ہیں پریشان یہ سرکاری کرمچاری کیوں ؟

0
40

انجینئر منظر زیدی
سرکاری ملازمین کو دیا جانے والا مہنگائی بھتّہ بونس یا انعام نہیں ہے جو دینے والے کی مرضی پر منحصر ہو۔یہ مہنگائی بھتّہ ہے جو مہنگائی بڑھنے کی وجہ سے ملازمین کو دیا جاتا ہے ۔مہنگائی بھتّہ کی شرح ہر چھہ ماہ بعد بڑھی ہوئی مہنگائی کی مناسبت سے انڈیکس کے مطابق نکالی جاتی ہے ۔ اسکے بعد اتنے ہی فیصد مہنگائی بھتّہ بڑھا دیا جاتا ہے۔مہنگائی کے انڈیکس کے مطابق مہنگائی بھتّہ کم یا زیادہ ہوتا رہتا ہے۔لاک ڈاؤن کے دوران مئی ۲۰۲۰ ؁ میں سرکار نے فیصلہ کیا کہ سرکاری ملازمین کو ملنے والا مہنگائی بھتّہ جون ۲۰۲۱ ؁ تک نہیں دیا جائیگا۔یہی نہیں بلکہ جنوری ۲۰۲۰ سے جو۴ فیصدمہنگائی بھتّہ دئے جانے کا فیصلہ کیا تھا اسے بھی منسوخ کردیا ۔مہنگائی بھتّہ ایک سال میں دو بار یعنی جنوری اور جولائی میں دیا جاتا ہے۔اسکا یہ مطلب ہوا کہ جنوری ۲۰۲۰ ؁، جولائی ۲۰۲۰ ؁ اور جنوری ۲۰۲۱ ؁سے ملنے والا مہنگائی بھتّہ بند کر دیا گیا ہے۔اسکے علاوہ ملازمین سے کورونا رلیف فنڈ میں ایک دن کی تنخواہ بھی لی گئی۔ایک دن کی تنخواہ جوفی ملازم اوسط دو ہزار روپیہ تھی، ملازمین نے خوشی خوشی دیدی مگر مہنگائی بھتّہ کی تین قسطیں روک دینا ملازمین پر بہت بڑا بوجھ ہے۔ ملازمین کو مہنگائی بھتّہ کی ضرورت ہی نہیں ہے اگر سرکار مہنگائی بڑھنے سے روک دیتی ہے۔مہنگائی بھتّہ سے تو ملازمین کو یہ بھی نقصان ہے کہ بھتّہ بڑھی ہوئی مہنگائی کے انڈیکس کے تناسب سے ملتا ہے مگر ملازم کو اس پر ۵ فیصد سے ۳۰ فی صد تک ٹیکس دینا پڑتا ہے۔سرکاری ملازمین جو زیادہ تر درمیانہ و نچلے درجے میں آتے ہیں دوسرے تمام ضروری ٹیکس ادا کرنے کے علاوہ اپنی آمدنی سے انکم ٹیکس بھی صحیح طور پر جمع کر رہے ہیں کیونکہ انکے لئے ٹیکس چوری کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔جو بچتا ہے اسمیں سے کورونا سے جنگ کے لئے مختلف فنڈز میں مانگا جا رہا ہے۔اسی بچت سے کورونا اور لاک ڈاؤن سے پریشان حال غریبوں کی مدد بھی کی گئی ہے۔اس عرصے میں پیٹرول سے لیکر تمام اشیاء کی قیمتوں میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے۔ان حالات میں اگر سرکاری ملازمین کو مہنگائی بھتّہ نہیں ملیگا تو یہ مہنگائی ملازمین کیسے برداشت کرینگے۔پینشن پانے والے افراد کا مہنگائی بھتّہ روکے جانے کے ساتھ ریلوے میں سینئر سٹیزن کی رعایت بھی ختم کردی گئی ہے۔لاک ڈاؤن کے دوران اور اسکے بعد ہوئے نقصان کو پورا کرنے کے لئے تاجروں نے اشیاء کی قیمتوں میںاضافہ کر دیا ہے جسکی چند مثالیں پیش ہیں۔روز مرّہ استعمال کی ضروری اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں،یہاں تک کہ ضروری دواؤں کی قیمتوں میں بھی۱۰ سے ۲۰فی صد تک کا اضافہ ہوا ہے۔ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں جو عالمی بازار میں کچے تیل کی قیمت کم ہونے کی وجہ سے کم ہونا چاہئے تھیں وہ جی۔ایس۔ ٹی۔ کے بجائے ۳۰ فیصد ویٹ لگانے کی وجہ سے پہلے ہی بہت بڑھ گئی تھیں۔ اسکے باوجود لاک ڈاؤن میں کم بکری ہونے کی وجہ سے ہوئے نقصان کو پورا کرنے کے لئے تیل کمپنیون نے بہت تیزی سے پیٹرول کی قیمت ۷۲ روپے سے بڑھا کر ۸۶ روپے فی لیٹرکردی ہے جو ۲۰ فیصد اضافہ ہے۔اسکے ساتھ ہی ڈیزل کی قیمت ۷۵ روپے فی لیٹر ہو گئی ہے۔ایک وقت تھا جب ڈیزل کی قیمت پیٹرول سے تقریباً آدھی ہوتی تھی۔سرکار ڈیزل کی قیمت میں اضافہ کو اس لئے روکتی تھی کیوں کہ بہت سے کسان آبپاشی کے لئے ڈیزل انجن کا استعمال کرتے ہیں۔ڈیزل کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے ٹرکوںکے ذریعہ کی جانے والی پھل، سبزیوں اور دوسری ضروری اشیاء کی ڈھلائی کی قیمتوں پر فرق پڑتا ہے ، جنہیں ہر آدمی استعمال کرتا ہے۔اسی طرح ایکس پریس شاہراہوں پر پہلے ہی غلط طریقہ سے ٹول ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے۔ انجن سے چلنے والی گاڑیوں پر یک مشت روڈ ٹیکس لینے کے بعدشاہراہوں پر ٹول ٹیکس وصول کئے جانے کا کوئی جواز نہیں ہے۔یک مشت روڈ ٹیکس کی شرح پچھلے کچھ برسوں میں کئی گنا بڑھ گئی ہے۔روڈ ٹیکس وصولنے کے بعد یہ سرکار کی ذمہ داری ہے کہ عوام کو چلنے کے لئے اچھی سڑکیں فراہم کرائے۔لاک ڈاؤن کے دوران شاہراہوں پر گاڑیوں کی آمدورفت کم ہونے سے ہوئے نقصان کو پورا کرنے کے لئے ٹول پلازہ نے نیا طریقہ استعمال کیا ہے۔ٹول ٹیکس کو دو حصّوں میں بانٹ دیا گیاہے اور انکی الگ لائنیں بنا دی گئی ہیں۔ایک لائن وہ ہے جس پر پرانی شرح پر ٹیکس لیا جا رہا ہے۔باقی تین لائنیں فاسٹ ٹریک کے نام سے بنادی گئی ہیںجن پر تقریباً دوگنا ٹیکس لیا جا رہا ہے، جسکی وجہ سے کم شرح والی کھڑکی پر گاڑیوں کی لمبی قطاریںلگ جاتی ہیں اور وقت کی بربادی ہوتی ہے۔حالانکہ ٹول پلازہ سے باہر نکلنے کے بعد سب گاڑیوں کو ایک ہی سڑک پر چلنا ہے۔سرکار بھی اپنے اخراجات مختلف طریقے سے پورے کر رہی ہے ۔سرکاری ضروری فارموں کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے۔ڈرائیونگ لائیسنس اور گاڑیوں کے ر جسٹریشن کے رنیول کی فیس میں اضافہ ہو گیاہے۔ بندوق کے لائیسنس کی رنیول فیس جو ۲۰۱۴ میں ۶۰ روپے تھی وہ ۲۰۱۷ میں ۱۵۰۰ روپے ہو گئی تھی اور اب ۲۰۲۰ میں ۳۰۰۰ روپے ہو گئی ہے۔پہلے انکم ٹیکس ریٹرن مقرّرہ وقت سے تاخیر سے بھرنے پرصرف انکم ٹیکس کی رقم پر سود لیا جاتا تھا مگر اب ایک دن کی بھی تاخیر ہونے پر سود کے علاوہ ۵۰۰۰ روپے جرمانہ بھی دینا پڑتا ہے۔جی۔ایس۔ٹی۔ ریٹرن مقرّرہ وقت پر داخل نہ کرنے کی صورت میں ۵۰روپے روزآنہ کے حساب سے جُرمانہ لگتا ہے۔اسی طرح ٹریفک کے اصولوں کو ٹوڑنے پر جو جُرمانہ ۱۰۰ روپے سے ۱۰۰۰ روپے تک تھا وہ اب ۲۰۰۰ روپے سے ۱۰۰۰۰ روپے تک کر دیا ہے۔یہ چند مثالیں ہیں ورنہ اسطرح کی ایک لمبی فہرست ہے جسکے ذریعہ سرکار کی آمدنی میں اضافہ ہوا ہے۔سرکار کے ذریعہ ڈالا گیا یہ اضافی بوجھ سرکاری ملازمین بھی اٹھا رہے ہیں مگر انکے پاس اپنی آمدنی بڑھانے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔مہنگائی بھتّہ اسی مہنگائی کو پورا کرنے کے لئے دیا جاتا ہے ۔ایک ملازم کو مہنگائی بھتّہ نہ ملنے کی وجہ سے کتنا نقصان ہوگا اور سرکار کی کتنی بچت ہوگی اسکا تخمینہ لگاتے ہیں۔اسَِ وقت سرکاری ملازمین کی تنخواہیں۱۸۰۰۰ روپے سے ۲۵۰۰۰۰ روپے کے درمیان ہیں۔کیوں کہ کم تنخواہ پانے والے ملازمین زیادہ ہیں اسلئے ایک ملازم کی اوسط تنخواہ اگرپچاس ہزار لی جائے تو جنور ی ۲۰۲۰ ء سے منظور شدہ چار فیصد مہنگائی بھتّہ دو ہزار روپے ماہانہ کے حساب سے جون ۲۰۲۰ء تک ۱۲۰۰۰ روپے ملنا تھا۔جولائی ۲۰۲۰ء سے چار فیصد کی اگلی قسط ملنی تھی، یعنی جولائی ۲۰۲۰ سے دسمبر ۲۰۲۰ تک آٹھ فیصد ،۴۰۰۰ روپے ماہانہ کے حساب سے ۲۴۰۰۰ روپے ملنا تھا۔اسی طرح جنوری ۲۰۲۱ء سے اگلی قسط چار فیصد کی ملنی تھی۔( اموجودہ مہنگائی کو دیکھتے ہوئے یہ قسط مہنگائی کے انڈیکس کی مناسبت سے زیادہ بھی ہو سکتی تھی) اس طرح جنوری ۲۰۲۱ سے جون ۲۰۲۱ تک کلُ ۱۲فیصد کے حساب سے چھہ ماہ میں ۳۶۰۰۰ روپے مہنگائی بھتّہ ملنا تھا۔اس کا مطلب ہے کہ جنوری ۲۰۲۰ سے جون ۲۰۲۱تک کُل ۷۲۰۰۰ روپے مہنگائی بھتّہ کا نقصان ایک ملازم کو ہوگا۔بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی ہے۔جولائی ۲۰۲۱ء سے ملنے والے چار فیصد مہنگائی بھتّہ میں اگر تینوں ۱۲ فیصدکی منسوخ کی گئی قسطیں جوڑکر ۱۶ فیصد مہنگائی بھتّہ نہیںدیا گیااور صرف چار فیصد کی قسط ہی دی گئی( جسکی امید ہے) تو ۶۰۰۰۰ روپے سالانہ کا نقصان ملازم کو تا حیات یا کم سے کم اگلے پے کمیشن کی رپورٹ آنے تک، یعنی جنوری ۲۰۲۶ تک کے لئے ضرور ہو جائیگا،جو جنوری ۲۰۲۰ سے دسمبر ۲۰۲۵ تک ایک ملازم کا ۳۶۰۰۰۰روپے ہوتاہے۔ سرکار کو اس سے کیا بچت ہو گی یہ دیکھنے کے لئے صرف مرکزی سرکار اور اتّر پردیش سرکارکے ملازمین کے لئے تخمینہ لگاتے ہیں۔مرکزی سرکار کے ملازمین کی تعداد تقریباً پچاس لاکھ ہے اور اتّر پردیش سرکار میں سرکاری ملازمین کی تعداد بیس لاکھ سے زاید ہے۔اس طرح ستّر لاکھ ملازمین کا مہنگائی بھتّہ روکنے سے ۳۶۰۰۰۰ روپے فی ملازم کے حساب سے دو لاکھ باون ہزار کروڑ روپے کی بچت سرکار کو ہوگی۔ اسکے علاوہ مرکزی سرکار میں پینشن پانے والوں کی تعداد تقریباً ساٹھ لاکھ ہے۔ اور اتّر پردیش میں پینشن پانے والوں کی تعداد تقریباً پچّیس لاکھ ہے۔پینشن کیوں کہ آدھی ملتی ہے لہذا ۱۸۰۰۰۰روپے فی پینشنر کے حساب سے پچاسی لاکھ پینشن پانے والوں سے ایک لاکھ تریپن ہزار کروڑ روپے کی بچت ہوگی۔صرف مرکزی سرکار اور اتّر پردیش کے ملازمین کو مہنگائی بھتّہ نہ دئے جانے کی شکل میں سرکار کو چار لاکھ پانچ ہزار کروڑ روپے کی بچت ہوگی ۔یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ملازمین کے مہنگائی بھتّہ میں تو کٹوتی کردی گئی ہے مگر دوسرے سرکاری کام یا خرچ میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔بہت سے ایسے کام جو ابھی ضروری نہیں ہیں اسی رفتار سے ہو رہے ہیں جیسے لاک ڈاؤن سے پہلے ہو رہے تھے۔اسکی چھوٹی سی مثال لکھنؤ گومتی نگر میںوبھوتی کھنڈ میںبنے دو فلائی اوورپر پہلے سے بنی دیوار پر بھاری مقدار میں لوہے کا استعمال کرتے ہوئے کروڑوں روپیہ خر چ کرکے ریلنگ لگائی جارہی ہے جو ملک کی حالیہ معیشت کو دیکھتے ہوئے اس وقت غیر ضروری کام ہے۔
رابطہ۔ ۹۴۵۰۹۳۱۸۶۲

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here