کا پتہ لگایا اور ان کے گھر جا کر تاریخ انتقال کی جانکاری حاصل کی۔
دراصل سہ ماہی ادبی نشیمن، لکھنؤ کے زیر ترتیب رباعی نمبر کے لیے روشن ؔ صاحب کی رباعیات کے حوالے سے ایک مضمون موصول ہوا جس میں سن پیدائش و وفات کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ حقیر نے آن لائن سرچ کرنا شروع کر دیا ۔ نتیجے میں سن پیدائش کا تو ریختہ کے توسط سے علم ہو گیا لیکن سن وفات کا پتہ کہیں سے بھی نہیں لگ رہا تھا۔ کئی ذرائع سے پتہ کرنے کی کوشش کی اور پتہ کرتے ہوئے پروفیسر موصوف کے در پر حاضری دی کہ یہاں سے تو ضرور معلومات حاصل ہو جائے گی۔ کیوں کہ شیامانند سرسوتی روشن ؔ کے آخری مجموعہ کلام ”حسنِ رباعیات“ (مطبوعہ 2013) پر شمس الرحمٰن فاروقی صاحب کے ساتھ ساتھ پروفیسر موصوف نے بھی مقدمہ تحریر فرمایا تھا اور مجموعے کی اشاعت کو یقینی بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ لیکن انھیں بھی انتقال کی حتمی تاریخ کا علم نہیں تھا۔
ایسے میں تو اب یہ تاریخ وفات پتہ کرنا علمی و ادبی دنیا کے لیے ایک فریضے کی حیثیت اختیار کر گیا تھا کہ اتنی بڑی شخصیت کے انتقال کی تاریخ سے ہی دنیا ناواقف ہے۔ پیدائش کی تاریخ سے عدم واقفیت کو مسئلے سے تعبیر نہیں کیا جاتا لیکن تاریخِ وفات سے لاعلمی کو نہ صرف مسئلے کے طور پر دیکھا جاتا ہے بلکہ علمی شخصیات سے دنیا کی بےحسی اور علم کی ناقدری کی غمازی کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے۔ اس لیے اس کو باضابطہ تحقیق کا حصہ سمجھ کر اور دنیا کو واقف کرانے کی غرض سے حقیر نے پروفیسر موصوف کے سامنے اپنی کوششوں کے جاری رکھنے کے عندیے کا اظہار کیا۔ تو پروفیسر موصوف نے ان کے پسماندگان کی تلاش و جستجو اور ان سے معلومات حاصل کرنے کی بات کمال ذمہ داری کے ساتھ کہی ۔ اور روشن صاحب کی روحانی پوتی ڈاکٹر سومیا جین صاحبہ کا پتہ معلوم کر کے ان کے گھر جا کر انھوں نے یہ معلومات حاصل کیں۔ ہردوار چھوڑنے کے بعد روشن صاحب انھیں ڈاکٹر سومیا جین صاحبہ کے ساتھ رہ رہے تھے اور انھیں کے ذریعے تمام وفاتی رسوم ادا کی گئی تھیں ۔
اہل علم اور علم کے قدر دانوں سے اس تحقیق کو اپنی ڈائری اور یادداشت میں محفوظ کر لینے کی گزارش کی جاتی ہے۔ تاکہ روشنؔ صاحب پر لکھتے ہوئے حقیر کی طرح کی پریشانیوں کا سامنا کرنے سے وہ بچ سکیں
(مانو، لکھنؤ)،8539054888