Friday, May 10, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldکیوں سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا

کیوں سب بھول گئے حرف صداقت لکھنا

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

غلام علی اخضر
ملک کی بگڑتی ہوئی صورت دن بدن ترقی کرتے ہوئے بدحالی کا سپرپاور بنتی جارہی ہے۔ خواتین غیر محفوظ، انسانی جان کی کوئی قدر وقیمت نہیں،نوجوان روزگار کے لیے در بدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں،نفرتوں کی بیج تسلسل کے ساتھ بوئی جارہی ہے، میڈیا اپنا ضمیر بیچ کر سرکاری پالتو کتوں کی طرح ہاتھ جوڑ کر صف بستہ ہے،جونہیں تو انھیں نوکریوں سے بے دخل کیا جارہا ہے؛مگر یہ کم ہی ہیںاور صحافت کا معیار روز بروزحق گوئی سے دور ہونے کی وجہ سے گرتا جارہا ہے۔اس صورت حال کاذمے دار کوئی دوسرا نہیں بلکہ خود ہم ہیں۔ ہم نے ہی ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں ملک کا باگ ڈورتھمادیا جو اپنے وقت کے خود بڑے مجرم ہیں اگرچہ دنیا یا سرکاری سسٹم میں توڑ مروڑ کر مجرم کو قاتل یا مجرم ہونے سے بچالیا گیا ہو۔ عدالت کے موجودہ رویے اس کی منھ بولتی تصویر ہے۔ کون نہیں جانتا کہ گجرات فساد میں خود وہاں کی سرکار دنگایوں کی پشت پناہی کررہی تھی۔ ہندوستان کی یہ بدقسمتی ہی کہی جائے کہ جو غنڈے موالی ہوتے ہیں انہیں کے ہاتھو ں میں کبھی ضلع توکبھی صوبہ چلاجاتا ہے۔ یہ کیوں ہوتا ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں مذہب کے نام پر سیاست کرنا بہت آسان ہے۔ جب کہ پڑوسی ملک (پاکستان) اس معاملہ میں ہم سے بہتر ہے۔ وہاں کاحالیہ الیکشن اس کی بہترین مثال ہے۔
سرکار ملک کی بگڑتی صورت حال اور ترقی پر بات کرنے کے بجائے طلاق اور حلالہ جیسے مسائل جو سپرم کوٹ کی ذمے داری ہے اس پر ووٹ بینک بنانے کے لیے بکواس کرتی ہے؛ یہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہورہاہے۔ ملک کی بیٹیاں غیر محفوظ ہیں اور اس میں اول نمبر کا تاج اس کے سر بندھ گیا ہے؛یہ خبر ہندوستان کے متعدد اخباروں اور نیوز چائنلوں میں نشرکی گی۔ سرکار اس بدنماداغ کو دور کرنے کے لیے کوئی قدم بڑھا تی، اس کے بجائے جواب الجواب میں میں لگ گئی۔ مسلم خواتیں کے ’’حال زار‘‘پر مگرمچھ کی آنسو بہانے والی سرکار شاید صاف نیت سے اور سیاست سے اٹھ کر خواتیں کے تحفظ کے لیے سنجیدگی اور یقین کے ساتھ کمر بستہ ہوتی تو آج ہمیں مظفر پور، دیوریا اور ہردوئی جیسے حالات دیکھنے نہ ہوتے۔خیر! یہ تو بس ایک جھلک ہے۔ خواتیں ہمارے دیس میں کتنے غیر محفوظ ہیں آپ سرکاری سروے کو جان کر حیران رہ جائیں گے۔ 70لاکھ لڑکیاں ہرسال غائب ہوجاتی ہیں۔ نوزائدہ بچوں کی موت کے تناسب میں بھارت دنیا کی ٹاپ اول میں جگہ بنالی ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا کہ لڑکیوں کے ساتھ شرمندہ کردینے والی خبریں نہ آتی ہوں۔دہلی ہمارے ملک کی راجدھانی ہے اسے ریپ کی بھی راجدھانی کی حیثیت حاصل ہے۔ سرکار ی اعددا شماری کے مطابق سال 2011میں پولیس ریکاڈ کے مطابق515،2011سے 16کے درمیان ان معاملات میں 300فی صد کا اضافہ ہوا؛اس درمیان پولیس ریکارڈ کے مطابق 2155عصمت دری کے کیسیز درج ہوے۔ گویا پہلے کے مقابلے میں 277فیصد کا اضافہ ہوااورسال2018اس معاملے میں ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ جب ملک کی راجدھانی کا یہ عالم ہے تو پورے ملک کا کیا عالم ہوگا۔ اس زد میں 6؍ سال کی بچے سے لے کر 80سال کی بوڑھی عورتیں شامل ہیں۔ مودی جی کا وکاس پاگل ہوگیا ہے۔ قربانی قریب ہے اور سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود ہندوستان لنچستان بنتے جارہاہے۔ اس پر گفتگو ہو کہ لنچستان کیوں بن رہا ہے؟ اس کی زد میں آئے ہوئے مسلمان جو موت کو گلے لگاچکے ہیں،  کی فرست آپ کے سامنے پیش کروں:
محمد اخلاق(دادری،یوپی۔28/9/2015)زاہد احمد بھٹ(اودھم، جموں۔9/10/2015)نعمان (سراہن، ہماچل پردیش۔15/10/2015)افروزل خان(راج سمند، راجستھان۔7/9/2017)عمر خان (الور،راجستھان۔9/11/ 2017)احمد خان (جیسلمیر، راجستھان۔27/92017)حافظ شیخ(جلپائی گوڑی، ویسٹ بنگال۔27/8/2017)انور حسین(جلپائی گوڑی۔ ویسٹ بنگال۔27/8 /2017)علیم  الدین (رام گڑھ، جھارکھنڈ۔ 29/6/2017)محمد ناصر(شمالی دیناج پور، ویست بنگال۔22/6/2017)سمیرالدین (شمالی دینا جپور،ویسٹ بنگال۔22/6/2017 )ناصر الحق(شمالی دیناج پور، یسٹ بنگال۔22/6 / 2017)جن ید (بلب گڑھ، ہریانہ۔ 22/6/2017)ظفر(پرتاب گڑھ، راجستھان۔16/6/2017)شیخ سراج (خرسوان ڈسٹرکٹ، جھارکھنڈ۔18/7/2017)شیخ سجو(خرسوان ڈسٹرکٹ، جھارکھنڈ۔18/5/2017)شیخ نعیم (خرسوان ڈسٹرکٹ، جھارکھنڈ۔1 8/5/2017)ریاض الدین(ناگائوں، آسام۔30/4/2017)ابوحنیفہ(ناگائوں، آسام۔30/4/2017)پہلوخان (الور، راجستھان1/4/2017)عنایت اللہ خان(لتی ہار، جھارکھنڈ۔17/3/2017)محمد مجلوم(لتی ہار، جھارکھنڈ۔17/3/2017)قاسم عمر(ہارپور ، یوپی۔9/5/2018)سراج(ستنا، مدھیہ پردیش۔17/5/2018)محمداعظم (بیدر، کرناٹک۔14/7/2018)اکبرخان(الور ، راجستھان۔20/7/2018)وغیرہ کے نام شامل ہیں۔
یہ کیوں کر ہوا؟وجہ صاف ہے۔ سرکار کی سرپرستی لنچنگ انجام دینے والوں کو حاصل ہے۔ چاہے عوامی سطح پر ہو یا سرکاری قانون کی کھوکھلی حفاظت کرنے کادعویٰ کرنے والی عدالتیں۔حال ہی میں سمیع الدین18جون میں گائے کے معاملے میں موت کے گھاٹ اتار دینے والی سنسنی خیز(این،ڈی،ٹی،وی) خبر عدالت اور پولیس کے رویے کو خوب اجاگر کرتی ہے۔ حکومت کے نمائندے خود ان کے ساتھ ہیں اور پھر انھیں ان کاموں کا اچھا صلہ بھی دیا جاتا ہے کبھی میت پر ترنگاڈال کر، کبھی مالہ پہناکر، کبھی نوکری اور اچھے عہدوں سے نواز کر۔ کیا ہماری سرکار چاہے تو ان حالات پر قابونہیں پاسکتی ہے؟ضرور!مگر جب خود سرکار کا من اس میں شامل ہے تو عام نیتا کیوں نہیں پاجامے سے باہر ہوں گے۔ ان حالات کے باوجود ہم انصاف کی امید رکھتے ہیں تو بقول شاعر    ؎
انھیں سے جان بخشی کی توقع ہم کو ہے یارو
اشاروں پر ہی جن کے روز قتل عام ہوتے ہیں
