Sunday, April 28, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldکفر کی آ غوش میں جاتیں مسلم بچیاں!

کفر کی آ غوش میں جاتیں مسلم بچیاں!

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 مولانا سید اکرام الحق 
    دین پراپنی اولاد کو آخرت کے سخت عذاب سے بچانے کی کوشش کرنا اور اپنے ایمان کے ساتھ اپنے بچوں کے ایمان کے تحفظ کے لیے کُڑھنا اہم ترین فرائض میں سے ہے ۔اس سلسلے میں ماں باپ یا سرپرستوں کی ادنی سی کوتاہی بھی اُن کے بچوں کو کفر و شرک کے دَلدَل میں داخل کر سکتی ہے یا کم از کم اُنہیں فسق و فجور کے نرغے میں لے سکتی ہے ۔اِس لیے ماں باپ پر فرض ہے کہ خود بھی ایمان کی اہمیت و ضرورت اور عظمت و شان کو سمجھیں ،کفر و شرک کے معانی اور اِن کی نجاست و خباثت کو جانیں اور اپنی اولاد کو بھی اِن باتوں سے آگاہ کریں ۔ ذمے دار والدین اپنی اولاد کا مستقبل روشن کرنا چاہتے ہیں اور حصولِ ہدف کے لیے اپنی وسعت بھر کوشش کرتے ہیں یہاں تک کہ اکثر حضرات پر اپنے بچوں کے تابناک مستقبل کا ایسا جنون سوار ہو جاتا ہے کہ نہ اپنی آخرت نظر آتی ہے نہ اولاد کی۔ وہ یہ سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ اُن کا اور اُن کے بچوں کا حقیقی مستقبل یہ دنیا نہیں کہ جس کی کامیابی کے لئے اپناخون پسینہ ایک کر رہے ہیں۔
کفر و شرک کی آندھیاں چل رہی ہیں ۔ ہمارا دشمن منظم طریقے سے ہماری بچیوں کو اپنے جوانوں کے ذریعے عشق و محبت کے جال میں پھانس کر نہ صرف یہ کہ اُن کے لئے ارتداد کی راہیں آسان کر رہا ہے بلکہ ہمارے مسلم معاشرے کی کمزوری اور بدنامی کا سامان بھی فراہم کر رہا ہے ۔دشمنوں کے ہزاروں افراد اِس نہج پر کام کر رہے ہیں ، اپنی کامیابی کے لئے گراں قدر سرمایہ بھی خرچ کر رہے ہیں اور ہمارے ذمہ داروں کو’’ بہن بیٹیاں رکھنے کے باوجود‘‘ اِس  اہم مسئلہ پر سوچنے تک کی فرصت نہیں ۔ جو بد بخت لڑکیاں جھوٹی محبت کے دامِ فریب میں آکر ہندو لڑکوں کے ساتھ بھاگی ہیں یاجنہوں نے اُن کا مذہب اختیار کرکے اُن کے ساتھ شادیاں رچائی ہیں وہ سب بد ترین مجرم ہیں کہ اُنہوں نے آخرت کے بدلے دنیا اور جنت کے بدلے دوزخ کے دائمی عذاب کو اختیار کیا ہے ، مگر اُن کے ساتھ اُن کے والدین اور دیگر سر پرست بھی برابر کے مجرم ہیں۔ کیوں کہ اگر یہ لوگ اپنی بچیوں اور بہنوں کی درست تربیت کرتے، ایمان و اسلام کی اہمیت سے اُنہیں آگاہ کرتے ، کفر و شرک کی خباثت و غلاظت سے مطلع کرتے اور اُنہیں آزادی کا خوگر نہ بناتے تو شاید یہ دل خراش واقعات رو نما نہ ہوتے۔کوئی بھی مؤمن اِس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ جس کا خاتمہ کفر و شرک پر ہوگا وہ ہمیشہ کے لئے جنت کی نعمتوں سے محروم ہوگا ۔ اُس کے لئے صرف دوزخ کا عذاب ہوگا ۔ اب میں اُن ماں باپ سے پوچھنا چاہتا ہوں جو آزادی اور فیشن یا ترقی کے نام پر اپنی بچیوں کو حد سے زیادہ چھوٹ دیتے ہیں کیا آپ یہ برداشت کریں گے کہ آپ کی نورِ نظر کو آگ کے حوالے کر دیا جائے ؟ یقینا آپ کا جواب یہی ہوگا کہ ہم تو یہ بھی گوارا نہیں کر سکتے کہ ہماری بیٹیوں کو کسی قسم کی کوئی معمولی تکلیف بھی لاحق ہو ۔ یہی اِن لوگوں کی وہ تعجب خیز بات ہے جس پر اہلِ علم کی عقلیں ماتم کناں ہیں ۔ جب آپ اپنی بیٹیوں کی ہلکی تکلیف بھی برداشت نہیں کر سکتے تو یہ کیسے برداشت کر لیا کہ وہ معاذ اللہ کفر و شرک یا فسق و فجور اختیار کرکے جہنم کا ایندھن بن جائیں ؟
ہم سب پر لازم و ضروری ہے کہ خود بھی دوزخ کی آگ سے بچنے کی کامیاب کوشش کریں اور اپنے بچوں اور بچیوں کو بھی اُس کے بھیانک عذاب سے بچانے کی حتی المقدور سعی کریں ۔ یہی قرآن کا پیغام ہے۔ اللہ عز و جل قرآن مقدس میں ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ: ’’  ائے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اُس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں ، جس پر سخت مزاج اور طاقت ور فرشتے مقرر ہیں ، اللہ اُنہیں جو حکم دیتا ہے وہ اُس کی نا فرمانی نہیں کرتے اور وہ وہی کام کرتے ہیں جس کا اُنہیں حکم دیا جاتا ہے [سورۂ تحریم ۔ آیت : ۶]وہ ماں باپ ہرگز کامیاب نہیں کہے جا سکتے جو اپنے بچوں کی دنیاوی کامیابی کی تو خوب فکر کریں ، اُس کے لئے شب و روز کوششیں کریں ، دوڑ بھاگ کریں ، خطیر رقم خرچ کریں، حتی کہ ذلت کے کام بھی کرنے سے گریز نہ کریں ، مگر اُنہیں اپنے بچوں کی اُخروی کامیابی کی ذرا بھی پرواہ نہ ہو۔ تعجب ہے! جہاں فقط چند سال ہی رہنا ہے، بلکہ جہاں کا کاروبارِ حیات کسی بھی وقت بند ہو سکتا ہے اُس کی کامیابی کی فکر راتوں کی نیند اور دن کا چین آڑا دیتی ہے ۔ مگر جہاں ہمیشہ رہنا ہے ،جہاں کی زندگی کبھی ختم نہ ہوگی،اُس کی کامیابی کی فکر ایک شب بھی بیدار نہیں کرتی اور اُس کے لئے ایک دن بھی بے اطمینانی کی کیفیت محسوس نہیں ہوتی ۔
آپ یقین جانیے ! آخرت کی سر خروئی اور سرفرازی اُسے ہی نصیب ہوگی جو خاتمے تک ایمان پر قائم رہے گا اور جس کا خاتمہ کفر پر ہوگا اُسے دنیا و ما فیھا کی ساری دولتیں بھی دوزخ کی آگ سے بچا نہ سکیں گی. دنیا کا کاروبارِ حیات تو چند سالہ ہے ،کسی بھی وقت بند ہو سکتا ہے ، کیا ہم اپنی نگاہوں سے ایسے ہوش رُبا مناظرنہیں دیکھتے یا ہمارے قرب وجوار میں ایسے دردناک واقعات رو نما نہیں ہوتے کہ ایک ہی حادثہ ماں باپ کی امیدوں پر پانی پھر دیتا ہے اور والدین حسرت و یاس کی تصویر بن کر رہ جاتے ہیں۔ بلکہ بچوں کا حقیقی مستقبل آخرت ہے ۔ماں باپ کو اُسے روشن کرنے کی فکر کرنی چاہیے ۔اور آخرت کی سعادت وسرخروئی بچوں کو دینی تعلیم اور اسلامی افکار و نظریات سے آراستہ کئے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔اللہ رب العزت کی قسم ! جوماں باپ اپنے بچوں کو شرعی حدیں نہ بتا سکیں ، حلال و حرام کا فرق نہ سمجھا سکیں ، صحیح و غلط سے آگاہ نہ کر سکیں اور فرائض و واجبات کی تعلیم نہ دے سکیں وہ ہر گز اپنے بچوں کے خیر خواہ و ہم دم نہیں، بلکہ حقیقت میں وہ اپنے بچوں کے دشمن اور بد خواہ ہیں ۔ بچوں کی تعلیم و تربیت میں ماں باپ دونوں ہی کا کردار اہم ہوتا ہے ، اگر کسی ایک سے بھی کوتاہی ہوتی ہے تو خطرناک نتائج سامنے آتے ہیں۔بچے اولاً اپنے ربّ کے نافرمان بنتے ہیں ۔جب اپنے مالکِ حقیقی کی نافرمانی کرنا اُن کی فطرت بن جاتی ہے، تو اپنے ماں باپ کے نافرمان و گستاخ بن جاتے ہیں ۔ آپ اپنے بچوں کو اسکول،کالج، یونیورسٹی، جہاں چاہیں پڑھائیں اور جو بنانا چاہیں اُنہیں بنائیں! لیکن خدارا یہ کام ضرور کریں کہ کسی معیاری مدرسے میں بھیج کر یا کسی ذی علم استاذ کی نگرانی میں دے کر اُن کے ایمان و عقائد کی حفاظت کا انتظام کریں ۔ یہ کام نہایت اہم اور ضروری ہے ۔ یہ کہنا عقل مندی نہیں کہ’’ ابھی بچوں پر اسکولی نصاب کا بوجھ زیادہ ہے ۔دو دو ٹیوشن پڑھنا پڑتاہے ۔دینی تعلیم کے لئے وقت کہاں سے لائے؟۔کسی قدربڑا ہو جائے ، کچھ سمجھ آ جائے ، فلاں فلاں کورسز ہو جائیں تو مدرسے کی تعلیم پر دھیان دیگا ‘‘کیوں کہ اُس وقت بڑی دیر ہو چکی ہوگی۔ کیوں کہ اکثر دیکھا یہ گیا ہے کہ مغربی تعلیم اُس وقت تک بچوں کے دل و دماغ پر اثر انداز ہو چکی ہوتی ہے اور بچے اپنے ماں باپ کو دقیانوسی،قدامت پسند اور خود کو جینیس ،عقل مند اور نہ جانے کیا کیا سمجھنے لگتے ہیں اور اپنے والدین کی نصیحتیں قبول کرنا تودور رہا وہ خود اُنہیں نصیحتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔
ہم نے ایسے والدین کی تاریخیں بھی پڑھی ہیں جن کی آغوش اور زیرِ تربیت پروان چڑھنے والے بچے انقلاب آفریں ہوا کرتے تھے ،وہ اپنی نا قابلِ شکست عزم و حوصلے سے آندھیوں اور طوفانوں کے رخ پھیر دیا کرتے تھے ، وہ خود تو کسی تہذیب سے متاثر نہ ہوئے بلکہ اپنی انتھک کاوشوں سے دوسری قوموں کو اسلامی تہذیب و تمدن کا خوگر بناگئے ۔ مگر آج کے مسلم معاشرہ میں پروان چڑھنے والے نونہالان ِ اسلام ایسی ضعیف الاعتقادی کا شکار ہو تے چلے جارہے ہیں کہ کوئی بھی غیر مسلم کسی بھی بہانے سے اُن کے ایمان پر کسی بھی وقت ڈاکہ ڈال لیتا ہے ۔ اِسی لئے ہم ہوش کے ناخن لیں ، اپنے بچوں کی دینی تعلیم کا معقول انتظام کریں ، اُن کی اسلامی تربیت کے لئے با صلاحیت استاذ کو منتخب کریں ،اُنہیں ’’ایمان و کفر ، حلال و حرام اور سنت و واجب و فرض ‘‘ سے متعلق مسائل سے آگاہ کرائیں اور آقائے کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کی سیرتِ پاک کے اہم گوشے حفظ کرائیں ۔اگر ہم کمر بستہ ہو گئے اور اپنی ذمے داریوں کو عملی جامہ پہنانے میں لگ گئے تو ہمیں یقین ہے کہ ہمارے بچے کسی بھی قیمت پر اپنے ایمان و عقیدے کا سودا نہیں کریں گے ، جان تو دے دیں گے مگر شرک و کفر کبھی بھی اختیار نہیں کریں گے اور مسلم بچیاں کافر تو کافر، کسی مؤمن کے ساتھ بھی بھاگنا گوارا نہیں کریں گی ۔
   پرنسپل دارالعلوم محبوب سبحانی کرلا، ممبئی
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular