Friday, May 3, 2024
spot_img
HomeMuslim Worldکثیر حسّی جمالیات کا بیانیہ-پروین شیر

کثیر حسّی جمالیات کا بیانیہ-پروین شیر

[email protected]

9807694588

اپنے مضمون كی اشاعت كے لئے مندرجه بالا ای میل اور واٹس ایپ نمبر پر تحریر ارسال كر سكتے هیں۔

 

پروفیسر صغیر افراہیم 
ادارہ ”تہذیب الاخلاق“ نے سرسید کے متعین کردہ ”سوشل ریفارمر“ کا فریضہ ادا کرتے ہوئے تہذیب و تمدن، مذہب وفلسفہ، تاریخ وثقافت، زبان وادب، سائنس وطب جیسے مختلف النوع موضوعات پر تحریریں شائع کیں اور جدید تقاضوں کے پیش نظر، اجتہادی نوعیت کے مضامین شائع کرتے ہوئے علی گڑھ تحریک کو تقویت پہنچائی۔ تحریک کے نمائندہ رسالہ”تہذیب الاخلاق“ نے روزِ اول سے فنونِ لطیفہ کو اہمیت دی ہے تاکہ نئی نسل بدلتے ہوئے وقت کی قیمت وافادیت کو سمجھ سکے۔
رفقائے سرسید نے اپنی تحریروں اور تقریروں سے اِس نکتہ کو بخوبی واضح کیا ہے کہ ادب لفظوںکو جوڑنے کا فن اور بیان واظہار کا تحریری ذریعہ ہے۔ آرٹ خصوصاً فائن آرٹس رنگ وروغن کے توسط سے جذبات وکیفیات کا وسیلہ بنتا ہے جب کہ موسیقی تاروں کے ارتعاش کے ذریعہ حواسِ خمسہ کو متحرک کرنے کا ذریعہ ہے۔ اورجب جب یہ تینوں صلاحیتیں شعوری قوت کے نتیجے میں یکجا ہوئی ہیں تو فن اور فن کار دونوں کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ کیوں کہ اِس مثلث کے توسط سے فن کار اپنے رنگارنگ اور متنوع تجربات ازسرِ نو تخلیقی پیکر میں ڈھالتا ہے جنھوں نے ہمیشہ سے دل ودماغ پر دیرپا اثرات قائم کئے ہیں۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاک پروردگار نے یہ تینوں صلاحیتیں پروین شیرمیں یکجا کردی ہیں۔ وہ انسانی افکار و خیالات اور احساسات وجذبات کو نہایت یکسوئی اور دلجمعی سے بروئے کار لاتی ہیں جن میں ماضی کی تصویر، حال کی نمائندگی اور مستقبل کا اشاریہ ہوتاہے۔ اُن کے فن پارے قوتِ عمل اور ذوقِ جمال کو آسودہ کرتے ہیں۔یہی سامان آسودگی جوموصوفہ کے فن کی بنیادی کلید ہے سرسید احمد خاں اور ان کی علی گڑھ تحریک کو مطلوب ہے۔ بانئی تحریک علی گڑھ نے فن کے لئے قوتِ ارادی اور قوتِ فکر کو لازمی قرار دیا ہے۔ اس لحاظ سے پروین شیر ہمارے لئے ایک محترم علی گڑھ نواز تخلیق کار کی حیثیت سے نظر آتی ہیں۔
پروین شیر نے عظیم آباد اور بودھ گیا کے ادبی اور روحانی ماحول میں انسان اور کائنات کو سمجھنے کا جتن کیا۔ کچھ کر گزرنے کے جذبے نے اُن کے ذہن کو پروان چڑھایا اور علی گڑھ تحریک سے متاثر ہوکر دیارِ غیر میں بیٹھ کر فنونِ لطیفہ کوفروغ دیا۔ محترمہ کی تحریروں اور تصویروں کا پہلا مجموعہ (کرچیاں)2005ءمیں، دوسرا (نہال دل پر سحاب جیسے)2010ءمیں، تیسرا (چند سیپیاں سمندر سے)2014ءمیں اور چوتھا مجموعہ کلام (بے کرانیاں)گزشتہ سال (2018ءمیں) منظرِ عام پر آیا ہے۔ ان میں نظمیں، غزلیں، سفرنامے اور مصوری کے شہ پارے ہیں جن میں زبردست تخلیقی بہائو ، زور اور روانی ہے۔ خوبی یہ ہے کہ مذکورہ فن پاروں میں شکایت نہیں، تنقید نہیں، تضحیک نہیں بلکہ حقائق اور محسوسات کی دُنیا جلوہ گر ہے۔ اِن چاروں نگارشات میں نفرت، حقارت اورمایوسی کے بجائے اُمید، اُجالے اور حوصلے نظر آتے ہیں، جو علی گڑھ تحریک کا خاصہ ہے
اجالوں کی جستجو، تمام تر سامانِ زیست ہونے کے باوجود ، سرسید احمد خاں کی تحریک کا بنیادی مقصودرہا ہے۔ بے قرار انسانیت اور بے اماں کائنات کو ”علم“، ”ادب“ اور زندہ تصویر کاری کی دولتِ بیداد کے توسط سے قرارِ واقعی اور سکونِ پیہم مہیا کرانا، سرسید کو بے حد عزیز ہے۔ یہی کام اپنے فن کے ذریعے مظلوم طبقہ کی حمایت کرنے والی پروین شیر نے زمانے کی سفّاکی، بے رحمی، سنگ دلی اوربے حسی کو مختلف نفسیاتی زاویوں، انسانی قدروں اور جذبوں کے وسیلے سے اُجاگر کیا ہے۔ اِسی مُنفرد رنگ و آہنگ کی بنا پر آپ مختلف قومی اور بین الاقوامی انعامات واعزازات سے نوازی جارہی ہیں۔ آپ نے قلم، بُرش اور ستار کے ذریعے جومثلث قائم کیا ہے وہ حواسِ خمسہ کو مُتاثر کرتا، تجرباتِ حیات کوکاغذ اور کینوس پر بکھیردیتا ہے اور ایسا اِس لئے ہے کہ پروین شیر کے غوروفکر کا دائرہ وسیع ہے۔ محترمہ ایک ایسی فن کارہیں جو دل کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب کر کائنات کو دیکھتی اور اُسے فن پاروں میںڈھال دیتی ہیں۔ اُن کے بے حد وسیع کینوس پر عراقی، افغانی، یمنی، ہندوستانی خواتین اور بچوں کی کس مپرسی فریاد کرتی نظر آتی ہے۔ عصررواں میں اس دیارِ علم ، علی گڑھ کی تمام زندہ اور ذی ہوش علیگ برادری بھی سارے جہاں کے غم سے غم زدہ ہیں، فریاد رس ہیں اور سراپا احتجاج کا مظہر ہیں۔ پروین شیر بھی اس معاملہ میںعلیگ برادری کے ساتھ ہیں اور ان کی ہم نوا ہیں۔
شعروادب کے علاوہ موسیقی اورمصوّ ری سے شغف نیز رنگوں کے جہانِ معنی سے واقفیت، اور پھر اُنھیں فنکارانہ طور پر پیش کرنے کی صلاحیت کی بنا پر فن پاروں میں رنگ و آہنگ کی ایسی تاثیر پیدا ہوجاتی ہے جس کا بیان آسان نہیں۔ در اصل پروین شیر کی شاعری مصوّری میں اور مصوّری شاعری میں تحلیل ہوکر نئے ساز، نئی آواز اور نئے معنی کو جنم دیتی ہے، اِس سے اُبھرنے والا مُعاصر منظر نامہ مختلف مطالب ومقاصد کی تشکیل کرتا ہے اورحسّاس انسان کو بہت دیر تک سوچنے، سمجھنے اور عمل کرنے پر مجبور کرتاہے۔ یہ انوکھا تاثّر نہ صرف پروین شیر کی انفرادیت اور مقبولیت کا ضامن ہے بلکہ جدید تقاضوں کے تحت علی گڑھ تحریک کو سمجھنے کا سبب بھی بنتاہے۔
سابق صدر شعبهٔ اردو،علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
RELATED ARTICLES

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here

- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img
- Advertisment -spot_img

Most Popular