بھارتی حکومت نے گزشتہ ہفتے 12 نومبر کو ’متنازع شہریت بل‘ کو قانون بنایا تھا جس کے تحت پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے 6 مذاہب کے غیرمسلم تارکین وطن ہندو، عیسائی، پارسی، سکھ، جینز اور بدھ مت کے ماننے والوں کو بھارتی شہریت کی فراہمی ہے، اس بل کے تحت 1955 کے شہریت ایکٹ میں ترمیم کر کے منتخب کیٹیگریز کے غیرقانونی تارکین وطن کو بھارتی شہریت کا اہل قرار دیا جائے گا۔
اس قانون کے تحت 31 دسمبر 2014 سے قبل 3 پڑوسی ممالک سے بھارت آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھ متوں، جینز، پارسیوں اور عیسائیوں کو بھارتی شہریت دی جائےگی۔
بل کے قانون بن جانے کے بعد اس کے خلاف نئی دہلی سمیت بھارت کے دیگر کئی شہروں میں بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہوگئے تھے اور 16 دسمبر تک بھارت میں ہونے والے مظاہروں میں 6 افراد ہلاک اور 100 سے زائد افراد زخمی ہوگئے تھے۔
مظاہروں کے دوران جلاؤ گھیراؤ کی وجہ سے جامعہ ملیہ سمیت دیگر اداروں کی املاک کو بھی نقصان پہنچا تھا۔
بل کے خلاف ہونے والے مظاہروں میں شرکت کے بعد ہی اداکار سوشانت سنگھ کو ان کے ٹی وی شو ’ساودھان انڈیا‘ سے باہر کیا گیا تھا اور دیگر اداکاروں و فلم سازوں کو بھی متنازع شہریت قانون پر بات کرنے کے خلاف بھی ہندو انتہا پسندوں نے تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
متنازع شہریت قانون پر اگرچہ بھارت کے سیاسی رہنما بھی تنقید کر رہے ہیں اور اس قانون کو ’بھارت کی تقسیم‘ قرار دے رہے ہیں، تاہم اب بولی وڈ شخصیات نے بھی اس متنازع قانون پر خاموشی توڑتے ہوئے اپنا احتجاج ریکارڈ کروایا ہے۔
متنازع شہریت قانون کے خلاف آواز بلند کرنے والی شوبز شخصیات میں دیا مرزا، فرحان اختر اور سوناکشی سنہا سمیت دیگر شخصیات سامل ہیں جب کہ متعدد بولی وڈ شخصیات نے متنازع بل کے خلاف مظاہرہ کرنے والے نئی دہلی کی جامعہ ملیہ یونیورسٹی کے طلبہ پر پولیس تشدد کی بھی مذمت کی ہے۔
اداکارہ پرینیتی چوپڑا نے متنازع شہریت قانون کو ’بھارت کی جمہوریت کی موت‘ قرار دیا اور ٹوئٹ کی کہ بھارت میں معصوم لوگوں کو اپنی آواز بلند کرنے پر مارا جا رہا ہے، ان کا کہنا تھا کہ ہمیں قانون سازی کرنی چاہیے مگر دوسروں کی رائے کا بھی احترام کرنا چاہیے۔
Also read