Friday, May 3, 2024
spot_img
HomeMuslim World’’ گلہائے سودا‘‘پر ایک نظر:

’’ گلہائے سودا‘‘پر ایک نظر:

شاہد رضا

 

 

نام کتاب : گلہائے سودا

ترتیب، تدوین وتعلیق : ڈاکٹر سرفراز احمد خان

 علم ایک ایسا خزانہ ہے جس کی چوری کا کوئی خوف نہیں ہوتا اور استعمال سے کم بھی نہیں ہوتا۔ (حضور اکرم ؐ) حقیقتاً علم ایک ایسی قوت ہے جو دنیا کی تمام تر قوتوں سے بلند وبرتر اور افضل ہے ۔ جس کے زوال کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ قدرت کے سربستہ رازوں کا انکشاف علم ہی کی بدولت ہوا۔ علم کی وجہ سے دنیا کی تمام وسعتیں آج کے انسان کے سامنے سمٹ گئیں ہیں۔ دوریاں قربتوں میں بدل گئی ہیں، انسان ہوا پر قابو پاچکا ہے۔ فضا میں پرواز کرسکتا ہے۔ آج کا انسان خلاء کی وسعتوں پر حاوی ہے، چاند پر اپنی کمندیں ڈال رہا ہے۔ علم ہی کا کرشمہ ہے کہ جس پر عمل کرکے آج ہم گھر بیٹھے دیگر ممالک کے حالات سنتے اور دیکھتے ہیں اور مزید معلومات حاصل کررہے ہیں۔ یہ علم کا فیض ہے کہ انسان کا نام مرنے کے بعد بھی روشن رہتا ہے۔ ہمارے اور دیگر اقوام کے عظیم قائدین نے علم کے ذریعے ہی قوم کی سچی اور پرخلوص خدمت کی ہے اور آج بھی ان کے نام زندہ و جاوید ہے۔ بزرگانِ دین بھی علم کی شمع سے لوگوں کو سیدھی اور سچی راہ دکھاتے رہے۔ علم کی بدولت ایجادات اور انکشافات کا ایک لامتناہی سلسلہ وجود میں آیا ہے ۔تعلیم سکھاتی ہے جینے کا سلیقہپروردگار عالم سب سے زیادہ کسب علم سے خوش ہوتاہے۔ اس نے سب سے پہلے اپنے حبیب رسولؐ خدا کو پہلا سبق ’’اقرا‘‘ یعنی ’’پڑھو ‘‘کا دیا۔ آئیے ذرا دیکھیں حصول علم کے میدان میں ڈاکٹر سرفراز احمد خان کس قدر سرگرم وسرگرداں رہے۔ڈاکٹر سرفراز احمد خان مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی لکھنؤ کیمپس میں شعبۂ فارسی میں فارسی کے مدرس ہیں۔ ڈاکٹر سرفراز احمد خان صاحب ایک اچھے انسان ہی نہیں بلکہ ایک اچھے اور باصلاحیت استادہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین قلمکار اورمرتب بھی ہیں۔ان کے مختلف علمی و تجزیاتی مضامین رسائل وجرائد میں چھپے ہیں اور میرا بنیادی مقصد یہاں پر صرف ان کی ترتیب، تدوین وتعلیق کی ہوئی کتاب ’’گلہائے سودا‘‘ کی اہمیت وافادیت بیان کرنے سے ہے۔یہ کتاب ڈاکٹر سرفراز احمد خان صاحب کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ہے جس میںسوداؔ کی’’غزل، قصیدہ، رباعی، قطعہ‘‘وغیرہ کے ساتھ ساتھ مختلف شعرا کی حالات زندگی اور ان کی شاعری کی خصوصیات کو بھی قلمبند کیا ہے۔اس کتاب کے تناظر میں اور اس کے علاوہ ان کے لکھے ہوئے مختلف رسائل وجرائد میں چھپنے والے مضامین سے ان کی بصیرت ،شعور وآگہی کی پہچان آسانی کے ساتھ کی جا سکتی ہے۔ ڈاکٹر سرفرازاحمد خان صاحب نے ’’گلہائے سوداؔ‘‘ میں سودا کا رسالہ ’’عبرت الغافلین‘‘ کو بھی من وعن رقم کیا ہے۔ یہ ادبی تنقیدکا ایک اہم نمونہ ہے۔ یہ رسالہ سوداؔ نے اودھ کے قیام کے دوران تحریر کیاتھا۔عبرت الغافین کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ سودا شعر کے متوازن اور جاندار تصویر رکھتے ہیں۔ انہوں نے فارسی کے کلاسیکی شعرا کا گہرا اور وسیع مطالعہ کررکھا ہے۔مرزا محمد رفیع سوداؔ کا نام آتے ہی ہمارا ذہن فوراً اس مختلف اللسان شخصیت کی طرف منتقل ہوجاتا ہے کہ جس نے اردو وفارسی ادب میں بہت سی اصناف پر بیک وقت قلم اٹھایا۔ یہی نہیں کہ اس نے صرف مختلف اصناف پر قلم ہی اٹھایا بلکہ ان اصناف پر دسترس بھی حاصل کی۔ بلکہ اس کی تحریرو تصنیف کی دسترس نے ان تمام اصناف کوبحسن وخوبی پایۂ تکمیل تک انجام دیا اوریہی نہیں اس کی جادونگاری کا کمال یہ رہا کہ اپنے قاری اور اپنے سامع کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔گلہائے سوداؔکاقاری کتاب کو اٹھانے کے بعد ختم کئے بغیر نہیں رہتا۔ یہ سوداکی تحریروں پر گرفت اس کے ساتھ کئے گئے انصاف کا ہی نتیجہ ہے کہ قاری اس کو ختم کئے بغیر اس سے رشتہ ختم نہیں کرنا چاہتا۔ بلکہ جب ایک صنف مکمل کرلیتا ہے تو دوسرے کے لیے تجسس پیدا ہوجاتا ہے۔ اور قاری مرزا محمد رفیع سودا کی شخصیت پر غور وخوض کرنے لگتا ہے۔ غرض کہ سودا نے جس صنف پر قلم اٹھایا اس کے ساتھ انصاف سے کام لیا ہے۔ سوداؔ کی غزلوں میں وصف نگاری، مبالغہ آرائی، تخیل کی پرواز، نکتہ آفرینی اور دقیقہ سنجی کے باوصف الفاظ کا شکوہ اس انداز کا ہے کہ ان کی غزل قصیدہ نما ہوجاتی ہے۔ ان کی غزلوں میں بلندیٔ فکر ورفعت خیال تو ہے لیکن چاشنی، شیرینی اس قدر نہیں جتنا چاہئے۔ سودا طبع رسا اور زبان معجزبیان لے کر آئے تھے اس لیے ان کی خیال آفرینی، نکتہ سنجی، رفعت فکر کے ساتھ زوربیان کی فراوانی ہے۔ اس وقت میرے ہاتھوں میںکتاب’’گلہائے سوداؔ‘‘ علم وآگہی کا موجیں مارتاہوا ایک سمندر ہے ۔ جس میں ڈاکٹر سرفراز احمد خان صاحب نے سوداؔ کی شاعری کے ساتھ ساتھ ان ادیبوں اور شاعروں کی حالات زندگی کو بھی اجاگر کیا ہے جنہوں نے فارسی ادب کو عروج بخشا۔ میرا خیال ہے کہ ڈاکٹر سرفراز احمد خان صاحب کی یہ کاوش قارئین کے علم وآگہی میں اضافہ کا سبب ہوگی کیونکہ ’’گلہائے سودا ‘‘ میںوہ ساری چیزیں ایک ساتھ نظر آتی ہیں جو ہمیں سیکڑوں کتابوں کی ورق گردانی سے حاصل ہوں گی۔

(ریسرچ اسکالر مانو لکھنؤ کیمپس، یوپی)

 

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular