Sunday, April 28, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldاسلامک سینٹر کو مسلمانوں کا فکری مرکز بنایا جائے

اسلامک سینٹر کو مسلمانوں کا فکری مرکز بنایا جائے

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

ڈاکٹر جسیم محمد

انڈیا اسلامک سینٹر (آئی آئی سی سی)نئی دہلی قوم و ملت کاایک فکری مقام ہے۔یہ وہ مقام ہے جہاں آج مسلمانان ہند عوام کے ساتھ اہم امور پر تبادلہ خیال کر سکتے ہیں،وہیں یہ سینٹرمسلمانوں کے فکری رجحان میں ایک اہم مقام بھی رکھتا ہے۔یہاں دانشور،رائٹر،شاعر سیاست داں اور فنکار ایک ساتھ مل کر مثبت بحث و مباحثہ کرتے ہیں۔اسی لئے اس کو مسلمانوں کا دانشورانہ بیرو میٹر بھی کہا جا سکتا ہے۔اس ادارے کے قیام کے پیچھے ایک تاریخ ہے جو نہ صرف یہ بتاتی ہے ہندستانی مسلمان اپنی فکری سطح کو اوپر اٹھانے ،اپنی تہذیبی وراثت کو محفوظ کرنے اور مذہب کو درست تناظر میں پیش کرنے کے لئے ہی متفکر تھے بلکہ حکومت ہند بھی ان مقاصدکے حصول کی خواہاں تھی۔
مسلمانوں کی عالمی تاریخ میں چودہویں صدی ہجری کا پائے تکمیل تک پہنچنا ایک اہم واقعہ تھا،ہندستان مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے اس لئے ہندستان میں بھی چودہ صدی ہجری کے پورا ہونے پر بڑے پیمانے پر تقریبا کا فیصلہ حکومت ہند نے کیا،جس کے لئے ایک اعلی سطحی کمیٹی تشکیل کی گئی،جس کا سربراہ ماہر قانون جسٹس ہدایت اللہ کو مقرر کیا گیا ،اس وقت کی وزیر اعظم آنجہانی اندرا گاندھی نے خود چودہ صدی ہجری کی تکمیل پر ایک ڈاک ٹکٹ 3نومبر1980کوجا ری کیا،اسی سلسلہ میں پورے ملک میں تقریبات کا اہتمام کیا گیا جن میں ہندستان کے تناظر میں دنیا میں اسلامی کردار جیسے موضوع پر ایک سیمنار اور بین الاقوامی سطح کا مقابلہ قرات بھی منعقد کیا گیا۔
اس موقع پر کئی دانشوروں اور ملک کی اہم شخصیات نے دہلی میں ایک اسلامک سینٹر کے قیام پر زور دیا ،جس میں ملک کے اہم افراد کے ساتھ ہی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے کئی سابق طلبا نے اہم کردار ادا کیا۔
اپریل 1981میں انڈیا اسلامک کلچرل سینٹر کو ایک سوسائٹی کے بطور رجسٹر ڈ کرایا گیا جس پر دستخط کرنے والوں میں حکیم عبد الحمید صاحب مرحوم بھی تھے ۔جن کو پہلا چیئر مین منتخب کیا گیا ،اسی طرح بدرالدین طیب جی آئی سی ایس کو ڈائریکٹر اور سید ایس شفیع کو جوائنٹ ڈائریکٹر کا عہدہ دیا گیاجبکہ چودھری محمد عارف سکریٹری اور ایم ڈبلیو کے یوسف زئی کو خازن مقررکیا گیا،بیگم عابدہ احمد ممبر بنائی گئیں۔
حکومت ہند نے لودھی روڈ پر 8000مربع میٹر زمین الاٹ کی اور انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز نے 10,5000زمین کی قیمت کے لئے بطور چندہ دیا،حکومت ہند محکمہ ثقافت کے توسط سے دس لاکھ روپئے اس عمارت کے لئے مختص کئے ۔نئی دہلی میونسپل کاونسل کے ذریعہ منظوری کے بعد 1996میں اس کی تعمیر شروع ہو گئی۔
بیگم عابدہ احمد کی صدارت میں ایک نئے ٹرسٹی بورڈ کی تشکیل 1994میں کی گئی تھی اور منصوبہ بندی کمیشن کے چیئرمین فضل احمد نے آئی آئی سی سی کے بطور پہلے ڈائریکٹر اپنا عہدہ سنبھالا ،ان کے بعد حکومت ہند کے سابق سکریٹری موسی رضا نے بطور ڈائریکٹر اس مرکز کو اونچائیوں تک پہنچایا ۔اسی درمیان آئی آئی سی سی نے فارین کنٹریبیوشن ریگو لیشن ایکٹ 1976سے رعایت حاصل کی اور انکم ٹیکس ایکٹ 1961کی دفعہ80(جی)(5)کے تحت رجسٹریشن کرایا گیا۔
اپنے قیام اور پورے طور سے کام شروع کرنے کے بعد آئی آئی سی سی نے ملک و قوم کی خدمت کی تاریخ میں نئے دور کا آغاز کیا جس کا ایک خاص مقصد مذہب اسلام کو اس کے درست تناظر میں پیش کرنا اور ہندستانی تہذیبی پس منظر میں اس کے کردار کو نمایاں کرنا تھا۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آئی آئی سی سی نئے نئے مقام حاصل کرتا گیا ۔موجودہ انتظامیہ کے تحت آئی آئی سی سی نے اور بھی ترقی کی اور محروم و پسماندہ طبقات کے طلباہ و طالبات کے لئے پروجیکٹ شروع کئے۔حالانکہ آئی آئی سی سی کی عمارتوں کی خوبصورتی اور یہاں مہمان نوازی کے لئے اس کی بڑی تعریفیں کی جاتی ہیںاس کے باوجود وہ اپنے قیام کے مقاصد کے حصول میں آج بھی کا فی پیچھے ہے اپنے اصل مقاصدکے حصول اور ان کو زمینی سطح پر نافذ کرنے کیلئے آئی آئی سی سی کو ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک عرصہ گزرجانے کے بعد ضرورت اس بات کی ہے کہ مشترکہ وراثت کو بچانے اور اس کو عوام تک پہنچانے میں آئی آئی سی سی اہم کردار ادا کرے،اس وقت سماج میں میڈیا کا اہم کردار ہے ،اس لئے اگر آئی آئی سی سی اپنی سرگرمیوں کی نشرو اشاعت اور ہندستانی مسلمانوں کے مسائل اٹھانے اور انہیں حل کرانے کے لئے ایک رسالہ جاری کرے تو وہ نہ صرف اس سینٹر کے لئے اہم قدم ہو گا بلکہ پالیسی سازوں کو بھی ایک سمت دے گا۔اس وقت کینٹین کی صورت حال کو بہت اچھا نہیں کہا جا سکتاہے جس کے معیار میں بہتری کی سخت ضرورت ہے۔سینٹر کے ممبران کی میٹنگ سال میں دو بار لازمی طور سے بلائی جانی چاہئے تاکہ سنجیدگی سے مسلمانوں کے مسائل پر بحث و مباحثہ ہو سکے اور مستقبل کے لئے خاکہ تیار کیا جا سکے۔
اسی طرح آئی آئی سی سی کسی بھی شعبہ میں غیر معمولی خدمات انجام دینے والوں اور اس میں نمایاں کردار ادا کرنے والوں کو اعزاز سے بھی نواز سکتی ہے جس سے نہ صرف متعلقہ فرد کی حوصلہ افزائی ہوگی بلکہ سینٹر کو ملک کی مین اسٹریم میں لانے میں ممد و معاون ہوگا۔ضرورت اس بات کی بھی ہے سینٹر مسلم نوجوانوں کو اسلامی تاریخ اور تہذیب سے آشنا کرائے جس کے لئے ایک لائحہ عمل تیار کیا جائے۔
آئی آئی سی سی کو چاہئے کہ وہ ہندستانی مسلمانوں کی تعلیمی اور تہذیبی ترقی کے لئے کام کرے،سینٹر سے کثیر تعداد میں کاروباریوں کے مسائل وابستہ ہیں اس لئے ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ وہ مسلم چیمبرآف کامرس اینڈ انڈسٹری کی تشکیل دے تاکہ مسلم کاروباریوں اور سرمایہ کاروں کے مسائل کو مؤثر اندازمیں اٹھایا جا سکے۔سینٹر کے آمد و صرف کا گوشوارہ تیار کیا جانا چاہئے تاکہ کسی بھی ممبر کو کسی بھی طرح کے شک سے بچایا جا سکے سینٹر میں ہاسٹلوں کی حالت میں اصلاح کی ضرورت ہے ،دہلی سے باہر کے معزز ممبران یہاں آتے ہیں جن کے ساتھ ا ن کے ڈرائیور اور حفاظتی عملہ بھی ہوتا ہے جن کے لئے سینٹر میں قیام و طعام کا کوئی نظم آج بھی نہیں ہے،اس لئے ڈور میٹریز کی بھی تعمیر ہونی چاہئے تاکہ وہ بھی اطمینان سے رہ سکیں،یہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہوگا جو آج تک نہیں ہوا ہے۔
اپنے قیام سے آج تک آئی آئی سی سی نے ایک طویل دور دیکھا ہے لیکن اس کوا بھی مزید آگے جاناہے ،اب وقت آگیا ہے کہ سینٹر کے منتظمین ،معزز ممبران اور وہ سبھی افراد جو کسی نہ کسی طور سے اس سے وابستہ ہیں یہ سوچیں اور غور و فکر کریں کہ کس طرح اس سینٹر کو تعمیر و ترقی سے ہمکنار کرنا ہے ۔مستقبل میں تاریخ نویس یا تو یہ لکھے گا کہ آئی آئی سی سی نے مسلمانون کی فلاح و بہبود میں نمایا کردار اد اکیا تھا یا پھر وہ اس کے بر عکس لکھے گا۔ہمیں یہ بھی کسی بھی صورت میں نہیں بھولنا چاہئے کہ آئی آئی سی سی ہماری اگلی نسل کی امانت ہے اور تاریخ نویس کیا لکھیں گے یہ ہمارے اعمال پر منحصر ہے ۔اس لئے ہمیں اس پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندستانی مسلم سماج کے نوجوانوں خاص طور سے سینٹر کے نوجوان ممبران کو آگے بڑھانے کو اولیت دی جائے ،یہ نہ صرف وقت کی ضرورت ہے بلکہ خود مرکز کو اور بھی مؤثر بنانے کے لئے ایک اہم قدم ہوگا ۔نوجوان ممبران کو ہر شعبہ میں آگے بڑھنے کے مواقع ملنا چاہئے جس سے وہ مزید سماجی فلاح و بہبود کے لئے کام کر سکیں گے۔
(رائٹر،آئی آئی سی سی کے تاحیات ممبر ہیں اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق میڈیا مشیر ہیں۔رابطہ:09997063595
ضضض

Previous article
Next article
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular