9807694588
اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مند
کچھ تشویش، کچھ خدشات، کچھ امیدیں کچھ آرزوئیں!
سہیل انجم
سال 2020 گزر گیا۔ سال 2021 دنیا پر سایہ فگن ہے۔ جب پرانا سال دنیا سے رخصت ہو رہا تھا اور نیا سال شاداں و فرحاں اور خراماں خراماں دنیا کی طرف آرہا تھا تو دونوں کی ملاقات ہو گئی۔ یہ ملاقات 00-00 وقت پر ہوئی۔ پرانے سال کو دیکھ کر نیا سال بھونچکا رہ گیا۔ وہ زخموں سے چور تھا۔ چہرے سے کرب ٹپک رہا تھا۔ آنکھیں وحشت زدہ تھیں۔ کمر جھکی ہوئی تھی۔ چال میں لنگڑاہٹ تھی۔ وہ بری طرح تھکا ہوا لگ رہا تھا۔
نئے سال نے جب اسے اس حال میں دیکھا تو پوچھ بیٹھا کہ بھائی کیا ہوا تم اتنے پریشان کیوں ہو۔
ارے بس کیا بتاؤں۔ کچھ کہنے کا حوصلہ نہیں ہے۔
اس نے ہانپتے ہوئے کہا۔
کیوں تم تو پوری دنیا گھوم کر آئے ہو۔ دنیا کے حالات تو اچھے ہیں نا۔
ہاں ہاں پوری دنیا گھوم کر آرہا ہوں۔ اسی لیے تو کہہ رہا ہوں کہ جو کچھ میں نے دیکھا ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ میں نے دیکھا کہ کس طرح ایک موذی مرض دنیا پر قیامت ڈھا سکتا ہے۔ شاید پہلی بار ایسا ہوا ہوگا کہ بیک وقت پوری دنیا کسی وبا کی شکار ہو گئی ہو۔ پورا عالم ٹھپ ہو کر رہ گیا ہو۔ دنیا بھر کے اربوںانسان اپنے گھروں میں قید ہونے پر مجبور ہو گئے ہوں۔ دنیا کا کاروبار بند ہو گیا ہو۔ لوگ بیماری کے ساتھ ساتھ بھوک سے بھی مر رہے ہوں۔ میں نے کشتوں کے پشتے دیکھے ہیں۔ میں نے دیکھا ہے کہ کس طرح انسانی لاشوں کی بے حرمتی ہوئی ہے۔ کس طرح ان کی تذلیل کی گئی ہے۔ تم تو جا رہے ہو، دیکھو گے کہ اب بھی لاکھوں افراد اسپتالوں کے بستروں پر موت و حیات کی جنگ لڑ رہے ہیں اور وزانہ جنازے اٹھ رہے ہیں۔
کیا پہلے ایسی کوئی وبا دنیا میں نہیں آئی تھی۔
بھائی میرے اجداد نے کچھ بتایا تو تھا۔ لیکن کسی نے یہ نہیں بتایا تھا کہ پوری دنیا ایک ساتھ کسی تباہ کن عذاب میں مبتلا ہو ئی ہو۔ اس سے پہلے 1968میں انفلوینزا نامی ایک وائرس آیا تھا جو ہانگ کانگ، سنگا پور،ویتنام، فلپنس، ہندوستان، آسٹریلیا، یوروپ اور امریکہ میں پھیلا تھا اور اس میں دس لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس سے پہلے 1956 سے 1958 کے درمیان ایشین فلو آیا تھا جس نے چین، سنگاپور، ہانگ کانگ اور امریکہ کو اپنی گرفت میں لیا تھا۔ اس میں بیس لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس سے پہلے 1918میں بھی انفلوینزا نے کئی ملکوں کو اپنی گرفت میں لیا تھا۔ وہ دو سال تک رہا۔ اس بیماری نے دو کروڑ سے پانچ کروڑ انسانوں کو نگل لیا تھا۔
1910 سے 1911 کے درمیان طاعون آیا تھا ۔ وہ ہندوستان سے شروع ہوا تھا اور پھر مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ، مشرقی یوروپ اور روس تک پھیل گیا تھا۔ اس کے نتیجے میں آٹھ لاکھ انسانوں کی جانیں ضائع ہوئی تھیں۔
اور پیچھے جاؤ تو 1889 سے 1890 کے درمیان ایشیاٹک فلو یا رشین فلو نامی وبا پھیلی تھی۔ اس نے وسطی ایشیائی ممالک، کناڈا اور گرین لینڈ کو اپنی گرفت میں لیا تھا۔ اس بیماری کے سبب دس لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
1852 سے 1860کے درمیان طاعون کی ایک اور وبا پھیلی تھی۔ اس نے ایشیا، یوروپ، شمالی امریکہ اور افریقہ کو جکڑ لیا تھا۔ اس کے نتیجے میں بھی دس لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس سے پہلے بھی کئی وبائی امراض آئے اور لاکھوں لاکھ لوگوں کو اپنا لقمہ بنا گئے۔ لیکن ایسا پہلی بار ہوا کہ کوئی وبا پوری دنیا میں بیک وقت پھیلی اور پوری دنیا ایک ساتھ ٹھپ ہو کر رہ گئی۔
اچھا یہ بتاؤ اب کیا حال ہے اور سنا ہے کہ یہ وبا چین کے شہر ووہان سے شروع ہوئی تھی، وہاں کیا صورت حال ہے۔
ووہان میں تو اب معمولات زندگی لوٹ آئے ہیں۔ وہاں سے اس وبا کا خاتمہ ہو گیا ہے۔ رفتہ رفتہ دوسرے ملکوں سے بھی خاتمہ ہو رہا ہے۔ امید ہے کہ کچھ مہینوں میں ختم ہو جائے گی۔ پوری دنیا کے سائنس دانوں نے اس کی دوا بنا لی ہے۔
اچھا یہ بتاؤ کہ تم تو ہندوتان میں بھی رہے ہو گے، وہاں کے کیا حالات ہیں؟
وہا ںکے حالات بھی دوسرے ملکوں سے اچھے نہیں ہیں۔ جب حکومت نے اس وبا پر قابو پانے کے لیے چند گھنٹے کے اندر 21 روزہ لاک ڈاون کا اعلان کیا تو کیا بتاؤں کیا عالم تھا۔ لاکھوں لاکھ لوگ سڑکوں پر تھے۔ وہ اپنی اپنی سکونت گاہوں سے نکل کر اپنے وطن جا رہے تھے۔ عجیب افراتفری کا عالم تھا۔ پورے ملک کی سڑکیں اور شاہراہیں مزدوروں سے پٹ گئی تھیں۔ بھوکے پیاسے، سائیکل سے پیدل، ٹرک سے،بسوں سے اور جانے کیسے کیسے لوگ جا رہے تھے۔ بہت سے لوگ مارے گئے۔ کوئی سڑک حادثے میں تو کوئی ٹرین حادثے میں اور کوئی بھوک کی وجہ سے مرا۔ بڑا دلدوز منظر تھا۔ دیکھا نہیں جا رہا تھا۔
ہندوستان کے بارے میں کچھ اور بھی بتاؤ۔
اور کیا بتاؤں۔ تم نے سنا ہوگا کہ وہاں کی حکومت نے ایک قانون بنایا تھا جسے شہریت قانون کہتے ہیں۔ لوگ بتاتے ہیں کہ وہ آئین کے برعکس ہے۔ اس کے خلاف لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ جگہ جگہ خواتین کے دھرنے شروع ہو گئے تھے۔ مرد بھی ان کے شانہ بہ شانہ تھے۔ سب سے زیادہ شہرت شاہین باغ کے دھرنے کو ملی۔ تم جا رہے ہو اس کے بارے میں ضرور سنو گے۔ شاہین باغ کے دھرنے نے ملک بھر کی خواتین میں ایک جوش پیدا کر دیا تھا۔ جگہ جگہ شاہین باغ بن گئے تھے۔ لیکن کرونا کی بیماری کی وجہ سے ان تمام دھرنوں کو اٹھا لیا گیا۔ اگر کرونا نہ آیا ہوتا تو ان دھرنوں کا رنگ ہی دوسرا ہوتا۔ مگر اب پولیس دھرنوں میں شامل لوگوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔ وہ بہت سے لوگوں کو جیلوں میں ڈال چکی ہے۔
اس کے بارے میں کچھ اور بتاؤ۔
کچھ لوگ ان دھرنوں کے خلاف تھے۔ انھوں نے ہندوستان کی راجدھانی میں فساد برپا کر دیا۔ بہت بڑا دنگا ہوا۔ پچاس سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ اور ان میں اکثریت مسلمانوں کی رہی۔ تقریباً ایک ہفتے تک راجدھانی کا وہ متاثرہ علاقہ دھو دھو کرکے جلتا رہا۔ قانون نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ پولیس دنگائیوں کا ساتھ دے رہی تھی۔ انسانوں کو سرراہ مارنا، ہلاک کرنا ان کے گھروں کو نذر آتش کرنا۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا۔ ان دلخراش مناظر کو دیکھ کر میرا دل تو بہت رویا تھا۔ لیکن میں کر ہی کیا سکتا تھا۔
کیوں وہاں تو سنا ہے کہ ایک بہت مضبوط حکومت ہے۔ اس نے کچھ نہیں کیا۔
اس نے کچھ کیا ہوتا تو رونا ہی کیوں پڑتا۔ اس نے تو بلکہ ان لوگوں کی پشت پناہی کی جو دنگوں کے ذمہ دار تھے۔ حکومت نے پولیس کو پوری چھوٹ دے دی۔ اب جبکہ دنگے ختم ہوئے عرصہ گزر گیا ہے تو جانچ اور کارروائی کے نام پر انھی لوگوں کو ستایا جا رہا تھا جو اس کے شکار ہوئے تھے۔ تم جاؤ تم بھی اس کے بارے میں ضرور سنوگے اور دیکھوگے بھی۔ تمھارا بھی دل خون کے آنسو روئے گا۔ تم سے بھی یہ سب کچھ برداشت نہیں ہوگا۔
ہاں یوں تو ہندوستان کے بارے میں بتانے کو بہت کچھ ہے لیکن چلتے چلتے ایک اور بات بتاتا چلوں۔ حکومت نے کھیتی کسانی کے نام پر تین قوانین بنائے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ قوانین کسانوں کے فائدے کے لیے ہیں۔ لیکن کسانوں کا کہنا ہے کہ ان سے انھیں نقصان ہوگا اور ان کے کھیتوں اور فصلوں پر کارپوریٹ کا قبضہ ہو جائے گا۔
لہٰذا کسان سڑکوں پر ہیں۔ وہ ان قوانین کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دہلی سے ہریانہ اور اترپردیش سے متصل سرحدوں سنگھو اور غازی پور کے مقام پر ہزاروں کسان اس کڑکڑاتی ہوئی سردی میں دھرنا دے کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ 26 نومبر سے ہی بیٹھے ہیں۔ ان کے حالات بڑے سخت ہیں۔ ان پر ترس آتا ہے۔ اب تک بے شمار کسان مر چکے ہیں۔ لیکن حکومت کو ان پر ترس نہیں آرہا۔ وہ ابھی تک ان کی باتیں ماننے کو تیار نہیں ہے۔
میں جب گیا تھا تب بھی ہندوستان میں مظاہروں اور احتجاجوں کی گونج تھی اور اب جبکہ لوٹ رہا ہوں تب بھی مظاہروں اور احتجاجوں کی گونج ہے۔
بس اب بہت ہو چکا۔ میں بری طرح تھکا ہوا ہوں۔ اب تم جاؤ اور ان حالات کو اپنی آنکھوں سے دیکھو۔ میرا وقت ختم ہوا تمھارا شروع ہو رہا ہے۔ میری تمنا ہے کہ تم ان حالات سے نہ گزرو جن سے مجھے گزرنا پڑا۔ تمھارے دور میں دنیا کے حالات بہتر ہوں۔ امن و شانتی ہو۔ وبائی بیماری کا خاتمہ ہو۔ انسان انسانوں سے پیار کرنے لگیں۔ پوری دنیا کے حالات خوشگوار ہو جائیں۔ میری دعا ہے کہ تم جب دنیا سے لوٹو تو میری طرح نڈھال، زخم خوردہ اور تھکے ماندے نہ رہو۔ بلکہ چاق و چوبند اور خوش و خرم ہو کر لوٹو اور اپنے جا نشین کا مسرت و شادمانی کے ساتھ استقبال کرو۔
اچھا اب جاؤ، خدا حافظ۔ اپنا خیال رکھنا۔
٭٭٭