Friday, May 3, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldکربلا انسانیت کی درس گاہ

کربلا انسانیت کی درس گاہ

[email protected] 

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

 

سید خورشید انور رومی نواب

یوں تو دنیا کا ہر واقعہ اپنے محل و قوع کے لحاظ سے کسی نا کسی خاص جگہ،خاص مقام اور کسی خاص طبقہ و زبان سے تعلق رکھتا ہے۔اگر اس نقتہ نظر سے دیکھا جائے تو واقعہ کربلا عراق کی سرزمین اور ملک عرب کے سردار حضرت ہاشم کی نسل اور مسلمانوں سے تعلق رکھتا ہوا نظر آئے گا۔ مگر واقعات کربلا میں جو ہمہ گیری اور وسعت پیدا ہوئی اُس نے بنی نوع انسان کے دلوں کو اس طرح متاثر کیا کہ تمام عالمین کے مذاہب کے افرادحُسینیت سے اس طرح وابستہ ہوئےکہ جن میں مذہب و ملّت کی کوئی تفریق نہ رہی۔ حقیقت یہ ہے کہ واقعہ کربلا متعدد وجوہ سے تمام بنی نوع انسان کے تعلق کا مرکز ہے۔واقعات کربلا کو کبھی بھی جغرافیائی اور نسلی حدود میں قید نہیں کیا جا سکتا ہے بلکہ حسین تمام بنی نوع انسان کے لئے مشعل راہ ہیں۔
یزیدابن معاویہ حکومت کے نشہ میں چور اسلام کے اصولوںکی کھلم کھلامخالفت کرنے لگا تھا۔انسانیت دم توڑ رہی تھی۔ اسلام جو عالمین کے لئے رحمت تھا وہ اب یزیدکے من مانے اصولوں کی شکل میں تبدیل ہو چکا تھا لوگوں کے دلوں میں خدا کے خوف کے بجائےیزید کا خوف سما گیا تھا۔ اسلام کی اس بگڑتی ہوئی شکل اور مٹتی ہوئی انسانی قدروں کو جلا بخشنے اور الٰہی نظام کو بچانے کے لئےامام حسین نے کربلا کا رخ کیا۔آپ کے۲؍محرم کو کربلا پہنچتے ہی ابن زیاد کی طرف سے بحکم یزید فوجوں پر فوجیں آتی گئیں اور آپؑ ان میں گھر تے چلے گئے سات محرم کو پانی بند ہوا ۔ آپؑ نے عمر ابن سعد سے ملاقات کی اور مصالحت کے لئے طویل گفتگو کی۔ عقبہ بن سمعان کا بیان ہے کہ آپؑ نے ابن سعد سے کہا کہ مجھے چھوڑدو میں اس وسع و عریض دنیاں میں کسی طرف چلا جائوں ۔آپؑ کی پیشکش کو ابن زیاد نہ مانا۔ (طبری نے ابن سمعان کی روایت کے علاوہ امام حسین ؑ کی طرف سے مفامہت کے لئے کئی مختلف شرئط کے پیش کرنے کا حال بھی لکھا ہے ۔جس کو یہاں پر بیان نہیں کیاجا سکتا ہے(
اگر امام حسینؑ کی بات بنی امیّہ والے مان لیتے تو آپؑ کہاں جاتے ؟ یقینا آپؑ ہندستان جاتے کیونکہ قرب و جوار کے تمام علاقے مسلمانوں نے فتح کرلئے تھے اور یہ تمام علاقہ جات یزید کی سلطنت میں شامل تھے صرف ہندستان کی طرف کا راستہ کھلا ہوا تھا ۔ ایسی روایتیں بھی ملتی ہیں جن میں ہندوستان جانے کی پیشکش کا تذکرہ موجود ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ملک کے ذاکرین آپؑ کے ہندوستان جانے کی پیشکش کا ذکربڑے زور شور سے کرتے ہیں ۔مگر اس سلسلہ میںکسی مستند کتاب کا کوئی حوالہ موجود نہیں ہے۔
تاریخ اُٹھا کر دیکھئےحالات کا جائزہ لیجئےدیکھئے فتح کس کی ہوئی اور ہارا کون؟ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کو چودہ سو سال سے زیادہ ہوگئے ہیں مگر انکا نام اور اُنکی تعلیمات آج بھی زندہ ہیں۔ یا یوں کہا جائے کہ کربلا کی بدولت آج بھی دنیا میں انسانیت زندہ ہے۔دنیا کی تمام قومیں اور دنیا کا کوئی بھی ملک ایسا نہیں ہے جہاں شہدائے کربلا کی یاد نہ منائی جاتی ہو۔ دنیا کی کوئی بھی زبان ایسی نہیں ہے جس میں ذکر حسینؑ نہ ہوا ہو۔کیا خوب کہا ہے
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
جس وقت ہندوستان میں جنگ آزادی کی مشعل روشن ہوئی تو بابائے قوم مہاتما گاندھی نےعدم تشدّد کا راستہ اختیار کیا کیونکہ انہوں نےایثار اور قربنی کا جزبہ کربلا والوں سے حاصل کیا تھا۔مقصد شہادت اور تعلیمات حسینی کا مطالعہ کرنے کے بعد جو راستہ اختیار کیااُس کا ذکر انہوں نے اپنی ایک تقریر میں کیا تھا وہ فرماتے ہیں کہ ’’ میں اہل ہند کے سامنے کوئی نئی بات پیش نہیں کر تا ہوں بلکہ میں نے کربلا کے ہیرو کی زندگی کا بخوبی مطالعہ کیا ہے اور اس سے مجھ کو یقین ہو گیا ہے کہ ہندوستان کی اگر نجات ہو سکتی ہے تو ہم کو حسینی اصولوں پر عمل کرنا چاہئے‘‘۔
اسی طرح جنگ آزادی میں شامل دیگر لیڈران نے بھی امام حسین کے مقصد کو نگاہ میں رکھتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کی جسکا وہ لوگ برابر ذکر بھی کرتے تھے۔ چنانچہ مسٹر ’’گوکھلے‘‘ نےکہا کہ ’’ اگر حسین اپنی شہادت سے اسلام کے اصول کو ازسر نو زندہ نہ کرتے تو یا اسلام مٹ جاتا اور اگر اسلام کا وجود ہوتا بھی تو بے اصول و بد ترین مذہب کی حیثیت سے جس کے اندر بڑی آزادی سے وہ سب بُرائیاں پھیل جاتیں جسکا رواج یزید اور اُس زامنے کے مسلمانوں کی روز مرّہ زندگی شکار ہو گئی تھی‘‘
چانچہ جب گووند بلبھ پنت جب ’’یو-پی‘‘ میں قائم آرضی حکومت کے وزیرا علیٰ بنائے گئے تو ۱۸؍گست ۱۸۴۱؁ء میں انہوں نے ایک تقریر کے دوران کہا تھا کہ ’’امام حسین کی ذات اس محیط ظلمت اور تاریکی میں ایک منارۂ نور کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کی شہادت انسانیت کو درس عبرت دیتی رہے گی اور اس کو وحشیانہ قوت اور بربریت کے مقابلہ میں ثبات قدمی کرے گی اور جب بھی انسان کے لئے ان لافانی خوبیوں کے تحفظ کا موقع آجائے گا جو انسانی تمدن کا جُزولا ینفک ہیں اس وقت یہی شہادت حسینی اُسے ٹڈی دل دشواریوں کا مقابلہ کرنے کی تاب و طاقت دے گی‘‘۔گووند بلبھ کا یہ بیان ۱۸؍آگست ۱۹۴۱؁ء کے سرفراز اخبار مین چھپا تھا۔
بابو سمپورنا نند جو گووند بلّبھ پنت کے زمانہ میں وزیر تعلیم تھے نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’ ہمارے مذہبی اعتقادات کچھ بھی ہوں لیکن ہم سب شجاعت، علوۓ مقاصد اور ایثار کے واقعات کو حمد و نظر سے دیکھ سکتے ہیں اور اُن سے سبق حاصل کر سکتے ہیں۔ اس عام نظریہ سے قطع نظر ایک ایسے ملک میں جس میں مسلمانوں کی تعداد کیٔ کروڑہے حسین ویسے ہی قومی ہیرو کی حیثیت رکھتے ہیں جیسے رام اور کرشن۔ اس قسم کے جلسے ہمیں ایک دوسرے سے قریب تر کر دیتے ہیں اور غلط فہمی کے ازالے میں بڑی حد تک معین ہوتے ہیں جو کہ ہمارے فرقہ وارانہ فسادات اور نزاعات کا سر چشمہ ہے‘‘۔اسی طرح بدنام زمانہ’’ہندو مہا سبھا‘‘ کے صدر رائے بہادر مسٹر مہرچند کھنّا کے مطابق’’ حضرت امام حسین ؑ نہ صرف اسلام کے سپاہی تھے بلکہ تمام بنی نوع انسان کے سپاہی تھے۔ انھوں نے آزادی اور انصاف کیلئے لڑتے ہوئے جان دے دی۔ میں چاہتا ہوں کہ مسلمان بھائی سچّے معنوں میں اُن کی پیروی کریں۔ آج ہمارے درمیان جو اختلافات نظر آرہے ہیں اُن کی سب کی وجہ یہ ہے کہ مسلمان نہ سچے مسلمان ہیں اور ہندو سچے ہندو ہیں ۔ کوئی مذہب اپنے پیرؤں سے یہ نہیں کہتا کہ ایک دوسرے کا گلاکا ٹیں فرقہ وارانہ زہر خود غرض لیڈروں کا پھیلایا ہوا ہے۔ ہمیں بھائیوں بھائیوں کی طرح رہنا چاہئے۔ یہ تھے چند ہندوستانی شخصیتوں کے بیانات جو میں نے یہاں پیش کئے ہیں جو کہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ حسینیت اور مقصد حسینی کو کسی مخصوص فرقہ سے وابستہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اگر دنیا کی تمام معزز شخصیات کے حسینیت پردئے گئے بیانات کو اکٹھا کیا جائے تو ایک کتاب کی شکل اختیارہوجائے گی۔
9839480898

RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular