Thursday, May 9, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldیہ ملک کا الیکشن ہے یا دشمن سے جنگ

یہ ملک کا الیکشن ہے یا دشمن سے جنگ

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

حفیظ نعمانی

دہلی کا مشہور رام لیلا میدان آجکل نہ میدان ہے نہ پارک، بلکہ وہ بی جے پی کے صدر امت شاہ کا اور وزیراعظم نیز ان کے اہم وزیروں کے دفتر کے ساتھ ساتھ ان کا دولت خانہ اور مہمان خانہ بنا دیا گیا ہے۔ پانچ سال کی حکومت میں جتنی غلطیاں اور ملک کے عوام سے جتنی وعدہ خلافیاں کی ہیں ان پر پردہ ڈالنے اور ان کے بارے میں جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے کے گرُ بتانے کیلئے پندرہ ہزار ورکروں کو ملک بھر سے بلایا گیا ہے۔ یہ سب پارٹی کے مہمان ہیں اور ان کے سربراہ امت شاہ ہیں لیکن جہاں وزیراعظم بھی ہوں وہاں پارٹی صدر دکھاوے کے لئے ہوتا ہے۔
امت شاہ نے 2019 ء کا انتخابی بگل بجاتے ہوئے جمعہ کو انتخابی مہم کا افتتاح کرتے ہوئے اترپردیش میں سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے درمیان انتخابی سمجھوتہ کی خبر پر دل کے پھپھولے پھوڑے وہ جانتے ہیں کہ 2014 ء میں بی جے پی کو اُترپردیش میں اس وجہ سے 73 سیٹیں مل گئی تھیں کیونکہ ہر سیٹ پر سماج وادی پارٹی، بی ایس پی اور کانگریس نے اپنے اپنے اُمیدوار کھڑے کردیئے تھے اور وہ ووٹ جو بی جے پی کے خلاف تھے وہ تین جگہ بٹ گئے تھے۔ جن میں کانگریس کے تو بہت کم تھے باقی ان دونوں پارٹیوں کے تھے جو اب ایک معاہدہ کے تحت آدھے آدھے ہونے جارہے ہیں اور جب یہ دونوں ساتھ ہوجاتے ہیں تو انجام وہ ہوتا ہے جو گورکھ پور، پھول پور، کیرانہ اور نور پور میں ہوتا ہے کہ ووٹنگ مشینوں کو پیچش کا مریض بتا بتاکر بھی ایک سیٹ بھی امت شاہ نہ لے سکے اور 73 میں سے تین سیٹیں وہ بھی وزیراعلیٰ، نائب وزیراعلیٰ اور مرکزی وزیر کی تھیں وہ لے لیں۔ بول چال میں ایک لفظ ہیکڑی بھی استعمال ہوتا ہے وہ یہی ہے جو 73 سے 70 رہ جانے کے بعد بھی امت شاہ کہہ رہے ہیں کہ ان دونوں پارٹیوں کے ایک ہوجانے کے بعد بھی اترپردیش میں 74 سیٹیں جیتیں گے 72 نہیں ہوں گی۔ اور یہ کہہ کر جب دیکھتے ہیں تو دسمبر کی 11 تاریخ کو اتنا پسینہ آرہا ہوگا کہ ایڑی بھی تر ہورہی ہوگی۔
یہ بات کئی دن سے تذکرہ میں ہے کہ مدھیہ پردیش میں وزیراعلیٰ کمل ناتھ نے اس روایت کو ختم کردیا کہ اجلاس کے وقت وندے ماترم گایا جائے۔ ہمارے نزدیک یہ اچھا قدم تھا سابق وزیراعلیٰ جو آر ایس ایس کے بچے تھے ان کا نظریہ تھا کہ وندے ماترم، جے شری رام، مندر وہیں بنائیں گے، گاتے رہو کام نہ کرو کمل ناتھ کو کام کرنا ہے اور حکومت کا مرکز عوام کی خدمت کے کاموں کے لئے ہے دھرم کرم کے کاموں کے لئے نہیں ہے۔ کمل ناتھ کے اس فیصلہ سے آگ بگولہ ہوکر ہاری ہوئی پارٹی کے ممبر اور حمایتی چڑھ دوڑے۔ جب جوش ختم ہوگیا تو ایک رپورٹر نے موجود حضرات میں سے جن کی تعداد 25 سے زیادہ ہوگی ہر کسی کے منھ کے سامنے مائک کرکے کہا کہ وندے ماترم پورا سنا دیجئے۔ اور یہ دیکھ کر سب حیران رہ گئے کہ جو بھگوا بہادر لڑنے مرنے آئے تھے ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں نکلا جس نے پورا گیت یا وندے ماترم کے علاوہ دو تین بول بھی سنائے ہوتے۔
یہی منظر جمعہ کے دن رام لیلا میدان میں نظر آیا کہ درجنوں ورکروں سے ٹی وی والوں نے سوال کئے آپ کہاں سے آئے کیوں آئے اور جب آپ سے کوئی معلوم کرے گا کہ مودی جی نے 2014 ء میں جو جو وعدے کئے تھے ان میں سے کتنے پورے ہوئے تو آپ کیاجواب دیں گے تو کسی ایک کے پاس جواب نہیں تھا۔ رام لیلا میدان میں لاکھوں روپئے خرچ کرکے جادو نگری بناکر ورکروں کو مرعوب کرنا اور انہیں بتانا کہ اب کی بار پھر مودی سرکار کیوں ضروری ہے۔ صدر امت شاہ نے 2019 ء کے انتخابات کو ایسی تاریخی جنگ قرار دیا ہے جس کا اثر صدیوں تک رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ یہ مقابلہ ایک نظریہ کے تمام لوگوں اور وزیراعظم کے درمیان ہے۔ ہندوستان میں ایسا وقت بھی تھا جب کانگریس اور تمام پارٹیوں کے درمیان الیکشن لڑے جاتے تھے آج یہ فخر کی بات ہے کہ یہ الیکشن تمام پارٹیوں اور وزیراعظم کے درمیان ہے۔
جب امت شاہ یہ مان رہے ہیں کہ آج وزیراعظم کی وہ حیثیت ہے جو کبھی کانگریس کی تھی تو کیوں تسلیم نہیں کرلیتے کہ اس الیکشن کا انجام بھی وہی ہوگا جو کانگریس کا ہوا تھا۔ کانگریس نے بھی وہی غلطی کی تھی جو پانچ سال پہلے وزیراعظم مودی نے کی کہ ملک اور قوم سے ہر اس چیز کا وعدہ کرلیا جس کی انہیں ضرورت تھی اور حکومت بن جانے کے بعد بھول گئے۔ کسے یاد نہیں کہ 2014 ء کی انتخابی مہم کے آخری دنوں میں جھوٹے وعدوں نے ایسا جادو کیا تھا کہ مودی جی کہتے تھے کہ اچھے دن اور لاکھوں کا مجمع کہتا تھا۔ آئیں گے اور وہ اچھے دن تو کیا آتے برے دنوں کو بھی مودی جی نے اور برا کردیا کہ بینک کی لائن میں اپنے ہی روپئے نکالنے والے کھڑے کھڑے مرگئے اور لاکھوں جو پرائیویٹ کارخانوں میں لگے تھے انہیں جواب دے دیا گیا۔ اور ایسے ناتجربہ کاروں کو وزیراعلیٰ بنا دیا جو یہ بھی نہیں جانتے کہ حکومت کی دُم کدھر ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر کسان کے ایک ہاتھ میں لاٹھی ہے دوسرے میں ٹارچ اور منھ میں گالی ہے وہ رات بھر آوارہ جانوروں سے چور چور کھیل رہے ہیں اس کے بعد بھی یہ توقع کرنا کہ پھر مودی سرکار، ان کو ہی مبارک ہو۔

Previous article
Next article
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular