” عصمت چغتائی : شخصیت اورفن”

0
977

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

 

 

محمد عباس دھالیوال،

اردو ادب میں افسانے کا آغاز بیسویں صدی کے اوائل میں منشی پریم چند کے افسانوں سے ہوتا ہے۔ بعد میں اس ادبی صنف کو جن افسانہ نگاروں نے بلند وبالا مقام عطا کیا اور افسانہ میں زندگی سے جڑی ہر چھوٹی بڑی بات کہنے کا ذریعہ بنایا اور اس میں بے مثال وسعت پیدا کی۔ اہلِ ادب آج بھی ان افسانہ نگاروں کو افسانہ کے عناصر اربعہ کے نام سے یاد کرتے ہیں ان میں کرشن چندر، سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی اور عصمت چغتائی شامل ہیں اور اتفاق سے یہ سبھی فکشن نگار ہم عصر تھے اور سب کے سب ممبئی میں قیام پذیر تھے اور سبھی فلمی دنیا سے وابستہ تھے۔انھیں مذکورہ ادبا میں آج ہماری گفتگو کا موضوع عصمت چغتائی کی فن و شخصیت کے بارے میں جاننا ہے۔
عصمت چغتائی جنکی ذات کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے. کیونکہ وہ ایک ایسی دلیری اور جگر ے والی خاتون تھیں کہ ادبی دنیا میں جن کی مثال دینا مشکل ہے۔ اپنی تخلیقات میں جس بے باکی اور دبنگ مئء انداز میں خواتین کے درد و تکالیف اور مرد پرست سماج میں عورتوں پر ہو رہے ظلم و زیادتیوں کو اپنے افسانوں و ناولوں میں جگہ جگہ دی۔ بخوبی سمجھ سکتی تھی اور انہوں نے خواتین کی زندگی کے کرب کو محسوس کیا یہی وجہ ہے کہ ان مختلف تخلیقات کے بیشتر حالات واقعات اور کردار خواتین پر ہو رہے مرد پرست میں ظلم و زیادتیوں کی عکاسی کرتے محسوس ہوتے ہیں۔
انکی زندگی کے شروعاتی دور کی بات کرتے ہیں تو ہمارے سامنے عصمت کی حیات میں بہت سے نشیب و فراز آتے محسوس ہوتے ہیں ۔
عصمت ۲۱ اگست 1915ء کو بدایوں ، صوبہ اترپردیش ہندوستان میں پیدا ہوئیں۔ عصمت اپنے دس بہن بھائیوں میں نویں نمبر پر تھیں۔ والد مرزا قسیم بیگ چغتائی جج کے عہدے پر فائز تھے اور آئے دن تقرر و تبادلے کے سبب عصمت کو ملک کے مختلف شہروں بدایوں، بھوپال،بریلی ، علی گڑھ،لکھنؤ ، جودھ پور ممبئی میں رہنے کا موقع ملا۔
اس سے پہلے دورانِ تعلیم عصمت ترقی پسند تحریک سے منسلک ہو چکی تھیں۔ 1936ء میں ایسوسی ایشن کی ہی میٹنگ میں ان کا تعارف راشد جہاں سے ہوا جنہوں نے مستقبل ومیں عصمت کو خواتین کے حقیقی کرداروں کو کہانی میں ڈھالنے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے سامنے اجاگر کرنے کی ترغیب دی۔
اپنی شروعاتی زندگی کے بارے میں عصمت ایک جگہ خود لکھتی ہیں کہ. “میں اپنے بھائیوں کے ساتھ وہ سبھی کھیل کھیلتی جو لڑکے کھیلتے ہیں. گلی ڈنڈا، پتنگ بازی، اور فٹبال کھیلتے کھیلتے بارہ برس کی ہو گئی.” اس کے علاوہ سائیکل چلانا گھوڑ سواری کرنا اور بھائیوں سے ہر محاذ پر بھڑنا اور مسئلہ پر بلا تکلف گفتگو کرنا عصمت کی زندگی کا گویا معمول تھا اپنے بے باک اور دبنگ رویے کے تناظر میں وہ ایک جگہ خود لکھتی ہیں کہ “سچ پوچھیے تو اصل مجرم میرے بھائی ہی تھے.جن کی صحبت نے مجھے انھیں کی طرح آزادی سے سوچنے پر مجبور کر دیا. وہ شرم و حیا جو عام طور پر درمیانہ طبقہ کی لڑکیوں میں لازمی صفت سمجھی جاتی ہے. پنپ نہ سکی. چھوٹی سی عمر سے دوپٹہ اوڑھنا، جھک کر سلام کرنا شادی بیاہ کے ذکر پر شرمانے کی عادت بھائیوں نے چھیڑ چھاڑ کر پڑنے ہی نہ دی. سوائے عظیم بھائی کے سبھی گھر میں چاک چوبند تھے کنبہ کا کنبہ حد درجہ با مذاق اور باتونی، آپس میں چیخیں چلتیں نئے نئے جملے تراشے جاتے، ایک دوسرے کی دھجیاں اڑائی جاتیں، بچے بچے کی زبان پر سان رکھ جاتی۔”
ممبئ فلم انڈسٹری میں جب مکالمہ نگاروں کی بات کرتے ہیں تو مردوں کے بیج میرے خیال میں ایک واحد نام عصمت چغتائی کا ہے جس نے ہندوستانی سینما کی تاریخ میں اپنے انداز بیاں و بے تکلفانہ تخلیقات کی وجہ سے اپنا الگ مقام بنایا۔
انھوں نے 1948سے لیکر 1978تک تقریباً 14 فلموں کے لیے مکالمے اور مکمل کہانیاں اور اسکرپٹ وغیرلکھیں.
انکے ناول ضدی جو کہ 1948میں لکھا گیا۔اس پہ ان کے خاوند شاہد لطیف نےفلم بنائی ۔جس میں دیوآنند نےکام کیا تھا ۔جبکہ فلم آرزو کے ڈائلاگ، اسکرپٹ پلے اور کہانی بھی عصمت چغتائی نے لکھی تھی جبکہ اس فلم میں دلیپ کمار نے اپنی ادا کار ی کے جوہر دکھائے تھے . اسی طرح 1958میں آئی فلم سونے کی چڑیا کی کہانی بھی عصمت کی تھی. ایک فلم 1974 ء میں آئی تھی جس کا نام تھا” گرم ہوا ” جو عصمت چغتائی کے ایک افسانہ کو بنیاد بنا کر ہی فلمائی گئی تھی۔ اس فلم کے ڈاءیلاگ اور اسکرین پلے کیفی اعظمی اور شمع زیدی نے لکھے تھے۔اس فلم میں معروف اداکار بلراج ساہنی نے ایک مسلمان کا کردار بہت حقیقی انداز میں ادا کیاتھا فلم کی کہانی ایک ایسے مسلمان کے گرد گھومتی ہے جو ملک کی تقسیم کے وقت پاکستان جانے سے انکار کر دیتا ہے جبکہ اس کے تمام اہلِ خانہ ملک کو چھوڑ کر پاکستان چلے جاتے ہیں۔ لیکن اس پریوار ایک فرد جسے اپنے ملک ہندوستان سے بے حد محبت ہے وہ اپنے ملک کو چھوڑ کر جانے سے انکار کردیتا ہے ۔ اس کے بعد فلم میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس شخص پر کس قدر مصیبتوں کے پہاڑ ٹو ٹتے ہیں یہاں تک کہ اپنے ہم وطنوں کی طرف سے غدار کہہ کر پکارا جاتا ہے اور اسے بے حد ایز پہنچائی جاتی ہے جبکہ اسکی حب الوطنی کے جزبہ کو ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا بے ۔اس فلم کو ریلیز ہوئے اب تقریباً 45سال کا طویل عرصہ گزر چکا ہے لیکن اس فلم کی کہانی آج بھی ملک میں بسنے والے کم و بیش ہر دوسرے تیسرے مسلمان کے ساتھ دہرائی جا رہی ہے اس فلم میں چلنے والی نفرت و فرقہ پرستی کی گرم ہوا آج بھی ملک میں بسنے والے مسلمانوں کو جھلساتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ یہاں قابل ذکر ہے کہ فلم گرم ہوا کی اچھی کہا نی لکھنے کے لیے عصمت کو ۱۹۷۵میں فلم فیئر ایوارڈ ملا تھا۔ اس کے علاوہ عصمت نے مشہور فلم جنون اور محفل کے ڈاءیلاگ بھی لکھے تھے۔
عصمت کے خاکے دوزخی کو جب اتفاق سے سعادت حسن منٹو کی بہن نے پڑھا تو ناگوار ی کا اظہار کیا ۔ اس سلسلے میں عصمت چغتائی ایک جگہ کہتی ہیں کہ” سعادت حسن منٹو کا اقتباس اس خاکہ کے بارے میں “ساقی” میں “دوزخی” چھپا. میری بہن نے پڑھا اور مجھ سے کہا” سعادت، یہ عصمت کتنی بیہودہ ہے اپنے موئے بھائی کو بھی نہیں چھوڑا کمبخت نے کیسی کیسی فضول باتیں لکھیں ہیں “میں نے کہا” اقبال اگر میری موت پر تم ایسا ہی مضمون لکھنے کا وعدہ کرو. تو خدا کی قسم میں آج ہی مرنے کے لیے تیار ہو ں” شاہجہاں نے اپنی محبوبہ کی یاد قائم رکھنے کے لیے تاج محل بنوایا.عصمت نے اپنے محبوب بھائی کی یاد میں دوزخی لکھا شاہجہاں نے دوسروں سے پتھر اٹھوائے. انھیں ترشوایا اور اپنی محبوبہ کی لاش پر عظیم الشان عمارت تعمیر کرائی. عصمت نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنے خواہرانہ جذبات چن چن کر ایک اونچا مچان تیار کیا اور اس پر نرم نرم ہاتھوں سے اپنے بھائی کی نعش رکھ دی. تاج شاہجہاں کی محبت کا برہنہ مرمریں اشتہار معلوم ہوتا ہے. لیکن دوزخی عصمت کی محبت کا نہایت ہی لطیف اور حسین اشارہ ہے. وہ جنت جو اس مضمون میں آباد ہے عنوان اس کا اشتہار نہیں دیتا. ”
عصمت چغتائی نے ہندوستان کی خواتین سے جڑے ہر مسائل پر لکھا ۔ ان کے افسانے اور ناول غریب و متوسط طبقہ کی خواتین کی روزانہ زندگی کی نمائندگی و عکاسی کرتے ہیں۔
ان کا پہلا افسانہ ”گیندا“ ہے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار گیندا ہے۔ یہ ایک غریب لڑکی ہے۔ اس کی سہیلی ایک مڈل طبقہ کے گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ کہانی اسی لڑکی کے ذریعے سنائی گئی ہے۔ دونوں بچپن سے ساتھ کھیلتی ہیں۔ گیندا کی بچپن میں ہی شادی ہوجاتی ہے اور وہ بیوہ بھی ہو جاتی ہے۔ کھیل کے دوران میں جب گیندا کو سیندور دیا جاتا ہے تو وہ کہتی ہے کہ ”بدھوا کاہے کو سنگھار کرے“۔ گیندا کی سہیلی کا بھائی گیندا کو ماں بنادیتا ہے۔ اسی طرح اپنے افسانے لحاف جس کے لکھنے کے نتیجے میں ان پر مقدمہ چلا،یہ الگ بات کہ وہ بعد میں اس مقدمے میں باعزت بری ہو گئیں لیکن اس کے باوجود یہ افسانہ ان کے ساتھ سائے کی طرح لگا رہا ،عصمت لکھتی ہیں کہ”لحاف سے پہلے اور لحاف کے بعد میں نے جو کچھ لکھا اس پر کسی نے غور نہیں کیا۔لحاف کا لیبل اب بھی میری ہستی سے چپکا ہوا ہے۔ لحاف میری چڑ بن گیا۔ میں کچھ بھی لکھوں لحاف کی تہوں میں دب جاتا۔ لحاف نے مجھے بڑے جوتے کھلوائے۔“
عصمت چغتائی ترقی پسند ادب سے وابستہ تھیں۔ ترقی پسند ادب کے بارے میں ان انھوں نے ایک جگہ لکھا ہے کہ”ایسا ادب جو انسان کی ترقی چاہے۔ انسان کی بھلائی چاہے۔وہ ادب وہ آرٹ جو انسان کو پیچھے نہ دھکیلے۔ انسان کو دنیا کی اچھی سمت پر چلائے۔ وہ ادب جو انسان کو صحت، علم اور کلچر حاصل کرنے میں مدد دے اور جو ہر انسان کو برابر کا حق دینے پر یقین رکھتا ہو۔ انسان کی زندگی کے عروج کا قائل ہو۔ انسان کوگندگی سے نکال کر صاف و شفاف علم کی طرف پہنچادے۔ مکمل طور پر انسان کی بھلاسئی چاہے۔ اس کے سوچنے کے انداز پر ایسا اثر ڈالے کہ بجائے پیچھے ہٹنے کے آگے بڑھے۔ اندھیرے میں جانے کی بجائے اجالے کی طرف آئے۔وہ ادب ترقی پسند ہے۔ جب ہم ترقی پسند ادب کہتے ہیں تو اس کی وسعت لامحدود ہے۔ قصہ، کہانی، نظم، غزل غرض کہ ہر فکر و عمل کے کارہائے نمایاں جن سے انسان کی فلاح وبہبود مقصود ہو وہی دراصل ترقی پسند ادب ہے
ان کے مشہورِ زمانہ ناولوں میں ضدی، معصومہ، ٹیڑھی لکیروغیرہ شامل ہیں۔ ٹیرھی لکیر کا انگریزی میں بھی ترجمہ کیا گیا۔کچھ فقرے عصمت کے بارے میں پطرس بخاری ایک دیباچہ نویس کا اقتباس درج کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”عصمت کے افسانے گویا عورت کے دل کی طرح پُر پیچ اور دشوارگزار نظر آتے ہیں۔ میں شاعری نہیں کررہا اور اگر اس بات میں شاعری ہے تو اسی حد تک جہاں تک شاعری کو سچی بات میں دخل ہوتا ہے۔ مجھے یہ افسانے اس جوہر سے متشابہ معلوم ہوتے ہیں جو عورت میں ہے۔ اس کی روح میں ہے۔ اس کے دل میں ہے۔ اس کے ظاہر میں ہے۔ اس کے باطن میں ہے۔“
عصمت کے یہاں آپ کو بوریت کرنے والے لمبے لمبے ڈسکرپشن نہیں ملیں گے بلکہ اس کی جگہ بہت ہی معنی خیز معلومات میں اضافہ کرنے والے جامع ڈسکرپشن ملتے ہیں. ایسے ہی کچھ فقرے ”ساس“ کی تخلیق سے شروع دیکھیں. کوڈ
”سورج کچھ ایسے زاویئے پر پہنچ گیا کہ معلوم ہوتا تھا چھ سات سورج ہیں جو تاک تاک کر بڑھیا کے گھر میں ہی روشنی پہنچانے پر تلے ہوئے ہیں۔ تین دفعہ کھٹولی دھوپ کے رخ سے گھسیٹی اور اے لو پھر پیروں پر دھوپ اور جو ذرا اونگھنے کی کوشش کی تو دھمادہم ٹھٹوں کی آواز چھت پر سے آئی۔ ”خدا غارت کرے پیاری بیٹیوں کو“۔ ساس نے بےحیا بہو کو کوسا جو محلے کے چھوکروں کے سنگ چھت پر آنکھ مچولی اور کبڈی اڑا رہی تھی“۔ دنیا میں ایسی بہوئیں ہوں تو کوئی کاہے کو جئے۔ اے لو دوپہر ہوئی اور لاڈو چڑھ گئیں کوٹھے پر ذرا ذرا سے چھوکرےاور چھوکریوں کا دل آپہنچا پھر کیا مجال ہے جو کوئی آنکھ جھپکا سکے“۔
ان کے ایک افسانہ میں ایک لڑکی دوسری لڑکی کے بارے میں کہتی ہے کہ ”سعیدہ موٹی تھی تو کیا، کمزور تو حد سے زیادہ تھی بےچاری۔ لوگ جسم دیکھتے ہیں یہ نہیں دیکھتے جی کیسا ہر وقت خراب رہتا ہے“۔یقیناً مذکورہ فقرے میں سمجھ والو ں کے لیے کافی کچھ ہے.
اردو ادب میں خواتین کی نمائندہ فکشن نگار اور ہندی فلموں کی معروف مکالمہ نگار عصمت چغتائی آخر کار ۲۴ اکتوبر ۱۹۹۱ میں ادب کی دنیا میں اپنی کبھی نہ پوری ہونے والی کمی چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس فانی دنیا کو ممبئی میں الوداع کہہ گئیں۔
9855259650

Also read

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here