یوپی میں جانتے ہوئے کہ یوگی ایک شدت پسند آدمی ہے ۔ مرڈر کے بہت سارے کیسیزان کے نام درج ہیں۔ اس کے باوجود ان کو مودی سرکار نے یوپی کا مکھ منتری بنایا۔ایساآدمی جو خود مجرم اور اس کی زندگی قانون کی دھجیاں اڑانے میں گزری ہووہ کیا انصاف کی حقیقت یا اہمیت کو جانے گا اگر جانتا تو ’’گولی‘‘والا بیان نہ دیتے۔ انھیں اس کا بھی خیال نہیں کہ ہم کس عہدے پر ہیں۔ یہاں ایک پچپن کا واقعہ بیان کردوں۔ جس سے یوگی جی کی دہشت گردی کا اندازہ آپ کرسکتے ہیں:’’میری عمر کہیں8برس کی ہوگی۔ ضلع دیوریاکے شہر’’ بانس دیوریا‘‘ جو گورکھ پور سے متصل ہے۔ یہاں میں قرآن ناظرہ پڑھ رہا تھا۔ محرم کے موقعے سے ایک ہندو اور مسلم دوست کے درمیان یہ بات لے کر ’’بیٹا پان کھائوگے‘‘بحث ہوگئی۔جس پر مسلم دوست نے اپنے ہندودوست کے پیٹ پر ایک گھوسا مارا۔اتفاق سے اس کی موت ہوگئی۔
اب کیا تھاپورے شہر میں ایک عجیب سی ڈر کی کیفیت چھاگئی۔کل ہوکر شہر میں کرفیولگ گیا۔اسی درمیان آواز گونجی کہ یوگی جی آرہے ہیں ۔ اب کیا تھا پورے مسلم گھر رات ہی رات کھالی ہوگئے۔ صرف کسی کسی گھر میں بوڑھے لوگ تھے۔ رات کو کھانا کھانے کے لیے جب نکلاتو ہر طرف پولیس ہی پولیس نظر آرہی تھی اور شہر سناٹا پڑاتھا۔ ہاں! یہ بات ضرور تھی کہ پولیس مدرسے کے بچوں کوکچھ نہیں کرتی بلکہ کبھی روک کر ان سے حال دریافت کرتے۔ مجھے آج تک وہ اخباری عبارت یاد ہے جو اس واقعہ کی ترجمانی کررہاتھا۔’’توتو میں، توتومیں، ایک گھوسا مارا تو مرگیا‘‘ جن کی دہشت گردی عام ہونے کے باوجود رہبر ی کی گدی سنبھالے تو کیا امید کرسکتے ہیں۔
نام نہاد مسلمان ہر زمانے میں رہے ہیں۔ دور جانے کی ضرورت نہیں ہندوستان کے پچھلے اوراق الٹیے ۔گجرات فساد(2002) میں استعمال کیا گیا۔آر، بی سری کمار۔مترجم سید منصور آغاکی کتاب’’پس پردہ گجرات‘‘سے ایک تحریر پیش کی جارہی ہے جس سے آپ بخوبی جان سکتے ہیں:
’’..28فروری(2002)کی شام جب میں آفس میں تھا‘خورشید احمد(آئی پی ایس)نے مجھے فون پر اطلاع دی کہ تقریباً 400مسلم خاندان ‘جو فسادیوں کی زد پر ہیں‘سیجاپور کے محفوظ (ریزروڈ)کمانڈ ہیڈ کوارٹرمیں پناہ مانگ رہے ہیں۔مسٹر خورشید اس کمانڈ ہیڈ کوارٹر کے کمانڈنٹ تھے‘جو کہ نرودا پاٹیا سے متصل ہے جہاں اس دن شام تک 96مسلمانوں کو قتل کردیا گیا تھا۔یہ ہیڈ کوارٹر محفوظ چہار دیواری کے اندر ہے اور سنتری اس کی حفاظت پر مامور رہتے ہیں۔خورشیداحمد ان عام باشندوں کو ایس آر پی ایف بٹالین ہیڈ کوارٹر میں داخل ہونے دینے کیلئے واضح ہدایت چاہتے تھے۔میں نے فوراً ان کو فیکس سے یہ ہدایت بھیج دی کہ جو لوگ حفاظت کی خاطر اندر آنا چاہتے ہیں انہیں آنے دیا جائے اور انہیں خالی بیرکوں میں جگہ دیدی جائے۔مسٹر خورشیداور ان کے نائب مسٹر قریشی ان مسلمانوں کو ‘جن کی جانیں یقینی طورپر خطرے میں تھیں‘ کیمپ کے اندر داخل ہونے کی اجازت دینے کے جوکھم سے گھبرائے ہوئے تھے۔ان پر شایدآر ایس ایس کارکنوں کا دباؤ بھی تھا۔میں نے ان کو یقین واطمینان دلایا کہ میرے تحریری حکم پرعمل کرنے میں ان پر کوئی الزام نہیں آئے گا۔لیکن میرے تحریری حکم کے باوجودکمانڈنٹ مسٹر خورشید احمد نے پناہ کے خواستگار مسلمانوں کو کیمپ میں داخلہ کی اجازت نہیں دی۔اطلاع یہ ہے کہ اسی دن شام کو نرودا پاٹیا میں جن 96مسلمانوں کا بہیمانہ قتل ہوا‘یہ انہی 400مسلمانوں میں سے تھے جنہیں کیمپ میں میرے حکم کے باوجود ایک مسلمان افسر نے داخل نہیں ہونے دیا۔بعد میں ریاستی حکومت نے خورشید احمد کو سورت کا ڈپٹی کمشنر آف پولیس بنادیا۔یہ ایک انتہائی اہم منصب ہے جس کی طلب بہت سے افسرا ن کو رہتی ہے۔یہی نہیں ان کی اہلیہ شمیمہ حسن (آئی اے ایس) کو ولساڈ کا ضلع ڈویلپمنٹ آفسراور سریندر نگر کا کلکٹر بنادیا گیا۔اسی کے ساتھ مسٹر قریشی کو ان کی’’ امتیازی خدمات‘‘ کے عوض صدر جمہوریہ کا پولیس میڈل دلوادیا گیا۔حالانکہ عام پولیس میں کام کرنے کا ان کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ایس آر پی ایف کے کسی افسر کو شاید ہی یہ ایوارڈ ملتا ہو۔‘‘
آرایس ایس ذہنیت اور بی جے پی کی سیاست کے بینر تلے ندااور فرحت نقوی نے انصاف کے نام پر جو نیوز چائنلوں میں گل کھلائے اور اسلام کے چہرے مسخ کرنے کی کوشش کی؛ افسوس!۔وہی ندا جو کل پردے میں تھی آج چہرے کی رونق بکھیر رہی ہے۔ کیا صرف اس لیے کہ انھیں کچھ عہدے مل جائے؟
آج کچھ نام نہاد مسلمان آرایس ا یس تنظم’’مسلم منچ‘‘ سے مسلمانوں کی رہبری کا علمبردار بنے ہوئے ہیں۔ ان کی عقل پر جتنابھی جنازہ پڑھا جائے کم ہے۔ ارے! جن کی پوری پالیسی اسلام کو مٹانے کے لیے ہو وہ اسلام میں امن کی بات کرے گا؟۔یہ نام نہاد تلوے چاٹنے والے جو خود اسلام کی حقیقت کو سمجھنے سے نابابلغ ہیں تو وہ کیا ہمیں اسلام بتائے گا۔ان کی عقل دنیا حاصل کرنے اور جھوٹی شہرت کمانے کے لیے مفلوج ہوچکی ہے۔ بقول شاعر:
خدا جب دین لیتا ہے
تو عقلیں چھین لیتا ہے
ملک کی ترقی چھوڑ کر سرکار جگہوں کے نام بدلنے میں لگی ہوئی ہے۔ اگر نام بدلنے سے ملک کی بدحالی سدھر جاتی ، تو بے وقوف ہیں وہ ملک کے رہبران جو بُرے حالات سے گزررہے ہیں؛وہ کسی سپر پاور ملک کا نام رکھ کر اپنے ملک کی ترقی کرلیتے۔
جب دیکھو! میڈیا میں رام مندر، نکاح، حلالہ اور طلاق پر بحث چھیڑکرسرکار اپنی سیاست کرتی رہتی ہے۔ شاید عدالت پر انھیں بھروسہ نہیں اگر ہوتی تو یہ گندی سیاست نہ کرتے؛آخر عدالت کس دن کے لیے بنی ہے؟۔
کیوں نہیں میڈیا اور صحافی اس بات کو اعلانیہ لکھتے اور کہتے ہیںکہ آج ملک کی حالت خراب ہونے میں خود سرکار کی سوچی سمجھی سازش ہے۔اگر جان جانے کے ڈر سے تو یہ قول یاد رکھو!’’اگر آپ جان جانے کے ڈر سے سچ بول اور لکھ نہیں سکتے تو آپ پر لازم ہے کہ صحافت کو شجرممنوعہ سمجھ کر اس سے دور رہیں‘‘’’کیوں بھول گئے حرف صداقت لکھنا‘‘۔ اگر ان حالات میں بھی عوام اور قوم کی بیٹیاں سیاسی مہرے بنیں تو بقول شاعر
سیل نفرت کا اگر روکا نہیں ہم نے ابھی
خون کے دریا بہیں گے آگ کی طوفان میں
ایم،اے اردو،دہلی یونی ورسٹی۔دہلی
7275989646
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular