9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
ڈاکٹر جوہی بیگم
ہمارا ملک ہندوستان ایک طویل ادبی و تہذیبی روایت کا حامل رہا ہے۔ ویدک عہد سے لے کر مسلمانوں کی آمد تک بےشمار ادبی مرقعے وضع ہوئے جن میں اکثر مذہبی رنگ غالب رہا۔ اس وسیع و عریض ملک میں نہ جانے کتنی زبانیں پیدا ہوئیں اور رفتہ رفتہ تاریخ کا حصہ بن گئیں۔ مسلمانوں کی آمد کے ساتھ وطن عزیز میں پہلے سے بولی جانے والی زبانوں مثلاً سنسکرت،پراکرت، اپ بھرنش اور دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ ملک میں داخل ہونے والی زبانوں عربی فارسی اور ترکی وغیرہ کے باہمی ربط سے ایک نئی زبان تشکیل پانے لگی، جسے مختلف ادوار میں مختلف ناموں سے موسوم کیا گیا۔ ہندی، ہندوی، ہندوستانی، ریختہ اور اردو جیسے نام اسی پیاری زبان کے ہیں جسے آج ہم اردو یا ہندی کے نام سے جانتے ہیں۔ ایک ہی سوتے سے پھوٹنے والے یہ دو چشمے آج پوری آب و تاب سے نہ صرف برصغیر بلکہ تمام عالم کو سیراب کر رہے ہیں۔
ماضی قریب میں مشاعرے اور کوی سمیلن زبانوں کی ترویج و اشاعت کا بڑا ذریعہ ہوا کرتے تھے لیکن انٹرنیٹ کی آمد اور زندگی کی برق رفتاری نے کسی حد تک زبان و ادب سے عوام الناس کی دلچسپی پر منفی اثرات مرتب کیا۔ زندگی کی تگ و دو میں لوگ جیسے بھول سے گئے ہیں کہ ہمارے پاس شاعری اور کویتا کا ایک گنجینۂ بیش بہا موجود ہے۔ جس انٹرنیٹ نے لوگوں کو شعر و شاعری اور ادب سے دور کر دیا اسی انٹرنیٹ کو ذریعہ بنا کر اگر کوئی ادب کی خدمت کرنے کی ٹھان لے تو ایسے شخص یا اشخاص کو خود بخود سلام کرنے کا دل کرتا ہے۔
ادب کی والہانہ خدمت کے جذبے سے سرشار ایسے ہی ایک شخص جناب شیویش دھیانی (Shivesh Dhyani) صاحب نے اپنے ادارے صفر فاؤنڈیشن کے زیراہتمام ادب کی خدمت کا ایک ایسا کارنامہ انجام دینے کی ٹھانی جو عالمی ریکارڈ میں اپنا نام درج کرائے گا۔ شیویش دھیانی صاحب نے حرف معتبر کے عنوان سے مسلسل ۱۸۱گھنٹے تک چلنے والے عالمی مشاعرے و کوی سمیلن کا خاکہ تیار کیا اور اسے عملی جامہ بھی پہنایا۔ ۲۸؍ جون سے ۵؍جولائی تک چلنے والے حرف معتبر میں تقریباً ۷۰۰ شعرا اور کوی شامل ہو رہے ہیں۔ انٹرنیٹ پر یہ مشاعرہ انتہائی کامیابی سے جاری ہے۔ اتنے طویل پروگرام کی تفصیل بیان کرنا ایک انتہائی دشوار گزار امر ہے لہٰذامیں اس تاریخی مشاعرے کی ایک ہلکی سی جھلک پیش کر رہی ہوں۔اس طویل آن لائن مشاعرے میں ادبی اور تہذیبی روایات کو پوری طرح ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ہر نشست میں کسی ایک معروف اور سینئر شاعر کی صدارت میں دیگر شعرا اپنا کلام پیش کرتے ہیں۔ ایسی ہی ایک نشست کی صدارت الہ آباد کے مایۂ ناز شاعر جناب توقیر زیدی کو سپرد کی گئی۔ اکبر الہ آبادی کے خانوادے کے اس چشم و چراغ کو شاعری ورثے میں ملی ہے۔یہی وجہ ہے کہ توقیرؔ زیدی نے بچپن سے ہی شاعری کا آغاز کردیا اور محض اٹھارہ برس کی عمر میں ان کا پہلا مجموعۂ کلام’’ سنگم کی لہریں‘‘ منظرعام پر آگیا۔ توقیرؔ زیدی نے شاعری کی تقریباً سبھی مقبول و معروف اصناف میں طبع آزمائی کی ہے۔ حمد، نعت، منقبت، غزل، نوحہ، مرثیہ، مثنوی اور نظم کی مختلف اقسام کی فنی خوبیوں کو توقیرؔ نے بڑی خوبصورتی سے برتا ہے۔ ان کے شعری مجموعوں میں ’’سنگم کی لہریں‘‘ کے علاوہ ’’صحرا‘‘، ’’غربت‘‘، ’’دار و رسن‘‘، نوحہ و مراثی کے مجموعے ’’آہ و فغاں‘‘ کے علاوہ ایک طویل مثنوی’’ موت و حیات‘‘ شامل ہیں۔ تو قیرؔ صاحب کا تازہ کارنامہ بھگوت گیتا کا منظوم ترجمہ ہے جو زیر طباعت ہے۔ ادبی خدمات کے علاوہ توقیرؔ زیدی نے فلموں اور موسیقی کے میدان میں بھی کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں۔ متعدد فلموں اور ٹیلی سیریلس میں گانوں کے علاوہ ان کے تحریر کردہ کلام پر مشتمل سو سے زیادہ البم منظر عام پر آ چکے ہیں۔توقیر ؔزیدی کو ان کی ادبی خدمات کے لئے متعدد اعزازات سے نوازا جا چکا ہے، جن میں سارسوت سمان، پروفیسر ملک زادہ منظور احمد ایوارڈ، اے پی جے عبدالکلام ایوارڈ اور پرواز ایوارڈ خصوصی طور پر قابل ذکر ہیں۔ ایسی ہمہ گیر شخصیت کی صدارت میں منعقد ہونے والا یہ سیشن خاص طور پر اہمیت کا حامل ہوگیا۔جیسا کہ ذکر ہوا کہ اس مشاعرے میں تقریباً ۷۰۰ شعرا شرکت کر رہے ہیں لہذا سبھی کا ذکر کرنا ممکن نہیں اس لیے چند شعرا کے تذکرے پر ہی اکتفا کر رہی ہو ں۔ رام پور اتر پردیش سے اومکار سنگھ وویک نے اس مشاعرے کو زینت بخشی اوراپنا کلام بہت ہی خوبصورت اور دلکش انداز میں پیش کیا۔ دو اشعار ملاحظہ فرمائیں:
ہنستے ہنستے طے رستے پتھریلے کرنے ہیں
ہم کوبادھاؤںکےتیور ڈھیلے کرنے ہیں
کیسے کہہ دوں بوجھ نہیں اب ذمہ داری کا
بیٹی کے بھی ہاتھ ابھی تو پیلے کرنے ہیں
بنگلور کےسید شفیق الزماں نے بھی اپنا کلام پیش کیا۔ نمونۂ کلام حسب ذیل ہے:
دشت جنوں میں کھو گیا منزل نہیں ملی
دیوانے کو جو یار کی محفل نہیں ملی
روداد زیست میری تھکن سے زماںؔ تو پوچھ
اس رہ گزر میں کونسی مشکل نہیں ملی
احمدا اباد گجرات سے محترمہ رضیہ مرزا صاحبہ نے زندگی اور حوصلے سے پر اپنا کلام بڑے ہی پرجوش انداز میں پیش کیا۔ رضیہ صاحبہ کی حیات بخش شاعری سے دو اشعار پیش ہیں:
تعلیم کے لفظوں کو ہم تیر بنا لیںگے
مصرعہ جوبنے پورا شمشیر بنا لیں گے
جاہل نہ رہے کوئی غافل نہ رہے کوئی
ہم مرض کی دوا کو اکسیر بنا لیں گے
کلکتہ کے عمرانؔ رضا قادری کے باوقار اور پر اعتماد ا شعار ملاحظہ فرمائیے:
باطل کے میں نے سامنے سر خم نہیں کیا
اس کا گواہ خود مرا پروردگار ہے
ہمارے شہر میں ناقد بہت ہیں
ہمیں اچھا سخنور کون جانے
مرادآباد سے انجینئر فرید عالم قادری نے نشست کی نظامت بحسن و خوبی انجام دی۔ انجینئر صاحب کا ایک مطلع اور ایک شعر پیش خدمت ہے:
دھوکا دیا تھا جس نے کسی کے دباؤ میں
بیٹھا ہے آ کے وہ بھلا میری ہی ناؤ میں
دشمن کو میرے آپ اکیلا نہ جانیے
ہر بار میں ہی آؤں گا اس کے بچاؤ میں
دوران صدارت توقیر زیدیؔ نے بھی اپنے کلام سے شرکا و ناظریں کو محظوظ کیا۔ دو اشعار ملاحظہ ہوں:
آج پھر اس کا کھلونا میں نہیں لے پایا
آنکھ لگ جائے جو بچی کی تو میں گھر جاؤں
جو میں نے غور سے دیکھا تو لمبا فاصلہ نکلا
تمھاری زلف برہم سے مرے اجڑے ہوئے دل تک
غرض کہ مسلسل ۱۸۱گھنٹے تک چلنے والے اس کاروان شاعری نے دنیائے ادب میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ صفر فاؤنڈیشن اور اس کے روح رواں جناب شیویش دھیانی سے اسی طرح ادب کی خدمت کا کام لیتا رہے اور ہماری پیاری زبانیں اسی طرح پھلتی پھولتی رہیں۔ آمین
شعبۂ اردو، الہ آباد ڈگری کالج،الہ آباد